حلقہ کی جان ۔۔ خالہ جان

ایڈمن

تہنیت آفرین  مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیںممبر مجلس نمایندگان جماعت اسلامی کی فعال رکن اور ممبئی میٹرو کی ناظمہ محترمہ سلمیٰ بیگ صاحبہ کی ممدوح و محبوب شخصیت کسی تعارف…

تہنیت آفرین

 مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

 تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

ممبر مجلس نمایندگان جماعت اسلامی کی فعال رکن اور ممبئی میٹرو کی ناظمہ محترمہ سلمیٰ بیگ صاحبہ کی ممدوح و محبوب شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ محض بیس سال کے عرصے میں پورے ممبئی اور تھانے شہر کو اقامت دین کی سربلندی اور سرفرازی سے سرشار کرنے کے لیے کوشاں رہنے والی سلمیٰ بیگ صاحبہ پانچ جولائی ١٩٥١ کو ضلع جونپور, یوپی( انڈیا )میں پیدا ہوئیں۔١٩٦٥ میں شادی کے بعد زیادہ تر قیام ممبئی میں ہی رہا۔١٩٨٠ میں اپنے شریک حیات مرزا ظفر بیگ کے ساتھ بحرین منتقل ہو گئیں۔

بحرین میں 21 سالہ قیام کے دوران جمیعۃ الاصلاح کے تحت چلنے والے ادارے دارالایمان کے شعبہ خواتین سے منسلک رہیں۔اور ناظمہ کے فرائض انجام دیئے ۔ایک سچی مومنہ کی حیثیت سے اپنی روح اور ایمان کو تروتازہ رکھنے کے لیے وہ ایسے لوگوں اور مجلسوں کی تلاش میں رہتیں جو انہیں دین سے قریب سے قریب تر کر سکیں اسی جستجو اور علمی شوق کے سبب انہوں نے پورے قرآن کا لفظی ترجمہ مع تفسیر مکمل کیا۔ساتھ ہی تجوید القرآن کی بھی وہ ایک اچھی طالبہ رہیں۔دارالایمان میں انہوں نے ترجمہ قرآن، تجوید القرآن، عربی گرامر، تربیتی کلاس اور بچوں کے لیے ناظرہ کلاسز وغیرہ کا نظام قائم کرنے میں ایک بڑا اہم رول ادا کیا۔ اپنے خلوص اور اخلاق کی وجہ سےوہ ہر خاص و عام کے دل میں گھر کر گئیں۔

٢٠٠١ میں وہ مستقل طور پر ہندوستان آگئیں اور جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کی۔ ضلع تھانہ کے اہم شہر میرا روڈ کو انہوں نے اپنا مسکن بنایا۔ بیس سال پہلے نشوونما پاتے اس علاقے میں انہوں نے دین کی آبیاری کے لئے قرآن کی تعلیم و تفہیم کے تخم بوئے اور روح کی غذا کا سامان اس طرح کیا کہ سب سے پہلے قرآن ترجمہ و تفسیر کی کلاس شروع کی۔

جو ہے پردوں میں پنہاں چشم بینا دیکھ لیتی ہے

زمانے کی طبیعت کا تقاضا دیکھ لیتی ہے

چنانچہ ان کی ہم مزاج خواتین ساتھ آتی گئیں اور کارواں بنتا گیا۔ دین کی تعلیم و تفہیم کے وہی تخم آج ثمردار درخت بن چکے ہیں۔ اپنے بےپایاں خلوص،  بے پناہ ایثار اور مادرانہ شفقت کی وجہ سے وہ ہر خاص و عام کی “خالہ جان” بن گئیں۔ جماعت اسلامی کی اہم رکن کی حیثیت سے انہیں مختلف اوقات میں مختلف ذمہ داریاں سونپی گئیں جو انہوں نے بفضل تعالیٰ  بڑی حسن وخوبی سے انجام دیں۔

١)مقامی ناظمہ میرا روڈ ممبئی

٢) ناظمہ ویسٹرن زون ممبئی

٣) ناظمہ ممبئی میٹرو

٤) اساسی ممبر موومنٹ فار پیس اینڈ جسٹس

٥)ممبر شعبہ تربیت ِخواتین مہاراشٹر

٦) ممبرمجلسِ شوریٰ ممبئی میٹرو

 ٧) ممبر مجلسِ نمایندگان جماعت اسلامی ہند۔

میرا روڈ میں انھوں نے خواتین کے لیے فی سبیل اللہ ترجمہ و تفہیم القرآن ، عربی گرامر، تجوید القرآن، اور اردو کلاسز  جبکہ بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے چلڈرن سرکل بڑے پیمانے پر چلایا۔ آج بڑی تعداد میں خواتین اور بچے ان کلاسز سے فیض یاب ہو رہے ہیں اور فارغ ہونے کے بعد ملک اور بیرون ملک اسی تعلیم و تربیت کی روشنی بکھیر رہے ہیں۔

 حکیم وحلیم ،متین ومدبر، دوررس و  قیافہ شناس، ذہین و فطین اور منکسر و مشفق ہونے کی وجہ سے وہ خواتین کی محبوب لیڈر بن گئیں۔ اپنے ماتحتوں سے مشورہ اور ان کی آراء کا احترام کرنے میں، مثبت اور کارآمد تبدیلیوں کو قبول کرنے میں وہ قطعاً کوئی قباحت محسوس نہ کرتیں۔ نئے افراد کی حوصلہ افزائی اور پرانے ساتھیوں پر اعتبار ان کی شخصیت کا خاصہ رہا۔چھوٹے بڑے ہر پروگرام کی تفصیل اور حاجات کا اندراج کرنا، انہیں فائل کرنا، تمام کلاسز کی حاضری و کارکردگی کا مستقل جائزہ لینا اور ان کو بہتر بنانا، اپنے اسٹوڈنٹس اور ساتھیوں کے غم و تکلیف میں شریک رہنا ان کا مزاج تھا۔وقت کو ضائع کرنا گویا ان کی ڈکشنری میں تھا ہی نہیں۔ وہ ایک طرف سلائی کڑھائی بُنائی، فیبرک پینٹنگ کی ماہر تو دوسری طرف لذیذ پکوان بنانے کی شوقین اور بہترین میزبان تھیں۔ شگفتگی ،بذلہ سنجی، عبقریت، نفاست ، نظافت، اردو نثرو شاعری کا ادبی ذوق ،علم دوستی، سادہ اور اچھوتے انداز بیان کی وجہ سے لوگ انکی صحبت میں بہت لطف اور سکون و اپنائیت محسوس کرتے۔ بلاشبہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہی تو تھیں!

‌ماہ رمضان اور مئی کی تعطیلات میں وہ خواتین کے لیے ایسے پروگرام ترتیب دیتیں کہ خواتین درس وتدریس میں مصروف ہو جاتیں۔ان کی سرپرستی میں کیا جانے والا ماہ رمضان کا دورہ تفسیر القرآن پورے تھانہ اور ممبئی شہر میں مشہور ہے۔ خواتین دور دور سے اس میں شرکت کی خواہاں رہتیں۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی ہند کے تحت حلقہ خواتین کے ذریعے چلنے والے مختلف عملی و تربیتی پروگرام ،مباحث، سیمینار، مہمات، ورکشاپس اور خدمت خلق کے کام خالہ جان کی سربراہی میں بحسن و خوبی انجام پاتے۔ خواتین ان کی ایک پکار پر دوڑتی چلی آتیں اور خالہ جان کی موجودگی کاموں میں زندگی کی لہر دوڑا دیتی۔ یقینا خالہ جان اپنے حلقہ کی جان تھیں۔

‌ جماعت کی ہدایات کے مطابق ٢٠١٧ میں   ایک عظیم الشان ویمنس کانفرنس بنام “میرا آنچل میری پہچان” وائی ایم سی اے گراؤنڈ میں منعقد ہوئی۔ سلمیٰ بیگ صاحبہ اور ان کی ممبئ ٹیم نےاسکےانعقاد اور کامیابی کے لیے انتھک محنت کی۔  انہوں نے مختلف صلاحیتوں اور قابلیتوں سے ٹرینڈ خواتین کی ایسی ٹیم تیار کر رکھی ہے جو اقامت دین کے لئے اپنا سب کچھ نثار کرنے کے درپے رہتی ہے۔یقیناجس ٹیم کا لیڈر اپنی ساتھیوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کام کرتا ہو اور ان کے مشوروں سے فیصلہ لیتا ہو وہ ٹیم ورک بہترین رزلٹ دیتا ہے۔ چنانچہ کانفرنس زبردست  کامیاب رہی اور کئی ہزار خواتین نےاس سے فیض اٹھایا۔

‌ جہد مسلسل اور اپنے آپ کو کبھی فارغ نہ رکھنے والی دین کی اس داعی پر خدا کی یوں نظر رحمت ہوئی کہ اپنے پاس بلا لینے کا پروانہ جاری کر دیا اور ایک مرض کو بہانہ بناکر کھڑا کردیا ۔ تقریبا دو سال خالہ جان نے اس مرض الموت کو انتہائی صبر و شکر  اور توکل سے جھیلا۔ طبیعت میں تھوڑا افاقہ ہوا تو پھر کلاسز آنے لگیں ۔ ٢٠١٩ میں اپنی زندگی کے آخری رمضان المبارک کا دورہ تفسیر مکمل کیا۔ پھر سخت بیماری کے باوجود جماعت کی ہدایت کے مطابق ایک نئے پروگرام کا خاکہ ترتیب دیا ۔”شریعت- میری زندگی میری محافظ ” کے نام سے خواتین کی ایک بڑی  کانفرنس کا کام نئےحوصلوں کے ساتھ شروع کیا۔ اس کانفرنس کی لانچنگ کسی پروگرام میں ان کی آخری شرکت تھی۔ جس میں انہوں نے ملازمت پیشہ خواتین کی صلاحیتوں اور طاقت کو اجاگر کیا۔ علم دین سیکھنے میں وقت کی قلت اور ان کی مصروفیت اور مجبوریوں کو محسوس کرتے ہوئے ورکنگ خواتین کے لیے نئی ترجمہ قرآن  کلاس کھولنے کا اعلان کیا۔ آج نہ جانے کتنی خواتین اس ترجمہ قرآن کلاس سے استفادہ کر رہی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک کامیاب عورت کا ہاتھ ہوتا ہے مگر یہاں خالہ جان کی کامیابی کے پیچھے ان کے شریک حیات مرزا ظفر بیگ کا ہاتھ  رہا ہے۔ بلکہ یہ وہ خوش قسمت خاتون ہیں جنہیں صرف شوہر ہی نہیں، ان کے خاندان کے ہر فرد نے مکمل سپورٹ کیا خالہ جان نے جس طرح  بچوں کی تربیت کرنی چاہی بچوں نے ا سے قبول کرلی، جس طرح کام کرنا چاہا گھر کے افراد  نے اپنا وقت اور صلاحیتیں خرچ کرنے میں سر تسلیم خم کیا چاہے وہ شوہر ہوں بیٹے بیٹیاں بہوئیں ہوں ، پوتے پوتیاں ہوں یا ناتی نواسے۔ بے شک خالہ جان دین کے احکامات کا مکمل عملی نمونہ تھیں۔ دین انہوں نے سب سے پہلے  اپنے خاندان ہی کو سکھایا اور اسے دین کا ایک مضبوط قلعہ بنایا ۔‌ وہ چاہتی تھیں کہ ہر مسلمان کا گھر بھی مدینہ کی ایک ریاست بن جائے۔

١٢ جنوری ٢٠٢٠ کو “شریعت -میری زندگی میری محافظ” کا نعرہ بلند کرنے والی دین کی اس بزرگ مگر فعال داعی پر مرض کی شدت کا ایسا غلبہ ہوا کہ وہ بستر سے جا لگیں اور ماہ رمضان کی پہلی تاریخ جس کا انہیں ہر سال شدت سے انتظار رہتا تھا، ٢٥ اپریل ٢٠٢٠ کو بڑی خامشی کے ساتھ وہ اپنے مالک حقیقی سے جاملیں۔  اکثر وہ حضرت عمر(رض) کا قول دہرایا کرتی تھیں” یہاں جاگو گے تب تو قبر میں سو پاؤ گے نا !” بے شک وہ دین کی محنت میں یہاں بہت جاگیں، اللہ سے امید  ہے کہ اب وہ اپنی قبر میں اطمینان کی ابدی نیند سو رہی ہونگی۔ انشا اللہ

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

 سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

آج ممبئی اور میرا روڈ میں ہزاروں خواتین ان کی کاوشوں سے فیضیاب ہو رہی ہیں اور دین کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں ۔ سچ ہے بعض شخصیات ایسی ہی ہوتی ہیں کہ دل ان کے بارے میں  بے اختیارکہہ اٹھتا ہے۔

سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا

 میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں