محمد آصف ا قبال
کسی بھی قوم کا مستقبل اس کے نوجوان ہوتے ہیں۔اس لحاظ سے زماں و مکاں کی قیود سے بالاترفی زمانہ نوجوان جس فکر اور عمل سے دوچار ہوں گے اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قوم کس نہج پر آگے بڑھ رہی ہے۔ یعنی اس کا مستقبل روشن اور تابناک ہے یازوال کی جانب گامزن ہے؟یہاں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ نوجوانوں سے مراد صرف لڑکے نہیں ہیں بلکہ نوجوان لڑکیا ں بھی ہیں۔اس لیے جب ہم قوم کی ترقی یا تنزلی کی بات کرتے ہیں تو اس میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دونوں کے افکاراور افکار پر مبنی اعمال شامل ہوتے ہیں۔وہیں جب ہم ان کی اصلاح کی بات کرتے ہیں تو بیک وقت دونوں کی اصلاح مقصود ہوتی ہے۔
موجودہ زمانہ گلوبلائزیشن سے متاثر ہے۔ یعنی دنیا میں اس وقت جن بنیادوں پر تبدیلیاں واقع ہورہی ہیںآج کا نوجوان اس سے کہیں نہ کہیں واقفیت رکھتا ہے۔ صرف واقفیت ہی نہیں رکھتا بلکہ اس سے متاثر بھی ہوتا ہے۔وہیں نظریات کی بنیاد پر قائم ہونے والے مفروضے اور ان مفروضوں پر مبنی نظام میں تبدیلیاں بھی واقع ہو رہی ہیں۔اس لحاظ سے موجودہ زمانہ ماضی سے مختلف ہے۔آج سے پچاس یا سو سال پہلے جن مسائل سے نوجوان طبقہ، قومیںاور طاقت کے سرچشمے، دوچار تھے ان میں بھی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔لہذا صورتحال کے پیش نظر ترجیحات بھی بدل رہی ہیں۔اور ترجیحات پر مبنی نظام کے فروغ وقیام کی کوششیں بھی چہار جانب جاری ہیں۔لیکن دوسری جانب واقعہ یہ بھی ہے کہ بنیادی مسائل انسان کے جوں کے توں ہیں۔اس کی فطرت اور اس کی جبلت میں غیرمعمولی تبدیلیاں واقع نہیں ہوئی ہیں۔انسان کے خیر و فلاح اور اس کی کامیابی کی بنیادیں اول دن سے اس کے خالق نے جوطے کی تھیں،آج بھی وہی ہیں۔اس کی ناکامیوں کے مراحل بھی وہی ہیںجو روز اول بتادی گئیں تھیں۔
اسلام نے ہر زمانے میں نوجوانوں پر خصوصی توجہ دی ہے۔انبیاء کرام کی دعوت سے متاثر ہونے والے لوگوں میں نوجوان طبقہ نمایاں رہا ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے بھی دورِنوجوانی کی عبادت اور جدوجہد کو زندگی کے دیگر ادوار کے بالمقابل غیر معمولی فوقیت دی ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دورِنوجوانی وہ دور ہے جہاں نہ صرف عزائم پختہ ہوتے ہیں،ارادے مضبوط ہوتے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ جذبات بھی پاکیزہ ہوتے ہیں،قوتیں بھی بھر پور ہوتی ہیں،جفاکشی،بلند پروازی اور حوصلوںمیں بھی غیر معمولی کردار ابھر کر سامنے آتا ہے۔دوسری جانب دھوکہ دہی،چھل اور کپٹ،مصلحت پسندی،عیاری و مکاری اور تساہل پسندی سے یہ دَورپاک ہوتا ہے۔لیکن جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے مثبت جذبات میں کمزوری پیدا ہونے لگتی ہے وہیں منفی جذبات میں بھی اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔اس لیے ہر نظریہ اور اس کے علمبردار چاہتے ہیں کہ نوجوانوں کے مثبت جذبات اور صلاحیتوں سے مستفیض ہوں۔قرآن میں اللہ تعالیٰ دور نوجوانی اور اس میں موجود مثبت حوصلوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ” موسیٰ ؑ کو اِس قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربرآوردہ لوگوں کے ڈر سے جنہیں خوف تھا کہ فرعون اُن کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر رُکتے نہیں ہیں”(سورۃ یونس:83)۔مولانا مودودیؒ اس آیت کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ لفظ ذُرِّ یَّۃٌ جس کا ترجمہ ہم نے”نوجوان” کیا ہے،دراصل اس خاص لفظ کے استعمال سے جو بات قرآن مجید بیان کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اُس پر خطر زمانے میں حق کا ساتھ دینے اور علمبردارِ حق کو اپنا رہنما تسلیم کرنے کی جرأت چند لڑکوں اور لڑکیوں نے تو کی مگر مائوں اور باپوں اور قوم کے سن رسیدہ لوگوں کو اس کی توفیق نصیب نہ ہوئی۔ ان پر مصلحت پرستی اور دنیوی اغراض کی بندگی اور عافیت کوشی کچھ اس طرح چھائی رہی کہ وہ ایسے حق کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے جس کا راستہ اُن کو خطرات سے پُر نظر آرہا تھا، بلکہ وہ اُلٹے نوجوانوں ہی کو روکتے رہے کہ موسیٰ کے قریب نہ جائو، ورنہ تم خود بھی فرعون کے غضب میں مبتلا ہو گے اور ہم پر بھی آفت لائوگے۔اوریہ بات خاص طور پر قرآن نے نمایاں کر کے اس لیے پیش کی ہے کہ مکہ کی آبادی میں سے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کے لیے جو لوگ آگے بڑھے تھے وہ قوم کے بڑے بوڑھے اور سن رسیدہ لوگ نہ تھے بلکہ چند با ہمت نوجوان ہی تھے۔ وہ ابتدائی مسلمان جو اِن آیات کی نزول کی وقت ساری قوم کی شدید مخالفت کے مقابلے میں صداقت اسلامی کی حمایت کر رہے تھے اور ظلم و ستم کے اس طوفان میں جن کے سینے اسلام کے لیے سپر بنے ہوئے تھے، ان میں مصلحت کوش بوڑھا کوئی نہ تھا۔ سب کے سب جوان لوگ ہی تھے۔ علی ابن ابی طالبؓ، جعفر ؓ طیّار، زبیرؓ، سعد بن ؓ ابی وقاص، مُصعَبؓ بن عُمَیر، عبداللہؓ بن مسعود جیسے لوگ قبول ِ اسلام کے وقت 20 سال سے کم عمر کے تھے۔ عبد الرحمٰن ؓ بن عوف، بلالؓ، صُہَیب ؓ کی عمریں 20 سے30 سال کی درمیان تھیں۔ ابو عبیدہ بن الجراحؓ، زید بن حارثہؓ، عثمان بن عفانؓ اور عمر فاروقؓ30 سے 35 سال کے درمیان عمر کے تھے۔ ان سے زیادہ سن رسیدہ ابوبکر صدیقؓ تھے اور ان کی عمر بھی ایمان لانے کے وقت38 سال سے زیادہ نہ تھی۔ ابتدائی مسلمانوں میں صرف ایک صحابی کا نام ہمیں ملتا ہے جن کی عمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تھی، یعنی حضرت عبیدہ بن حارثؓ مُطَّلبی۔ اور غالبًا پورے گروہ میں ا یک ہی صحابی حضور کے ہم عمر تھے، یعنی عَمّار بن یاسرؓ۔
اب تک کی گفتگو کے پس منظر میں ہمیں اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ دور حاضر میں نوجوانوں کی صورتحال کیا ہے۔ایک جانب ملت کے نوجوان ہیں تو دوسری جانب برادران وطن کے نوجوان بھی اسی معاشرہ کا حصہ ہیں جس میں ہم رہتے ہیں۔اور نوجوانوںکے یہ دونوں طبقات ایک دوسرے کو شعوری و لاشعوری طور پر کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی مرحلے میں فکری،نظریاتی اور عملی جدوجہد میں شامل کرتے ہیں اورمتاثربھی کرتے ہیں۔یہ شعوری و لاشعوری اشتراک تعلیم گاہوں میں بھی جاری ہے اور معاشی تگ ودو میں مصروف عمل رہتے ہوئے منظم و غیر منظم اقتصادی شعبوں میں بھی دیکھنے میں آتا ہے۔لہذا انفرادی و اجتماعی ترجیحات، قوموں کی ترجیحات،سیاسی اقتدار کے حصول میں سرگرم رہنے والے گروہوں کی ترجیحات ،سب ہمارے نوجوانوں کو متاثرکرتی ہیں اور کررہی ہیں۔اس صورتحال میں یہ خیال کہ امت کے نوجوانوں کی اصلاح ،انہیں مقصد حیات سے وابستہ کرنااور نصب العین کے حصول کے لیے مستقل بنیادوں پر
قابل قدرجدوجہد میں سرگرم عمل رکھنا آسان کام ہے،درست نہیں ہے۔اور اگر اس خیال کو درست مان لیا جائے کہ یہ عمل آسان نہیں ہے تو پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایک عظیم جدوجہد کے لیے معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی کوششیں درکار ہیں جنہیںہر سمت میں کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے دوسرے معنی یہ ہوئے کہ امت کے نوجوان جن حالات سے بھی دوچار ہیں،ان سے خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ معاملات طے کیے جائیں۔انہیں ملامت کرنے ،ان کی کمزوریاں عیاں کرنے،انہیں بے دین کہنے اور ان کے حال پے رونے دھونے کی بجائے ان سے سچی محبت کا اظہار کیا جائے۔اور ان کی اصلاح کی عملی جدوجہد کا ہر گلی کوچے ،گائوں اور محلے اور تعلیم گاہوں میں آغاز کیا جائے اور واضح مقصد حیات سے منظم کیا جائے۔کیونکہ یہ ہدایات خود نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت میں بھی شامل ہے کہ”میں تم کو نوجوانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تلقین کرتا ہوں کیونکہ نوجوان نسل رحم دل ہوتی ہے۔نوجوانوں نے میرا ساتھ دیا اور بوڑھوں نے میر ی مخالفت کی”۔لہذا اگر ہم اس نہج پر جائزہ لینے کی کوشش کریں کہ موجودہ صورتحال میں نوجوان طبقہ خدا پرستی سے زیادہ قریب تر نظر آتا ہے یا مادہ پرستی سے قریب تر ہے؟تو ممکن ہے کہ ہمیں محسوس ہو کہ نہ صرف نوجوان بلکہ پورا معاشرہ مادیت کی جانب تیز گامی کے ساتھ زندگی کا سفر طے کر رہا ہے اور اس کی رفتار میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔لیکن اگر ہم اس بات کا اندازہ لگائیں کہ مادیت کے بالمقابل قرب الٰہی سے وابستگی کے لیے کوششوں کے نتیجہ میں کامیابی کا انڈیکس کیا ہے؟تو اس میں ہمیں مستقل بنیادوں پر کی جانے والی کوششوں کے نتیجہ کا تناسب اور اس کا انڈیکس حوصلہ افزا محسوس ہوگا۔اس کے معنی یہ ہوئے کہ اصلاح حال کی کوششیں اور جدوجہد جس کے متقاضی ہیں اور جو مطلوب ہے،اس میں ہماری رفتار ابھی حددرجہ سست ہے۔اس صورت میں باہری فضاء جسے باطل افکار و نظریات سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے،نوجوانوں کو جس تیز رفتاری کے ساتھ متاثر کرتی ہے اس کے مقابلہ اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف عمل رہنے والے ،اسلامی تعلیمات پر مبنی معاشرے کی تعمیر کا خواب دیکھنے والے،محدود دائروں سے آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔اس کی عملی مثالیں اگر ہمیں دیکھنا ہوں تو کسی بھی شہر، دیہات اور قصبہ کی صورتحال کا جائزہ لے کر دیکھ لیجئے یا پھر تعلیمی اداروں میں رائج تعلیمی نظام، اس کے گمراہ کن نظریات پر مبنی افکاراور ان افکار پر مبنی معاشی و تمدنی نظام حیات پر ہماری نظر ہونی چاہیے۔ان حالات میں ضروری ہے کہ نوجوانوں کو ہم اعلیٰ و عرفہ مقصد کے لیے منظم کریں، ان کی صلاحیتوں کو ارتقاء بخشیں،انہیں نصب العین کے حصول میں ان کی دلچسپیوں اور صلاحیتوں کے اعتبار سے تقسیم کرتے ہوئے میدان کار ساز میں آگے رکھیں اور خود پشت پر رہیں۔اور جب وہ دورِ نوجوانی سے آگے بڑھ جائیں اُس وقت بھی ہم ان کے لیے اسی طرح فکر مند رہیں جس طرح بچپن میں اپنی اولاد کی تربیت،اصلاح،ترقی اور کامیابی کا خواب لیے زندگی میں جدوجہد کے مختلف ادوار سے گزرتے ہیں اور ہرممکن کوشش کرتے ہیں کہ خواب جو ہم نے دیکھا ہے وہ سچ ثابت ہو جائے!
اور اگر ہم خود نوجوان ہوں؟تو ضروری ہوگا کہ ہم ایک شعوری مسلم نوجوان بن کر زندگی بسر کریں۔جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات سے باخبر ہو،اپنے مقصد وجود سے باخبر ہو، اپنی صلاحیتوں سے باخبر ہوتو وہیں اپنی کمیوں سے بھی وہ باخبر ہو۔ اور جس منزل کی جانب گامزن ہے، اس کے مراحل سے بھی مکمل واقفیت رکھتا ہو۔کیونکہ نوجوان کو عربی میں ”شاداب” کہتے ہیں جس کے معنی ہی اولوالعزمی،تقدم وتیزی طبع کے ہیں۔اسی طرح لفظ”الشباب” میں گرم جوشی نور وبصیرت اور سمجھ بوجھ سب کچھ پوشیدہ ہے۔نور وبصیرت کے معنی یہ بھی ہے کہ ہمیں وہ نور میسر ہو جو اندھیرے سے اجالے کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔جو گمراہیوں سے نجات دلاکر شہادت حق اور شہادت علی الناس کے فریضہ کے لیے ہمیں تیار کرتا ہے۔جو رائج الوقت باطل تہذیب،ٹکنالوجی کے منفی اثرات،استحصال پر مبنی معیشت،الحادی نظریات،اور ظاہری چکاچوندمیں مبتلا قوموں اور افرادکو حقیقت پسندی سے دور کرنے کا ذریعہ بنتا ہے،ان سب کا متبادل اس نور میں موجود ہے۔ساتھ ہی اُس ابدی زندگی کے تصور کو پیش کرتا ہے جہاں آرام و سکون اور ترقی و کامیابی چند روزہ اور محدود نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیش اور لامحدود میسر آئے گی اور ہر اس شخص کو میسر آئے گی جو شعوری طور پر اپنی زندگی کے ہر لمحہ کا ذاتی محاسبہ صحیح بنیادوں پر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوگا۔زندگی کے ہرلمحہ کا ذاتی محاسبہ اور وہ بھی حقیقی علم کی روشنی میں صحیح بنیادور پر کرنے کی صلاحیت ،موجودہ دور میں ہر مسلم نوجوان کو پیدا کرنی چاہیے ۔اور اگر ایسا ہوتا ہے تو خدا کی قسم یہ ذاتی محاسبہ امت کے نوجوانوں کو خیر امت کا لقب عطاکرے گی۔ دنیا بھی اس تعمیری جدوجہد کے نتیجہ میں فیض یاب ہوگی،امن ہوگا،سکون و اطمینان قائم ہوگا،ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی،ارتقائی منازل طے ہوں گے،اخروی نجات حاصل ہوگی،اور وہ عزت و تکریم اور طاقت و اقتدار بھی حاصل ہوگاجس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں سے کیا ہے۔”دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہوگے ،اگر تم مومن ہوــ”(آل عمران:139)۔
( محمد آصف اقبال جماعت اسلامی ہند حلقہ دہلی کے سکریٹری جنرل(سکریٹری حلقہ) ہیں۔ معروف کالم نگار اورsocio-economic issuesکے تجزیہ نگار ہیں۔ ساتھ ہی بچوں کی تربیت ، ان کی ہمہ جہت ترقی و ارتقاء اور والدین کی کائونسلنگ جیسی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔)