خواتین کا مقام، حقوق اور ذمہ داریاں

ایڈمن

خواتین کا مقام، حقوق اور ذمہ داریاں علامہ یوسف القرضاوی کی تحریروں کی روشنی میں ڈاکٹر ہبہ رؤوف عزتعلامہ یوسف القرضاوی کی تحریروں کی کچھ نمایاں خصوصیات ہیں، ان کی تحریروں میں ربانیت، انسانیت، جامعیت، اعتدال وتوازن، حقیقت پسندی، وضاحت…

خواتین کا مقام، حقوق اور ذمہ داریاں
علامہ یوسف القرضاوی کی تحریروں کی روشنی میں

ڈاکٹر ہبہ رؤوف عزت

علامہ یوسف القرضاوی کی تحریروں کی کچھ نمایاں خصوصیات ہیں، ان کی تحریروں میں ربانیت، انسانیت، جامعیت، اعتدال وتوازن، حقیقت پسندی، وضاحت (Clarity) اور ثابت قدمی وشفقت کا حسین امتزاج، یہ تمام خوبیاں اور خصوصیات نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔
علامہ یوسف القرضاوی معاصر مسلم خواتین کے مسائل سے بھی بحث کرتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلے وہ ایک انسان اور ایک خاتون کے طور پر خواتین کے مطلوبہ رول اور ان کے دائرہ کار سے متعلق اسلامی تصور کی مختلف جہتوں کا تعین کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ خواتین کے لیے تین دائروں کا تعین کرتے ہیں۔ جب کہ دوسرے لوگ خواتین کو محض تانیث کے دائرے تک محدود کردیتے ہیں، اور پھر انہیں خواتین کے اندر فتنوں کے دروازہ، پاکیزگی کے حصول اور نسل کی افزائش کے وسیلے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام میں عورت کی انسانیت، شرعی طور پر اس کو مکلف بنانے اور خلقت وبناوٹ کے ساتھ ساتھ عام انسانی خصوصیات، ذمہ داریوں اور جزاوسزا سے متعلق مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات پر کس قدر زور دیا گیا ہے۔

اسلام میں مردوعورت کے درمیان یہ مساوات وحدانیت اور عبودیت کی بنیاد پر ہے، اور اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان کا فرق تکامل کا فرق ہے کہ دونوں مل کر اپنی ذمہ داریوں کوانجام دیتے ہیں، اس فرق کا مقصود کسی بھی طور سے یہ نہیں ہے کہ عورت کواس کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا جائے اور اس طرح مردوعورت کے درمیان اس فرق کی اصل حکمت اور اصل روح کو ہی ختم کردیا جائے۔ شہادت، وراثت اور قوامیت کے مسئلہ میں شریعت نے جو فرق ملحوظ رکھا ہے، اس پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ قرضاوی صاف طور پر لکھتے ہیں:

’’ان احکام میں عورتوں اور مردوں کے درمیان فرق کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مرد اللہ کے نزدیک زیادہ معزز ہوتے ہیں اور عورتوں کے مقابلے میں اللہ کے زیادہ مقرب ہوتے ہیں۔ اللہ کے نزدیک تو سب سے معزز اور مکرم وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کا سب سے زیادہ تقوی اختیار کرنے والے ہوتے ہیں، خواہ وہ مرد ہوں یا عورت۔ دونوں کے درمیان یہ فرق ان ذمہ داریوں کا تقاضا ہے جو ذمہ داریاں فطرت سلیمہ نے مرد اور عورت دونوں کے لیے متعین اور مخصوص کردی ہیں۔‘‘


اسلام نے عورتوں کی نسوانیت کو محترم قرار دیا ہے اور اس کو عام اجتماعی آداب اور شرعی احکامات کے ذریعہ تحفظ فراہم کردیا ہے، اور ایسا کرنے کا مقصد معاشرے میں خواتین کی حرکت ونقل کو کم یا محدود کرنے کے بجائے اس کو منظم کرنا تھا، اس کا ہدف خواتین کو حرکت وعمل سے محروم کرنے کے بجائے ان کو فتنوں اور شکوک وشبہات کے مقامات سے تحفظ فراہم کرناتھا۔ علامہ قرضاوی اس بات پر بہت زیادہ زور دیا کرتے ہیں، خاص طور پر جب وہ اِس قسم کی صحیح احادیث بیان کرتے ہیں یا سیرت نبوی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہیں، جن احادیث وواقعات سے پتہ چلتا ہے کہ عہدرسالت میں خواتین مساجد سے کیسے فریضہ دعوت کو انجام دیا کرتی تھی، یا علمی مجالس اور عام واقعات کے وقت وہ کس طرح اپنی موجودگی درج کراتی تھیں، بلکہ دین اور اسلامی ریاست کے دفاع کے لیے وہ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے بھی نکلا کرتی تھیں۔
اسلام نے عورت کے کردار کو ایک انسان، ایک ماں، ایک بیوی، ایک بیٹی اور ایک عورت کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرے کے ایک فعال عضو کے طور پر بیان کیا ہے۔ اسی صورت میں خواتین کی وہ شخصیت اپنے تمام پہلووں کے ساتھ تکمیل پاتی ہے ، جو قرآنی آیات، احادیث نبوی اور امہات المومنین اور صحابیات رسول کی زندگیوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ علامہ قرضاوی ان تمام دلائل کو تفصیل سے بیان کرتے ہیںاور پھر اپنے مضبوط عقلی اصولوں کے ذریعہ مقاصد شریعت کو پیش نظر رکھتے ہوئے عورت کی شخصیت کی ایک مثالی تصویر پیش کرتے ہیں۔ اس تصویر میں وہ عورت کے خاندانی کردارپر بہت زیادہ زور دیتے ہیں کہ امت مسلمہ کی عمارت کی یہ پہلی اجتماعی یونٹ ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ عورت کی ملازمت اور دیگر عام سرگرمیوں میں اس کی شرکت کے حدود وشرائط کو بیان کرتے ہوئے اس پہلو کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔ علامہ قرضاوی عورت کے اس رول کو اس کی حرکت ونقل کا محور اور اس کی ترجیحات میں سرفہرست رکھتے ہوئے ایک درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس میں نہ تو عورتوں پر مکمل طور سے پابندی عائد کرتے ہیں اور نہ مغرب کی طرح بلا حدودوقیود اسے بالکل آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔


علامہ قرضاوی اسلامی حلقے میں خواتین کے تعلق سے سخت گیر موقف کی بنیادوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں، کہ اس کی اصل وجہ شرعی نصوص اور شرعی اصولوں کے تعلق سے ان کے رویے ہیں۔ لکھتے ہیں: ’’وہ قرآن وسنت کے صحیح نصوص سے ناواقف رہتے ہیں یا سیرت کی کتابوں میں مذکور واقعات کو نظرانداز کردیتے ہیں، اور ’ناقصات عقل ودین‘ جیسی روایات سے غلط طور پر استدلال کرتے ہیں، بلکہ کچھ ایسی روایات بھی لے کرآجاتے ہیں جن کی کوئی سند اور بنیاد نہیں ہوتی ہے، اور وہ بہت ہی کمزور قسم کی ہوتی ہیں۔ اور ان کی بنیاد پر عورتوں کو تنگی میں ڈالنے کا کام کرتے ہیں اور ان کے حقوق کا استحصال کرتے ہیں، بلکہ ان کی زندگیوں کو ایک تاریک جیل میں تبدیل کردیتے ہیں۔ ‘‘
علامہ قرضاوی اس سخت گیر موقف کے دوبنیادی اسباب بیان کرتے ہیں:
پہلا سبب: اکثر لوگ ان شرعی نصوص سے ناواقف ہوتے ہیں جن نصوص میں مشکل کے مقابلے میں آسانی فراہم کرنے کی ضمانت دی گئی ہے، خاص طور سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول صحیح احادیث کے تعلق سے ایسا ہوتا ہے، کیونکہ قرآنی نصوص سے تو سبھی واقف ہوتے ہیں لیکن احادیث چونکہ مختلف کتابوں میں بکھری ہوئی ہیں، اور لوگ احادیث کے سلسلے میں اپنے مسالک کی کتابوں اور اپنے مسالک کی فقہ پر ہی اعتماد کرتے ہیں ، چنانچہ اس مسلکی رویے کی وجہ سے بہت سے مسلمان صحیح احادیث سے غافل ہوتے ہیں اور ضعیف وموضوع احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔
دوسرا سبب: وہ جن نصوص کو جانتے ہیں ان کے سلسلہ میں بھی سوئے فہم کا شکار ہوتے ہیں، وہ ان نصوص سے بے محل استدلال کرتے ہیں، یا ان سے وہ استدلال کرتے ہیں جو بمشکل ہی ان سے کیا جاسکتا ہے، یا ان کے سیاق اور سبب نزول سے ان نصوص کو کاٹ کر استدلال کرتے ہیں، یا پھر اسلام کے باقی احکامات اور کلی مقاصد سے ان کو الگ تھلگ کردیتے ہیں، چنانچہ ان احکامات کے درمیان ذرا بھی یکسانیت نہیں پائی جاتی ہے۔‘‘


علامہ یوسف القرضاوی نے خواتین کے مسائل سے متعلق ایک کام تو شرعی دلائل کو مستحکم اور مضبوط انداز سے پیش کرنے کاکیا، تاکہ اس ضمن میں ان کی تحریریں اور فتاوی اسلام کے متوازن اور معتدل تصور کے تعلق سے ایک مثال بن جائیں۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے اس بات کا ادراک کرلیا کہ خواتین کا مسئلہ محض فقہ وفتاوی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ عملی اورحرکی مسئلہ بھی ہے، چنانچہ آپ نے امت کے مستقبل کی تعمیر اور اس کی عظمت رفتہ کی بازیافت کے سلسلہ میں خواتین کے رول کوبہت ہی نمایاں کرکے پیش کیا۔ انہوں نے اس بات کو بخوبی سمجھ لیا کہ عظمت رفتہ کی بازیافت اسی وقت ممکن ہے جب کہ ہم اپنی اصل کی طرف لوٹ جائیں اور صحابیات کی زندگیوں کی جو تصویر ہمیں ملتی ہے اس کے عملی نمونے پیش کریں۔ یہی صحیح طور سے معاشرے میں خواتین کے کردار کی بحالی ہوگی، جب کہ ابھی صورتحال یہ ہے کہ وہ دینی اور دنیوی دونوں کرداروں سے محروم کردی گئی ہیں، وہ مسجدوں میں جانے سے بھی روک دی گئی ہیں اور معاشرے میں اپنی ذمہ داریوں اور اپنے کردار کی ادائیگی سے بھی محروم کردی گئی ہیں، اور وہ ایک ماں اور ایک بیوی کے دائرہ تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔ علامہ قرضاوی لکھتے ہیں کہ ’’ہم زوال اور انحطاط کے زمانوں کی طرف واپسی نہیں چاہتے، ہم تو مستقبل کی خواتین سے صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ اولین اسلامی عہد کی طرف واپس ہوجائیں، عہد نبوی، عہدصحابہ اور عہد تابعین کی طرف، اور اس روشن عہدکی طرف جب عورتیں اپنی ذمہ داریاں انجام دیا کرتی تھیں اور اپنے حقوق سے کماحقہ واقف تھیں۔‘‘


علامہ قرضاوی جب اولین اسلامی عہد کی طرف واپسی کی بات کرتے ہیں تو حقیقت میں وہ مسلم خواتین کے درمیان ایک نیا انقلاب دیکھ رہے ہوتے ہیں، ایک ایسا انقلاب جو مغرب کی بے لگام آزادی والے انقلاب سے بہت بلند، اور حقیقی سرچشمے کی طرف رجوع اور واپسی کا اعلان ہوتا ہے۔ علامہ قرضاوی لکھتے ہیں: ’’ہم چاہتے ہیں کہ یہ عہد اپنے اختتام کو پہنچ جائے اور ہم ایک نئے عہد کا آغاز کریں۔ ہم مسلم خواتین کے لیے ایک نئے باب کا آغاز کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کے ٹھوس اور مضبوط گراؤنڈ پر حقیقی اسلامی بیداری کی طرف واپسی ہو۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات کی طرف واپسی، جو کتاب وسنت میں موجود ہیں، اور جو خواتین کے سلسلہ میں سراسر خیر وانصاف پر مبنی ہیں۔‘‘
علامہ قرضاوی کہتے ہیں کہ خواتین کو تعلیم کے تعلق سے اور حقوق وواجبات کے تعلق سے اپنی ذمہ داری کو خود سمجھنا ہوگا، تبھی وہ اپنے کردار سے بھی واقف ہوں گی اور اپنی ذمہ داریوں کو بھی انجام دے سکیں گی، جیسا کہ صحابیات اور تابعیات نے کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرضاوی صاحب خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اس پیغام کو سمجھیں: ’’میں مستقبل کی خواتین سے یہی چاہتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ وہ اسلام پر قائم رہیں، میں چاہتا ہوں کہ وہ اپنے دین اور اپنی زندگی سے واقف رہیں، وہ اپنے رب کے تعلق سے بھی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والی ہوں، اپنے شوہر اور اولاد کے تعلق سے بھی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والی ہوں، اور اپنے معاشرے، اپنے دین اور اپنی امت کے تعلق سے بھی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والی ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ حقیقی اسلامی انقلاب کی قیادت کرنے والی ہوں، وہ اسلام کی داعی اور مبلغ بنیں، وہ مربی بنیں، وہ بہترین رہنما اور گائیڈ بنیں جو خواتین کی تعلیم وتربیت کا کام انجام دیںاور ایک حقیقی انقلاب کی قائد بن کر ابھریں۔‘‘


اسلامی انقلاب اس لحاظ سے بیدار اور باشعور خواتین کے عملی رول اور پھر ان کے مسائل سے متعلق امت کے درمیان ایک متوازن اور معتدل موقف کا طالب ہے، اور اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ خواتین کی عزت وتکریم اور ان کے عملی رول سے متعلق قرآن وسنت کی رہنمائی کا بہت ہی اہتمام کے ساتھ التزام کیا جائے۔ علامہ قرضاوی اس سلسلے میں اپنے دعوتی اور تحریکی تجربات کی روشنی میں واضح طور سے لکھتے ہیں کہ اسلامی دعوت کے محاذ پر ایسی مضبوط خواتین قیادت نہیں ابھرسکی جو اَزخود سیکولر اورمارکسوادی رجحانات کاکافی حد تک اور مضبوطی کے ساتھ مقابلہ کرسکے۔ اور اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ مردوں نے ہمیشہ ان کی رہنمائی کو اپنا حق سمجھا اور انہیں وہ آزادانہ مواقع فراہم نہیں کیے کہ وہ کھل کر اپنی بات رکھ سکیں اور اپنا مقام بناسکیں۔


علامہ قرضاوی خواتین کو بہت اونچا مقام دیتے ہیں، وہ اس بات کو بہت زور دے کر کہتے ہیں کہ عورت کا قائدانہ رول کوئی حیرت انگیز یا معذرت خواہی کا مسئلہ نہیں ہے، لکھتے ہیں: ’’خواتین میں بھی کچھ بہت ہی ذہین اور خداداد صلاحیت کی مالک ہوتی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ ذہانت صرف اور صرف مردوں کا حصہ ہے۔ قرآن مجید میں اس خاتون کا قصہ (سورہ نمل میں ملکہ سبا کا قصہ)یونہی بلامقصد نہیں بیان ہوا ہے جس نے بہت ہی حکمت اور شجاعت کے ساتھ مردوں کی قیادت کی اور انہیں بہترین انجام تک پہنچایا۔۔۔میں صاف صاف کہنا چاہتا ہوں کہ اسلامی معاشرے میں کچھ بہت ہی متشدد رجحانات داخل ہوگئے ہیں، یہی رجحانات عورتوں اور مردوں کے تعلقات کے سلسلے میں اس وقت غالب ہیں، اور یہ اس سلسلہ کے بہت ہی تنگی میں ڈال دینے والے اقوال پر مشتمل ہیں۔‘‘


علامہ قرضاوی امریکہ، یورپ اور دنیا بھر کے عرب اور مسلم ممالک کی مختلف کانفرنسوں میں شریک ہوئے، وہاں انہوں نے دیکھاکہ شرکاء میں مردوخواتین کے درمیان کھلے طور پر فرق کیا جاتا ہے، انہوں نے وہاں دیکھا کہ عورتوں کو بہت سے قیمتی لکچرس، مباحثوں اور سیمیناروںسے محروم رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے کئی مقامات پر اس پر نکیر درج کرائی ہے اور خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’انہیں اس صورتحال کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیک دینے ہیں، بلکہ انہیں آگے بڑھ کر زمام کار سنبھالنی چاہیے، اور دعوت وجدوجہد کے نئے میدان دریافت کرنے چاہئیں، تاکہ وہ مغرب سے آنے والی ان خواتین کی باتوں کا جواب دے سکیں جو اس امت کے عقائد اور اس کے اقداروقیم کو چیلنج کررہی ہیں، یہ خواتین گرچہ تعداد میں بہت کم ہیں، ان کا دینی اور دنیوی کوئی خاص مقام بھی نہیں ہے، لیکن ان کے اثرات بہت گہرے ہیں۔‘‘
علامہ قرضاوی جب خواتین کے سماجی رول پر گفتگو کرتے ہیں تو ان کے سامنے یہ بات بھی رہتی ہے اور وہ اس سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ مغرب نے خواتین کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا ہے، اور اس مادی اورمفادپرست رویے کی وجہ سے کس طرح معاشرہ تباہی سے دوچار ہوا ہے، اور خواتین کس طرح ظلم وجبر، اغواکاری اور جنسی ہراسانیوں کا شکار ہوئی ہیں، اور کس طرح سماج کی ایک اہم یونٹ خاندان ختم ہوکر رہ گیا ہے۔

وہ مغربی معاشرے کے جنسی بے راہ روی جیسے ان جدید رجحانات سے بھی واقف ہیں جو ہمارے معاشرے کے لیے زبردست چیلنج بن سکتے ہیں اگر ہم نے صورتحال پر قابو پاتے ہوئے دین سے رشتہ کو مضبوط نہیں کیا۔ چنانچہ علامہ قرضاوی خواتین سے متعلق ایک طرف افراط وتفریط پر مبنی رویوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ اس بات سے بھی خبردار کرتے ہیں کہ اگر شرعی اصولوں اور شرعی آداب کا لحاظ نہیں رکھا گیا تو معاشرہ بری طرح تباہی کا شکار ہوکر رہ جائے گا۔ اور وہ اس بات سے بھی خبردار کرتے ہیں کہ سد ذرائع کے دعوی کو بنیاد بناکر خواتین کو گھر میں قید کردیا جائے، ان کو تنگی میں ڈالا جائے اور سماج اور معاشرے میں ان کے رول کو کمزور کردیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ امت وسط کے لیے صحیح طریقہ یہی ہے کہ وہ قولی اور عملی ہر دو سطح پر شریعت سے رہنمائی حاصل کرے اور نبی کی سنت پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ (عربی سے ترجمہ وتلخیص)


HEBA RAUF IZZAT
Ph. D. Political Science, Cairo University
Egyptian Political Scientist
Islamic Thinker and Activist

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں