قرآن مجید کا مطالعہ بتاتا ہے کہ خیر اور شر کے مابین ہر زمانے میں کشمکش رہی ہے ، آدم ؑ سے لے کر آں حضورؐکے زمانے تک کی مختلف کشمکشوں کا تذکرہ قرآن میں جابجا ملتا ہے، غور طلب بات یہ ہے کہ ان تذکروں کے بعد ہر زمانے کے اہل شر کے انجام بد سے بھی آگاہ کیا گیا ہے، اوریہ قرآن مجیدکا اسلو ب خاص ہے۔ ایسے بہت سارے مقامات میں ایک مقام ایسا بھی ہے، جن میں ہمارے اور آپ کے لئے ایک بڑا پیغام ہے، انہی آیات میں کچھ یہ بھی ہیں:
فاما من طغی وآثر الحیوۃ الدنیا فان الجحیم ھی الماوی۔ واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی فان الجنۃ ھی الماوی۔۔(سورۃ النازعات، آیت: 37؍تا 41؍)
ترجمہ: ’’جس نے سر کشی کی ، اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی، دوزخ ہی اس کا ٹھکانہ ہوگی ، اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا، اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا، جنت اس کا ٹھکانہ ہوگی‘‘۔
آیئے ہم ان آیات پر غور کریں، اور دیکھیں کہ اس میں ہمارے لئے کیا پیغام ہے ۔
طغیانی و سرکشی نافرمانی کی حدوں کو پار کرنے کا نام ہے اور نافرمانی کی حدوں کو پھلانگنا ہی گویا دنیاوی زندگی کو ترجیح دینا ہے ۔ اس کے باوجود دنیاوی زندگی کو اور اس کے عیش و آرام کو الگ سے ذکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مقصد زندگی سے لا پروا ہوکر شتر بے مہار کی طرح زندگی بسر کرنا اور اوامر و نواہی کوخاطر میں نہ لانا بھی ایک قسم کی سرکشی ہے، اور اسی قسم کی سرکشی پر جہنم کے دائمی عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات پر ایسے بے مقصد زندگی گذارنے والوں کو اللہ نے جانوروں اور چوپایوں سے بدتر قرار دے کر ایسے عاقبت نا اندیشوں کا ٹھکانہ جہنم بتایاہے ۔ دوسرے گروہ میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کو بندگی کا عین نمونہ بنایا اور ہمیشہ اپنے رب کے حضور جوابدہی کا احساس جگائے رکھا اور اپنے نفس کو خواہشات کا غلام نہ بنایا، بلکہ اس کو احکام الہی کا پابند بنا کر بری خواہشات سے روکے رکھا، ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جنت ہے ۔ یہاں بھی ایک بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ رب کے سامنے جوابدہی کا احسا س رکھنے والا ظاہر سی بات ہے بڑی شفاف زندگی گذارتا ہے اس کے باوجود نفس کے و رغلانے میں آکر انسان کبھی کبھی بہک جاتا ہے اس لئے الگ سے خصوصیت کے ساتھ نفس کو خواہشات سے باز رکھنے کا ذکر کیا گیا ہے۔
ہم اور آپ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ خواہشات نفس پر قابو پانے اور اس کو غلط روی سے روکنے کا مطالبہ بوڑھوں اور بچوں سے زیادہ نوجوانوں سے کیا جاتا ہے، اور اس میں پورا اترنے والوں کو جنت کی لازوال نعمتوں کی بشارت دی گئی ہے ۔
ایک داعی امت کا سب سے طاقتور بازو اور اسلامی خطوط پرمعاشرے کی تشکیل نو کا عزم رکھنے والے نوجوان کی حیثیت سے ان آیات کے مندرجات کے تئیں ہماری ذمہ داری بھی دو گنی ہوجاتی ہے ، اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو ۔ آمین
(برماور سید احمد سالک ندوی، بھٹکل )
داعی امت کے نوجوان
قرآن مجید کا مطالعہ بتاتا ہے کہ خیر اور شر کے مابین ہر زمانے میں کشمکش رہی ہے ، آدم ؑ سے لے کر آں حضورؐکے زمانے تک کی مختلف کشمکشوں کا تذکرہ قرآن میں جابجا ملتا ہے، غور طلب…