توکل کرمان : خاتونِ انقلاب

ایڈمن

انسانی حقوق کی نمائندہ یمنی خاتون، صحافی اور الاصلاح پارٹی کی سنیئر رکن توکل کرمان ۲۰۱۱ ؁ء کی سب سے کم عمر اور دوسری مسلم خاتون ہیں جنہیں نوبل انعام کے لیے منتخب کیا گیا، اس وقت ان کی عمر صرف ۳۲؍سال تھی۔ یمن جہاں تقریبا ۳۳؍سال آمریت کا راج تھا، ایسے ملک میں جمہوریت کے حق میں اور آمرانہ نظام کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت کا سہرہ اسی بلند حوصلہ خاتون کے سر جاتا ہے۔
توکل کرمان کی پیدائش ۷؍فروری ۱۹۷۹ ؁ء کو ہوئی۔ توکل کرمان عبدالسلام کرمان کی بیٹی، محمد النہمی کی بیوی اور تین بچوں کی ماں ہیں۔ آپ نے یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی سے کامرس میں انڈر گریجویشن کی ڈگری حاصل کی، پھر صنعاء یونیورسٹی سے پولیٹکل سائنس میں گریجویشن مکمل کیا۔ ۲۰۱۲ ؁ء میں آپ کو University of Alberta in Canada کی جانب سے بین الاقوامی قانون میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری پیش کی گئی۔
توکل کرمان نے ۲۰۰۵ ؁ء میں دیگر خاتون صحافیوں کے ساتھ مل کر Women Journalists Without Chain (WJWC) کی بنیاد ڈالی تاکہ انسانی حقوق کی پاسداری منظم طریقے سے عمل میں لائی جائے۔
قدیم زمانے سے ہی یمن مشرق وسطی کے ممالک میں تجارت کا اہم مرکز تصور کیا جاتا ہے، یمن کا دارالحکومت ’صنعاء‘ یونیوسکو کے لیے عالمی ورثہ کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن یمن کی سرزمین پرسیاسی اختلافات اور تعصبات کی وبا عام تھی، انسانی حقوق کی پامالی، خصوصاََ خواتین وطالبات کے ساتھ کیا جانے والا وحشیانہ سلوک ایک انتہائی پیچیدہ اور حساس مسئلہ تھا، شادی کے بعد لڑکیاں گھریلو تشدد کا شکار ہوتی تھیں۔ عورت اپنے تمام بنیادی حقوق جیسے تعلیم، صحت، اور اچھے خاندان کے انتخاب سے محروم کردی جاتی تھی۔
۱۹۷۰ ؁ء سے تقریباََ تین دہائیوں تک یمن پر صدر علی عبداللہ صالح کی خودمختار حکومت تھی۔ اس آمرانہ نظام کے خلاف پہلی دفعہ توکل کرمان نے آواز اٹھائی اور اسٹریٹ ریلیوں کے ذریعہ اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ان کی آواز پر بچوں اور خواتین نے ان کا ساتھ دیا، لیکن صالح کی حکومت نے اپنی طاقت کے زور پر اس احتجاج کو دبادینے کی ہرممکن کوشش کی، جس کے نتیجے میں کئی جانیں کام آئیں۔ ان مظاہروں اور احتجاج کے دوران کرمان اپنے تین بچوں کو گھر پر چھوڑ کر احتجاجیوں کے ساتھ ٹینٹ میں ہی رہتی تھیں۔ احتجاج کے دوران جب توکل گلی محلہ سے گزرتے ہوئے، ’’جاگو جاگو ، اور آؤ آمرانہ حکومت کو ختم کرو ‘‘ کے نعرے لگاتی تھیں، رشوت ستانی اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اٹھانے پر یمنی عوام کو ابھارتی تھیں تو لوگ ان پر ہنستے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ ابتدا میں جب کرمان اور ان کے ساتھی مظاہرے کے لیے نکلتے تھے تو متعدد خواتین ان کے پاس اپنے مسائل لے کر آتی تھیں، اس کو دیکھتے ہوئے کرمان نے پہلے ان خواتین کے مسائل کے حل کو اولیت دی۔ جب خواتین کے مسائل حل ہونا شروع ہوئے تو ایک بڑی تعداد میں خواتین نے کرمان کے ساتھ آمرانہ نظام کے خاتمے اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے آواز اٹھائی۔ اپنے ہر احتجاج میں کرمان صف اول میں رہتی تھیں۔وطن سے آمرانہ نظام کو ختم کرنے کی یہ کوشش تقریباََ ۵؍سال تک جاری رہی۔ اس دوران کرمان کے ساتھیوں کو بہت زیادہ جانی ومالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔ خود کرمان پر کئی دفعہ جان لیوا حملے ہوئے۔ انہیں ڈرایا اور دھمکایا گیا۔ لیکن وہ اوران کے ساتھی نام نہاد حکومتی اہلکاروں کی دھمکیوں سے ڈرنے والے نہیں تھے۔ انہیں اپنی جان سے زیادہ اپنے وطن کا مستقبل عزیز تھا۔ آخرکار ۲۰۱۱ ؁ء میں صدر صالح نے گھٹنے ٹیک دیئے اور یمن سے آمرانہ نظام حکومت کو رخصت ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔
اکثر وہ اپنے بچوں کو بھی سمجھاتی رہتی تھیں کہ یہ لڑائی میں نہیں لڑرہی ہوں، یہ لڑائی ہم سب مل کر لڑرہے ہیں اور ہم یہ اپنے وطن اور اس وطن کی آئندہ نسلوں کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اس جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے کرمان کو تقریبا ۹؍ماہ اپنے گھر سے دور رہنا پڑا۔ وہ تحریر اسکوائر پر ہوتی تھیں اور ان کے بچے اپنی نانی کے پاس۔ وہ ہر ہفتے اپنی ماں سے ملاقات کے لیے تحریر اسکوائر پر آتے تھے۔ ایک دفعہ کرمان کو احساس ہوا کہ انہیں اپنے بچوں کے لیے کچھ وقت کے لیے گھر چلے جانا چاہئے، اور پھر وہ اپنے بچوں کے ساتھ چل پڑیں، تاہم وہ تحریر اسکوائر کے درمیان ہی پہنچی تھیں کہ بچوں نے انہوں روک دیا اور کہا: ’’بے شک ہمیں آپ کی ضرورت ہے لیکن آپ ہمارے ساتھ نہ آئیں، یہاں جو بچے ہیں انہیں بھی ہماری طرح آپ کی ضرورت ہے، اور ان کے لیے آپ کو یہیں رہنا ہوگا‘‘۔
کرمان کہتی ہیں جب مجھے نوبل پرائز دیا گیا اس وقت میرے بچوں کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن وہ آنسو خوشی ومسرت کے تھے کہ انقلاب کے دوران جو مصیبتیں، مشکلات اورایک دوسرے سے دور رہنے کی تکلیفیں ہم نے سہیں، وہ تما م تکلیف دہ یادیں اس خوشی کے سامنے پھیکی پڑگئیں۔
ابھی بھی یمن کے حالات مستحکم نہیں ہیں۔ کرمان کا ماننا ہے کہ یہ ایک اندرونی انقلاب ہے، اور حالات بتاتے ہیں کہ یمن کو ایک جمہوری ملک بننے کے لیے ابھی مزید کچھ سال درکار ہیں۔ اور ہر انقلاب خواہ وہ فرانس کا ہو، جاپان کا ہو، امریکہ یا روس کا ہو، ہر انقلاب چند مثبت اور امید افزا تبدیلیوں کے لیے وقت مانگتا ہے اور ان تبدیلیوں کے ظہور پذیر ہونے میں قومی مذاکرات کا اہم رول رہا ہے۔ ایک پرامن یمن کی تعمیر کے سلسلے میں مذاکرات کے لیے ’’نیشنل ڈائیلاگ کانفرنس‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا، اس کے قیام میں کرمان نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کا کام تقریبا ۱۰؍ماہ جاری رہا اور ان ۱۰؍ماہ میں اس کے ذمہ داران نے یمن کے دستور، یمن کی معیشت، بچوں کے حقوق، بچپن کی شادیاں، ایک اچھی حکومت کے لیے درکار خوبیاں اور عوام کو درپیش مسائل، غرض مختلف موضوعات پر مذاکرات کیے۔ ان مذاکرات کے دوران کرمان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کوئی ایسا قانون بنایا جائے جس کے مطابق لڑکیوں کی شادی کے لیے ایک مخصوص عمر کا تعین کیا جائے تاکہ اس عمر سے پہلے کسی لڑکی کو جبراََ یا کسی دباؤ کے نتیجے میں شادی نہ کرنا پڑے۔ چنانچہ یہ طے کیا گیا کہ کسی بھی لڑکے اور لڑکی کی شادی ۱۸؍سال سے قبل نہ ہو، اور جو والدین ایسا کریں گے وہ دستور کے مطابق سزا کے مستحق ہوں گے۔ کرمان کے مطابق ایسی تبدیلیاں صرف قانون کے بنتے ہی ظہور پذیر نہیں ہوں گی بلکہ ان کے لیے بنیادی چیز عوام کا تعلیم یافتہ ہونا، قانون کا کامیاب نفاذ اور معاشرے میں اجتماعی شعور کا بیدار ہونا ہے ۔
کرمان کہتی ہیں ہیں عورتوں کے حقوق کی پاسداری کی اولین ذمہ داری خود عورت کی ہی ہے، عورت کو اپنے آپ کو متأثرہ ومظلوم کے درجہ سے ہٹاکر ایک ذمہ دار قائد اور تبدیلیوں کا نکتۂ آغاز بننے پر سوچنا چاہئے۔ وہ صرف اپنے بچوں کی ماں نہیں ہوتی بلکہ پوری قوم کے بچے اس کی ذمہ داری کا حصہ ہوتے ہیں۔ اور یہ صرف مردوں کی نہیں بلکہ عورتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سوسائٹی کو بہتر سے بہتر بنائیں، عزت ووقار ہر انسان کا حق ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اور میں عورت کی آزادی، اس کے حقوق کے تحفظ اور ایک باعزت زندگی گزارنے پر زیادہ زور اس لیے دیتی ہوں کہ نہ صرف یمن بلکہ تقریبا ساری دنیا میں عورت ان بنیادی حقوق سے محروم ہے اور عورتوں کے ان حقوق کی ادائیگی احسان سمجھ کر نہیں بلکہ ان اپنا فرض اور ان کا حق سمجھ کر کی جانی چاہئے۔
نوبل پرائز حاصل کرنے کے بعد کرمان کہتی ہیں کہ یہ ایوارڈ میرے ملک کے لیے، تمام عرب خواتین کے لیے، ساری دنیا کی خواتین کے لیے اور ان تمام زخمی اور شہید افراد کے لیے جنہوں نے اس جدوجہد میں میرا ساتھ دیا، یمن کے ساتھ مصر، لیبیا، اور وہ تمام ممالک جہاں کے افراد آزادی کے ساتھ عزت ووقار کی زندگی گزارنے کی چاہ رکھتے ہیں، ان سب کے لیے ایک اعزاز ہے۔
ٹوکیو کی ایک یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کرمان نے کہا تھا:
The Youth make all the progress and change for the society and for the world. Students in our country made a big big diffrence. Be a leader, if you want to change anything. Lead it, and be in front line.
اپنی اس پوری جدوجہد میں چاہے وہ تحریر اسکوائر پر احتجاج میں رہی ہوں، یا کسی گلی محلے میں، نوبل پرائز کی تقریب میں ہوں یا کسی ملک کے دورے پر، توکل کرمان سوائے چہرے کے مکمل پردے میں ہوتی تھیں۔ ان کا طرز لباس ان کے وقار میں مزید اضافہ کرتا ہے، حجاب کے متعلق پوچھے جانے پر وہ کہتی ہیں: ’’ابتدائی زمانے میں انسان تقریبا برہنہ زندگی گزارتا تھا، جیسے جیسے اس کے فہم ودانش میں اضافہ ہوتا گیا، اس نے لباس پہننا شروع کیا۔ میرا حجاب ایک مسلمان خاتون کی سوچ کی وسعت اور اسلامی تہذیب کی ان اعلی اقدار کو ظاہر کرتا ہے جنہیں انسان نے حاصل کیا ہے۔ عورت کا حجاب کسی تنزلی کی نہیں بلکہ ترقی کی علامت ہے، جبکہ عریانیت، برہنگی اور بے حیائی تنزلی کی علامت ہے۔ کیونکہ آج کی بے حیائی یہ ظاہر کرتی ہے کہ انسان پھر اپنے ابتدائی قدیم زمانے کی طرف رواں دواں ہے، جبکہ لباس کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ اگر ایک عورت حجاب کو اختیار کرتی ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ اگر وہ سمجھتی ہے کہ حجاب کے ساتھ وہ اپنی سوسائٹی میں ایک مثبت اثر چھوڑ سکتی ہے تو حجاب پر پابندی اس کے حقوق کی پامالی ہے۔ جو لوگ حجاب کو خواتین کی ترقی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں انہیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ غلط مسلمان عورت یا اس کا حجاب نہیں بلکہ ان کی محدود سوچ ہے، جو ایک انسان کو اس کی پسند کے لباس کو اختیار کرنے سے روکنا چاہتے ہیں۔‘‘

فرحی ارم، کریم نگر۔ تلنگانہ

اگست 2015

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں