دورحاضر میں ماہرین شریعت کی ضرورت

0

مولانا محمد عمر اسلم اصلاحی، شیخ التفسیر مدرسۃ الاصلاح، سرائمیر۔اعظم گڑھ
دور حاضر میں تعلیم کی طرف رجحان یقیناًبڑھاہے۔ قدم قدم پر مکاتب، مدارس اور اسکول قائم ہوگئے ہیں۔ روزانہ صبح کو بڑی تعداد میں لڑکے لڑکیاں اسکول جاتے نظر آتے ہیں۔ اسکول کھلتے اور بند ہوتے وقت سڑکوں پر لڑکوں کی ایسی بھیڑ ہوتی ہے کہ راستہ چلنا دشوار۔ بک ڈپوز اور کتب خانے بھی تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھل گئے ہیں۔ ہر جگہ پورے سال خریداروں کی بھیڑ دکھائی دیتی ہے۔ اسٹیشنری کی دکانیں بھی بہت نظر آنے لگی ہیں۔ کسی بھی تعلیمی ادارے کی طرف سے ضرورت اساتذہ کا اشتہار آتے ہی درخواستیں پڑنی شروع ہوجاتی ہیں اور انٹرویو کی تاریخ آتے آتے اتنی درخواستیں جمع ہوجاتی ہیں کہ ذمہ دارانِ ادارہ بڑی بے نیازی سے امیدواروں کو کال کرتے ہیں۔ درخواستوں کے ساتھ اسناداور ڈگریوں کا ایک دفتر منسلک ہوتا ہے۔
تعلیمی اداروں میں اتنی گہما گہمی نظر آتی ہے کہ طبیعت خوش ہوجاتی ہے۔ لیکن ان تعلیمی اداروں سے جو افراد پیدا ہوئے ہیں ان کی حیثیت موسم خزاں میں پیڑوں سے جھڑے ہوئے پتوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ان کا وجود نہ تو خشکی پر کوئی ارتعاش پیدا کرتا ہے۔ اور نہ تالابوں میں کوئی لہر، جبکہ مٹی کا ایک ڈھیلا اگر خشکی پر گرے تو وہ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیتا ہے اور اگر پانی پر گرے تو پانی کے مینڈکوں اور مچھلیوں کو سراسیمہ کردیتا، اور اپنے وجود کا پتہ دیتا ہے۔
تقریباً تمام تعلیمی اداروں کے دعوے بلند بانگ ہیں، کسی کو ناز ہے کہ وہ ماہرین قرآنیات پیدا کرتاہے،کسی کو فخرہے کہ وہ ماہرین حدیث پیدا کرتا ہے، کسی کا دعویٰ ہے کہ وہ ماہرین فقہ پیدا کرتا ہے، کسی کاخیال ہے کہ وہ قوم وملت کو ادیب فراہم کرتا ہے، کسی کو زعم ہے کہ وہ مصلحین ودعاۃ تیار کرتا ہے، لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ جو ماہرین علوم دنیائے انسانیت کو فراہم کئے جارہے ہیں ان سے ملک وملت کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ قرآن نے تو یہ حکم دیا تھا کہ’’ واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا‘‘(آل عمران: ۱۰۳) اور یہ کہ ’’ شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم وموسی وعیسیٰ أن أقیموالدین ولا تتفرقوا فیہ‘‘ (الشوریٰ:۱۳) ۔ کیا تعلیمی اداروں کی ان تمام کاوشوں اور کوششوں سے ’’اعتصام بحبل اللہ‘‘ کی کیفیت پیدا ہورہی ہے؟
قرآن نے صدق، صبر، اعتدال ،احسان، ایثار، ایفائے عہد، استغفار، سخاوت، تحمل، انکسار اور عدل کی تلقین کی تھی، لیکن کیا مسلم سماج میں یہ مکارم اخلاق نظر آرہے ہیں؟اس نے استہزاء تمسخر، عیب جوئی، تنابز بالالقاب، بدگمانی، تجسس، غیبت، دروغ گوئی، اشارہ بازی اور چغل خوری جیسے رذائل اخلاق سے منع کیا تھا۔ کیاان رذائل اخلاق سے اجتناب کا ماحول کہیں دکھائی دے رہا ہے؟
قرآن نے معاشرتی تعلیمات کے حوالے سے پاکیزہ زندگی گزارنے، نسل انسانی کی بقاکو یقینی بنانے، عزت نفس سے کھلواڑ نہ کرنے، والدین، اولاد اور ازواج کے حقوق کی پاسداری کرنے، قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے، یتیموں کی خبرگیری کرنے، ضرورت مندوں کی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کرنے، پڑوسیوں کو سکون واطمینان فراہم کرنے ،سائلوں کو محروم نہ رکھنے، مسافروں کے مسائل حل کرنے اور کمزور طبقات کو باوقار زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنے کی جوہدایات دی تھیں ان پر عمل ہورہاہے؟قرآن نے معاملات کے حوالے سے حریت جان ومال ،قرض ادا کرنے کی ترغیب، وصیت کی تلقین اور تقسیم وراثت کے اہتمام کا جو حکم دیا تھا اس پر توجہ دی جارہی ہے؟
قرآن نے معیشت کے جواصول بتائے تھے۔ حلال وحرام کی جو تمیز عطا کی تھی، مخرب اخلاق اشیاء کا کاروبار کرنے سے جوروکا تھا، سودی کاروبار کو قطعی حرام اور ممنوع قرار دیا تھا۔ چوری ڈکیٹی اور ناپ تول میں کمی بیشی کرنے سے جو منع فرمایا تھا، امانت میں خیانت اور دوسروں کی ملکیت پرنا جائز قبضہ سے جوروکا تھا، کیا اسے خاطر میں لایا جارہاہے؟
قرآن نے سیاست کا جو تصور دیا تھا جس میں حاکم مطلق کی حیثیت اللہ تعالیٰ کو اور اس کے نائب وخلیفہ کی حیثیت انسانوں کو حاصل تھی۔ کیا سیاست کا یہ تصور مسلم سماج میں باقی ہے؟
اگر نہیں تو اس سارے تعلیمی کاروبار کا کیا حاصل!
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ کھیتی تو زبردست کی جارہی ہے لیکن اچھی فصل حاصل نہیں ہورہی؟غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ جوکارخانے اس لیے قائم ہوئے تھے کہ وہاں انسان ڈھلیں گے وہاں انسان ڈھالنے کا کام نہیں ہورہاہے۔ بلکہ اپنے گول کے افراد تیار کرنے کی کوشش ہورہی ہے، جو کھیتی کی جار ہی ہے اس لیے کہ اس سے عمدہ فصل ملے اس میں بیج اچھا نہیں ڈالا جارہاہے۔ جب عمل کا رخ صحیح نہ ہو تو نتائج مثبت کیسے حاصل ہوں گے؟
علاوہ ازیں ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ تعلیمی اداروں کو ماہرین علوم کی خدمات تو حاصل ہیں لیکن ماہرین و مزاج آشنائے شریعت کا ان میں اگر فقدان نہیں تو کمی ضرور ہے۔ بیشک فکر وتحقیق کا کام ہورہا ہے لیکن جانب دارانہ۔ علوم یقیناًپڑھائے جارہے ہیں لیکن ایک خاص انداز سے، نصاب میں لاریب تبدیلی آرہی ہے لیکن توازن سے خالی۔ تعلیم تو ہورہی ہے لیکن تربیت نہیں۔ اور اگر تربیت ہو بھی رہی ہے تو ایک خاص نہج کی۔ اسی لیے ہر مکتب فکر کے افراد دوسرے مکاتب فکر کے افراد کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، علمی اختلافات کو ذاتی مخاصمت کا رنگ دے دیا جاتاہے۔ اور اب تو علمی مجلسوں میں بھی آستینیں چڑھ جاتی ہیں، زبان پھسل جاتی ہے، اور من وتوُ کا معرکہ گرم ہوجاتاہے۔ اچھی سے اچھی اور سچی بات پر بھی جبنیوں پر شکن پڑجاتی ہے کیونکہ اس کی نسبت اسلاف سے نہیں ہے۔ یہ سب کچھ مزاج شریعت سے نا آشنائی کا نتیجہ ہے۔
اب اگر ہم واقعی کوئی مثبت تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں ان تعلیمی اداروں سے ماہرین علوم کے ساتھ،ماہرین شریعت بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان سے ملک وملت کے وسیع ترمفادمیں فائدہ اٹھایا جائے، ان کی نگرانی میں نوجوانوں کی صحیح تربیت کی جائے اور ملت کی شیرازہ بندی کے امکانات پیدا کیے جائیں۔
اس عہد میں ماہرین شریعت کی کچھ زیادہ اہمیت اور ضرورت ہے۔ اس لیے کہ مو جودہ دور میں دنیا کے مختلف میدانوں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کے بہت سارے مواقع ہیں۔ مثلاً اس وقت پوری دنیا کی معاشرت تباہی کے دہانے پرہے۔ ایسے حالات میں ہمیں ثکثیری سماج کے اصولوں کو واضح کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اسلام میں اس کی مکمل رہنمائی موجودہے۔ بس اس رہنمائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دور حاضرمیں اس کی تطبیق کی ضرورت ہے۔ اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طاغوتی نظام اس تطبیقی عمل کو بار آور ہونے نہیں دے گا، اور اس راہ میں حتی المقدار رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے گا، کیونکہ اس سے اس کا کاروبار خطرے میں پڑجائے گا۔ لیکن جس حدتک بھی ہم اپنا کردار ادا کرلیں گے، اس کا ایک اچھا پیغام سماج کو جائے گا اور سماج میں حمایتی پیدا ہوتے جائیں گے۔
یہی حال موجودہ معاشی نظام کا بھی ہے۔ کتنے ہی ممالک ہیں جنھیں ترقی یافتہ کیا جاتا ہے اور کتنے ہی ممالک ہی جنھیں ترقی پذیر کہا جاتا ہے لیکن ان تمام ممالک میں معاشی نظام کی ابتری، اقتصادی بدحالی اور کرپشن نے سب کو پریشان کر رکھاہے، ایسے ماحول میں اگر حصولِ دولت کے پاکیزہ نظام اور اس دولت کے صحیح استعمال کی رہنمائی ہم فراہم کردیں تو کوئی وجہ نہیں کہ رائج نظام معیشت سے بیزار دنیا اسے قبول نہ کرلے۔ گزشتہ چندبرسوں سے مسلم ماہرین اقتصادیات نے جواس طرف توجہ مبذول کی ہے اور غیر سودی نظام کا جوتعارف کرایا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ مختلف ممالک میں غیر سودی بینک کاری نظام کا تجربہ کیا جارہاہے اور اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ اس نظام کا تعارف تو کسی حدتک ہوگیا ہے لیکن اس کو چلانے کے لیے جن افراد کی ضرورت ہے وہ تقریباً ناپید ہیں۔ دنیا کے ان تمام ممالک میں جہاں اس نظام کے قیام کے امکانات ہیں، ایسے افراد کی ضرورت ہے جو جدید تقاضوں سے واقف بھی ہوں، اور علوم شریعت کے ماہر بھی ہوں۔ یہ کس قدر تلخ حقیقت ہے کہ تلاش بسیار کے باوجود ایسے افراد نہیں مل پارہے ہیں۔
ایک پہلو اور ہے جو انتہائی توجہ کا طالب ہے، اور وہ یہ ہے کہ اس وقت تہذیب اور سیاست کے تعلق سے مسلم اہل علم کا بھی ذہن صاف نہیں ہے۔ جس چیز کا نام تہذیب ہے اس سے واقف بہت کم لوگ ہیں۔ ہماری بڑی اکثریت چند مظاہر ہی کو اپنا تہذیبی ورثہ سمجھتے ہیں اور وہ ساری توانائی ان ہی کے تحفظ وبقا پرصرف کررہے ہیں۔ جن کے ایک بڑے حصے کا تعلق اسلامی تہذیب سے کم، مسلم عہد حکومت کی رسمیات سے زیادہ ہے۔
اسلامی تہذیب کا سب سے اہم اور بنیادی عنصر زندگی کا مکمل نظام ہے جس میں عقائد، عبادات، معاملات، معیشت، معاشرت اور سیاست سب شامل ہیں۔ ہماری اس زندگی کے ہر گوشہ کا تعلق آخرت کے نتائج سے بھی ہے۔ ہماری زندگی کا جو بھی نظام ہوگا وہی ہماری آخرت کی ابدی زندگی کا رخ بھی متعین کرے گا۔
اسلامی تہذیب کا ایک اہم عنصر انسانوں کا ان کے رب سے گہرا تعلق بھی ہے۔ یعنی انسانی اجتماعیت کو ایک ایسا سماج ہونا چاہئے جس میں خوفِ خداوندی اور خشیت الٰہی کی کار فرمائی ہو۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کی زندگیوں میں بارگاہ خداوندی میں جوابدہی کا احساس ہو۔ والدین، اولاد، ازواج، یتیموں، پڑوسیوں، محروموں اور مسافروں کے حقوق کا تحفظ ہو، عزت نفس اور تحفظ ناموس کو اپنا فریضہ سمجھاجاتاہو، محبت کا چلن عام ہو، نفرت پھیلانے والوں سے ہوشیار رہا جائے۔ شرانگیزوں کی شرانگیزی سے معاشرہ کو بچایا جائے، عریانیت اورفحاشی کا یکسر خاتمہ ہو، اور اللہ تعالیٰ نے زندگی کے جواصول بتائے ہیں ان کی مکمل پاسداری ہو۔
مسلمانوں کا سیاسی شعور دیگر اہل مذہب سے مختلف نہیں بلکہ کمترہے۔ بعض مسلم اہل علم سیاست سے کنارہ کش ہیں، وہ اسے دین ومذہب سے خارج سمجھتے ہیں۔ کچھ مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستگی اور ان کے منشور کو تسلیم کر کے محض چند شعبوں میں اپنی وفادارانہ کار کردگی کوہی کافی خیال کرتے ہیں۔ کچھ سیاست میں ہر چیز کو جائز سمجھتے اور اس بہتی گنگا میں خوب خوب نہارہے ہیں۔ کچھ اقتدارمیں آجانے کے بعد اپنا پرانا حساب بھی بے باق کرلینا چاہتے ہیں۔ کچھ محض چند اسلامی آثار کی وسعت اور ان کے تحفظ ہی کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ کچھ مختلف عنوانات سے احتجاج، مظاہروں، جلسوں اور جلوسوں کوہی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنا مخصوص سیاسی منشور رکھتے ہیں اور اس کی پاسداری کا خود کو پابند سمجھتے ہیں۔ جمہوری نظام میں مسلمانوں کا حقیقی کردار کیا ہوناچاہئے؟ سلطانی نظام کے ساتھ وہ کیسے چل سکتے ہیں؟لادینی نظام سلطنت میں وہ اپنا کردار کیسے اداکرسکتے ہیں؟ یہ سب وہی جان سکتا ہے جو ماہر ومزاج آشنائے شریعت ہو۔
عہد حاضر میں تہذیب اور سیاست پر سب سے زیادہ اثر میڈیا کا ہے۔ اسی کے ذریعہ رجحان بنتا اور بگڑتاہے۔ میڈیا سے غلاظت کو کیسے دور کیا جائے؟ اسے صاف ستھرا کیسے بنایا جائے؟ اس میں اہل تر افراد کو کیسے ڈالا جائے؟ پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ ایمان دارانہ اور خداترسانہ تربیت کیسے کی جائے؟ اہل میڈیا کی ذہنیت کہاں سے تبدیل ہورہی ہے؟ کیوں تبدیل ہورہی ہے؟ اس کا تدارک کیسے کیا جائے؟ علاقائی، ملکی اور عالمی سطح پر اپنا کردار کیسے ادا کیا جائے؟ ان سوالوں کا جواب صرف ان کے پاس ہے جو شریعت میں مہارت رکھتے ہیں۔
چونکہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اس لیے وہ زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق بہت واضح رہنمائی رکھتاہے۔ ان تمام شعبوں میں اسلامی رہنمائی محض چند علوم پر دسترس حاصل کرلینے والے فراہم نہیں کرسکتے بلکہ اس کے لیے ماہرو مزاج آشنائے شریعت کی ضرورت ہے۔ ماہرین شریعت بڑی تعداد میں موجود ہوں تو مختلف مکاتب فکر کے درمیان کی دوری بھی کم ہوگی، مختلف شعبہ ہائے حیات میں نمائندگی بھی بہترہوگی اور اللہ کی کتاب قرآن مجید کی تعلیمات کو تمام انسانوں تک پہنچانا بھی نہ صرف ممکن بلکہ آسان ہوجائے گا۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights