تمہارا کیا خیال ہے !

ایڈمن

فواز جاوید خان



ہر سال بقرعید کے موقع پر حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت اسماعیل ؑ اور ان کی قربانیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ہم سب اس پورے واقعہ سے واقف ہیں کہ کس طرح حضرت ابراہیم ؑ اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم ملتے ہی اپنے لخت جگر ، اپنے بڑھاپے کے سہارے کو اپنے ہاتھوں ذبح کرنے کے لیے نکل پڑے تھے۔ اس واقعہ کو قرآن مجید میں مختلف جگہوں پر الگ الگ انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ سورہ صافات میں اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے ’قیادت سازی ‘ یا ’تربیت‘ کا ایک بہت اہم اصول بیان کیا گیا ہے جس پر غور کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے { فلما بلغ معہ السعی قال یا بنیَّ انِّی أریٰ فی المنام أنِّی أذبحک فانظر ماذا تریٰ قال یٰأبت افعل ما تؤمر ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین} ’’ وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ابراہیم ؑ نے اس سے کہا کہ بیٹا ، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے ؟ اس نے کہا کہ ابا جان، جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے ، آپ ا ن شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔
یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ حضرت ابراہیم ؑخواب دیکھ کر اٹھتے، حضرت اسماعیل ؑ کے پاس آتے اور ان کو لے کر قربان گاہ کی طرف چل پڑتے ۔ اس صورت میں حضرت ابراہیم ؑ تو خلیل اللہ کے بلند مرتبے پر فائز ہو جاتے لیکن حضرت اسماعیل ؑشائد ذبیح اللہ نہ کہلاتے کیونکہ اگر ان کی مرضی جانے بغیر ہی ان کو قربان گاہ تک لے جایا گیا ہوتا تو شوق کی بلندیوں کی اس داستان میں ان کی کوئی حصہ داری نہ ہوتی۔ اس تاریخی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے آج ہم صرف حضرت ابراہیم ؑ کے صبر کا ہی ذکر کرتے ہوتے حضرت اسماعیل ؑ کے آداب فرزندی کے چرچے نہ ہوتے۔ اس ایک جملہ ’’ فانظر ماذا تریٰ‘‘کو ہماری زندگی کا اصول بن جانا چاہیے ۔
تحریکی کلچر میں اس اصول کی اہمیت :
تحریکات کی کامیابی کی ایک اہم شرط یہ ہوتی ہے کہ ا نہیں یکے بعد دیگرے صلاحیت مند قائد ملتے رہیں اور ایسا صرف اور صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب موجودہ قیادت اپنی رائے کو پوری تحریک پر تھوپنے کے بجائے دوسروں کو بھی اپنی رائے پیش کرنے اور اپنا موقف رکھنے پر ابھارتی رہے۔ اگر ایک شخص جو کسی تحریک یا تنظیم کی قیادت کر رہا ہو وہ ’فانظر ماذا تریٰ ‘ کے اصول سے غافل ہو ، بس اپنی ہی بات کو صحیح جانے ،اپنے ہی فیصلے کو درست تصور کرے اور اس میں کسی ترمیم کو گوارا نہ کرے تو یقین جانئے اس کے بعداس تحریک کو کوئی قیادت میسر نہیں آئے گی اور تحریک بے جان ہو کر رہ جائے گی۔بر خلاف اس کے اگر کسی تحریک کے فیصلوں میں ،اس کی پالیسی سازی میں زیر تربیت لوگوں کو بھی شرکت کا موقع دیا جائے گا تو اس تحریک کو کبھی قحط الرجال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔ ایک قائد کے جاتے ہی اور کئی کندھے اس ذمہ داری کو اٹھانے کے لیے تیار ملیں گے۔ حضرت اسماعیل ؑ کی تربیت میں حضرت ابراہیم ؑ نے اس اصول کو پیش نظر رکھا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت ابراہیم ؑ کی موجودگی میں ہی حضرت اسماعیل ؑ ان کی جگہ لینے کو تیار کھڑے تھے ۔
نبی کریم ؐ کی زندگی سے بھی ہمیں یہی سبق ملتا ہے ۔ آپ یہ دیکھیے کہ آپ ؐ کی وفات کے بعد خلافت کی ذمہ داری اٹھانے والے لوگ وہی تھے جو آپؐ کے عرصہ حیات میں آپ ؐکی مجلس مشاورت کے رکن تھے، جن سے آپ امن و جنگ، سفر و حضر ہر دو صورتوں میں مشورہ کرتے رہتے اور جن کی تربیت آپ ؐ نے ’فانظر ماذا تری ‘ کے اصول پر کی تھی۔
غزوہ بدر کے موقع پر آپؐ نے صحابہ کرام ؓ کو جمع کیا اور ان سے اس بارے میں مشورہ کیا ۔ غزوہ احد کے موقع پر تو آپ ؐنے اپنی رائے سے مصالحت کر کے ان صحابہ کرام ؓ کے شوق کو دیکھتے ہوئے جو بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے، مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا فیصلہ کیا جب کہ آپ کی اپنی رائے یہ تھی کہ اس جنگ میں دشمنوں کا مقابلہ مدینہ میں رہتے ہوئے کیا جائے۔ غزوہ خندق کے موقع پر نبی کریم ؐ نے صحابہ کرامؓ کو جمع کیا اور ان سے مشورہ طلب کیا بالفاظ دیگر ان سے کہا ’ فانظر ماذا تریٰ‘ اور اس کا ہی نتیجہ تھا کہ حضرت سلمان فارسی ؓ نے اس موقع پر جنگی اسکیم کے طور پر خندق کھودنے کا مشورہ دیا اور آپ ؐ نے اس مشورہ پر عمل بھی کیا جس سے دشمنان اسلام کی ساری چالیں ناکام ہو کر رہ گئیں ۔
یہ تو تھا جنگوں یا دنیاوی امور کا معاملہ، دین کے ان مسائل میں جن کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم نہیں آیا تھا آپ ؐ نے عموما صحابہ کرامؓ سے رائے لے کر ہی کوئی فیصلہ کیا ۔ جب مدینہ میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی اور نماز کے لیے بلانے کا کوئی طریقہ سوچا جانے لگا تو آپ ؐنے صحابہ کرام ؓ کو بلا کر ان سے مشورہ طلب کیا اور پھر کچھ صحابہ نے خواب دیکھا جس میں اذان کی موجودہ ہیئت کا بیان تھا، آخرکار آپ ؐنے اس طریقہ کی ستائش کی اور اذان کا رواج ہو گیا۔
آپؐ کے بعد تمام خلفاء راشدین بھی ’ فانظر ماذا تریٰ ‘ کے اصول کو بہترین اندا زسے برتتے رہے ۔ حضرت ابو بکر ؓ خلافت کے بیشتر معاملات حضرت عمر ؓ کے مشورہ سے ہی طے کرتے، اس طرح آپ نے حضرت عمرؓ کو اپنے بعد قیادت کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے تیار کر دیا۔ حضرت عمر ؓ اپنے دور خلافت میںخصوصا ًصحابہ کرامؓ کے ایک چنندہ گروہ سے مشورہ لے کر خلافت کے فرائض انجام دیتے اور وہ آپ کے بعد خلافت کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے بخوبی تیار تھے ۔ لیکن خلافت راشدہ کے بعد جیسے جیسے مشاورت کا نظام ختم ہوتا گیا نا اہل حکمراں مجلس حکم پر بیٹھنے لگے اور سب کچھ تلپٹ ہو گیا۔
ہمارے سامنے بہت سی ایسی تحریکات کی مثالیں ہیں جنہوں نے ’فانظر ماذا تریٰ ‘ کے اس اصول کو بہترین انداز سے اپنایا اور صدیوں اس تحریک کو ایک کے بعد ایک بہترین قائد ملتے رہے۔ اس میں سر فہرست ’تحریک شہیدین‘ کا نام آتا ہے ۔ تحریک شہیدین کے نہ جانے کتنے قائد شہید ہوئے، کتنے ہی جیلوں میں ٹھونس دیے گئے ، جلا وطن کر کے کالا پانی بھیج دیے گئے، لیکن تحریک کبھی قیادت کے فقدان کا شکار نہیں ہوئی۔
قصہ مختصر یہ کہ کسی بھی تحریک کو اگر لمبے عرصے تک میدان عمل میں باقی رہنا ہے تو اس کے لیے تحریک میں ’ فانظر ماذا تریٰ ‘ کے کلچر کو پروان چڑھانا ہوگا تاکہ کسی ایک شخص کے چلے جانے سے تحریک قیادت کے بحران کا شکار نہ ہو اور اسے یکے بعد دیگرے با صلاحیت اور اہل قائدین ملتے رہیں ۔
بچوں کی تربیت میں اس اصول کی اہمیت:
یہ اصول دراصل حضرت ابراہیم ؑ کی اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کی تربیت کے ہی پس منظر میں پیش کیا گیا ہے۔ کس طرح ایک باپ اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم ملنے کے بعد تربیت کے نقطہ نظر سے یہ چاہتا ہے کہ اپنے بیٹے کو بھی آزمائے اور نتیجتاً بیٹے کو بھی اپنے ساتھ صبر و استقامت اور شوق کی منزلیں طے کرائے۔اور ہوا بھی بالکل ویسا ہی جیسا اس نیک باپ نے سوچا تھا ۔ ایک نے خلیل اللہ کا لقب پایا تو دوسرے کو ذبیح اللہ کے لقب سے نوازا گیا۔
والدین کے اولاد کے ساتھ تعلقات میں تلخی پیدا ہونے کی عموماً دو میں سے کوئی ایک وجہ ہوتی ہے ۔یا توتعلیم کو لے کر والدین اور بچوں کے خیالات میں فرق اس تلخی کا باعث بنتا ہے یا شادی کو لے کر پیدا ہونے والے مسائل کا نتیجہ نا خوشگوار تعلقات کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔ ان دونوں مسائل کا واحد قابل عمل حل یہی ہے کہ ’ فانظر ماذا تریٰ‘ کا اصول اختیار کیا جائے۔ ہمیشہ دونوں طرف سے بات کو سمجھنے سمجھانے، سامنے والے کو اپنا موقف رکھنے اور اپنی پسند کا اظہار کرنے کی اجازت دی جائے۔ بچے والدین کے دلائل اور ان کی پسند کو جاننے ، سمجھنے اور اس پر غور کرنے کی کوشش کریں اور والدین بھی بچوں کو یہ آزادی دیں کہ ’ بتاؤ ، تمہارا کیا خیال ہے‘؟ اس صورت میں جو بھی فیصلہ ہوگا وہ امید ہے کہ زیادہ موزوں ہوگا، بہ نسبت اس کے کہ جب کوئی ایک فریق اپنی ہی رائے پر اڑ جائے اور فریق ثانی کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ہی نہ دے یا اسے سن کر بالکل ہی نکار دے اور اپنی رائے کو ہی حتمی مان کر بیٹھ جائے۔یہی وجہ ہے کہ شادی کے وقت شریعت یہ چاہتی ہے کہ لڑکی کی رضامندی بھی ہو اور ولی الامر بھی وہاں موجود ہو گویا جو بھی فیصلہ ہو وہ مشترکہ ہو ، والدین اور اولاد دونوں اس سے متفق ہوں ۔
آپ کو شاید یقین نہ آئے لیکن یہ ایک لڑکے کی سچی روداد ہے کہ اس کے گھر والوں نے اسے زبردستی سائنس سائیڈ سے بارہویں کا امتحان دلوایا اور میڈیکل میں اس کا ایڈمیشن کرا دیا۔ اس نے پانچ سال ایم بی بی ایس کیا اس کے بعد گھر والوں کے ہی دباؤ میں ایم ڈی کیا ۔ یہ گویا ایک خواب ہے جو کسی بھی میڈیکل اسٹوڈنٹ کا ہوتا ہے کہ وہ ایم بی بی ایس کرے پھر ایم ڈی میں بھی ایڈمیشن مل جائے اور وہ ایم ڈی بھی کر لے لیکن وہ لڑکا ایم ڈی کرنے کے بعد جب گھر والوں کے دباؤ سے آزاد ہو گیا تواس نے جرنلزم میں ایڈمیشن لے لیا جو کہ بارہویں کے بعد سے ہی اس کی دلچسپی کا مرکز تھا۔اس کے والدین نے شاید کبھی یہ سوچا بھی نہیںہوگا کہ ’فانظر ماذا تریٰ‘ کا حق نہ دے کر انہوں نے اس کے سالہا سال برباد کر دیے ۔ ساتھ ہی بہت سی ایسی مثالیں بھی ہیں جہاں بچوں نے نا سمجھی کا مظاہرہ کیا اور اپنی غلط رائے پر جمے رہے ،والدین کو اپنی رائے رکھنے یا ان کی رائے پر غور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی اور بالآخربڑا نقصان اٹھایا ۔
قصہ مختصر یہ کہ والدین اور بچوں کے درمیان مسائل کا واحد حل ہے ’ فانظر ماذا تریٰ ‘۔ فریق ثانی کو اپنی رائے رکھنے کا موقع دینا اور اسے بھی اپنی فیصلے میں شامل کرنے کی کوشش کرنا ۔ جہاں یک طرفہ فیصلے والا رویہ اختیار کیا جائے گا افہام و تفہیم کے دروازے بند کیے جائیں گے وہاں مسائل اور تلخیوں کا پیدا ہونا حتمی ہے۔
چھوٹے بھائیوں کی تربیت میں اس اصول کی اہمیت :
کل رات کھانے کے بعد ٹہلتے ہوئے ایک دوست کہنے لگا کہ چھوٹے بھائی اب اس کی کوئی بات نہیں مانتے ۔ وہ ان کو پڑھانا چاہتا ہے لیکن وہ پڑھنے کو تیار نہیں ،ان کو اسلامی تحریک سے جوڑنا چاہتا ہے لیکن وہ اس کے لیے بھی تیار نہیں۔ ان کو عبادات سے، بلکہ دین سے قریب کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اس کی کوئی بات نہیں مان رہے ہیں ۔ کچھ دیر بعد وہ کہنے لگا کہ ان کو سدھارنے کے لیے میں نے کئی بار مارا بلکہ حد تو یہ ہے کہ ان کو برے دوستوں کی صحبت سے دور کرنے کے لیے میں نے بھرے بازار میں ان کے دوستوں کو بھی مارا ہے ۔ نتیجہ صاف ہے وہ جتنی سختی کرتا گیا اس کے بھائی اس سے اتنا ہی دور اور برے دوستوں سے اتنا ہی قریب ہوتے گئے ، اب یہ حال ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی کی کوئی بھی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں ۔ ایسا بارہا ہمارے دیکھنے میں آتا ہے اور کیوں نہ آئے جب ہم ’ فانظر ماذا تریٰ ‘ کے اہم اصول کو پس پشت ڈال کر ڈنڈے کے زور پر تربیت کرنے نکلیں گے تو یہی ہوگا ۔
چھوٹے بھائیوں کی تربیت میں بڑے بھائیوں کا بڑا کردار ہوتا ہے بلکہ کبھی تو والدین سے زیادہ بڑا بھائی چھوٹے بھائیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ عموما ًبڑے بھائی چھوٹے بھائیوں کی تربیت کرنا اپنی ذمہ داری تو سمجھتے ہیں لیکن اس کے لیے وہ لاٹھی ڈنڈے کا استعمال کرتے ہیں جو پہلے بھی بالکل غیر مناسب تھا اور اب بدلتے ہوئے معاشرہ میں تو یہ رویہ انتہائی نقصاندہ اثرات کا حامل ہے ۔ تربیت کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے ’فانظر ماذا تریٰ‘ ۔ آپ اپنے چھوٹے بھائی کو سمجھایئے ، اس کو ساتھ لے کر بیٹھیے ، اس کو صحیح غلط کی نشاندہی کروایئے اور اس بات کی کوشش کیجیے کہ وہ خود اچھے برے ، صحیح غلط کی تمیز کرنے لگے ۔کوشش کیجیے کہ کبھی اپنی بات اس پر تھوپنے کی کیفیت نہ پیدا ہوورنہ پوری محنت پر پانی پھر جائے گا ۔
دعوت دین کی راہ میں اس اصول کی اہمیت:
دعوت دین کا راستہ انتہائی حکمت اور سوجھ بوجھ کا متقاضی ہے ۔ یہ کام دودھاری تلوار چلانے کے مانند ہے اگر آپ اس کو چلانے کے ہنر سے واقف نہیں ہیں تو یقینا خود اپنا نقصان کر بیٹھیں گے۔اگرآپ کے اندر داعیانہ سوجھ بوجھ کی کمی ہے تو خدارا آپ کوئی اور کام کیجیے دعوت کا کام کر کے لوگوں کو دین سے متنفر کرنے کا باعث مت بنئے۔
دعوت کام صرف اور صرف سمجھا بجھا کر ہی کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے، زور زبردستی ، اپنی بات کو کسی بھی طرح منوانے کی کوشش کرنا دعوت کے کاز کو الٹا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ داعی کو ’ فانظر ماذا تریٰ‘ کا اصول ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے ۔ آپ سامنے والے کو صحیح غلط ، بھلا برا ، حق باطل سب کچھ سمجھانے کے بعد اس سے کہیے کہ ’اب بتاؤ ، تمہارا کیا خیال ہے‘؟ خود قرآن مجید بھی دعوت کے سلسلے میں اسی اصول کو پیش نظر رکھتا ہے۔ قرآن میں اللہ تبارک وتعالی آفاق و انفس میں بکھری ہوئی اپنی بے شمار نشانیوں کا ذکر کرتا ہے پھر کہتا ہے ’ اس سب میں نشانیاں ہیں دیکھنے والوں کے لیے ، سننے والوں کے لیے، سمجھنے والوں کے لیے ، غور و فکر کرنے والوں کے لیے‘۔ نبی کریم ؐکی دعوت کا بھی یہی مزاج تھا، آپ کفر و شرک کی ساری خرابیاں اور اسلام کی ساری برکتیں و سعادتیں لوگوں کو کھول کھول کر سمجھا دیتے پھر ان سے پوچھتے کہ اب تم ہی بتاؤ تمہارا کیا خیال ہے، کفر و شرک کی گندگیوں میں جینا چاہتے ہو یا اسلام کے سایہ عاطفت میں ۔ حضرت یوسف ؑ کی زبانی قرآن میں بالکل یہی معنی رکھنے والاایک جملہ نقل کیا گیا ہے {یا صاحبی السجن أ أرباب متفرقون خیر أم اللہ الواحد القہار} ’’اے میرے جیل کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے‘‘ ۔
اسی کو ایک مثال سے اس طرح سمجھ لیں کہ اگر ایک شخص ہاتھ میں گدلے پانی کا ایک گلاس لیے کھڑا ہو اور آپ کو اسے سمجھانا ہو کہ تمہارے گلاس میں جو پانی ہے وہ صاف و شفاف نہیں ہے بلکہ گدلا ہے تو آپ کیا کریں گے ؟ کیا اس کو طرح طرح کی دلیلیں دیں گے، اس کے گلاس میں موجود پانی کی برائیاں نکالنے اور پھر اس سے بحث ومباحثہ کرنے میں اپنا وقت برباد کریں گے یا یہ کہ صاف پانی کا ایک گلاس لا کر اس کے سامنے رکھ دیں گے کہ ’فانظر ماذا تریٰ‘ دیکھو ، خود ہی دیکھو تمہارا کیا خیال ہے؟
دعوت کا کام بھی بالکل اسی طرح کا کام ہے، لوگ باطل عقائد کو سینے سے لگائے ، باطل نظریات کو دونوں ہاتھوں سے جکڑے کھڑے ہوئے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا حق آپ کے پاس موجود ہے اب آپ کا کام بس اتنا ہے کہ اس حق کو اس باطل کے سامنے پوری مضبوطی اور تیاری کے ساتھ ، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ پیش کر تے ہوئے کہیں کہ ’ فانظر ماذا تریٰ‘ اب اگر وہ نیک طبیعت ہوگا، سچائی کو پرکھنے اور سمجھنے والا ہوگا اور حق تعالیٰ نے خیر کے لیے اس کے دل کو کھول دیا ہوگا تو یقینا وہ اس حق کو قبول کر لے گا بصورت دیگر آپ نے اپنا فرض ادا کر دیا ، حق اس تک پہنچا دیا، آگے اس کی مرضی چاہے تو صاف و شفاف پانی کا گلاس لے لے یا پھر اپنی انا کی خاطر اسی گدلے پانی سے اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کرتا رہے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بی ڈی ایس کے طالب علم ہیں )

ستمبر 2021

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں