انسان کے کسی بھی گروہ کی نفسیات کی تشکیل میںاس کے موجودہ حالات اور اس کے ماضی کی تاریخ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ موجودہ حالات میں کسی بھی گروہ کی تعلیمی، معاشی ، معاشرتی اور سیاسی پہلو سے اس کی کیفیت شمار کی جاسکتی ہے اور ماضی کی تاریخ میں ان تمام پہلوئوں سے رہے اس کے حالات اس کی نفسیات کی تشکیل میں اثرانداز ہوتے ہیں۔
یہی دونوں عوامل ہندوستان کے دلت طبقے کی بھی خاص نفسیات بنانے کے ذمے دار ہیں۔ ہمارے ملک کے کمزور طبقات کا یہ احساس ہے کہ وہ چار ہزار سال سے محرومیوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کو ایسے حالات سے گزارا گیا ہے کہ انہیں اپنی ناگفتہ بہ حالت کا ٹھیک سے احساس بھی نہیں ہے ۔
اپنی حالت کا مجھے خود بھی نہیں ہے احساس
میں نے اوروں سے سنا ہے کہ پریشان ہوں میں
تعلیم اور معاش کے آزادانہ حصول پر عملاً قدغن اور عام آبادیوں سے دور بسنے نیز ملک کے اعلیٰ طبقات کی سیوا میں زندگی گزارنے کی مجبوری کے سبب دلت طبقے میں اپنے آپ کو حقیر سمجھنے کی نفسیات نے جنم لیا جس نے اس کی زندگی پر اس طرح منفی اثرات مرتب کئے کہ خودی اور قوت ارادی کا تصور ہی اس کے یہاں فروغ نہیں پاسکا۔ نتیجتاً ہزاروں سال اس پر جو قیامتیں ٹوٹتی رہی ہیں اس کے ذکر سے ہی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ وسائل زندگی سے محرومی بھری طویل تاریخ نے اس کو ترقی اور وقار آمیز حیات کے خیال ہی سے ناآشنا رکھا ہے اور کسمپرسی کے ساتھ زندگی گزارنے کو اس نے اپنی تقدیر سمجھے رکھا۔
لیکن گزشتہ تقریباً سو سال سے دلت فلاح وبہبود کے لئے اٹھنے والی چھوٹی بڑی تحریکوں اور دردمند اور حساس شخصیات کی کاوشوں اور ان کی جدوجہد سے دلت طبقے کی سوچ میں تبدیلی شروع ہوئی۔ آغاز کے طور پر تو اس نے اپنا استحصال کرنے والوں سے فریاد کالہجہ اختیار کیا، پھر یہ فریاد شکایت میں تبدیل ہوئی اور اب یہ بھی ہورہا ہے کہ فریاد اور شکایت نے احتجاج اور انتقام کی نفسیات اختیار کرلی اور اس کا اظہار ادب سے لے کر سیاست تک کے مختلف میدانوں میں ہورہا ہے۔ ریزرویشن کے ذریعے تعلیم اور معاشی جدوجہد میں جو لوگ آگے بڑھ گئے ہیں وہ ملامت اور خوف کی نفسیات سے بڑی حد تک باہر آچکے ہیں اور اعلیٰ طبقات کے دبائو سے متصادم ہونے میں بھی گریز نہیں کرتے۔
دلت دوستوں کاایک طبقہ جو سیاسی میدان میں قسمت آزمائی کرتا رہتا ہے اس میں کم ہی لوگ ایسے ہیں جو اعلیٰ مقصد اور بلند اصولوں کے ساتھ کام کو ترجیح دیتے ہوں۔ جہاں منصب اور آسائشوں کا حصول آسان نظر آتا ہو وہاں اصولوں کو پس پشت ڈالنے میں کم لوگ استقامت دکھاپاتے ہیں۔ دلت طبقے کے متمول حصے کی اس نفسیات کی شکایت بھی سامنے آتی ہے کہ اس نے اپنے سماج کے محرومین کے مسائل کے حل کے لئے زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔
دلت طبقے کی یہ نفسیاتی کمزوری تو عام طور پر دیکھنے میں آتی ہے کہ جنھوں نے اس کو دلت ہونے کے عذاب سے دوچار کیا۔ ان سے شکایتوں کے باوجود ان کے تکلیف دہ رویے کے سلسلے میں اپنی ناپسندیدگی کی صدا کو زیادہ بلند نہیں کرپاتے اور دانستہ یا نادانستہ انہیں کے زیر اثر زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ احتجاجاً یہ کہنے کے باوجود کہ ’’بس! اب بہت ہوچکا‘‘ وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاپاتے جس سے ان کی زندگیوں میں ہمہ جہت انقلاب آسکے۔ یعنی انقلاب کے نعرے تو لگتے ہیں لیکن انقلاب کی جانب سفر کی نفسیات ابھی ان کو حقیقی منزل سے ہمکنار نہیں کرپا رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے ملنے والی چھوٹی موٹی مراعات کے حصول کی خاطر دلت قوم اپنی عزت نفس اور وقار کے حصول کے لئے نئے امکانات پر غور نہیں کرپاتی۔ اگر انہیں دیگر اقوام کی طرح عزت کی زندگی گذارنا ہے تو ہندو مذہب سے آزادی اور حکومتی مراعات کی قربانی دینے کے لئے تیار ہونا پڑے گا۔
از: انتظار نعیم