حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار: دہشت گردی کے تباہ کن آلات

ایڈمن

انسانی سماج کے لئے نہ تو جنگ نیا لفظ ہے اور نہ دہشت گردی۔ انسانی معاشرہ کے آغاز سے آج تک اور مختلف تہذیبوں کی ترقی سے تباہی تک کی تاریخ کے صفحات پر ان کی مہر لگی صاف دکھائی…

انسانی سماج کے لئے نہ تو جنگ نیا لفظ ہے اور نہ دہشت گردی۔ انسانی معاشرہ کے آغاز سے آج تک اور مختلف تہذیبوں کی ترقی سے تباہی تک کی تاریخ کے صفحات پر ان کی مہر لگی صاف دکھائی دیتی ہے۔ انسانیت، محبت، امن اور خدا پر ایمان و یقین رکھنے والے افراد اور ان کے سربراہان کی بھی اس سلسلے میں کارگزاری کوئی اطمینان بخش نہیں ہے۔رہے وہ،جن کا کوئی مذہب ہی نہیں۔۔۔ ان کی بات ہی الگ ہے، انہوں نے اپنے اپنے ازم کی تبلیغ اورفکر و فلسفہ کی ترویج کے لئے وقتاً فوقتاً اس لعنت کا سہارا لینے سے گریز نہ کیاہے اور نہ کر رہے ہیں۔اس کی قریبی مثال شام میں ظالموں کے ذریعہ کیمیائی گیس سے سینکڑوں لوگوں کا جابرانہ اور وحشیانہ قتل ہے۔اس بارے میں ابھی تک اس بات کا انکشاف ہی نہیں ہو سکا ہے کہ حقیقت میں یہ حملہ کیا کس نے!!محض اٹکل کے تیر چلائے جا رہے ہیں اور ایک دوسرے پر الزام در الزام کا سلسلہ جا ری ہے۔ماضی کے تلخ تجربات کو دیکھتے ہوئے اس بابت یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حقیقت کے ادراک کے باوجود انجام کار کوئی مثبت چیز سامنے آئے شاید ہی ممکن ہے،کیونکہ کہ یہ سارا کا ساراکھیل اپنے مفاد اور محض اپنے مقصد کی حصولیابی کی خاطر ہوا ہے۔
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی نام نہاد فتح وکامرانی کی ہوس اور خواہشِ اقتدار نے انسانوں کو ہر دور میں جنگ کے نئے نئے وسائل کی تلاش میں لگائے رکھا ہے۔اوراسی سبب جسمانی جنگ، کارکردگی میں مہارت، تیر، تفنگ ، تلوار، برچھی ، گولی ، بندوق،توپ ، بارود، بم وغیرہ کی حدیں پار کرتے ہوئے آج انسان کیمیائی ہتھیاروں اور میزائل کے ذخیرے پر کھڑا نہ صرف خود اپنی ہلاکت کا سامان کر رہا ہے، بلکہ نسل انسانی کی تباہی کی جانب ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے اب تباہ کن حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش میں لگا ہوا ہے۔ایسے حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار جن کی مدد سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو پل بھر میں موت کی نیند سلایا جا سکتا ہے یا پھر طرح طرح کی بیماریوں کی زد میں لا کر سسک سسک کرجینے مرنے کے لئے مجبور کیا جا سکتا ہے۔ جب تک لوگوں کو اس قسم کے حملے کی معلومات حاصل ہوں گی تب تک شاید بہت دیر ہو چکی ہوگی۔مجھے حیرت تو سب سے زیادہ اس بات کی ہے کہ جو قوم ان کی تلاش میں سب سے آگے آگے دوڑ رہی ہے وہی آج اس سے سب سے زیادہ ڈری اور سہمی ہوئی ہے اور اس کے لئے کہیں دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں، تو کہیں انسانیت کے تحفظ کا ریاکارانہ سہارا لے کرمعصوموں کا بے دریغ قتل عام کرنے سے بھی گریزاں نہیں ہے۔انھیں خوف ہے کہ کوئی نام نہاد غیر ذمہ دار حکومت یا دہشت گرد گروہ ایسے ہتھیاروں کو نہ تیار کر لے یا کہیں سے انہیں قبضہ میں نہ لے لے۔اوریوں ان کے اپنے خاص مقصد اور ایجنڈے کو زک پہنچے۔
قانون کی دھجیاں کس نے اڑائیں:
اس سلسلہ میں ماضی قریب جسے پورے انسانی عہد میں سب سے زیادہ پر امن ،تعلیم یافتہ اور ترقی پسند گردان کر ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے ،سب سے زیادہ تباہی اسی عہد میں ہوئی ہے۔اور اس بابت جو سب سے زیادہ خود کو امن کا نقیب ثابت کرنے اور مسیحائی کا گن گانے کی بات کر رہا ہے، اس نے انسانیت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔چنانچہ اس بارے میں یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ خلیج کی جنگ کے وقت امریکہ جیسے سپر پاور کو عراق کے نام نہاد حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کا ڈر سب سے زیادہ ستا رہا تھا ،کیونکہ ان کی خفیہ ایجنسیوں کی معلومات کے مطابق عراق نے ایسے ہتھیاروں کے سلسلے میں وسیع تحقیق کی تھی اور ان کو بڑی مقدار میں جمع کر رکھا تھا۔ تاہم اس جنگ میں ان کا خوف بے بنیاد ثابت ہوا۔اسی معاملہ کو لے کر ایران اور بعض دوسرے ممالک کو بھی دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں۔اور یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل مسلم ہے کہ ۲۰۰۹ ؁ء میں مبینہ طور پر ۱۱؍ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کا خوف امریکہ کوزیادہ ستانے لگاتھا۔ اس کو سب سے بڑا ڈر عراق جیسے ممالک سے تھا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ یہ ملک دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے اور ان کو ایسے ہتھیار بھی دے سکتا ہے یا پھر خود اس کا غلط استعمال کر سکتا ہے۔اسی خوف کی وجہ سے عراق پر حملہ کیا گیا اور ایسے ہتھیاروں کی تلاش وہاں آج بھی چل رہی ہے، جس میں فی الحال کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ملی ہے۔
اس تباہ کن تمام صورتحال کو دیکھ اور سن کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ ہتھیارکیا ہیں؟ یہ کس طرح کام کرتے ہیں؟ اور لوگ ان سے کیوں ڈرے ہوئے ہیں ؟اس کی حقیقت جانتے ہوئے اس کا استعمال دھڑلے سے کیوں ہو رہا ہے ؟اس سلسلے میں جب ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے کیمیائی ہتھیار کے طور پر کلورین گیس کا غلط استعمال جرمنی نے پہلی عالمی جنگ عظیم میں مؤثر طور پر کیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ گیس آسانی سے کسی بھی فیکٹری میں عام نمک کی مدد سے بنائی جا سکتی ہے اور اس کے ضمنی اثرات براہ راست پھیپھڑوں پر پڑتے ہیں۔ یہ گیس پھیپھڑوں کے ٹشوزکو جلا کر تباہ کردیتی ہے۔ جرمنی نے اس گیس کی کئی ٹن مقدار ماحول میں چھوڑ کر ایک قسم کا مصنوعی بادل بنانے میں کامیابی حاصل کی تھی اور ہوا کے رخ کے ساتھ اسے وہ دشمن کی طرف بھیجنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس گیس کی خوفناک طاقت کو ذہن میں رکھ کر ۱۹۲۵ ؁ء میں اس جیسے کسی بھی زہریلے کیمیکل اور بیماریاں پھیلانے والے جراثیم کے ہتھیار کے طور پر غلط استعمال کو محدود کرنے کے لئے ایک معاہدے پر دنیا کے زیادہ تر ممالک نے دستخط کئے۔ پھر بھی اس سلسلے میں چوری چھپے تحقیقی کام جاری رہا تاکہ ان کا استعمال اور بھی موثر اور منظّم طور پر کیا جا سکے۔ اس بابت تمام قواعد و قوانین کی دھجیاں اڑانے والے دوسری عالمی جنگ کے وقت جرمنی میں ہٹلر کے بدنام زمانہ گیس چیمبرزسے بھلا کون ناواقف ہوگا؟
تاریخی حوادث اور اس کے اثرات:
آج کل سائنسدان کیڑے مارنے والے ادویات میں پائے جانے والے بہت سے زہریلے کیمیکلز کو بھی مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لئے تجربات کر رہے ہیں۔ ان کیمیکلز کے ضمنی اثرات کی شدت کا اندازہ ہم ہندوستان میں بھوپال گیس حادثہ سے،جہاں یونین کاربائیڈ پیسٹی سائیڈز یعنی کرم کش ( کیڑے مار ادویات بنانے والی فیکٹری ) میں حادثہ کی صورت میں 2؍ دسمبر ۱۹۸۴ ؁ء کے دن ٹاکسک اور بیماریاں پھیلانے والے بیکٹیریا کے ذریعہ کچھ ہی لمحوں میں ہزاروں کی جانیں سوتے سوتے ہی چلی گئیں اور لاکھوں افراد آج بھی اس کے اثرات کو جھیل رہے ہیں، یعنی پیدائشی طور پر بچے معذور ہیں یا ایسی بیماریوں کی گرفت میں آ جاتے ہیں جن کی دوائیں بھی عموماََ دستیاب نہیں ہیں۔اسی طرح چھوٹے پیمانے پر ۱۹۹۵ ؁ء میں ’’مسنر و ‘‘نامی دہشت گرد تنظیم کے لوگوں نے ٹوکیو شہر میں اعصابی نظام کو متأثر کرنے والی گیس کا رساؤ کر کے ہزاروں لوگوں کو پل بھر میں زخمی کر دیا اور بارہ لوگوں کو موت کی نیند سلا دیاتھا۔ کہا جاتا ہے کہ صدام حسین کے سپہ سالاروں نے عراق میں کردوں کی بغاوت کو دبانے کے لئے ایسے ہی کسی کیمیائی ہتھیار کا استعمال کر کے ہزاروں بے گناہوں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا تھا۔موجودہ دور میں ہتھیاروں کے معاملے میں تکنیکی ترقی نے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں، جہاں انسانیت کے خلاف عمل کرنے والے لوگوں کو تازہ ترین ہتھیار قبضہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ بربادی اور دہشت پھیلا سکتے ہیں اور پھیلا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اب تک وسیع قتل عام والے ہتھیاروں کی پیداوارکے ذخیرہ اور استعمال پر پابندی نہیں ہے۔ اگرچہ بعض ممالک نے ان ہتھیاروں پر کنٹرول کے لئے اور ایٹمی ہتھیاروں کے قوانین کے لئے قرارداد بھی منظور کی ہوئی ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کئی طرح کی کانفرنسیں کی گئیں ،لیکن ان کا نتیجہ بھی سب پر واضح ہے۔
کون کتنا آگے:
تحقیقات کے مطابق ۱۹۸۵ ؁ء میں ۶۸۰۰۰؍ اعلی خطرناک ہتھیار تھے ، جن میں سے کچھ یعنی ۴۱۰۰؍ فعال ایٹمی ہتھیاراب بھی ہیں اور ۲۰۱۳ ؁ء تک پوری دنیا میں ۱۷۰۰۰؍ کل ایٹمی ہتھیار اب موجود ہیں۔ ان میں امریکہ کے پاس سب سے زیادہ۲۱۵۰؍ /۷۷۰۰؍ ہتھیار ہیں جبکہ روس کے پاس ۱۸۰۰؍ /۸۵۰۰؍، فرانس کے پاس ۲۹۰؍ / ۲۵۰؍،برطانیہ کے پاس ۱۶۰؍ / ۲۲۵؍،چین کے پاس ۲۵۰؍، ہندوستان کے پاس ۶۵؍ اور پاکستان کے پاس ۲۵؍ جوہری ہتھیار ہیں۔ ان سب کے علاوہ دنیا کے ۸۰؍ ممالک نے وسیع قتل عام والے کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار بنا لئے ہیں۔ امریکہ نے ۱۲۰۰؍ سے زیادہ جوہری ٹسٹ کیے ہیں تو روس نے تقریبا ۱۰۰۰؍، برطانیہ نے تقریبا ۴۵؍، فرانس نے ۲۱۰؍، چین نے ۵۰؍ اور ہندوستان نے تقریبا ۱۰؍ جوہری تجربے کیے ہیں۔ پاکستان نے بھی تقریبا ۱۰؍ کے آس پاس جوہری ٹسٹ کیے ہیں، ایران، عراق، شمالی کوریا، جنوبی کوریا اور لیبیا نے بھی رپورٹ کے مطابق ایٹمی ہتھیار کے پروگرامس چلا رکھے ہیں۔ یہی بات اسرائیل کے تناظر میں بھی کہی جا رہی ہے بلکہ اس نے تو تمام حدود کو پار کر دیا ہے۔
کتنے خطرناک ہیں یہ:
لیکن انسانیت کے لئے اس کی زہر ناکی اور خطرناکی کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔حالانکہ تحقیقات بتاتی ہیں کہ یہ حیاتیاتی کیمیائی عناصر جاندار تک جیسے ہی پہنچتے یا اس کے جسم میں داخل ہوتے ہیں ،اپنا عمل شروع کر دیتے ہیں اور اس کا انجام آخر کار زندگی کاخاتمہ ہی ہوتا ہے۔یہ کس طرح عمل کرتے ہیں اس بابت ماہرین کا کہنا ہے کہ اولین صورت میں یہ عضلات کے معلومات کے نظام کی خلیات کے لئے ’’ایسی ٹل کولین‘‘ نامی کیمیکل کا اخراج کرتے ہیں، اور چونکہ پٹھوں کا بھی نظام کی ترسیل پر ہی انحصارہوتا ہے۔اس لئے اگر اعصابی نظام کے خلیات سے ایسی ٹل کولین کو نہ ہٹایا جائے تو ہمارے جسم کااعصابی نظام پورے طور سے مسلسل تنگ ہونے لگتا ہے۔ اور اگر ایساسینہ اور پیٹ کو الگ کرنے والے ڈائی فرام کے پٹھوں کے ساتھ ہوا توانسان گھٹ کر مر جائے گا۔ایسی ٹل کولین کو اعصابی نظام کے خلیات سے دور کرنے کے لئے کولینسٹریز نامی اینزائم کی ضرورت پڑتی ہے۔جبکہ سیرین اور وی ایکس ،جیسی زہریلی گیسیں مندرجہ بالا اینزائم سے رد عمل کر کے ایسی ٹل کولین کو ہٹانے کے کام میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں، نتیجہ میں مبتلا شخص کی موت کچھ ہی لمحات میں دم گھٹنے سے ہو جاتی ہے۔ ہمارے پھیپھڑوں میں مندرجہ بالا گیسوں کی ایک ملی گرام کی مقدار ہی زندگی کو ختم کرنے کے لئے کافی ہے۔ مسٹرڈ اور لیوسائٹ جیسی گیسوں کے ضمنی اثرات جلد پر چھالے اور پھیپھڑوں کے ٹشو کی تباہی کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔مسٹرڈ گیس کا استعمال تو پہلی عالمی جنگ کے وقت سے ہی ہے۔ اس کی دس ملی گرام کی مقدار ہی موت کے لئے کافی ہے۔ ویسے تو بہت سے زہریلے کیمیکل ہیں جن کا غلط استعمال کیمیائی ہتھیاروں کے طور پر ہو سکتا ہے، لیکن مندرجہ بالا کیمیکل سب سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ زیادہ تر بیماریوں کی جڑ میں جراثیم ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اینٹی بایوٹکس اور اسی طرح کی دیگر ادویات کی تلاش سے پہلے طاعون اورہیضہ جیسی بیماریوں نے لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کی جانیں لی ہیں اور آج بھی انسان ایڈز،کینسراور سارس جیسی بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کے راستے تلاش کرنے میں لگا ہوا ہے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ دوسری طرف انسان انہیں بیکٹیریا کو ہتھیار کے طور پراستعمال کر کے ہزاروں لاکھوں جانداروں کی جان لینے کی فکر میں الجھا ہوا ہے۔اس بات سے سے واقف ہوتے ہوئے بھی کہ یہ صورتحال نیوکلیئر اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے کہیں زیادہ تباہ کن اور خطرناک ہے۔ جو ممالک دشمن کی دہائی کا رونا رو کر یا اپنی دادا گری دکھا کراس کی افزائش میں لگے ہوئے ہیں اگر خدا نخواستہ کچھ ہو گیا تو وہ کیا کریں گے ؟ظاہر ہے ایسے حملے کے لئے کسی جدیداسلحہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انہیں تو بس چھوٹے موٹے جانوروں، پرندوں، ہوا، پانی، انسان وغیرہ کسی بھی ذریعہ سے پھیلایا جاسکتا ہے۔ سارس کو پھیلانے میں انسانی دماغ کس طرح ذریعہ بن رہا ہے۔ یہ اس کی محض ایک مثال ہے۔
تنویمی معمول:
سائنس داں کھاد پر بھی تحقیق میں لگے ہوئے ہیں جبکہ یہ ثابت شدہ ہے کہ اگر ہم انسانی یا حیوانی فضلہ سے بنی کھاد کو کنویں، تالاب یا پانی کی ٹنکی میں ملا دیں تو اس پانی کوپینے والے طرح طرح کی خطرناک اور جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے کیونکہ کھاد میں طرح طرح کے خطرناک اور جان لیوا جراثیم پلتے ہیں۔ اس قسم کے حملوں کے بعد ہم ایک نادیدہ دشمن کے رحم وکرم پہ ہوں گے ، جس کا نہ چہرہ ہو گا نہ شناخت۔۔۔ ایسے میں کسی کے خلاف ہتھیار اٹھائے جائیں تو کیسے؟ اور اگر کسی طرح ان کے بارے میں پتہ بھی کر لیں تو بھی کوئی بڑا فائدہ نہ ہو گا۔ یوں کبھی نہ ختم ہونے والا حادثوں کا سلسلہ شروع ہوگا ،اس لئے کہ یہ کوئی بیماری پھیلانے والے عام بیکٹیریا تو ہیں نہیں، بلکہ جینیاتی طور پرتباہ کرنے والے ہیں، جن کے خلاف عام اینٹی بائٹک بھی کام نہیں کر پائیں گی۔ اور اس کی وجہ سے وہ ہوا ، جسے ہم سانس کے ذریعے اندر لے جاتے ہیں، جو کھانا ہم کھاتے ہیں اور جو پانی ہم پیتے ہیں سب آلودہ ہو چکا ہوگا۔جب تک ہم ان کے خلاف کارگر دوا کی تلاش کریں گے تب تک شاید بہت دیر ہو چکی ہوگی اوراس وقت تک شاید پوری انسانیت ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہوگی،حالانکہ یہ حیاتیاتی ہتھیار کے استعمال کا سب سے سستا لیکن بھونڈا طریقہ ہے۔
اب ذرا کچھ ایسی مثالوں پر توجہ دیتے ہیں جوحقیقی خطرہ ہیں اور لوگ جن سے سب سے زیادہ ڈرتے ہیں۔اینتھریکس(Anthrax) پھیلانے والے بیسلس اینتھریسس (Bacillus anthracis) نامی بیکٹیریا کو حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ بکٹیریا متعدی نہیں ہے اور بنیادی طور پر جانوروں میں پھیلتا ہے، پھر بھی کھانے پینے سے سانس کے ساتھ اس کے جراثیم ہمارے جسم کے مسامات میں پہنچ کرجان لیواثابت ہو سکتے ہیں۔یہاں تک کہ ہماری جلد میں بھی اگر کوئی زخم ہے تو وہاں بھی یہ اثر انداز ہو سکتے ہیں اور کچھ ہی وقت میں اس بیماری کی جان لیوا علامات پیدا ہو سکتی ہیں۔سانس کے ساتھ ہمارے جسم میں آئے’’ سپورز‘‘(Spores)سات سے دس دن کے اندر داخل ہو کر بیماری کی علامات ظاہر کرنے لگتے ہیں۔ بخار، کھانسی، سردرد، قے، سردی، کمزوری، پیٹ اور سینے میں درد، سانس لینے میں دقت وغیرہ اس کی ابتدائی علامات ہیں، جو کچھ گھنٹے سے لے کر کچھ دن تک رہتے ہیں۔ پھر یہ علامات کچھ وقت کے لئے غائب بھی ہو سکتی ہیں۔ دوسری بار ان علامات سے سانس کی تکلیف، پسینے کے ساتھ بخار ۔۔۔نیزجلد پر نیلے دھبے ۔۔۔نتیجہ بالآخر موت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
کھانے پینے کے ساتھ اینتھریکس کے اسپورز ہماری غذائی نالی میں پہنچ کرمتلی ، خونی قے، خونی اسہال، پیٹ درد وغیرہ کی علامات پیدا کرتے ہیں۔ ۲۵؍ سے ۶۰؍ فیصد لوگوں کی موت بھی ہوجاتی ہے۔ جلد پر اس کا اثر چھوٹے چھوٹے دانوں کے طور پر نظر آتا ہے جو جلد ہی پھوڑے کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس سے پانی کی طرح پیپ بہتی رہتی ہے۔ ابتدائی علامات کے وقت اس کی تشخیص ” سپرو فلاکسیسین (Ciprofloxacin) نامی ” اینٹی بایو ٹک ” کے ذریعے سے کی جا سکتی ہے لیکن بعد میں صرف اس ’’ بیکٹیریا‘‘ کو تباہ کیا جا سکتا ہے۔۔۔.بیماری کو نہیں۔
اکیسویں صدی کے اوائل سے اس بیکٹریا کے سپورز کو پاوڈر کی شکل میں ڈاک کے ذریعہ سے پھیلانے کی کوشش بھی دیکھنے میں آئی تھی ،جس سے امریکہ کے لوگ کافی دہشت زدہ ہو گئے تھے۔ اسمال پاکس جسے ہم چیچک کے نام سے بھی جانتے ہیں، صدیوں سے ایک جان لیوا بیماری کے طور پر بدنام رہی ہے۔ اس کی زد میں آکر لاکھوں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور آنکھیں تو اس سے بھی کئی گنا زیادہ لوگ گنوا چکے۔ کتنے ہی چہرے اور جسم پر مستقل خوفناک داغوں کے ساتھ بدصورتی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں ویری ولا نامی وائرس سے پھیلنے والی اس بیماری سے ویکسی نیشن کی مدد سے پوری دنیا کو نجات مل گئی۔ ۱۹۷۵ ؁ء کے بعد اس بیماری کا کوئی مریض سامنے نہیں آیا ہے پھر بھی لوگوں کو خوف ہے کہ کہیں کوئی دہشت گرد گروہ یا کوئی سرپھرا فوجی آمر اس وائرس کے کسی رد عمل کے طور پرجارحیت کا استعمال کسی حیاتیاتی ہتھیار کی مدد سے نہ کر دے۔
اسی طرح’’ہیموریجک ‘‘(Hemorrhagic) بخار پیدا کرنے والا آر اے نئے قسم کا ابولا وائرس بھی حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس وائرس میں مبتلا مریض کی شناخت سب سے پہلے ۱۹۷۵ ؁ء میں ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں ہوئی تھی۔اس کے انفیکشن کے اثرات ۲؍ سے ۲۱؍ دنوں کے اندر نظر آتے ہیں۔ بخار، سر درد، جوڑوں اور پٹھوں میں درد وغیرہ اس کی ابتدائی علامات ہیں، بعد میں دست، قے اور پیٹ درد کی علامات بھی پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ مریضوں میں جلد پر ددوڑے، لال آنکھیں اور بیرونی اور اندرونی کمزوری وغیرہ علامات بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔اس بیماری سے کچھ مریض خود ٹھیک ہو جاتے ہیں توبہت سے مر بھی جاتے ہیں ۔۔۔اور ایسے لاکھوں کیس موجود ہیں۔
’’باٹیولن بیکٹیریا ‘‘( Botyulin bacteria) کے ذریعہ سے پیدا زہر کے ایک گرام کا اربواں حصہ ہی ہمارے جسم میں’ لقوہ ‘ اور فالج پیدا کرنے کے لئے کافی ہے۔یہ زہر اعصابی خلیوں سے ان کیمیکلز کا اخراج روک دیتا ہے جن کی طرف سے پٹھوں کا داخلہ ہوتا ہے۔ جانوروں میں منہ کھر بیماری پھیلانے والا بیکٹیریا بھی حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ساتھ ہی، ان وسائل کا استعمال دہشت گردانہ سرگرمیوں،اور ہتھیاروں کے لئے تحقیق اور تعمیر پر خرچ کیا جا رہا ہے،جبکہ ان کا استعمال دوسرے مثبت کاموں میں کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گرد حملے نہ صرف زندگی چھینتے ہیں، بلکہ صحت کی امید اور لوگوں کی توقعات کا بھی قتل کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ انفراسٹرکچر، رہن سہن اور رہائش، کھیت کھلیان، پل، ہسپتال اور باقی سہولیات کو بھی بگاڑ دیتے ہیں۔ اس سے بنیادی ضروریا ت جیسے بجلی، پانی وغیرہ کی ترسیل میں بھی رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ قابلِ کاشت زمین زہریلی ہو جاتی ہے، سڑکوں اور گلیوں میں بیریر لگا دئیے جاتے ہیں اور لوگوں کی ان تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔
حیاتیاتی و کیمیائی ہتھیار کا فرق:
یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہ حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار بنیادی طور پر دو مختلف نوعیت کے ہتھیار ہیں۔ حیاتیاتی ہتھیاروں میں ہمیشہ کسی جاندار فنگس، بیکٹیریا یا جاندار نما اجسام جیسے وائرس کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی مدد سے دشمن کو ہلاک یا مفلوج کیا جا سکتا ہے۔ حیاتیاتی ہتھیار کو چلانے کے بعد سے لے کر اس کے کارگر ثابت ہونے تک عموماً کچھ گھنٹوں سے کچھ دن لگتے ہیں یعنی ہتھیار کے چلائے جانے اور دشمن کی ہلاکت کے درمیان کچھ وقت حائل ہوتا ہے کیونکہ ان اجسام کو پلنے، بڑھنے اور پھر کام دکھانے میں وقت لگتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ حیاتیاتی ہتھیار کا مقصد دشمن کو ہلاک کرنے سے زیادہ مفلوج کرنا ہوتا ہے تاکہ دشمن پر زیادہ سے زیادہ دھاک بٹھائی جا سکے۔ موجودہ دور میں یہ ہتھیار براہ راست انسان کو نقصان پہنچانے، فصلوں کی تباہی، زمین کی تباہی یا پھر مال مویشی کے خلاف بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ ان کا اپنا اپنا طریقِ مبارزت ہوتا ہے جو اس میں استعمال ہونے والے ذریعے پر منحصر کرتا ہے۔
کیمیائی ہتھیاروں کا عمومی مقصد دشمن کی ہلاکت ہوتا ہے۔ کیمیائی ہتھیار اسی غرض سے بنائے جاتے ہیں کہ ان کی مدد سے فی الفور دشمن کا خاتمہ کیا جا سکے۔ کیمیائی ہتھیار کی عام اور قدیم ترین قسم دشمن کے علاقے میں گھس کر یا اپنے علاقے کو چھوڑتے وقت پانی کے ذخائر کو زہر آلود کر دینا ہوتا تھا جس کی مدد سے دشمن کو زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچایا جا سکے۔ اس کی مثالوں میں ویت نام میں ایجنٹ اورینج اور افغانستان میں روس کی جانب سے زہر وغیرہ کو پانی میں ملانا شامل ہیں۔
تاہم یہ ہتھیار جنہیں ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن یعنی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کہا جاتا ہے، اب ایک طرح سے ماضی کا قصہ ہیں۔ نئے دور کی جنگ اب اس سے کہیں زیادہ جدید ہو چکی ہے۔ اب موسمیاتی طرز کو کنٹرول کرنے، بارش برسانے یا کسی علاقے سے بارش کو یکسر ختم کر دینے، زلزلے اور دیگر ’’قدرتی‘‘ تباہی جیسے طوفان برپا کرنے جیسے ہتھکنڈے استعمال ہو رہے ہیں۔اور ظاہر ہے اس طرح کے حملوں کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ لوگوں کو کھانا بھی نصیب نہیں ہوگا۔ پانی پینے کے قابل نہیں ہو گا۔ عمارتیں بری حالت میں اور ٹوٹی پھوٹی ہوں گی۔صحت کی سہولیات کا ملنا دوبھر ہو جائے گا اور دشمنی ختم ہونے کے بعد بھی لوگوں کی زندگی قابل رحم ہوگی۔اس لئے دہشت گردی کے انتہائی وسائل کے خاتمہ اور انسانیت کے تحفظ کی خاطر سب کو صدق دلی سے ایماندارانہ کردار ادا کرناہوگا اورا س عفریت سے پوری دنیا کے ممالک کو مل کر نپٹنا ہوگا۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والی نسلوں کو ایک صاف اور صحت مند ماحول اورآب و ہوا دے سکیں گے۔
ماحصل:ان سب کو دیکھتے ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے حملے سے بچنے کے لئے ہمارے پاس کوئی طریقہ ہے۔ ظاہر ہے جواب نفی میں ہوگا ،حالانکہ اب اس بات پر بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔جہاں تک کیمیائی ہتھیاروں کے حملے سے بچنے کا سوال ہے، اصل میں ہمارے پاس کوئی ٹھوس اور مؤثر طریقہ کارموجود نہیں ہے۔ جنگ کے علاقے میں فوجی جوان تو گیس ماسک اور جلد کو پوری طرح صاف رکھنے والے سوٹ پہن کر اپنا دفاع کسی حد تک کر سکیں گے۔ مندرجہ بالا ملبوسات کے علاوہ مختلف قسم کے ویکسین اور مختلف قسم کی بایوٹکس کی بھاری خوراک حیاتیاتی ہتھیاروں کے حملے سے بھی بچاؤمیں ممد ومعاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن کسی ملک کے عوام، خاص طور پہ غریب اور ترقی پذیر یا پسماندہ ملک کے باسی اپنا دفاع کس طرح کر پائیں گے ؟ کیا وہ ریاستیں اپنے عوام کی حفاظت کے مندرجہ بالا اقدامات کا خرچ برداشت کر سکیں گے؟ چلیے، ایک لمحے کے لئے مان بھی لیا جائے کہ ایسا ممکن ہے تو کیا مندرجہ بالا اقدامات کافی ہوں گے؟ اس پر بھی سوچنے اور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

محمد علم اللہ اصلاحی،نئی دہلی

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں