جہانِ نو ہورہا ہے پیدا،وہ عالم پیر مررہا ہے

ایڈمن

گزشتہ اتوار ۱۰؍ اگست ۲۰۱۴ء) کو یہ خبر ساری دنیا میں بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھی گئی کہ ترکی کے مرد آہن رجب طیب اردگان نے ترکی کے صدارتی انتخابات میں پہلے ہی راونڈ میں واضح اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرلی اور جمہوریہ ترکی کے، عوام کے ذریعہ راست منتخب کردہ ،پہلے صدر بن گئے۔یہ اردگان کی مسلسل نویں انتخابی کامیابی تھی۔ اس سے قبل وہ تین دفعہ عام انتخابات جیت کر وزیر اعظم بن چکے تھے۔ تین دفعہ ہی بلدیاتی انتخابات میں بھی وہ سرخرو ہوچکے تھے، اور دو دفعہ ترکی کی تاریخ کے اہم ترین ریفرنڈمس میں ترکی کے عوام نے ان کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ اس دفعہ بعض بڑی طاقتوں نے بھر پور زور لگایا کہ اردگان کامیاب نہ ہوں۔ لیکن ترکی کے عوام نے واضح اکثریت کے ساتھ اپنے محبوب قائد کو صدر منتخب کرکے شکوہ ترکمانی کے بھرپور مظاہرہ کی راہ ہموار کردی۔
اس انتخاب کو عالمی سطح پر بڑی اہمیت ملی۔ مبصرین کہہ رہے ہیں کہ یہ انتخابی نتیجہ صرف ترکی پر نہیں بلکہ سارے مشرق وسطی پر، اور کسی درجہ میں پوری دنیا پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ محض ایک فرد کی کامیابی نہیں ہے بلکہ ایک نئی عالمی قیادت کے ظہور کا مژدہ اور ایک فرسودہ طرز فکر اور از کار رفتہ نظام کی موت کا اعلان ہے۔
اس انتخاب کی اہمیت، اور اس میں عالمی دلچسپی کے سبب کو سمجھنے کے لئے جدید ترکی کی تاریخ، اس کی حالیہ ہمہ گیر ترقی اور اس کے بڑھتے عالمی اثر ورسوخ پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔
پہلی عالمی جنگ کے بعد، مغرب کے پالیسی سازوں نے اپنے روایتی حریف یعنی عالم اسلام کی جان نکالنے کے لئے سب سے کاری وار سلطنت عثمانیہ کے مرکز یعنی ترکی پر کیا تھا۔ خلافت کا خاتمہ کردیا گیا۔ سلطنت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔ اور ترکی میں کمال اتاترک کی مدد سے ایک ایسے استبدادی نظام کو نافذ کیا گیا جو کسی قیمت پر اسلام کی ہلکی سی جھلک کا بھی روادار نہیں تھا۔ سخت مذہب مخالف ظالم فوج کو ترکی کے نام نہاد سیکولرزم کا محافظ بنایا گیا۔ اس ظالم فوج نے نہ صرف چن چن کر ترکی سے مذہب اور مذہبی علامتوں کا قلع قمع کیا بلکہ مذہب سے تعلق کے جرم میں ایک وزیر اعظم کو پھانسی پر چڑھا دیا، اور کئی وزرائے اعظم اور اعلی سطح کے سیاستدانوں کو طویل قید وبند کی اذیتیں دے دے کر اسلام کو دیس سے نکالنے کی کوشش کی۔
آزمائشوں کے طویل سلسلوں نے ترکی کے اسلام پسندوں میں غیر معمولی بصیرت و فراست اورصبر و ضبط پیدا کیا۔ انہوں نے بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ حکمت عملی بنائی اور بتدریج اور غیر جذباتی انداز میں انتہا پسندی سے دور رہتے ہوئے،اسلام کے لئے راہ ہموار کرنے اور ترکی کی عظمت رفتہ یا ’’شکوہ ترکمانی‘‘ کی بحالی کی کوششیں شروع کیں۔اسلام پسندوں کی راہ میں کبھی عدالتیں مزاحم ہوتی رہیں تو کبھی فوج۔ کبھی ایوان صدر کو ان کی پیش قدمی روکنے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا تو کبھی اشرافیہ کو سڑکوں پر لاکران کا راستہ روکا گیا۔اس فوجی استبداد نے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے دیگر ملکوں کی طرح اپنے مغربی آقاؤں کے مفادات کو ہمیشہ اپنے عوام پر مقدم رکھا اور اپنے ملک کو کمزور اور پسماندہ بنائے رکھا۔
۲۰۰۱ میں جب رجب طیب اردگان واضح اکثریت کے ساتھ ترکی کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تو ترکی ایک افلاس زدہ، پسماندہ اور آئی ایم ایف کے قرضوں میں ڈوبا ہوا ملک تھا جس کی عالمی سیاست میں کوئی اہمیت نہیں تھی۔
اردگان کی حکومت نے پہلے مرحلہ میں ترکی کی ترقی پر توجہ دی۔ دس سال کے عرصہ میں ترکی کو دیوالیہ پن کی پستی سے نکال کر دنیا کی دوسری تیز ترین شرح ترقی کی حامل معیشت میں بدل دیا۔ فی کس آمدنی ساڑھے تین ہزار ڈالر (تقریباً آج کے ہندستان کے برابر) سے بڑھ کر چودہ ہزار ڈالر (تقریباً روس اور مشرقی یورپ کے اکثر ملکوں کے برابر) ہوگئی۔آئی ایم ایف کا ۲۴ بلین ڈالر کا قرض مکمل طور پر ادا ہوگیا ور ترکی عالمی طاقتوں کے چنگل سے آزاد ہوگیا۔
آج ترکی دنیا کی پندرہویں بڑی معیشت ہے۔اردگان کا ہدف ہے کہ ۲۰۲۳ تک ترکی دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شامل ہوجائے۔ آج ترکی کی تعمیراتی کمپنیاں ساری دنیا میں ایئرپورٹ، شاپنگ مالز اور دیگر تعمیراتی کام کررہی ہیں ۔ دنیا کے دوسو بڑے کنٹرکٹرز میں پینتیس کا تعلق ترکی سے ہے۔یورپ میں استعمال ہونے والے تقریباً آدھے ٹی وی سیٹ ترکی میں بنتے ہیں۔اٹلی سے زیادہ کاریں ترکی میں بننے لگی ہیں۔ آبی جہازوں کی تیاری میں چین، کوریا اور جاپان کے بعد ترکی چوتھے نمبر پر ہے۔جبکہ لوہے کی پیداوار میں وہ دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے۔
اس غیر معمولی معاشی ترقی نے ترکی کو ایک عالمی سطح کی طاقت بنادیا۔معاشی ترقی اندرونی استحکام کی بھی راہیں ہموار کرتی ہے۔ ترکی میں خوشحالی آئی تو اناطولیہ کے غربت زدہ علاقہ میں ایک نئی خوشحال کلاس کا ظہور ہوا اور اناطولیائی شیروں نے ترکی کو نئی طاقت اور توانائی بخشی۔ اسلام پسند وزیر اعظم کی وسیع النظر پالیسیوں نے کردوں کے دیرینہ مسئلہ کے حل میں اہم کردار ادا کیا۔ ترکی کے دستور اور کمال ازم کے ترک قوم پرست فلسفہ کے علی الرغم اردگان نے ترکیئلی Turkiyelilik کا فلسفہ دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ ترکی صرف ترکی النسل افراد کا نہیں ہے بلکہ کردوں سمیت مختلف نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے وہ تمام لوگ جو ترکی کے باشندے ہیں وہ ترکی قوم کا حصہ ہیں۔اس نئی سوچ نے ترکی کو ایک متحد قوم بن کر ابھرنے میں مدد دی۔
معیشت اور اندرونی استحکام کے علاوہ جس چیز نے ترکی کی اہمیت بڑھا دی وہ اس کی خارجہ پالیسی ہے۔ترکی روایتی طور پر امریکہ کا حاشیہ بردار ملک تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس کی مخصوص جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے ترکی عالمی طاقتوں کے آگے مجبور ہے۔ لیکن اردگان کی قیادت میں اور ترکی کے نہایت ذہین و فطین دانشور وزیر خارجہ احمد داود اوغلوکی مدبرانہ سرکردگی میں بہت تیزی سے عالم اسلا م کا یہ اہم ملک ایک اہم علاقائی طاقت بن کر ابھرا۔
داود اوغلو، ساری دنیا میں اپنے ایک مخصوص نظریہ کے لئے جانے جاتے ہیں جسے زیرو پرابلم فارین پالیسی کہا جاتا ہے جس کی انہوں نے اپنی معروف کتاب Strategic Depthمیں تفصیل سے وضاحت کی ہے۔پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات، دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز، اور عالمی طاقتوں کے درمیان توازن کی سیاست کے ذریعہ اپنا دائرہ اثر پیدا کرنا اور اسے وسیع کرتے رہنا، اس پالیسی کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ ترکی نے گزشتہ چند سالوں میں بہت ہوشیاری کے ساتھ تمام بڑی طاقتوں سے نہ صرف اچھے رشتے استوار کئے بلکہ انہیں ترکی پر منحصر بنادیا۔ جس جغرافیائی محل قوع کو ترکی کے لئے بوجھ Liability سمجھا جاتا تھا، اسے اثاثہ Assetمیں بدل دیا۔
آج صور ت حال یہ ہے کہ ترکی امریکہ کے بعد، ناٹو کی دوسری بڑی فوج رکھتا ہے اور امریکی مفادات کے لئے ترکی سے اس کے اچھے تعلقات ضروری ہیں۔ یورپ یہ سمجھتا ہے کہ یورپ کے معاشی زوال اور گھٹتی ہوئی آبادی کے معاشی نقصانات کا واحد حل یہ ہے کہ ترکی (جہاں یہ دونوں مسائل نہیں ہیں) یورپی یونین کا رکن بن جائے۔ چنانچہ برطانیہ جیسے ممالک خود کوشاں ہیں کہ ترکی یورپ کا حصہ بنے۔ ترکی کے حکمرانوں نے گزشتہ دنوں تیل کی کئی اہم پائپ لائنوں کی تعمیر کرائی۔ اگر یورپ ، تیل کے لئے روس کا محتاج نہ ہونا چاہے تو اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ ترکی کی پائپ لائنوں کے راستہ سے تیل منگائے اور توانائی کی بنیادی ضرورت کے لئے ترکی پر منحصر رہے۔ اسی طرح اردگان کی حکومت نے ،سامسون سیہان اور ساؤتھ اسٹریم جیسی پائپ لائنیں تعمیر کرکے روس کو، اس کے تیل کو دنیا کے بڑے حصہ تک پہنچانے کے لئے خود پر منحصر کردیا ہے۔ جبکہ شاہراہ ریشم کی بحالی اور یورپ اور ایشیا کو ملانے والی مرمرے سرنگ اورریل کے ذریعہ چین کی مصنوعات کی ساری دنیا میں رسائی آسان بنادی۔ اس طرح ساری بڑی طاقتیں آج ترکی سے کسی نہ کسی طور پر جڑی ہوئی ہیں۔اور امریکہ، روس ، یورپ اور چین کے کئی اہم مفادات ترکی سے جڑ چکے ہیں۔اور ترکی سے دشمنی کسی بھی بڑی طاقت کے لئے اب آسان نہیں رہی۔
زیرو پرابلم فارین پالیسی نے ترکی کو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کئی قدیم تنازعات کامیابی سے حل کرلینے میں مدد دی۔یونان ، قبرص اور آرمینیہ کے ساتھ ترکی کے قدیم تنازعات کو نظر انداز کرکے دوستی کا ہاتھ بڑھایا گیا، اور اچھے تجارتی ، سفارتی اور تہذیبی تعلقات کی راہیں ہموار ہوئیں۔
آج ترکی، نہ صرف عالم اسلام میں، بلکہ ان ملکوں میں بھی جو اسے اپنے دشمن کی حیثیت سے دیکھتے تھے، ایک مصالحت کار ملک کی حیثیت سے مقبول ہوتا جارہا ہے۔سربیا کی درخواست پر اس نے سنجاق کے قدیم تنازعہ کو حل کرنے میں مدد کی۔نیوکلیائی ہتھیار کے مسئلہ پر ایران اور امریکہ کے درمیان مصالحت کرائی۔اسپین کے ساتھ مل کر مغرب اور اسلام کے درمیان ’’تہذیبوں کا وفاق ‘‘ بنایا۔غزہ کے محاصرہ کے خاتمہ کے لئے بڑی اہم کوششیں کیں۔عراق سے امریکی فوجوں کے انخلاء میں اس کا اہم کردار رہا، اور صومالیہ پر اقوام متحدہ کی جانب سے ہورہی کوششوں کا مکمل کریڈٹ ترکی کو جاتا ہے۔ اس طرح اب ترکی نہ صرف علاقہ کی اہم طاقت ہے بلکہ علاقہ میں امن و استحکام میں اس کے قائدانہ و مدبرانہ کردار کو اس کے حریف بھی تسلیم کرنے لگے ہیں۔
ترکی کے وزیر خارجہ نے اپنی فعال ڈپلومیسی کے ذریعہ ترکی کو کئی عالمی فورموں کا حصہ بنادیا۔ آج ترکی کئی اہم علاقائی و عالمی فورموں کا اہم رکن ہے۔ اس میں ناٹو کے علاوہ، ریجنل کو آپریشن کونسل (مشرقی یورپ کے ملکوں کی تنظیم) ، اکنامک کو آپریشن آرگنائزیشن (ایران، ترکی، پاکستان اور وسط ایشیا کے اسلامی ملکوں کی تنظیم) او آئی سی ، جی۔۲۰ (بیس بڑی عالمی معیشتوں کی تنظیم) اور یورپ اور مشرق وسطی کی کئی عالمی تنظیمیں شامل ہیں۔ ترکی نے تجارت و معیشت کے راستہ سے عالمی اثر و رسوخ بنانے Pax Ottomanicaکی اپنی پالیسی کی تعمیل میں ، کئی ایسے فورموں میں جگہ بنائی ہے جن کا اس سے راست تعلق نہیں ہے۔ چنانچہ وہ ، آسیان (جنوب مغربی ایشائی ملکوں کی تنظیم) شنگھائی کو آپریشن کونسل ، برکس (برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ) ، افریقی یونین،اور لاطینی امریکی تنظیموں وغیرہ میں مختلف حیثیتوں سے شامل ہوتارہا ہے۔
تجارت ، معیشت اور ڈپلومیسی کی بنیادوں پر حاصل کردہ اس اثر و رسوخ اور طاقت کو ترکی بڑی دانشمندی کے ساتھ عالم اسلام کے اتحاد، اس کی قیادت اور اس کے مسائل کو حل کرنے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اسے نو عثمانیت Neo Ottomanismکہا جاتا ہے۔(اردگان کو ان کے مخالف طنزیہ طور پر’سلطان جدید‘ Neo Sultanکہتے ہیں۔) اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات برقرار رکھتے ہوئے اس کی غیر انسانی پالیسیوں پر ترکی نے بڑی کامیابی سے اسرائیل کو الگ تھلگ کیا ہے، اور اب یورپ میں بھی اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھنے لگی ہے۔ شام میں بشار الاسد کے مظالم کے خلاف اور مصر میں اخوان کی حمایت میں ترکی نے بڑا حوصلہ مند کردار ادا کیا ہے۔اب ترکی اور اردگان کی طاقت کو امریکہ،یورپ، روس، اسرائیل جیسی طاقتیں اپنے مذموم عزائم کی راہ میں بڑی رکاوٹ باور کرنے لگی ہیں۔ عالمی سیاست کے علاوہ، ترکی کی یہ بھی کوشش ہے کہ عالم اسلام کی تعمیر وترقی میں وہ بھرپور کردار ادا کرے۔ چنانچہ افریقہ اور وسط ایشیا میں انفرا اسٹرکچر کی تعمیر سے لے کر ازالہ غربت کی کوششوں تک ، ہر جگہ ترکی کا کردار نمایاں اور قائدانہ ہے۔ ۸۰ ملکوں میں اس کے اسکولس کام کررہے ہیں۔
ترکی کا یہ نیا قائدانہ کردار وہاں کی سیکولر کمالسٹ اشرافیہ کو پسند نہیں ہے۔ روایتی طور پر یہ طبقہ، فوج، عدلیہ وغیرہ کی مدد سے اس طرح کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا کرتا رہا ہے۔ لیکن اب اردگان کی گرفت قوت کے ان مراکز پر بھی مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ بہتر عالمی تعلقات کی وجہ سے، فوجی ضرورتیں کم ہوتی جارہی ہیں۔ریفرنڈم میں اردگان کی تائید میں ووٹ ڈال کر ترکی کے عوام نے ترک افواج کو دستور میں دےئے گئے خصوصی اختیارات اور مراعات ختم کردےئے۔ اب فوجی بغاوت ایک بڑا جرم ہے اور اس جرم میں کئی سابق فوجی عہدہ دار سزا بھی پارہے ہیں۔
ان حالات میں ترکی کی اس نئی طاقت اور اس کے نتیجہ میں عالم اسلام کے بڑھتے اثر ورسوخ کو روکنے کا فارمولہ بس یہی رہ گیا تھا کہ ترکی کے مرد آہن اردگان ، پھر ایک بار اقتدار حاصل نہ کریں یا احتجاجی سیاست کے ذریعہ ان کی طاقت کو کمزور کیا جائے۔ چونکہ اے کے پی کے دستور کے مطابق اب مزید پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینا اردگان کے لئے ممکن نہیں تھا، اس لئے ترکی کے حریفوں کے لئے یہ امید کی کرن تھی۔اگر چہ آج اردگان کی ٹیم میں کئی طاقتور اور باصلاحیت قائدین موجود ہیں لیکن ترکی کے اسلام پسند عوام اور اے کے پی اس بات کو ضروری سمجھتی تھی کہ اردگان مزید کچھ سالوں تک، یعنی ترکی کے قیام کی صد سالہ تقاریب تک (2023)ترکی کی قیادت کریں۔اس کی ضرورت اس وجہ سے بھی ہے کہ اردگان نے صد سالہ تقریب کے اس تاریخی دن کو بنیاد بنا کر،ترکی کو دنیاکی دس بڑی معیشتوں میں شامل کرنے، جی ڈی پی کو دو ٹریلین تک بڑھانے، اور عالمی سیاست میں فیصلہ کن اور قائدانہ کردار کا حامل ملک بنانے جیسے اہداف پر مشتمل ایک پر عزم ’’وژن ۲۰۲۳‘‘ کا اعلان کیا ہے۔ جس کا نفاذ وہی موثر طور پر کرسکتے ہیں۔وسری طرف ترکی کے فرسودہ استبدادزہ سیکولر دستور کو بدلنے کا کام مکمل کرنے کے لئے بھی ان کی قیادت کی ضرورت ہے۔چنانچہ یہ راستہ نکالا گیا، اور اردگان نے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔
۲۰۰۷ میں ریفرنڈم کے ذریعہ ترکی کے عوام نے اس دستوری ترمیم کو منظوری دے دی تھی جس کے ذریعہ صدر کا انتخاب بجائے پارلیمان کے، راست عوام کے ذریعہ کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
ترکی کے دستور میں ہندوستان اور یورپ کے اکثر ملکوں کے دساتیر کے برعکس، صدر کا عہدہ صرف نمائشی عہدہ نہیں ہے۔ صدر، نیشنل سیکورٹی کونسل کے اجلاس کی صدارت کرتا ہے۔بننے والے قوانین اور دستور میں ترامیم کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کر سکتا ہے۔ کابینی اجلاس طلب کرکے اس کی صدارت کرسکتا ہے۔ججوں کا تقرر کرتا ہے۔ تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ اس مرحلہ میں ایک کمزور صدر دستور کی تبدیلی اور ترکی کے نئے عالمی کردار کی ادائیگی جیسے امور کا متحمل نہیں ہوسکتاتھا۔ترکی میں ہمہ گیر تبدیلیوں کا جو کام شروع ہوا ہے، اس کے آنے والے مرحلہ میں صدر کا دستوری کردار کلیدی اہمیت کا حامل تھا۔ اس لئے اردگان نے خود صدر بننے کا فیصلہ کیا۔ اندازہ یہ ہے کہ وہ عام روایت کے برعکس ایک فعال صدر کا کردار ادا کریں گے۔ اور روز مرہ کے امور میں بھی اپنے صدارتی اختیارات کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اپنے وژن کو حاصل کریں گے۔اس غرض کے لئے ممکن ہوا تو دستور میں بھی ضروری ترمیمات کی جائیں گی۔
مخالفین نے صدر پراقتدار سے چمٹے رہنے کا الزام لگایا اور یہ کہا گیا کہ وہ صدارتی محل کے راستہ سے ترکی کے ڈکٹیٹر بننا چاہتے ہیں۔ لیکن عوام نے واضح اکثریت کے ساتھ ان کے حق میں اعتماد کا ووٹ دے کر ان سب آوازوں کو خاموش کردیا۔اردگان نے اعلان کیا کہ یہ ووٹ ایک نئے صدر کے لئے نہیں ہے بلکہ ایک نئے دستور اور ایک نئی ترکی کے لئے ووٹ ہے۔ خدا کرے کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو اور اردگان کی قیادت میں ، عالم اسلام اپنی کھوئی ہوئی شان و شوکت دوبارہ حاصل کرے۔

سید سعادت اللہ حسینی، رکن مرکزی مجلس شوری جماعت اسلامی ہند

ستمبر 2014

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں