یہ حقیقت آپ کے مشاہدہ میں ہوگی کہ جب کوئی ندی رواں ہو تو اس کا پانی صاف اور شفاف ہوتا ہے، اور اگر ندی ٹھہراؤ کا شکار ہوجائے تو اپنی پاکی اور شفافیت کھو بیٹھتی ہے۔ یہی معاملہ کسی تحریک کا بھی ہے۔ ایک تحریک کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے متحرک ہو اور اس کے اندر تسلسل موجود ہو، ورنہ وہ جمود کا شکار ہوجاتی ہے۔
تحریکات میں حرکت اور تسلسل مختلف الجہات پہلوؤں پر ہوتا ہے، اور اس کا تعلق اندرونی اور خارجی، دونوں پہلوؤں سے ہوتا ہے۔ یعنی نظم وضبط اور قیادت سے بھی اس کا تعلق ہے، اور پالیسی، پروگرام اور طریقۂ کار سے بھی۔ اس سلسلے میں یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ جتنی توجہ خارجی پہلو پر دی جاتی ہے، اس پر بحث، تمحیص اور محاسبہ ہوتا ہے، نسبتاً اتنی توجہ داخلی پہلو پر نہیں دی جاتی، خاص طور سے قیادت کے انتخاب کے سلسلہ میں۔
آگے بڑھنے سے پہلے دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ پہلی بات یہ کہ یہاں تنظیمی قیادت سے مراد صرف مرکز اور حلقے کی سطح کی قیادت نہیں ہے، بلکہ مرکز سے لے کر یونٹ تک ہر سطح کی قیادت مراد ہے۔ دوسری بات یہ کہ قیادت سے مراد اس کے دونوں عناصر ہیں، یعنی فکری اور عملی دونوں قیادتیں مراد ہیں۔
قیادت کا تغیر خاص اہمیت رکھتا ہے، چونکہ SIOایک طلبہ تنظیم ہے(جس کی مدتِ کار یا میقات مختصر ہوتی ہے) اس لئے تسلسل کے لئے ضروری ہے کہ قابل اور مناسب قیادت کا انتخاب ہو۔ افراد کی تیاری، ان کی صلاحیتوں کی پہچان اورنشوونما اور صحیح سمت میں تنظیم کی رہنمائی کے لئے، مناسب اور قابل قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ محض حرکت سے مقاصد کا حصول نہیں ہوتا، بلکہ حرکت کے ساتھ ساتھ صحیح سمت بھی نہایت ضروری ہے۔
دستور اور انتخابات کا عمل:
ایس آئی او آف انڈیا کے دستور میں انتخاب کے لئے چند شرائط متعین کی گئی ہیں۔ یہ شرائط قیادت کے مختلف عناصر کو ملحوظ رکھتے ہوئے طے کی گئی ہیں۔
جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، قیادت کے دو حصے یا عناصر ہوتے ہیں۔ فکری قیادت پالیسی، پروگرام اور طریقۂ کار وغیرہ طے کرتی ہے۔ اس کام کے لئے ایسے افراد مناسب ہوتے ہیں جو علم وحکمت، معاملہ فہمی، اصابت رائے، فراست ودانائی وغیرہ صلاحیتوں کے حامل ہوں۔ ایس آئی او میں یہ فکری قیادت مشاورتی مجلسوں کے ذریعہ ہوتی ہے۔
دوسری جانب طے شدہ امور کے نفاذ کے لئے تنفیذی قیادت درکار ہوتی ہے۔ اس کے لئے ایسے افراد مناسب ہوتے ہیں جن میں انتظام وانصرام، معاملہ فہمی، حکمتِ علمی، inter-personal skillsوغیرہ صلاحیتیں موجود ہوں۔ تنفیذی قیادت سکریٹریٹ کے ذریعہ انجام پاتی ہے۔
تنظیمی انتخابات میں( خاص طور سے حلقہ کے نیچے والی سطحوں میں) یہ بات عام طور سے پائی جاتی ہے کہ ممبران اپنے اردگرد کے حالات کے پیشِ نظر افراد کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ غیر ضروری وجوہات کو اہمیت دیتے ہیں، مثلاً کون زیادہ متحرک ہے، کون زیادہ وقت دے سکتا ہے، کون زیادہ علم رکھتا ہے وغیرہ۔ اس سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے کہ آیا وہ شخص واقعی منصب کا حقدار ہے، اور درپیش حالات کا سامنا کرپائے گا یا نہیں۔
دراصل ایس آئی او میں جو انتخابات کا نظم رکھا گیا ہے، اس سے مراد چند شرائط ملحوظ رکھتے ہوئے کسی کے حق میں رائے دہندگی نہیں ہے، بلکہ معقول اور مدلل انداز میں صحیح اور مناسب قیادت کا انتخاب ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دستور میں جو اصول اور شرائط رکھے گئے ہیں، ممبران کو ان کی روح کا صحیح ادراک نہیں ہوپاتا۔ انتخاب کے وقت محض کسی ایسے شخص کے حق میں ، جو شرائط پوری کرے، رائے نہیں دی جاتی، بلکہ جن افراد کا نام پیش کیا جاتا ہے، ان میں ہر ہر فرد پر ڈسکشن کیا جاتا ہے، کیونکہ صرف صلاحیت مند فرد کا انتخاب مقصود نہیں ہوتا، بلکہ صحیح اور مناسب فردکا انتخاب مقصود ہوتا ہے۔ڈسکشن کے ذریعہ ’محض رائے‘ کو ‘مدلل اور معقول فیصلہ‘ میں تبدیل کردیا جاتا ہے،یا کردینا چاہئے۔
قیادت کیسی ہو:
ایک تنظیم اپنے ماحول کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔ اس لئے قیادت کے انتخاب میں حالات وظروف کی اہمیت، اہلیت کی شرائط سے کچھ کم اہم نہیں ہے۔
عموماًایس آئی اوکو تین قسم کے تناظر(scenario)درپیش ہوتے ہیں:
۱۔ پہلے تناظر میں ایس آئی او کا وجود ہی نہیں ہوتا یا برائے نام ہوتا ہے۔
۲۔ دوسرے تناظر میں ایس آئی او موجود تو ہوتی ہے مگر اقلیت کی حیثیت رکھتی ہے یا پھر کئی مسابقتی قوتوں میں سے ایک ہوتی ہے۔
۳۔ تیسرے تناظر میں ایس آئی اوغالب قوت کی حیثیت رکھتی ہے۔
مذکورِ بالا صورتحال کی مناسبت سے ایس آئی او کودرج ذیل قسم کی قیادت مطلوب ہوتی ہے:
۱) پہلے تناظر میں تنظیم قیام کے مرحلہ یا Establishment phase میں ہوتی ہے۔ اس صورتِ حال میں اصل کام تنظیم کو لوگوں کے درمیان متعارف کرانا ہوتا ہے۔ اور لوگوں کے ساتھ مستقل روابط پیدا کرنے ہوتے ہیں۔ یہاں دائرہ کار محدود ہوتا ہے۔ اس کی مناسبت سے ایسے افراد کی قیادت ضروری ہوتی ہے جو پوری یکسوئی کے ساتھ انتھک کوشش اور جدوجہد کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔ یعنی یہاںsingle-trackذہن رکھنے والے افراد چاہئیں جو پوری یکسوئی سےgrass root Levelپر کام کرسکیں۔ مبادا اس صورتِ حال میں اگر قیادت ’مفکر‘ قسم کے لوگوں کے ہاتھ آگئی، تو کیا ہوگا یہ آپ کے قوتِ تخیل پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ فطرتاً جو افراد عملی طور پر زیادہ متحرک ہوتے ہیں ان کا ذہن نسبتاً کم کام کرتا ہے۔ اگر ایک جملہ میں کہا جائے تو اس تناظر میں ایسی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جس میں عملی عنصر غالب ہو۔
۲) دوسرے تناظر میں تنظیم استحکام کے مرحلہ یاconsolidation phaseمیں ہوتی ہے۔ اس صورتِ حال میں تنظیم کا دائرۂ کار بڑھ جاتا ہے، اورactivitiesمیں کچھ تنوع کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً کیڈر یعنی افراد کی تربیت، ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش وغیرہ۔ اس تناظر میں ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو پہلے قسم کے افراد سے زیادہ فکری صلاحیت رکھتے ہوں، کیونکہ یہاں کئی مسابقتی قوتوں سے نپٹنا ہوتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ افراد سازی کا کام کرنا ہوتا ہے،( اس ضمن میں صلاحیتوں کی پہچان اور نشوونما اور ان کو پروان چڑھانے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔) اس لئے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جن کے اندر بیک وقت تخلیقی انداز میں سوچنے کے ساتھ ساتھ اس کو عملی جامہ پہنانے کی بھی صلاحیت ہو۔ یہاں حالات کے پیشِ نظر، قیادت کے عملی اور فکری عناصر کا مناسب امتزاج ہونا چاہئے۔
۳) تیسرے تناظر میں تنظیم ایک غالب قوت کی حیثیت رکھتی ہے، اس کا دائرۂ کار وسیع ہوجاتا ہے، اور اس کے کاموں میں تنوع اور گہرائی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہexpansion phaseیا توسیعی مرحلہ ہے۔ اس مرحلہ میں گرچہ ایک مخصوص گروہ مخاطب ہوتا ہے، تاہم عمومی طورپر سارے معاشرے کو مخاطب کیا جاتا ہے، اور اس کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاًCampaigning, students\’ activism ، مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے مختلف گروہوں اور تنظیموں کے ساتھ تعاون وغیرہ۔ چونکہ یہاںcadre base بڑھ جاتا ہے اس لئے division of work کے اصول پر کام ہوتا ہے جس میں قیادت رہنمائی کرتی ہے اور اس کو باصلاحیت اور تربیت یافتہ کیڈرنافذ کرنے یا عملی جامہ پہنانے کا کام کرتے ہیں۔ اس لئے یہاں قیادت ایسے افراد کی ہونی چاہئے جو مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لے سکتے ہوں، اور وسعت اور دور اندیشی سے کام لے سکتے ہوں۔ مختصراً، قیادت میں فکری عنصر کا غلبہ ہو۔
دوسرے اور تیسرے تناظر میں فرق یہ ہوتا ہے کہ استحکام کے مرحلہ میں مختلف کاموں کادائرہ کار (scope) اور تنوع محدودد((Limitedہوتا ہے جبکہ توسیع کے مرحلہ میں دائرۂ کار(scope)اور تنوع وسیع ہوجاتا ہے۔
کچھ اور:
اگر گفتگو یہیں ختم کردی جائے تو صحیح نہیں ہوگا۔ اس موضوع سے متصل چند ضمنی چیزوں کا بیان اختصار کے ساتھ کیا جاتا ہے:
۱۔ پہلی بات قیادت سے تعلق رکھتی ہے۔ قیادت کے لئے منتخب افراد کو چاہئے کہ وہ قربانی دیں اور آگے بڑھ کر ذمہ داری سنبھالیں۔ ان کے پیچھے ہٹنے سے غیر مناسب افراد قیادت سنبھالتے ہیں، جس سے کسی کا بھی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اُلٹا بہت کچھ نقصان ہوتا ہے، اور اس کے دیرپا اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں۔
۲۔ قیادت کو چاہئے کہ اپنے کاموں میں touch & goکا رویہ اختیار نہ کرے۔ کئی پہلوؤں پر کام کرنے کے بجائے ان پہلوؤں پر توجہ دے جن میں تنظیم حالات وظروف اور میسر وسائل کے پیشِ نظر زیادہ مؤثر طورپر کام کرسکتی ہے اور جس میں قابلِ ذکر نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ہم بہت ساری چیزوں میں ہاتھ تو ڈال دیتے ہیں لیکن کم ہی چیزوں میں کما حقہ اور استقامت کے ساتھ کام کرپاتے ہیں، حرکت ضروری ہے مگر صحیح سمت اور رفتار میں۔
۳۔ تیسری اہم بات سمع وطاعت ہے۔ صحیح قیادت کا آجانا کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔ قیادت کا ساتھ دینا اور ان کی مکمل معاونت کرناکیڈر کی ذمہ داری ہے۔ دونوں کی مشترکہ کوششوں اور باہم تعاون کے ساتھ ہی تنظیم اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
۴۔ آخری نکتہ ایفائے عہد ہے۔ ہم میں سے ہر ایک نے، فرداً فرداً اور من حیث الجماعۃ‘ اللہ کے ساتھ عہد کیا تھا کہ اس کے دین کی اقامت اور اس کے کلمہ کی سربلندی کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں صرف کرے گا۔ اس کو ہمیشہ یاد رکھنے کی اور باہم یاد دہانی کرانے کی ضرورت ہے۔
حرفِ آخر:
گرچہ مرکز اور حلقہ کی سطح پر تو معاملہ کسی حدتک صحیح خطوط پر چلتا ہے لیکن ان کے ماتحت نظم میں کبھی کبھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ان امور پر توجہ نہیں دی جاتی۔ حالانکہ اصل کام تو حلقہ کے ماتحت نظم کو کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے اگر یہاں صحیح قیادت نہ ہو تو، باوجود مرکز اور حلقوں کی بہترین قیادت اور رہنمائی کے، ہماری عزیز تنظیم بحیثیتِ مجموعی غیر مؤثر ہوکر رہ جائے گی۔
سید احمد مذکر، چنئی