اللہ تعالی نے ساری کائنات کو پیدا کیا اور مختلف طریقوں سے اسے سجا کر خوشنمابنانے کا بہترین نظم کیا۔ آج پوری کا ئنات میں جو ربط اور حسن نظر آتا ہے اس کی کاریگری کی جتنی حمد و ثنا بیان کی جائے کم ہے۔ کائنات پر غوروفکر کے بعد یہ احساس بار بار ابھر کر سامنے آتا ہے کہ خالق کائنات نظم، ڈسپلن ، خوبصورتی، حسن وغیرہ تمام معاملات میں احسان کے درجے کو پسند کرتا ہے۔
آج کا دور معیار اور مہارت کا دور ہے۔ انسان کی تمام مصروفیات اورتگ و دو میں ایک نمایاں ارتقاء نظرآتاہے ۔لوگوں کی قوت تخیل اور تخلیقیت (Creativity)اپنے وقت کے اعلی معیار کو چھورہی ہے۔ گلوبلائزیشن کے زیراثر افکار و خیالات کی ترسیل آسان سے آسان ترہو گئی ہے۔ الیکڑانک اور سوشل میڈیا نے اس نظریاتی کشمکش میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جس نے مختلف اقوام کے نظریات پر گہرا اثر ڈالا ہے۔۔ ایسے ماحول میں جہاں تفریح کے ذرائع اپنی تخلیقیت کے اعلی ترین معیار پرپہنچنے کی کو شش کررہے ہیں تحریک اسلامی کے افرادکی ذ مہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ ان ذرائع کا مؤثر استعمال کریں اور دعوت اسلامی کا فریضہ انجام دیں ۔
تحریک اسلامی جہاں اپنا ایک مضبوط نظریہ رکھتی ہے وہیں اس کی اقامت کے لیے وسعت فکر و نظر بھی رکھتی ہے ۔ اس کے باوجود بہت سے ایسی چیزیں ہیں جو تحریک اسلامی کا خاصہ تو ہیں مگر اس کے کلچر کا حصہ نہیں بن سکی ہیں۔ ہمارا کام صحیح اسلامی فکر کی تجدید ہے، اور اس کے لیے ضروری ہے کی ہمارے اجتماعی ماحول میں واضح طور پراس کا ثقافتی مظاہرہ ہو۔
سورہ التین میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین خلقت( Best of Creation)قرار دیا ہے۔یہ بہترین خلقت کا تاج صرف اس کے جسم کی ظاہری خوبصورتی ہی کی وجہ سے نہیں بلکہ انسان میں موجود سوچنے سمجھنے، اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے غور و تدبر کرکے مسائل کا حل نکالنے جیسی بے شمار صلاحیتیوں کی وجہ سے بھی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سورہ رحمن کی ابتدا ہی میں کہہ دیا کہ ’ہم نے انسان کو بیان کرنے کا علم دیا۔‘ یہ بیان کرنے کے علم سے مراد صرف زبان سے کہنا ہی نہیں بلکہ بیان واظہار کی وہ تمام تر صلاحیتیں بھی اس میں شامل ہیں جن کا استعمال کرکے وہ رائے عامّہ کو ہموار کرسکتا ہے، اور سماج میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔
آج کے دور میں تخلیقیت (Creativity) اپنے بامِ عروج پر ہے۔ایک 30؍سکینڈ کے ٹی وی اشتہار سے لوگوں کے ذہنوں پر دور رس اثرات مرتب کیے جا سکتے ہیں اور ان کو اپنے نظریات سے واقف اور متأثر کرایا جاسکتا ہے۔ پرنٹ میڈیا میں دیئے گئے ڈیزائن اور گرافک سے بھر پور ایک اشتہار سے اپنے نظریات اور اشیاء کی تشہیر کی جاسکتی ہے ۔ وہیں پر \’150 Words\’ کلچر نے نوجوانوں میں کم لکھنے اور زیادہ سمجھنے کا ماحول پروان چڑھایا ہے۔ آج کی نئی نسل زیادہ بڑے پیغامات پڑھنے کے بجائے دیکھنے اور کم سے کم الفاظ میں سمجھنے کو ترجیح دیتی ہے۔ ڈرائینگ، پینٹنگ اور ڈیزائننگ نے بغیر الفاظ کہے سماج کے بڑے سے بڑے مسائل کوآسان طور سے لوگوں کے سامنے پیش کرنے کا ایک نیا ہنر دیا ہے۔ اخلاقی، تفریحی وسماجی موضوعات پر مبنی ویڈیوز، ڈرامے اورشارٹ ڈاکیومنٹری وغیرہ نے آج انٹرٹینمنٹ اور سماجی حساسیت کی نئی اور مؤثر روایت قائم کی ہے، اور مختلف نظریات کے علمبرداروں نے ان تمام عوامل کا بہترین استعمال کرکے اپنے افکارو خیالات کی بہترین ترسیل کی ہے اسی سبب آج سماج میں الگ الگ افکارو خیالات کے حامل طبقے نظر آتے ہیں۔چاہے وہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چلنے والی صارفیت ہو، چاہے وہ اشتراکی اور سوشلسٹ نظریات کے حامل ترقی پسند مصنفین ،رائٹرس ،شعراء و گلوکار ہوں، چاہے آزادئ نسواں کے نعرے کے ساتھ چلنے والی تحریک نسواں ہو، آج کی تہذیب اور کلچر پر ان تحریکات نے ایک اچھا خاصا اثر قائم کیا ہے۔
ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ تحریک اسلامی کے علمبردا ر ان باطل نظریات کے مقابلے میں اپنے خیالات و افکار کی ترسیل کے لیے صرف کتابوں اور تقاریر پر ہی اکتفاکریں؟ کیا صرف تقاریر سے ہی آج کروڑوں انسان ان باطل نظریات کے پرکشش نعروں سے ہٹ کر ہماری صفوں میں شامل ہوجائیں گے ؟کیارائے عامّہ کی ہمواری کے لیے موجودہ دورکے جدید ذرائع جیسے الیکٹرانک میڈیا،پرنٹ میڈیا ، سوشل میڈیا،آرٹ و کلچر کے جدید Tools، اخلاقی فلمیں،ڈاکیومینٹریز ،نکڑ ناٹک ،الیکٹرانک Gadjets ، و اپلیکیشن اور ان جیسے کئیTools کا استعمال ضروری نہیں؟ کیا مختلف صلاحیتوں کے حامل افراد کی تربیت اور انہیں تحریک اسلامی کے لیے مفید تر بنانے کے لیے ہماری سرگرمیوں میں ایک ایسا کلچر پروان چڑھانے کی ضرورت نہیں جو اپنے بنیادی اصول و فکر پر قائم رہتے ہوئے ایک ایسا ماحول ترتیب دیں جس سے ہر طبیعت، صلاحیت اور Cultural Talent کے حامل افراد اور گروہ ہماری صفوں میں اطمینان محسوس کریں ؟اور اپنی ان صلاحیتوں کو جومحض نمودونمائش اور دیگر مادّی ضروریات کی تسکین میں صرف ہورہی ہیں اسے اسلامی کاز اور سماج میں تعمیری مقاصد کے لیے لگادیں ؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے تنظیمی کلچر میں وسعت اورندرت ہو۔ اگر مندرجہ بالانکات ہمارے تنظیمی کلچر کامستقل حصہ بن جائیں تو یقیناًتخلیقی ذہن رکھنے والے افراد ہماری تنظیم اور ہماری فکر میں ایک کشش محسوس کریں گے اور اسی وقت ہماری تحریک تجدید کے لازمی تقاضوں کو پورا کرتی نظر آئے گی۔ ان شاء اللہ
تنظیم نے اس ضمن میں جو پالیسی اختیار کی ہے وہ یہ کہ ’ادب،ثقافت اور تفریح کے ذرائع استعمال کرتے ہوئے تنظیم اپنے پیغام کو عام کرنے اور تخلیقیت کو فروغ دینے کی کوشش کرے گی‘۔ یعنی ایس آئی او اپنی مختلف سرگرمیوں کو مختلف طریقوں سے انجام دیتی ہے لہذا آج سماج میں ثقافتی ذرائع جو اہمیت اختیار کرتے جارہے ہیں ان سے صرف نظر ممکن نہیں جو کہ طلبہ کے ذہنوں کو بڑے پیمانے پر متأثر کرتے ہیں، یہ ثقافتی ذرائع دراصل ہمارے ورک کلچر کا حصّہ ہوتے ہیں، انھیں الگ یا اضافی سرگرمیوں کے طور پرنہیں لینا چاہئے۔ یہ مستقل کرنے کے کا م ہیں نہ کہ صرف کچھ پروگرامس میں خارجی طور پر اسے جگہ دے دینا ہے، اور بات جب تخلیقیت کی کی جائے تو اس سے مراد ایساطریقہ ہے جو کم سے کم وسائل کا استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ذہنوں پر اثرات مرتب کرسکے۔ مثال کے طور پر 30سکینڈ کا اشتہار ، شارٹڈاکیومنٹریز، اور ویڈیوز ، سلوگنس ، گرافکس وغیرہ۔ہم جو کچھ بھی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں وہ ہمارا کلچر ہے۔ لہذا ہماری سرگرمیوں کو اس مہم کے ذریعے ایک مناسب رخ ملے اور ایسی سرگرمیاں مسلسل ہمارے پرگرامس کا حصّہ بن جائیں جس سے یقیناًتنظیم کو اپنی بنیادی فکر اور دعوت کو جدید تقاضوں کی بنیاد پر لوگوں تک پہنچانے میں مددملے گی۔
ذیل میں چند سرگرمیاں اس سلسلے میں مقامی حالات اور ضروریات کے پیش نظر معاون ہو سکتی ہیں:
قرآن پر عمل: قرآن کا سب سے بڑا حق جو ہم پر عائد ہوتاہے وہ یہ کہ ہم اسے کتاب ہدایت تسلیم کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس کا چلتا پھرتا نمونہ بنادیں۔ وہ قرآنی تعلیمات ہی تھیں جس نے صحرا نشینوں کو دنیا کا امام بنا دیا تھا۔ وہ قرآنی تعلیمات ہی تھیں جس نے ضدی قبائلیوں کو ایسا تبدیل کیا کہ ساری دنیا میں ان ہی کے ذریعے امن و آشتی کا پیغام اور علوم کے خزانے پھیلے ۔ لہذا ہمارے تنظیمی کلچر میں بھی یہ بات پروان چڑھے کے ہم قرآن صرف ہدایت ہی کے مقصدسے پڑھیں اور اس پر عمل کرنے کی جدوجہد میں لگ جائیں۔
مثال کے طور پر اس ضمن میں ہم نے اپنے زون میں تمام یونٹس کو جو سرکلر ارسال کیا ہے وہ یہ کہ وابستگان سورۃالحجرات کے دوسرے رکوع کو اجتماعی طورپر مطالعہ میں رکھیں اور جن آیات کا مطالعہ کیا گیا ہے اس پر ہفتہ بھر عمل بھی کیا جائے اور ہفتہ کے بعد اپنے اپنے تأثرات شرکا ء پیش کریں کہ جس آیت کا مطالعہ کیا گیا تھاہفتہ بھر اس پر عمل کیسے کیاگیا۔ کیا خوشگوار تبدیلیاں آئیں اور عمل کرنے میں کیا مشکلات رہیں؟قرآن پر عمل ہمارے تنظیمی کلچر کا حصّہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ تمام ہی مقامات اس سرگرمی کولازمی طور پر انجام دیں۔
تقاریرSpeech :یہ ایک ایسا Toolہے جس سے ہم براہ راست طلبہ کو متأثر کرسکتے ہیں، جس کے لیے مخصوص مشق اور توجہ دینے کی ضرورت ہے، مارٹن لوتھر کنگ، بارک اوبامہ، طارق رمضان،ایس امین الحسن،مولانا مودودی،خرم مراد،مولانا ابوالکلام آزاد،علامہ شورش کاشمیری اور دیگر مشہور مقررین کےs Video اور تقاریرسے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی مختلف عنوانات کے تحت کالجس اور اسکولس میں تقریری مقابلے منعقد کیے جائیں۔
Slogansاور ترانے:کسی بھی تحریک کے لیے نعرے ((Slogansاور ترانے محرک عمل ثابت ہوتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی حالات، پالیسی وپروگرام اور دستور کی روشنی میں ایسے تخلیقی نعرے اور ترانے طلبہ کے درمیان گردش کریں جو تنظیم کی صحیح فکر کی عکاسی کریں۔ بجائے اس کے کہ ترانوں اور نعروں کو درآمدکیا جائے ہمارے کیڈر خود اسے تیار کریں۔اس کی تیاری کے لیے پروفیشنلس کی خدمات بھی لی جاسکتی ہے اور مختلف مقابلوں کے ذریعے بھی انہیں حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ماحولیات Environment: خیرامت ہونے کے ناطے یہ ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ ہم ماحولیات کے تحفظ کے سلسلے میں حساس ہوں۔ ہمارے پروگرامس میں ماحولیات کے عنوان کے تحت سیر حاصل گفتگو ، مذاکرے ، اجتماعات، ڈرائینگ مقابلے، تحریری و تقریری مقابلے منعقد کیے جائیں ۔ ساتھ ہی ہر یونٹ ماحولیات کولے کر ہمارا تنظیمی کلچر کس طرح حساس ہے ؟ اور کیااقدامات کیے جاسکتے ہیں؟ ان موضوعات پر بھی ڈسکشن کرے۔
سوشیولیگل بیداریSocio-legal Awareness: طلبہ برادی میں حصول انصاف کا جذبہ پروان چڑھے۔ ساتھ ہی اپنے حقوق سے آگاہی اور اس کے دفاع کے لیے طلبہ برادی میں بیداری لانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔سماجی و قانونی بیداری کے اس کلچر کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ قانونی ماہرین، سماجی کارکنان، پولس انتظامیہ اور طلبہ کے درمیان مذاکروں و ڈائیلاگ کا اہتمام کیا جائے۔طلبہ کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات حل ہوں، اور مثبت رویے پروان چڑھیں۔کسی تعلیمی مسئلہ کو لے کر ایک RTIفائل کریں ۔ RTIدراصل ایک ایسا Toolہے جس کے تحت ہم سسٹم سے سوال کرنے والا کلچر اپنے اندر پروان چڑھاسکتے ہے۔ بعض سرگرمیاں جس میں کئی کئی دن، افرادی قوت اور پیسہ صرف ہوجاتا ہے آپ ان ہی مسائل کو RTIکے ذریعے حل کراسکتے ہیں۔
سوشل میڈیاSocial Media: سوشل میڈیا کی اہمیت آج ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے۔اس کلچر کے تحت مختلف تحریکات اپنے افکار وخیالات کی ترسیل بڑے پیمانے پر کررہی ہیں۔ لہذا طلبہ تنظیم کی حیثیت سے ہمیں بھی اس فیلڈ میں طلبہ کی رہنمائی کرنی چاہئے ۔ فیس بک) (FB، Twitter،Whatsapp،Blogوغیرہ سے ہمارے افراد گہری واقفیت رکھتے ہوں اور ساتھ ہی اس کا مثبت استعمال بھی کرتے ہوں۔۔ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کے سلسلے میں طلبہ برادری کی رہنمائی کی جانی چاہیے۔تنظیم کا نام لیے بغیر دیگر ناموں سے مختلف گروپس اور Profiles سوشل میڈیا پر بنائی جائیں اور اسلام کی بہتر نمائندگی ان فورمس میں کی جائے ۔ بڑے یونٹس اپنی یونٹ کے نام پر Blogترتیب دے سکتے ہیں۔ جہاں اپنے پروگرامس کی رپورٹ وغیرہ Updateکی جائے۔
اسٹیج ایکٹ Stage Act: ٹھیٹرا نڈسڑی آج ایک بڑی منافع بخش انڈسڑی میں تبدیل ہوچکی ہے ۔ طلبہ کی تمام تر صلاحیتیں بھی ان مادی فوائد کے حصول میں لگ چکی ہے ۔ ایسے میں طلبہ کے درمیان ان عنوانات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جسکے تحت وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو سماج میں ثبت نتائج لانے کی طرف لگائیں ۔
(مشاعرہ ،مائم ، میمکری ، مونو ایکٹینگ ، ڈرامے، نکڑناٹک ، مشاعرے ، نظم و ترانہ گوئی ، اذان کے مقابلے، قرات کے مقابلے و غیرہ منعقد کیے جائیں۔)
شارٹ ویڈیو /پوسٹر/ایڈمیکنگ : ۔ تخلیقی ذہن رکھنے والے افراد ہمارے تنظیمی کلچرکا حصہ بنیں۔ساتھ ہی وابستگان میں تخلیقیت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کسی سماجی،اخلاقی موضوع کے تحت شارٹ ویڈیو، پوسٹر ڈیزائننگ اور ایڈمیکنگ کے مقابلے منعقد کیے جائیں۔ماحولیات اور طلبہ برادی کے مسائل کو موضوع بحث بنایا جاسکتا ہے۔
Digital Liabrary : کسی بھی نظریاتی تحریک کے لیے ضروری ہے کہ اس کا مشاہدہ ،و مطالعہ کا سفررواں دواں ہو ۔ اور مطالعہ کےTools میں زمانے کی رفتار کے ساتھ تبدیلیاں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ آج طلبہ برادی کی ایک کثیر تعداد Digitaliseہوچکی ہے۔ اسے Visuals میں زیادہ دلچسپی ہے۔ ان کی دلچسپیوں کا خیال رکھتے ہوئے ۔ ہرمقام اپنی یونٹ کی سطح پر Digital Liabraryکا قیام عمل میں لائے اور جسب موقع عام طلبہ کو مستفید کراتارہے۔ایران کے مجید مجیدی، و دیگر اخلاقی و سماجی فلموں کی Screening بھی کی جا سکتی ہے۔
سیاسی بیداریPolitical Awareness : طلبہ سماج کا ایک اٹوٹ حصّہ ہیں۔ اور سماج میں ہونے والے تبدیلیوں پر گہری نظر اورسمجھ رکھتے ہیں۔ ہم بھی ایک طلبہ تنظیم ہیں اور ہمارے لیے ملک میں ہورہی سیاسی تبدیلیوں پر ایک واضح رائے رکھنا پالیسی لائن کے مطابق اس کے لیے علمی جدو جہد کرنا بھی ضروری ہے۔ ہمارے تنظیمی کلچر میں سیاسی موضوعات پر علمی گفتگو کا ہونا ضروری ہے۔ لہذا ہر مقام پر ملک کے سیاسی حالات اور ہماری ذمہ داریاں ، یا اس جیسے موضوع پر کسی اور عنوان کے تحت مذاکرے،ڈسکشن ، بحث و مباحثہ یا سیمینار اور تحریری و تقریری مقابلوں کا انعقاد کیا جائے۔
اسپورٹس Sports: ہمارے تنظیمی کلچر میں اسپورٹس کی شدید کمی محسوس کی جاتی رہی ہے۔ جبکہ طلبہ اور نوجوانوں کی کثیر تعداد نہ صرف اس میں دلچسپی رکھتی ہے بلکہ جنونی حد تک اس میں اپنا کرےئر بنانے کا خواب رکھتی ہے۔ اسپورٹس جہاں ہمارے جسم کو متحرک رکھنے کا ذریعہ ہے وہیں Team Buildingاور اطاعت امر ،نظم و ڈسپلن اور وقت کو قوت میں ڈھالنے کا نام بھی ہے۔لہذا مقامات جہاں اپنے تنظیمی کلچر میں اسپورٹس اور جسمانی فٹنس کو خصوصی توجہ دیں، وہیں اس میدان سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ کو اپنے قریب کرنے کے لیے مختلف مقابلوں کا انعقاد کریں، مثلاََ کرکٹ ، فٹ بال ، کبڈی ، رسّہ کشی ، میراتھن،100 میٹر ریس ،جیسے مقابلوں کا انعقاد کریں۔
ہمارے تنظیمی کلچر میں مندرجہ بالاسرگرمیاں مستقل طورپر شامل رہیں تو یقیناًاس کے نتیجے میں ہمارا اجتماعی ماحول ایسا تیار ہوگا کہ ہر صلاحیت اورفیلڈ کا طالب علم تنظیم میں اپنے لیے جگہ محسوس کرے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف یہی کچھ سرگرمیاں کلچرل کا حصّہ ہوں بلکہ یہ محض کچھ مثالیں تھیں، جن میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے
محمد انور، سکریٹری حلقہ مہاراشٹرساؤتھ زون
تنظیمی کلچر: مطلوبہ رویہ
اللہ تعالی نے ساری کائنات کو پیدا کیا اور مختلف طریقوں سے اسے سجا کر خوشنمابنانے کا بہترین نظم کیا۔ آج پوری کا ئنات میں جو ربط اور حسن نظر آتا ہے اس کی کاریگری کی جتنی حمد و ثنا…