جدید ہندوستان میں نوجوانوں کا رول

ایڈمن

تمام عالم میں ہمیشہ سے قدرتی وسائل پر قبضہ جمانے کے لیے ممالک کے درمیان رسہ کشی جاری رہی ہے، کسی ملک کے قدرتی وسائل کے خزانوں پر اس ملک سے زیادہ دوسرے ممالک کی نظریں رہتی ہیں، جس کے حصول کے لیے ممالک کے درمیان مذاکرات سے لے کر جنگ تک کا سہارا لیا جاتا ہے، تاکہ اپنی اپنی معیشت کو ترقی کے آسمان پر پہنچا کر دنیا پر اپنی دھاک قائم کی جاسکے۔ قدرتی وسائل کے استعمال اور معیشت کو آسمان پر لے جانے کی مسابقت سے الگ ایک دوسری مقابلہ آرائی ہے جس میں اس وقت دنیا کے سبھی ممالک کوشاں ہیں، اور وہ ہے نوجوان توانائی والا ملک بننے کا مقابلہ، نوجوانوں کے بل بوتے دنیا پر چھاجانے کی مسابقت۔ حقیقت میں اس مسابقتی دور میں نوجوانوں کا ہونا کسی ملک کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ کیونکہ اسی طبقے سے معیشت کو بلندیاں حاصل ہوتی ہیں، اور طاقتور کہلانے کی نئی اصطلاحین وجود میں لائی جاتی ہیں۔
عالمی طاقتیں اپنے یہاں سب سے زیادہ توجہ اسی نوجوان نسل کی ترقی پر دیتی ہیں۔ پوری دنیا میں آج اسی ملک کی طوطی بولتی ہے، جس ملک کے پاس نوجوان طاقت کا خزانہ ہوتا ہے۔ دنیا کی کل آبادی کا چھبیس فیصد حصہ نوجوانوں پر مبنی ہے۔ دنیا کی سرفہرست معیشتوں پر بھی لوگ اب اتنا بھروسہ نہیں کررہے ہیں، جتنا ان ممالک پر جو ترقی پذیر تو ہیں لیکن ان کے یہاں نوجوان طاقت بیش بہا ہے۔ دنیا کی ان ہی طاقتوں میں ایک طاقت بھارت بھی ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے ممالک کی فہرست میں دوسرے پائیدان پر ہے، لیکن نوجوان نسل کے خزانے کے معاملے میں دنیا کے دوسرے ممالک سے کہیں آگے ہے۔ بھارت میں اعدادوشمار ۲۰۱۱ ؁ء کے مطابق کل آباد ی ۱۲۵؍کروڑ کا ۶۵؍فیصد حصہ ۳۵؍سال یا اس سے کم عمر والے افراد اور کل آبادی کا ۵۵؍فیصد حصہ ۲۵؍سال سے کم عمر کے جوشیلے، پرعزم اور حوصلہ مند نوجوانوں کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی معیشت مستحکم ہے، اور اس کے اثرات تمام عالم پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس وقت نوجوان توانائی کے اعتبار سے بھارت کا رتبہ چین سے بھی بڑا ہے۔
انسان کے لافانی کام ہی اس کی دنیا بناتے ہیں، بگاڑتے ہیں اور پھر سے سنوارتے ہیں۔ لیکن دنیا حقیقت میں جوانی کی ہے۔ نوجوان طبقہ ہی اس دنیا کو ہیرو دیتا ہے اور مستقبل میں آنے والے لوگ ان ہی کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ لیکن اسی دنیا کا ایک معمہ یہ بھی ہے کہ انسان ہمیشہ جوان نہیں رہتا۔ وہ جیسے جیسے اپنی عمر میں آگے بڑھتا ہے، حالات کے ساتھ وہ سمجھوتہ کرنے لگتا ہے۔ یہی انسان اپنے دورشباب میں ہوتا ہے تو وہ اپنے خوابوں کے مطابق بہت سے اہم اور بہترین کام کرتا ہے۔ جسے عمر ڈھلنے کے ساتھ ہی بھول جاتا ہے۔ بہرحال وقت کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔ انسان کو حال سے ماضی کی طرف لے جاتا ہے، اور حال میں جو جگہ خالی ہوتی ہے اسے بھی پُر کرتا ہے، لیکن اسی انسان کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے نقش قدم کی طرف گامزن نوجوان نسل کے لیے کس طرح کا اسوہ چھوڑتا ہے۔
اس تناظر میں اگر ہم موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے مستقبل کی نسل کے لیے ایسی راہوں کو کھولتا ہے کہ جس پر چل کر آج کا نوجوان طبقہ ملک وسماج کو ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب دھکیلتا ہے۔ آج نوجوان طبقے کے اندر تشدد، بدامنی، دکھاوا وغیرہ جیسی برائیاں اپنی انتہا پر پائی جاتی ہیں۔ قول وفعل میں تضاد ان کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے، ہندوستانی تہذیب وسماج اپنے اندر جن اقدار اور اوصاف کو لیے ہوئے ہے، نوجوان طبقہ ان ہی کے خاتمے پر آمادہ دکھتا ہے۔ نوجوانوں پر مغربی تہذیب کے اثرات اتنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں کہ بھارت کی اپنی تہذیب ان کے اعمال میں کھوئی کھوئی سی لگتی ہے۔
ہندوستانی معاشرے کی موجودہ صورتحال میں جرائم کرنے کے طور طریقوں میں بھی نئے زمانے کے مطابق تبدیلی آئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک سروے کے مطابق جرائم کرنے والے لوگوں میں ۳۵؍سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کی بہ نسبت ۳۰؍سال کی عمر کے نیچے کے نوجوانوں میں گزشتہ چھ سالوں کے دوران جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اور حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ ایک امریکی ادارے’’ AIJRHASS‘‘ کی بھارت میں کی گئی تحقیق کے مطابق ان نوجوانوں میں بھی شہری نوجوان طبقہ قتل، بدکاری، اور دھوکہ دھڑی جیسے جرائم میں دیہی ماحول میں پرورش پانے والے نوجوانوں پر بھاری ہیں۔ جبکہ دیہی نوجوانوں میں جرائم کی رفتار بڑھتی جارہی ہے۔ ترقی کے نام پر مغربی تہذیب کو اختیار کرنے والے شہری نوجوانوں کے اندر مجرمانہ ذہنیت کا نشوونما پانا سماج کے اخلاقی زوال کا کھلا اعلان ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان جرائم کی روک تھام کے لیے کوششیں نہیں کی جارہی ہیں بلکہ پولیس کی کارروائیاں، سی سی ٹی وی کیمروں وغیرہ سے لے کر قانونی سختی تک جرائم کو روکنے کے لیے متحرک ہیں، لیکن باوجود ان کوششوں کے ملک میں نوجوان طبقے کے ذہنوں کے اندر مجرمانہ ذہنیت کا مستقل فروغ پانا ہندوستانی سماج کے اخلاقی زوال کو دکھاتا ہے۔ یہ اعداد وشمار حقیقت میں فکرمندی کا سبب ہیں۔ سرکاروں اور سماجی تنظیموں کو خصوصی طور پر اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان نوجوانوں کی موجودہ ذہنیت کو ایک رخ پر لانے کے لیے چند طریقے ذیل میں بیان کئے جارہے ہیں، جن پر اگر وقت پر عمل کیا گیا، تو اس کے بہتر نتائج ملک اور سماج کو حاصل ہوں گے۔
تعلیمی نظام کا ازسرنو جائزہ
نوجوانوں میں بڑھتی لت کے لیے جن عوامل کو ذمہ دار بتایا جاتا ہے، ان میں ہندوستانی تعلیمی نظام بھی بہت حد تک ذمہ دار ہے۔ ہندوستانی تعلیم نظام ابھی بھی تقریبا دوسوسال پرانے نظام کو اپنائے ہوئے ہے جو ہندوستانی سماج کے حالات کو سامنے رکھ کر تیار نہیں کیا گیا تھا۔ اس موضوع پر مختلف سماجی وطلبہ تنظیمیں عرصے سے اپنا احتجاج درج کراتی چلی آرہی ہیں۔ امریکی ادارے ’’AIJRHASS‘‘ کی ہی تحقیق کے مطابق سال ۲۰۰۸ ؁ء تا ۲۰۱۴ ؁ء تک کے نوجوان مجرموں میں ۲۵.۲۸؍فیصد نوجوان ہائی اسکول یا اس سے زیادہ کی اہلیت رکھتے تھے، اور ۲۵.۲۴؍فیصد نوجوان پرائمری یا اس سے زیادہ کی اہلیت رکھتے تھے۔ ابھی حالیہ میٹرو سیٹیز میں ہونے والے ریپ اور قتل کے واقعات میں نوجوانوں کا ملوث ہونا بھی اسی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ لہذا سرکار کو پلاننگ کمیشن کے متبادل کی طرح ہی اس تعلیمی نظام کے بھی متبادل پر غور کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
روزگار
دنیا میں ہندوستان کی پہچان ایک تیزی سے ابھرتی معیشت کے طور پر کی جارہی ہے۔ دنیا کی بڑی معیشتیں معاشی بحران کا شکار ہوگئیں، لیکن ہندوستانی معیشت اس کا شکار ہونے سے محفوظ رہی۔ لیکن اس معیشت کا ایک سیاہ باب بھی ہے۔ ہندوستان میں تعلیم کو لے کر بیداری سے گریجویٹس، انجینئرس اور پروفیشنلس کی تعداد میں بھاری اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع بہت کم ہی حاصل ہوسکے ہیں۔ ایک اعداد وشمار کے مطابق ہندوستان میں تقریبا ستر فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ جس کی وجہ سے نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ ڈپریشن کا شکار ہے۔ اس ڈپریشن کی وجہ سے ہی نوجوانوں کا ذہن جرائم کی جانب متوجہ ہورہا ہے۔ قتل اور غارت گری کے بڑھتے واقعات اس کا کھلا ثبوت ہیں۔ سرکار کو اس جانب بھی خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
متشدد ذہنیت
ہندوستان کے موجودہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا کبھی غلط نہیں ہوگا کہ ہندوستان کے نوجوانوں میں شرافت کی جگہ تشدد نے لے لی ہے اور اس کے لیے سیدھے طور پر ہماری موجودہ سیاست ذمہ دار ہے۔ اس متشدد ذہنیت نے نوجوانوں کے اندر صبر اور شرافت جیسے اوصاف کا خاتمہ کرکے رکھ دیا ہے، جس کی وجہ سے معمولی سی بات پر قتل تک کردینا ان نوجوانوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل بنتا جارہا ہے۔ ہمارے ملک کے سیاست دانوں نے ملک کے اتحاد کو توڑتے ہوئے اسے فرقہ واریت کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ اور اس کام کے لیے ان کے پاس سب سے اہم ہتھیار یہ نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ ان سیاست دانوں کو ملک کی سالمیت اور اتحاد کو برقرار رکھنے اور نوجوانوں کو اس سے بچانے کی خاطر اس متشدد کھیل سے پرہیز کرنا چاہئے۔
سینما کو حدود کا پابند بنانے کی ضرورت
ہندوستان کے سماجی تانے بانے کو ڈھانے اور نوجوانوں کے اندر تشدد اور بدکاری کی ذہنیت کو فروغ دینے میں ہندوستانی سینما نے پچھلے کچھ سالوں سے خطرناک رول ادا کیا ہے۔ اس انڈسٹری میں فلموں کی مارکیٹنگ اور اس سے کمائی کے لیے ڈائرکٹر اور اس میں کام کرنے والے نوجوانوں کی جنسی خواہشات کو بھڑکانے کے لئے کسی بھی حد سے گزرنے کو تیار رہتے ہیں، جس کی وجہ سے سماج میں آج کسی بھی رشتے کا تقدس باقی نہیں رہا۔ سرکاری اَن دیکھی سے یہ ڈائرکٹر اور پروڈیوسر فحاشی اور عریانیت ہی نہیں بلکہ خالص جنسی جذبات کو بھڑکانے والی فلمیں بنانے لگے ہیں۔ سرکار کو پردۂ سیمیں کو از جلد حدود کا پابند بنانے کی ضرورت ہے۔
نوجوانوں کے تعلق سے یہ حقائق واقعی فکرمندی کا باعث ہیں، اگر ان مسائل اور حالات کو سمجھنے کے باوجود ان کے حل کے لیے ہماری سرکاریں، سماجی تنظیمیں اور اعلی ذہنیت رکھنے والے افراد نے سنجیدگی نہ دکھائی تو وہ دن دور نہیں جب ان ہی نوجوانوں کے دم پر ۲۰۲۰ ؁ء تک عالمی طاقت بننے کا دیکھا گیا ہمارا خواب کہیں سپرد خاک نہ ہوجائے۔

طیب احمد بیگ،
مدیر معاون ہندی ماہنامہ ’’چھاتر ومرش‘‘

جنوری 2015

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں