(۱)
امت مسلمہ کی تشکیل کا بنیادی مقصد دعوت الی اللہ ہے۔ قرآن پاک میں اللہ رب العزت فرماتا ہے:
’’تم ہی وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کی بھلائی کے لئے برپا کی گئی ہو۔تم بھلائی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو، اوراللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔
دوسری جگہ فرماتا ہے:
’’تم میں کم از کم ایک گروہ تو ایسا موجود ہونا چاہئے جو اللہ کے راستے کی طرف بلائے ‘‘۔
یہ تو رہی قرآن کی واضح ہدایات، دوسری طرف اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر طائرانہ نظر ڈالیں تو یہ بات واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی سنت دعوت الی اللہ ہے۔
یہ دعوت دین کی تڑپ ہی تھی جو نبی کریمؐ کو چین سے بیٹھنے نہ دیتی تھی ۔کبھی یہ آپ کو کوہ صفاء پر چڑھاتی، تو کبھی طائف کی وادیوں میں لے جاتی، کبھی یہ مکہ کی گلیوں کو آپ کے پائے مبارک سے ٹھنڈک پہنچاتی، تو کبھی بدر و حنین کی وادیوں کو چہرہ مبارک کا نظارہ کراتی۔
دعوت کی یہ ذمہ داری جس طرح اللہ رب العزت کی جانب سے رسول اللہؐپر عائد کی گئی تھی، اسی طرح یہ ان لوگوں پر بھی عائد کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفی ؐ پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں۔
(۲)
اس ابتدائی گفتگو کے نتیجے میں یہ بات بڑی حد تک ہم پر واضح ہو چکی ہے کہ دعوت دین نہ صرف یہ کہ ایک اہم دینی فریضہ ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہی و ہ مشن ہے جس میں ہماری دنیوی اور اخروی کامیابی چھپی ہوئی ہے۔اللہ رب العزت نے امت مسلمہ پر اس فرض کو نہ صر ف عائدکیا،بلکہ اس کی انجام دہی سے متعلق اپنی کتاب اور اپنے نبیؐ کے ذریعہ واضح رہنمائی بھی فرمائی۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’بلاؤ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ، اور جدال کرو ان سے احسن طریقے سے‘‘۔
دعوت دین سے متعلق قرآنی آیات و نبوی اعمال و احکامات کا گہرائی وگیرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے، تو درج ذیل باتیں خصوصیت کے ساتھ محسوس کی جاسکتی ہیں:
(۱)حکمت :- حکمت یعنی کوئی بات کس وقت ،کس انداز میں،اور کس شخص اور قوم تک پہنچائی جائے، اس کا سلیقہ پیدا کیا جائے۔
(۲)اچھی نصیحت :- دعوت دلنشین اور احسن انداز میں دی جائے۔
(۳)اخلاص نیت:-اخلاص نیت نہ صرف دعوت بلکہ ہر عمل کی کامیابی کی اولین شرط ہے۔
(۴)عقائد:-بنیادی نظریات، تصورات اور عقائد پر خصوصی توجہ دی جائے ۔
(۵)مسائل زمانہ:- اپنے زمانے کے سلگتے مسائل اور اشوز پر خصوصی توجہ دی جائے اور اسلام کو ان مسائل کے حل کے طور پر پیش کیا جائے۔
(۳)
ان نکات پر بصیرت بھری نظر اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ موجودہ حالات میں عالم انسانیت جن مسائل سے دوچار ہے، اس کے بنیادی اسباب کا پتہ لگا کر ان پر وار کیا جائے، تاکہ جو اشوز، تصورات اور نظریات پریشانی کا سبب بنے ہوئے ہیں، ان کی اسلامی تعلیمات کے مطابق تعریف نو کی جائے۔ اس ضمن میں تصور ترقی (آئیڈیا آف ڈیولپمنٹ) کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔آج ساری دنیامیں ترقی (Development) کو مرکزیت حاصل ہے۔ لیکن ڈیولپمنٹ کے الہٰیاتی ماڈل کے عوام و خواص میں واضح نہ ہونے کے سبب موجودہ تصور ڈیولپمنٹ انسان کی حقیقی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
ڈیولپمنٹ کیا ہے:-
اسلام کا تصور ترقی (ڈیولپمنٹ)مغرب کے سیکولر اور خدا بیزار تصور ڈیولپمنٹ سے یکسر مختلف ہے۔اسلام کے نزدیک اس کو ناپنے کا پیمانہ صرف معاشی ترقی نہیں ہے بلکہ روحانی، اخلاقی، سیاسی، معاشی،معاشرتی، تعلیمی،ماحولیاتی، یہ ساری چیزیں مل کر ایک فرد یا معاشرہ کو ترقی یافتہ بناتی ہیں ۔
(۴)
ڈیولپمنٹ کا اسلامی ماڈل:
تعلیمی ڈیولپمنٹ:-
اسلام کے تصور ترقی کی شروعات اقرأسے ہوتی ہے ۔وہیں یہ بات بھی واضح رہے کہ اسلام کا تصور تعلیم،تعلیم کو محض معاش کے حصول کا ذریعہ نہیں بتاتا ہے بلکہ یہ تعلیم کو وہ چیز قرار دیتا ہے جو بندے کو خدا کی معرفت عطا کرتی ہے۔زندگی گزارنے کا صحیح سلیقہ سکھاتی ہے۔احساس ذمہ داری ،حکمت اور احسان کی صفت پیدا کرتی ہے، اور یہی چیز اس وقت معاشرہ کی سب سی بڑی ضرورت ہے۔ورنہ ہم دیکھتے ہیں کہ بظاہر بڑی بڑی ڈگریا ں رکھنے والے افراد ہی بعض اوقات صحیح تصور تعلیم نہ ہونے کے سبب معاشرہ کے لئے ناسوربن جاتے ہیں۔
اخلاقی ڈیولپمنٹ:-
دنیا جس تیزی سے علم،سائنس، ٹکنالوجی اور معاش کے میدان میں ترقی کر رہی ہے، اسی رفتار سے اخلاقی زوال کی طرف بڑھ رہی ہے۔ظلم و نا انصافی، زنا بالجبر، اور کرپشن کے جتنے واقعات ہم آج کے سماج میں دیکھ رہے ہیں، اتنے آج سے پہلے کبھی محسوس نہیں کئے گئے۔یہ اخلاقی زوال کا بین ثبوت ہے اور جو معاشرہ ایسی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو اسے کبھی ترقی یافتہ معاشرہ نہیں کہا جا سکتا یعنی اخلاقی ڈیولپمنٹ اسلام کے نزدیک کسی بھی ملک و قوم کے معیارکو ناپنے کا ایک اہم پیمانہ ہے۔
روحانی ڈیولپمنٹ:-
جس طرح انسان اپنا ایک مادی وجود رکھتا ہے اسی طرح وہ اپنا ایک روحانی وجود بھی رکھتا ہے۔موجودہ تصور ترقی روحانی وجود کے ڈیولپمنٹ کو یکسر نظر انداز کردیتا ہے۔ یہ اسلام کے تصور ترقی کو دیگر تصورات سے ممتاز کرنے والی ایک اہم چیز ہے۔
معاشی ڈیولپمنٹ :-
معاشی ترقی اسلام کے تصور ڈیولپمنٹ کا ایک اہم جز ہے۔اس معاملے میں بھی اسلام ایک معتدل اور متوازن اپروچ رکھتا ہے۔ اس ضمن میں وسائل کی عادلانہ تقسیم ، زکوۃ، صدقات، عطیات کا نظام، سماج کے تئیں احساس ذمہ داری، دولت کی گردش، سود کی حرمت ، صداقت وامانت کوکاروبار کی بنیاد بنا کر اسلام معاشی ترقی کو حقیقی معنوں میں پورے سماج کے لیے خیر و برکت کا سبب بناتا ہے ۔
سیاسی ڈیولپمنٹ :-
اس دنیا میں ایک طرف جن سیاسی ایوانوں سے ترقی کے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، انہیں ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگ کرپشن ،جنسی جرائم اور قانون کی خلاف ورزی میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف سیاسی نظام بھی اپنی بنیادی نظر یاتی، فکری و عملی کوتا ہیوں کے سبب ترقی کرنا تو دور کی بات عوام کی توقعات پر پورا بھی نہیں اتر پاتا۔ اس کے بالمقابل ا سلام کا تصور سیاست توحید، رسالت اور خلافت کے مستحکم و مضبوط تصورات پر قائم ہے، جو ان ابھرتے مسائل کاحل اپنے اندر رکھتا ہے نیز سیاست کواس کے اعلیٰ معیار تک پہنچانے کی صلاحیت بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔
سماجی ڈیولپمنٹ:-
تمام ترقی کے نام نہاد جھوٹے دعوؤں کے باوجود بھی ہمارا معاشرہ ظلم و زیادتی ،جہالت ،توہم پرستی،دہشت گردی جیسے سنگین مسائل سے گھرا ہوا ہے۔اس لئے ترقی کے منصوبے بناتے وقت سماجی ڈیولپمنٹ کے کام کو بنیادی اہمیت دینی چاہئے کہ معاشرہ کی ترقی ہی حقیقی معنوں میں کسی قوم اور ملک کی ترقی کا سبب بنتی ہے۔
ماحولیاتی ڈیولپمنٹ :-
قدرتی وسائل کا غیرذمہ دارانہ استعمال ،زیادہ سے زیادہ ذخیرہ(کنزیوم) کرنے کی ہوس، ماحولیاتی بحران کا بنیادی سبب ہے۔ اسلام انسان کو زمین پر اللہ کا خلیفہ قرار دیتا ہے، اور بحثیت خلیفہ ماحول کی حفاظت نیزترقی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ترقی کا کوئی بھی ماڈل ماحولیاتی بحران کا سبب بنے وہ ڈیولپمنٹ نہیں کہلا سکتا۔
(۵)
دونوں جہان کا ڈیولپمنٹ :-
ان تمام چیزوں کے ساتھ جو چیز سب سے زیادہ بنیادی اہمیت کی حامل ہے وہ یہ کہ اسلام اس دنیا کو عارضی قیام گاہ کی حیثیت سے پیش کرتا ہے، اور انسان کا اصل ٹھکانہ آخرت کا گھر ہے، اس بات کی تعلیم دیتا ہے ۔اس لحاظ سے اس دنیا کا ڈیولپمنٹ، یہاں کی ترقی اور آسائش بھی عارضی ہیں۔ اسلام انسان کو دونوں جہاں کے ڈیولپمنٹ کی طرف توجہ دلاتا ہے، اور یہی انسان کی اصل کامیابی ہے۔ ورنہ اگر انسان یہاں تاج محل جیسی خوبصورت ،اہرام مصر جیسی مضبوط ،دیوار چین جیسی اونچی ،برج خلیفہ جیسی پر تعیش ہزاروں عمارتیں بھی بنالے، چاند اور مریخ پر بھی پہنچ جائے، تو انسان کی زندگی کے خاتمہ کے ساتھ ڈیولپمنٹ کی یہ ساری چیزیں بھی ختم ہو جائیں گی، اور اگرانسان نے اپنی آخرت کے ڈیولپمنٹ کے لئے کچھ نہ کیا ہو تو وہ خدا کی بارگاہ میں نا مراد و ناکام ٹھہرے گا، اور وہاں اپنے اعمال کے مناسب نتائج کا سامنا کرے گا۔ اس طرح دیکھا جائے تو دونوں جہاں کے ڈیولپمنٹ کا تصورانسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے
ڈھوندنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم وپیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
محمد سلمان، ایس آئی او مہاراشٹرساؤتھ