آج تعلیم کو ترقی اور کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، یقیناًتعلیم کسی فرد کے لیے کامیابی اور ترقی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
ایک تعلیم یافتہ فرد کی اپنی زندگی میں ترقی اور کامیابی کے امکانات ایک ان پڑھ اور غیرتعلیم یافتہ شخص کی بہ نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔ ملک وقوم کی ترقی میں بھی تعلیم یافتہ افراد اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
سماج میں علم کی اپنی اہمیت ہے، علم کو انسان کی تیسری آنکھ بھی کہا جاتا ہے۔ مختلف مذاہب میں علم کی اہمیت وافادیت مختلف لحاظ سے بیان کی گئی ہے۔ اسلام میں بھی علم کے حصول پر بہت زور دیا گیا ہے، بلکہ اسے فرض قرار دیا گیا ہے۔ مختلف مخلوقات پر انسان کی فضیلت اور برتری کی وجہ بھی علم ہی ہے، گویا انسان کو انسان بنانے والی چیز علم ہی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو علم کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔
جدید دنیا نے تعلیم کو معاش سے جوڑ دیا، لہٰذا تعلیم کا رُخ بھی اسی کے مطابق طے ہونے لگا، آج اچھے سے اچھے روزگار کا حصول تعلیم کا بنیادی مقصد بن کر رہ گیا ہے۔
طلبہ اپنے تعلیمی سفر کا آغاز ہی معاش اور روزگار کی منزل پر پہنچنے کے لیے کرتے ہیں۔ اس طرح تعلیم کا تصور ’تعلیم برائے خدمت‘ کی جگہ ’تعلیم برائے روزگار‘ میں تبدیل ہوگیا۔ اس قسم کی سوچ نے طلبہ کو تعلیم کے حقیقی تصور کی طرف رُخ کرنے کا موقع ہی نہیں فراہم کیا۔ طلبہ کی فکر اور سوچ صرف حصول معاش تک ہی محدود ہوکر رہ گئی، اس سے پرے ایک طالب علم کے نزدیک تعلیم کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔ تعلیمی سفر میں امتیازی نمبرات سے امتحان میں کامیاب ہونا ہے، یہ ان کا Short Term Goalہے، اور حصول تعلیم کے بعد اچھی نوکری حاصل کرناہے، یہ ایک طالب عالم کا Long Term Goal ہوتا ہے۔
آج تعلیم کے حقیقی تصور کو طلبہ برادری کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ تعلیم کا حقیقی مقصد انسان سازی کا کام ہے، جس میں انسان کے کردار، اخلاق، اور اس کے ظاہر وباطن کو سنوارا اور تراشا جاتا ہے۔ انسان کو خود شناسی اور خدا شناسی کے ہنر سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ علم کی بنیاد ہی پر انسان حق وباطل میں فرق، صحیح وغلط کی تمیز اور عدل وانصاف کے تقاضوں کی تکمیل کرسکتا ہے۔ علم ہی کی روشنی سے وہ جہالت کی ظلمتوں سے نکل کر خالق کائنات تک پہنچ سکتا ہے اور ساری انسانیت کو کائنات میں موجود قدرت کے کرشموں سے روشناس کراسکتا ہے، اور نئی نئی ایجادات اور نئے نئے انکشافات سے دنیا کو مالامال کرسکتا ہے۔
علم کوئی معمولی شئے نہیں ہے، یہ معرفت الہٰی کا ذریعہ ہے، جسے آج کے انسان نے سامان تجارت بناکر رکھ دیا ہے۔ آج علم کی بازار میں وہی حیثیت ہے جو ددیگر اشیاء تجارت کی ہے، اس کے لیے اسی طرح مول بھاؤ کیا جارہا ہے جیسا کہ عام اشیاء کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یہ صورت حال تعلیمی دنیا کے لیے بڑی ہی تشویشناک ہے۔ تعلیم کے موجودہ فلسفہ کو صحیح رُخ دینے کی ضرورت ہے، ورنہ موجودہ تعلیمی صورتحال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی۔
کسی بھی تعلیمی نظام کے کئی اجزاء اور عناصر ہوتے ہیں، جن کی بنیاد پر کوئی تعلیمی نظام تشکیل پاتا ہے، اس نظام کے چلنے اور پھلنے پھولنے میں یہ عناصر اور اجزاء اہم رول ادا کرتے ہیں۔
استاذ اور طالب علم یہ تعلیمی نظام کے دومختلف مگر اہم ترین اجزاء ہیں، اگر ان دونوں اجزاء کی صحیح طور سے ذہن سازی کی جائے اور یہ دونوں اجزاء اپنی اپنی جگہ پر صحیح اور حقیقی ذمہ داری ادا کرتے رہیں تو تعلیمی نظام کا رُخ بڑی حد تک اپنی حقیقی اور فطری منزل کی جانب چل پڑے گا۔
اساتذہ طلبہ کو تعلیم کے نام پر صرف معلومات ہی فراہم نہ کریں بلکہ وہ طلبہ کے سینوں کو علم وہنر کی دولت سے مزین کردیں، اور طلبہ کے اخلاق وکردار کو سنوارنے، طلبہ کی صلاحیتوں کو ارتقاء کے راستے پر لگانے، اور انہیں صحیح رُخ پر پروان چڑھانے کا کام کریں۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’’اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماََ‘‘میں ایک معلم بناکر بھیجا گیا ہوں۔ آپؐ نے ایک معلم کی حیثیت سے لوگوں کے اخلاق وکردار سنوارنے اور ان کے نفوس کے تزکیہ کا کام کیا۔ ایک استاذ کے لیے آپ کا اسوہ بے حد اہم ہے، ایک استاذ کی ذمہ داری بلکہ اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے طلبہ کے اخلاق وکردار سنوارنے اور ان کے نفوس کا تزکیہ کرنے کی کوشش کرے، ایک استاذ یہ کام اسی وقت انجام دے سکتا ہے جبکہ خود اس کے اخلاق وکردار اس کی گواہی دے رہے ہوں۔
طلبہ کے لیے ضروری ہے کہ ان کا مقصد بلند ہو، وہ محض سطحی علم نہ حاصل کریں، بلکہ وہ علم کے سمندر کی گہرائیوں میں غوطہ لگانے کی کوشش کریں۔علامہ اقبال کے بقول’’کم ازکم یہ خواہش اور تمنا کریں کہ ہم وقت کے امام بنیں گے‘‘۔
تنویر احمد، اکولہ