خدمتِ دین کے محرکات

0

مولانا محمد فاروق خاں

دین خدا کی مرضیات اور ان احکام سے عبارت ہے جو خدا نے اپنے بندوں پر نافذ فرمائے ہیں۔ سورج کا دین یہی ہے کہ وہ اپنی روشنی اور تمازت سے دنیا کو مستفاد ہونے کا موقع دے۔ بادلوں کا گرجنا اور برسنا ہی ان کا دین و مذہب ہے، جس کی وہ پیری کرتے ہیں اور سورج کی طرح اپنا فرض انجام دینے پر مامور ہیں۔

انسانوں کے لیے ان کا دین یہ مقرر کیا گیا کہ وہ شعور اور علم کی سطح پر اس رشتہ کو سمجھیں جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان پایا جاتا ہے۔ خدا نے انسانوں کو اپنی صفات کا مظہر بنایا ہے۔ جس طرح یہ عظیم کائنات خدا کی عظمت اور اس کی ربوبیت کا مظہر ہے اسی طرح انسان کے ذریعہ سے خدا کے جمال وکمال کا اظہار دنیا کے شعور و جذبات میں بھی مطلوب یہی ہے کہ شعور و احساس درحقیقت تخلیق کائنات کی غرض و غایت بھی ہے۔ کائنات کی معنویت اور اس کی غرض و غایت انسان کے وجود سے وابستہ ہے۔ دنیا ہی نہیں بلکہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ وجودِ آخرت کی اصل غرض وغایت بھی انسان ہی سے وابستہ ہے۔ انسان کو اپنی اس قدر وقیمت کا احساس ہونا چاہیے۔

چونکہ شعور کی سطح پر یہ مطلوب ہے کہ خدا کی عظمت اور اس کے جمال و کمال کا اظہار ہو۔ اس اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے ہی انسان کی تخلیف ہوئی ہے۔ شعور و احساس کی سطح پر انسان سے جو چیز مطلوب ہے اس کے حصول میں اس کا امکان رہتا ہے کہ انسان اپنی ذمہ داری اور اپنے منصب سے اعراض کرے اور اپنی غفلت سے خدا کا نافرمان بن کر رہے۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا اصل مقصد ہی یہ رہا ہے کہ انسان خدا کی نافرمانی سے باز رہے اور وہ خدا کے منصوبہ کو ناکام بنانے کی کوشش نہ کرے۔

انبیاء کے بعد لوگوں کو ان کے اعلیٰ مقام اور ان کو ان کی اصل حیثیت سے باخبر کرنے کی ذمہ داری انبیاء اور رسولوں کے پیروؤں پر ڈالی گئی تھی۔ ہمارے دور میں ذمہ داری کے اس عظیم منصب پر حضرت محمد ﷺ کے پیروؤں یعنی امتِ مسلمہ کو مامور کیا گیا ہے۔

دین کی خدمت کا مفہوم و مطلب یہ ہوتا ہے کہ امت کا ہر فرد اور اجتماعی طور پر پوری امت دینِ حق کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے اور خود بھی دین کی پیروی میں کسی کوتاہی کو روا نہ رکھے اور اہلِ عالم کو اس بات کی دعوت دے کی وہ بھی خدا کی خوشنودی اور اس کی رضا کے حصول کو زندگی کی غرض و غایت قرار دیں۔ انھیں بتائیں کہ وہ فنا ہونے کے لیے نہیں پیدا ہوئے ہیں دائمی حیات (Eternal Life) ان کی منتظر ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے رب کی عظمت اور نوازش کو پورے طور پر محسوس کرے۔ اس سے محبت کا تعلق پیدا کرے اور اس کے احکام کو دل و جان سے قبول کرے۔ وہ خدا کا نافرمانی اور ناشکرا بن کر زندگی نہ گزارے۔

اس تفصیلی گفتگو سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ انسان کو خدا کا مطیع اور فرمانبردار ہونا چاہیے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ خود اپنے آپ پر ظلم کا روادار ہے۔ امتِ مسلمہ کی حیثیت پاسبان عالم کی ہے۔ اسے جہاں خود اپنے وجود سے اس کا اظہار کرنا چاہیے کہ حق پرست کے اوصاف کیسے ہوتے ہیں وہیں اہلِ عالم کے لیے اس کی حیثیت بشیر و نذیر کی ہے۔ دین کی خدمت یہی ہے کہ ہم خود دین پر عمل پیرا ہوں۔ دین کے مضمرات کا وقوف ہمیں حاصل ہو اور دنیا کو حق کا پیغام دلآویز انداز میں پیش کریں۔ اور اس کی سعی و جہد میں کسی کوتاہی کو درآنے کو گوارا نہ کریں۔

دین کی اس خدمت کے محرکات پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ محرکات بالکل فطری اور جامع ہیں۔ ان محرکات میں اصل محرک تو خدا کی خوشنودی اور اس کی رضا کی طلب ہے۔ کیونکہ خدا کی رضا اور خوشنودی سے اعراض اپنی ہلاکت او ر تباہی کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا۔
دوسرا محرک خدا کے بندوں کی خیرخواہی کا جذبہ ہے۔ جو خود دین بھی ہے اور ہماری فطرت بھی۔ جس شخص کے دل میں بندگانِ خدا کے لیے خیرخواہی کا جذبہ نہ پایا جائے وہ انسان ہی نہیں ہے، مسلم اور مومن ہونا تو الگ بات ہے۔ حضور ﷺ کا ارشادہے:
اَحَبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ تَکُنْ مُسْلِمًا۔
’’جو اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی دوسرے سبھی انسانوں کے لیے پسند کرو جب ہی تم مسلم ہوسکتے ہو۔‘‘

دود و محبت اور خیرخواہی کا جذبہ ایک فطری اہم محرک ہے۔ جس کا تقاضا ہے کہ ہم دین کی اشاعت اور اس کے قیام کے لیے فکر مند ہوں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو خواہ ہم اپنی جگہ کتنے ہی بڑے دین دار اور خدا پرست کیوں نہ ہوں، ہم نے نہ دین کو سمجھا اور نہ خود اپنی اس فطرت سے آشنا ہوسکے، جس فطرت پر خدا نے ہماری تخلیق کی ہے۔ دین آفاتی ہے اس کے عالمگیر ہونے کی تمنا مومن شخص کی سب سے بڑی آروز ہونی چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو ایک بستی کے ہلاک کرنے کا حکم دیا۔ فرشتوں نے کہا کہ اس بستی میں ایک ایسا شخص بھی ہے جو خدا کی اطاعت و عبادت میں حد درجہ مصروف رہتا ہے۔ خدا نے فرمایا کہ بستی کو ہلاک کرنے کا کام اسی سے شروع کرو، کیوںکہ فسق اور نافرمانیوں کو دیکھ کر اسے اس کی کوئی فکر نہ ہوئی کہ لوگوں کا کیا حال ہے۔‘‘ (مسند احمد)

دین کی خدمت انجام دینے کے لیے تیسری محرک چیز یہ فکر ہے کہ دنیا سے فساد اور بگاڑ کا خاتمہ ہو۔ کیونکہ خدا کو فتنہ و فساد اور کسی طرح کا بگاڑ پسند نہیں ہے۔ قرآن میں ہے:
اَحْسِنْ کَمَا اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ وَلَا تَبْعِ الْفَسَاد فِی الْاَرْضِ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ۔
’’لوگوں کے ساتھ تیرا رویہ احسان کا ہونا چاہیے۔ جس طرح خدا نے تجھ پر احسان فرمایا ہے اور زمین میں فساد کے جویا نہ ہو۔ خدا فساد اور بگاڑ پیدا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

اس آیت سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ مفسد ہیں جن کا رویہ لوگوں کے ساتھ احسان اور حسنِ سلوک کا نہیں ہوتا۔ اگر ہم جان لیں کہ ہمارا لوگوں کے ساتھ جو رویہ ہونا چاہیے وہ احسان اور حسنِ سلوک کا ہے، نہ کہ تعصب اور دشمنی کا۔ ہماری پہچان ظالم اور جابر کی نہیں بلکہ محسن کی ہونی چاہیے۔ اور اس بنیادی تعلیم کو انسان اگر نہ اختیار کرے تو دنیا میں ظلم و ستم اور بگاڑ یا فساد کا نام و نشان باقی نہیں رہ سکتا۔

خدمتِ دین کا ایک اہم محرک یہ ہے کہ دین کی خدمت اور اس کے حقوق کی پاسداری کے بغیر ہماری شخصیت کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ جبکہ زندگی اور شخصیت کی تکمیل غایتِ حیات ہے۔ جب تک ہم اہل عالم کو فلاح یاب اور حقیقی مسرت سے آشنا دیکھنے کے آرزو مند نہ ہوں ہماری زندگی اور ہماری شخصیت ناقص ہی رہے گی۔ اور اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہم نے دین کو کامل طور پر نہیں ناقص طور پر اختیار کیا ہے اور اس فریب میں مبتلا ہیں کہ ہم صادق اور سچے دیندار ہیں۔

خدمتِ دین اور دین کی پیروی میں ایک پہلو جمالیات کا بھی ہے۔ دین اپنے آخری تجزیہ میں لطافتِ احساس اور جمالیاتی احساس کا نام ہے، پھر دین فکر اور عمل دونوں ہی سے تعلق رکھتا ہے۔ حسن و جمال کا احساس و اظہار شعور و فکر کے آئینہ ہی میں نہیں بلکہ اس کا اظہار نیک اعمال کے پیکر میں بھی ہوتا ہے۔ اب جن لوگوں کو زندگی اور دین کے حسن و جمال کا شعور حاصل ہوتا ہے۔ ان کا قیام دنیائے حسن و جمال میں ہوتا ہے، وہ یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی دنیا میں قبح یا کوئی بدہیئتی پائی جائے۔ انھیں جمالیاتی حظ بھی حاصل ہوگا اور اس سے کبھی وہ محروم ہونا گوارا نہیں کرسکتے۔ یہ وہ چیز ہے جو کسی کو خدمتِ دین سے بے گانہ نہیں رہنے دے گی۔ کیونکہ اس سے خود اس کی ذات پر حرف آرہا ہوگا، دین ہماری پہچان ہے اور کیا ہی اچھی پہچان ہے یہ!
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے رفقاء کو اصل دین اور اس کی غرض و غایت سے باخبر رکھنے کی کوشش کریں۔ سب سے اہم کام یہ ہے کہ ہم کو شخصیتوں کی تعمیر و تکمیل کی فکر دامن گیر ہو۔ یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جو ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے۔ سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ ہمارا وجود اپنی تکمیل سے نا آشنا نہ رہے۔ دنیا کے لیے ہم باعثِ رحمت ہوں۔ ہمارا وجود زمین کے لیے بارِ گراں نہ ہو۔ ہم مایوسی میں مبتلا لوگوں کی مایوسی چھین لیں اور انھیں حقیقی اور معتبر خوشیوں کی خبردیں۔

Seek perfection for your self and happiness for all.
’’اپنے لیے تکمیل کو کافی سمجھو اور سب کے لیے خوشی کے خواہاں ہو۔‘‘

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights