حق گوئی وبے باکی

ایڈمن

اسامہ خان، اعظم گڑھ۔ یوپی
حق گوئی ایک عظیم صفت ہے، یہ صفت انبیاء اور صالحین کی خاص صفت ہے۔ یہ ایک ایسا جرأتمندانہ فعل ہے جو حق وباطل میں تمیز کرنے اور ان دونوں کے فرق کو واضح کرنے کے لیے ضروری ہے۔ بغیر اس بات کی فکر کئے ہوئے کہ لوگ مخالفت پر آمادہ ہوجائیں گے، سازشیں کریں گے، حق کو اور حق گو کو مٹادینے کی کوشش کریں گے۔حق بیانی جتنی جرأتمندی کا کام ہے، اتنی ہی جرأتمندی کا کام حق کو سننا اور اسے تسلیم کرنا بھی ہے۔
موجودہ دور میں ایک نیا طریقہ ایجاد ہوا ہے حق کو بیان کرنے اور اس کی اشاعت کرنے کا، جس میں کچھ ڈپلومیسی کا رویہ یا گول مول بات کرنے کا انداز اختیار کیا جاتا ہے، یعنی حق کی اشاعت اس طرح کی جائے کہ کسی کو ناراضگی نہ ہو، اور سب خوش رہیں۔ کیا یہ واقعی حق گوئی ہے؟
انسان اللہ کی مخلوق ہیں، اللہ کا ہونا حق ہے، دین اسلام حق ہے، حضور پاکؐ سے افضل داعی اور حق گو کوئی نہیں ہوسکتا، یہ وہ حقائق ہیں جن سے ہمارے درمیان کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ جب حضورؐ اتنے واضح حق کی دعوت دینے نکلے اور حق وباطل میں فرق واضح کرکے آپؐ نے بیان کیا تو معاشرہ بوکھلا گیا، لوگ آپؐ کی حق گوئی پر ملامت کرنے لگے، اور انہوں نے آپؐ کا انکار کیا، گویا ؂
رات کو رات کہہ دیا میں
سنتے ہی بوکھلا گئی دنیا
عرب اس بات کو جانتے تھے کہ آپؐ جو بات کہہ رہے تھے وہ بہت ہی معقول بات ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اس کو نہیں مان رہے تھے، کیوں کہ ان کے اندر اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ سماج کے دھارے کے مخالف سمت میں اپنی کشتی چلاسکیں، ان کی یہ بزدلی ان کو لے ڈوبی، حق کو پھیلنا تھا، پھیلا، اور تسلیم کیا گیا، کیونکہ حق کی یہ روشنی اپنی راہ خود بنا لیتی ہے۔
ایسا ہردور میں دیکھا گیا ہے کہ حق کو لوگ مشکل سے تسلیم کرتے ہیں، اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں، ہم اس سلسلہ میں نمایاں طور پر امام حسن البنا شہید، سید قطب شہید، مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمہم اللہ کے نام لے سکتے ہیں، جنہوں نے حق کا پرچم بلند کیا، اور ان کی جان پر بن آئی، اور اس کے عوض انہیں طرح طرح کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔
اگر ہم مختلف ادوار کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ حق کی صفات میں سے ایک صفت اس کو جھٹلایا جانا بھی ہے، کیونکہ جب بھی صدائے حق بلند ہوتی ہے تو اسے جھٹلایاجاتا ہے، چنانچہ ؂
افضل کا مقدر ہے حق گوئی وبے باکی
حق بات کہی ہوگی جھٹلائے گئے ہوں گے
لیکن سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا ہم جو کہہ رہے ہیں وہ واقعی حق ہے، یا ہم نے کوئی حق بنارکھا ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیے نکلے تھے اور اس کی مخلوق کو خوش کرنے میں رہ گئے۔ اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ نہیں، جس بات کو ہم کہہ رہے ہیں وہی حق ہے، جس چیز کی ہم دعوت دے رہے ہیں وہی حق ہے، جس کی طرف ہم بلارہے ہیں وہی حق ہے، تو ہم جھٹلائے کیوں نہیں جاتے، ہمیں ملامت کا سامنا کیوں نہیں ہوتا۔
یہ ہماری حق گوئی کو ناپنے کا ایک اہم پیمانہ ہے، گرچہ اس کو حتمی نہیں کہا جاسکتا۔ اگر حق کہنے کے بات اس چیز کا سامنا نہیں ہوتا تو بہرحال ایک بار ضرور اس چیز کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہمارے حق کی حقیقت کیا ہے۔
آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم حق کو ثابت کریں اور باطل کو چیلنج کریں، اور اس کے باوجود باطل پر کوئی اثر نہ پڑے، اس کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہ آئے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم اس دور میں اپنا دعوتِ حق کا کام کررہے ہیں لیکن باطل کے ایوانوں میں اس کے سلسلے میں کوئی کھلبلی نظر نہیں آتی، کہیں ایسا تو نہیں کہ جس راستے پر ہم چل رہے ہیں وہ ڈپلومیسی کا ایسا راستہ ہوجس سے ہم حق وباطل دونوں کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہوں، اور نادانستہ طور پر اس سے حق کا چہرہ مسخ ہورہا ہو۔
اگر واقعی یہ بات ہے تو ہم نادانستہ طور پر باطل کا کام آسان کررہے ہیں، یہ صورت انتہائی تشویشناک ہے، اس کا فوری مداوا کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ صورتحال ابتر سے ابتر ہوتی چلی جائے گی، اور اس کو درست کرنا محال ہوجائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے طریقہ کار کا جائزہ لیں، اور اگر اس میں کوئی کمی ہے تو اسے درست کرنے کی کوشش کریں، اپنے اندر غلطیوں کو تسلیم کرنے کی جرأت پیدا کریں، حق کو حق ہی رہنے دیں، کسی کو خوش کرنے یا اس کے ذہن وفکر کے مطابق اس کو پیش کرنے کے لیے اس کی اصل میں خرد برد نہ کریں۔ آئندہ نسلوں کو اپنے کارِ خیر کا شاہد بنائیں تاکہ وہ ہماری گواہی دیں کہ ہم نے حق کے ساتھ انصاف کیا، اور اسے اس کی اصل صورت میں اللہ کے بندوں تک پہنچایا، کہیں ایسا نہ ہو کہ یوم آخرت میں ان کا ہاتھ ہو، اور ہمارا گریبان، اور ہم اپنی کارکردگی پر پشیمان ہوں

دسمبر 2013

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں