ڈاکٹر محمد رفعت
اپنی فطری داعیات کے سبب انسان اجتماعی زندگی گزارتا ہے۔ اجتماعی زندگی کی ابتدا خاندان سے ہوتی ہے۔ چنانچہ ہر شخص کسی نہ کسی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ دنیا میں جب قبائلی نظام رائج تھا تو ہر فرد اپنے خاندان کے علاوہ کسی نہ کسی قبیلے سے بھی وابستگی رکھتا تھا (کیونکہ ہر قبیلہ متعدد خاندانوں پر مشتمل ہوتا تھا)۔ اب بھی دنیا کے بہت سے خطوں میں قبائلی نظام موجود ہے۔ خاندانی اور قبائلی شناخت کی طرح، انسانوں کی نسلی شناخت بھی ہوتی ہے مثلاً ہمارے ملک میں آریہ نسل سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ہیں اور دراوڑ نسل کے بھی۔ اسی طرح باہمی تعارف کراتے وقت اشخاص اپنے علاقے اور ملک کا بھی ذکر کرتے ہیں چنانچہ مثال کے طور پر ایک شخص کے تعارف میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ایشیائی ہے یا امریکی، ہندوستانی ہے یا چینی اور بنگالی ہے یا پنجابی۔ علاقے اور ملک کے علاوہ زبان بھی گروہوں کی شناخت کی بنیاد بنتی ہے چنانچہ عربی بولنے والے ایک لسانی گروہ سمجھے جاتے ہیں اور تمل بولنے والے دوسرا لسانی گروہ۔ انسانوں کی اجتماعی پہچان کی یہ چند مثالیں ہیں جن میں خاندان، قبیلہ، نسل، زبان اور علاقے کے اشتراک کی بنا پر افراد میں ایک گروہ ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ انسانوں میں اس نوعیت کا فرق، فطری اسباب سے وجود میں آتا ہے اس لیے ان مختلف انسانی گروہوں میں کسی کو دوسرے سے برتر یا کم تر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایسا کرنا عقل کے خلاف ہوگا۔ ظاہر ہے کہ نسل، مادری زبان، پیدائشی وطن اور خاندان کاانتخاب، کسی فرد کے اختیار میں نہیں۔ یہ خالقِ کائنات کی مشیت ہی طے کرتی ہے کہ کون شخص کس خاندان میں پیدا ہوگا اور اس خاندان کا تعلق کس نسل، قبیلے اور خطے سے ہوگا۔ اس معاملے میں اس فرد سے کوئی رائے نہیں لی جاتی، جو خصوصیات، فرد کے اکتساب کانتیجہ نہ ہوں بلکہ خالصۃً، مشیتِ الٰہی سے کسی شخص کو ملی ہوں، اُن پر فخر کرنا، انتہائی نادانی کی بات ہے۔ اس طرح ان خصائص کے فرق کو انسانوں کے درمیان معزز اور غیر معزز کی تقسیم کی بنیاد بنانا بھی بے عقلی ہے۔ تاہم یہ حیرت انگیز واقعہ ہے کہ دنیا میں یہ نادانی پہلے بھی عام تھی اور آج بھی عام ہے۔
تعصب کے معنی:
آج بھی سفید نسل والے، کالے رنگ والوں کو کم تر سمجھتے ہیں۔ جاہلیت کے دور میں عرب والے باقی ساری دنیا کے مقابلے میں زبان دانی میں اپنے کو برتر سمجھتے تھے چنانچہ غیر عرب گروہوں کو عجمی قرار دیتے تھے (یعنی وہ جو بولنا نہیں جانتے)۔ ہمارے ملک میں پیدائش کی بنیاد پر انسانوں کو اونچا اور نیچا سمجھا جاتا ہے۔ دنیا کی بہت سی قوموں میں یہ غلط خیال عام ہے کہ تہذیب کی ترقی میں صرف اُن کی قوم نے اہم رول ادا کیا ہے اور باقی ساری اقوام، محض تقلید کرتی رہی ہیں۔ اس طرح کے غلط خیالات کو تعصب کہا جاتا ہے۔
تعصب—
یعنی اپنے گروہ کو برتر اور دوسرے گروہ کو کم تر سمجھنے سے عملی خرابیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ انسان اپنے گروہ کی بے جا طرف داری اور حمایت کرتا ہے اور دوسرے گروہوں کے حقوق پر دست درازی کرتا ہے۔ اس طرح فکروخیال کی کجی، عملی فساد کی شکل اختیار کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ تعصب کے یہ فکری و عملی مظاہر، انسانی سماج کے امن و امان کے لیے مستقل خطرہ ہیں۔ تعصب کے نتیجے میں بے انصافی اور ظلم ہوتا ہے، گروہ باہم ٹکراتے ہیں اور انسانی وسائل اور توانائی کسی مفید کام میں صَرف ہونے کے بجائے تصادم کی نذر ہوجاتی ہے۔ جب کسی متعصب گروہ کو اقتدار مل جاتا ہے تو اس کے ظلم کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے۔ وہ مختلف حربوں سے دوسرے گروہوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح کی ظالمانہ حرکات کا ردِ عمل بھی اکثر سامنے آتا ہے اور تعصب سے متاثر خطہ، خانہ جنگی کی کیفیت سے دوچار ہونے لگتا ہے۔ انسانی تاریخ میں تعصب کے برے اثرات کی مثالیں موجود ہیں جو عبرت کا سامان ہیں۔ خود آج کی دنیا بھی تعصب کے تباہ کن نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔
فلسفیانہ تناظر:
اپنے فکروعمل میں انسان جو رویہ بھی اختیار کرتا ہے اُس کی بنا— اُس مخصوص تصورِ حیات وکائنات اور تصورِ انسان پر ہوتی ہے، جس کو وہ درست سمجھتا ہے۔ اگر حیات و کائنات کے بارے میں اور انسانی وجود کے سلسلے میں انسان کا نقطہ نظر،آفاقی نوعیت کا ہو تو اس کی شخصیت تعصب سے بلند ہوتی ہے۔ اُس کی فکر کی نشوونما عقلی استدلال کے ذریعے ہوتی ہے اور اُس کا عمل، صحت مند محرکات کا تابع ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر حیات وکائنات اور انسانیت کے متعلق، کسی شخص کا تصور — آفاقی نہ ہو بلکہ تنگ نظری پر مبنی ہو تو اُس کے افکار و اعمال میں بھی سطحیت، تنگ دلی اور پستی کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ ایسا شخص، آسانی سے تعصب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
حیات وکائنات اور انسانیت کے سلسلے میں تین نقطہ ہائے نظر موجود ہیں، یعنی الحاد، شرک اور توحید۔ الحاد اور شرک— انسان کو تنگ نظری اور تنگ دلی کی طرف لے جاتے ہیں جبکہ توحید کے قائل فرد کی شخصیت بلند اور پاکیزہ ہوتی ہے۔ الحاداور شرک کا طرزِ فکر، آفاقیت کی نفی کرتا ہے جبکہ توحید، آفاقیت کا اثبات ہے۔ الحاد اور شرک کو اختیار کرنے والا ظاہر بینی کی طرف مائل ہوتا ہے جبکہ توحید پر یقین رکھنے والا حقائق کا درست ادراک کرتا ہے۔
کھویا نہ جا، صنم کدہ کائنات میں
محفل گداز، گرمی محفل نہ کر قبول
انسانوں اور اشیاء سے تعلق:
انسان تعلقات سے گھرا ہوا ہے۔ سب سے پہلے تو اس کا ہمہ وقت تعلق خود اپنے نفس سے ہوتا ہے یعنی وہ اپنے وجود کا احساس رکھتا ہے اور اپنے خیالات، جذبات اور تمناؤں کے عالمِ اصغر میں اُس کی شعوری زندگی گزرتی ہے۔ پھر انسان، اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ انسانی روابط، وسیع اور متنوع ہوتے ہیں۔ اپنی پوری زندگی میں ایک شخص کا، انسانوں سے مسلسل واسطہ پیش آتا ہے۔ انسانوں میں اُس کے دوست بھی ہوتے ہیں اور دشمن بھی۔ بہت سے افراد سے وہ لین دین کرتا ہے، تعاون حاصل کرتا ہے اور تعاون پیش کرتا ہے، عہدوپیمان باندھتا ہے اور سماجی و سیاسی امور میں اشتراک کرتا ہے۔ انسانوں کے علاوہ، ایک شخص کا کائنات کی اشیاء سے بھی تعلق ہوتا ہے اس لیے کہ وہ اُن اشیاء کے خواص معلوم کرتا ہے اور اُن کو اپنے کام میں لاتا ہے۔ اپنے آپ سے، دوسرے انسانوں سے اور دنیا کی چیزوں سے ان تعلقات کی استواری کے نتیجے میں انسان کو نئے تجربات حاصل ہوتے ہیں اور اس کی عقلی نشوونما ہوتی ہے۔انسان کی فکر و نظر کی تشکیل میں اس کے یہ تجربات، بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور انسانی شعور کو کوئی خاص رخ دینے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا روابط و تعلقات وسیع بھی ہیں اور متنوع بھی، تاہم ان میں ایک محدودیت پائی جاتی ہے جس کی وجہ ان روابط کی سطح ہے۔ اصولی اعتبار سے سارے انسان ایک سطح پر ہیں چنانچہ جب ایک شخص اپنے بارے میں یا دوسرے انسانوں کے بارے میں سوچتا ہے یا اپنے جیسے افراد کے ساتھ زندگی کی تگ و دو میں شریک ہوتا ہے تو اپنی سطح سے بلند نہیں ہوپاتا۔ اسی طرح، اشیائِ کائنات— انسان سے رتبے اور حیثیت میں کم تر ہیں۔ اس لیے اُن کا استعمال انسان کو آسودگی تو عطا کرتا ہے مگر بلندی نہیں عطا کرتا۔ چنانچہ انسان کے فکر وعمل کی پرواز، اگر اُن روابط تک ہی محدود رہے، جو دوسرے انسانوں سے یا چیزوں سے قائم کیے جاسکتے ہوں، تو اُسے وہ عظمت و رفعت نہیں ملتی، جس کی طلب انسانی فطرت میں موجود ہوتی ہے۔ بلندی اور عظمت سے محروم — انسانی شخصیت— آفاقیت کی رمز شناس نہیں ہوسکتی۔ ایسا انسان، ماحول سے متاثر ہوجاتا ہے اور آسانی سے تعصب کا شکار ہوجاتا ہے۔ انسانی سرگرمیاں سطحی ہوں تو انسان کے شعور کو پختگی حاصل نہیں ہوتی۔
اپنی جولاں گاہ، زیرِ آسماں سمجھا تھا میں
آب و گِل کے کھیل کو اپنا جہاں، سمجھا تھا میں
بے حجابی سے تری ٹوٹا، نگاہوں کا طلسم
اِس ردائے نیل گوں کو آسماں سمجھا تھا میں
ربِ کائنات سے تعلق:
انسان کی شخصیت، بلندی، رفعت اور عظمت سے اُس وقت ہم کنار ہوتی ہے جب اُس کا تعلق ربِ کائنات سے قائم ہوتا ہے۔ اللہ کے قرب کے طلب گار انسان کی نگاہ وسیع ہوتی ہے اور اُس کا تصور آفاقی ہوتا ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ خالقِ کائنات سے تعلق کی بنیاد صرف توحید ہوسکتی ہے۔ ملحد تو خالقِ کے وجود کا ہی قائل نہیں ہوتا چنانچہ اُس سے تعلق کیسے قائم کرسکتا ہے؟ رہے مشرک افراد تو وہ خدا کے وجود کے قائل ہوتے ہیں لیکن اُس کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کرتے ہیں چنانچہ محبت کے جذبات جو خدا کے لیے ہونے چاہئیں، ایسے جذبات وہ جھوٹے معبودوں کے لیے بھی اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ اس لیے ملحدین اور مشرکین، دونوں کا طرزِ فکر اور طرزِ زندگی، انہیں آفاقیت سے بے گانہ کردیتا ہے، اور عظمت و بلندی کے بجائے پستی اور کوتاہ بینی اُن کے حصے میں آتی ہے۔
یَعْلَمُونَ ظَاہِراً مِّنَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ عَنِ الْآخِرَۃِ ہُمْ غَافِلُونَ o ( الروم: ۷)
’’یہ لوگ، دنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور آخرت سے غافل ہیں۔‘‘
سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ(۱) لِّلْکَافِریْنَ لَیْْسَ لَہُ دَافِعٌ (۲) مِّنَ اللّٰہِ ذِیْ الْمَعَارِجِ (۳) تَعْرُجُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ إِلَیْْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ (۴) (المعارج: ۱-۴)
’’مانگنے والے نے عذاب مانگا ہے، (وہ عذاب) جو ضرور واقع ہونے والا ہے، کافروں کے لیے ہے۔ کوئی اُسے دفع کرنے والا نہیں، اُس خدا کی طرف سے ہے جو عروج کے زینوں کا مالک ہے۔‘‘
أَوَ مَنْ کَانَ مَیْْتاً فَأَحْیَیْْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہُ نُوراً یَمْشِیْ بِہِ فِیْ النَّاسِ کَمَن مَّثَلُہُ فِیْ الظُّلُمَاتِ لَیْْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا کَذَلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِیْنَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَo (الانعام: ۱۲۲)
’’کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اُس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے، اُس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو۔؟‘‘
إِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعاً لَّسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْْئٍ إِنَّمَا أَمْرُہُمْ إِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّئُہُم بِمَا کَانُواْ یَفْعَلُونo (الانعام:۱۵۹)
’’جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ، گروہ بن گئے، یقینا اُن سے تمہارا کوئی واسطہ نہیں۔ ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی اُن کو بتائے گا کہ انھوںنے کیا کچھ کیا ہے۔‘‘
وَاتْلُ عَلَیْْہِمْ نَبَأَ الَّذِیَ آتَیْْنَاہُ آیَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْہَا فَأَتْبَعَہُ الشَّیْْطَانُ فَکَانَ مِنَ الْغَاوِیْنَo وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاہُ بِہَا وَلَـکِنَّہُ أَخْلَدَ إِلَی الأَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ الْکَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَیْْہِ یَلْہَثْ أَوْ تَتْرُکْہُ یَلْہَث ذَّلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونo (اعراف: ۱۷۵-۱۷۶)
’’ان کے سامنے اس شخص کا حال بیان کرو، جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا، مگر وہ اُن کی پابندی سے نکل بھاگا۔ آخر کار شیطان اُس کے پیچھے پڑگیا، یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہوکر رہا۔ اگر ہم چاہتے تو اُسے ان آیتوں کے ذریعے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہشِ نفس کے پیچھے پڑا رہا۔ لہٰذا اُس کی حالت، کتے کی سی ہوگئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اُسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔ یہی مثال ہے اُن لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ تم یہ حکایات ان کو سناتے رہو، شاید کہ یہ کچھ غوروفکر کریں۔‘‘
تعصب کا تدارک:
یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ انسان کی کوتاہ بینی، تنگ نظری اور تنگ دلی اُس کو تعصب کی طرف مائل کرتی ہے۔ وہ اپنی اور کائنات کی حقیقت سے بے خبر ہوتا ہے چنانچہ اُس کی فکر و نظر محدود ہوتی ہے۔ ایسا شخص عظمتِ کردار کا طلب گار نہیں ہوتا بلکہ اپنی خواہشات کا بندہ بنا رہتا ہے۔ چنانچہ دوسرے انسانوں کے ساتھ انصاف، رحم اور فیاضی کا معاملہ کرنے کے بجائے، وہ محض اپنے مادی مفاد کو سامنے رکھتا ہے اور دنیوی فائدوں کے حصول کے لیے تمام اعلیٰ قدروں کو پامال کردیتا ہے۔ ایسے شخص کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ اُسے، اُس کے رب سے روشناس کرایا جائے، حقائق سے اُسے آگاہ کیا جائے اور رب کے سامنے حاضری کی یاددہانی کی جائے۔ اگر وہ اپنے قلب و ذہن اور فکر و کردارمیں صالحیت اختیار کرلے تو تعصب سے بچ سکتا ہے۔ قرآن نے اس سلسلے میں فرعون کی مثال دی ہے۔
فرعون نے اقتدار کے نشے میں چور ہوکر رب کائنات کی حاکمیت کا انکار کیا اور زمین میں فساد برپا کیا۔ اس نے تعصب کا رویہ اختیار کیا اور بنی اسرائیل کو اپنے ظلم و ستم کا شکار بنایا۔ قرآن مجید نے اس کی روش کا تذکرہ کیا ہے:
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِیْ الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَہْلَہَا شِیَعاً یَسْتَضْعِفُ طَائِفَۃً مِّنْہُمْ یُذَبِّحُ أَبْنَاء ہُمْ وَیَسْتَحْیِیْ نِسَاء ہُمْ إِنَّہُ کَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنo (قصص:۴)
’’واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اُس کے باشندوں کو تقسیم کردیا۔ اُن میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اُس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اُس کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔‘‘
چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی کہ فرعون کی اصلاح کی کوشش کریں۔ اصلاح کی بنیاد کی بھی اللہ نے نشان دہی کی یعنی ’’رب کی طرف رجوع اور دل کو اُس کے خوف سے معمور کرنا۔‘‘ قرآن مجید کا ارشاد ہے:
ہَلْ أتَاکَ حَدِیْثُ مُوسٰی o إِذْ نَادَاہُ رَبُّہُ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًیo اِذْہَبْ إِلَی فِرْعَوْنَ إِنَّہُ طَغَیo فَقُلْ ہَل لَّکَ إِلَی أَن تَزَکَّیo وَأَہْدِیَکَ إِلَی رَبِّکَ فَتَخْشَیo (نازعات:۱۵-۱۹)
’’کیا تمہیں موسیٰ کے قصے کی خبر پہنچی ہے؟ جب اُس کے رب نے اسے طویٰ کی مقدس وادی میں پکارا تھا کہ ’’فرعون کے پاس جاؤ، وہ سرکش ہوگیا ہے اور اس سے کہو کہ کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے اور میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو (اُس کا) خوف تیرے اندر پیدا ہو؟‘‘
لیکن جیسا کہ معلوم ہے فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ اپنی گمراہی، تکبر اور تعصب پر قائم رہا، چنانچہ اللہ کی سزا کا شکار ہوا۔
فَأَرَاہُ الْآیَۃَ الْکُبْرَیo فَکَذَّبَ وَعَصَیo ثُمَّ أَدْبَرَ یَسْعَیo فَحَشَرَ فَنَادَیo فَقَالَ أَنَا رَبُّکُمُ الْأَعْلَیoفَأَخَذَہُ اللّٰہُ نَکَالَ الْآخِرَۃِ وَالْأُولَیo إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَن یَخْشَی o (نازعات: ۲۰-۲۶)
’’پھر موسیٰ نے فرعون کو (اللہ کی عطا کردہ) بڑی نشانی دکھائی۔مگر فرعون نے جھٹلادیا اور نہ مانا۔ پھر وہ چالبازیاں کرنے کے لیے پلٹا اور لوگوں کو جمع کرکے اُس نے پکار کر کہا کہ ’’میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔‘‘ آخر کار اللہ نے اُسے آخرت اور دنیا کے عذاب میں پکڑلیا۔ درحقیقت اس میں بڑی عبرت ہے، ہر اُس شخص کے لیے جو ڈرے۔‘‘
وَاسْتَکْبَرَ ہُوَ وَجُنُودُہُ فِیْ الْأَرْضِ بِغَیْْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوا أَنَّہُمْ إِلَیْْنَا لَا یُرْجَعُونَo فَأَخَذْنَاہُ وَجُنُودَہُ فَنَبَذْنَاہُمْ فِیْ الْیَمِّ فَانظُرْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظَّالِمِیْنo (قصص:۳۹-۴۰)
’’فرعون اور اُس کے لشکروں نے زمین میں بغیر کسی حق کے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور سمجھے کہ انھیں کبھی ہماری طرف پلٹنا نہیں ہے۔ آخر کار، ہم نے اس کو اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندرمیں پھینک دیا۔ اب دیکھ لو کہ ان ظالموں کا کیسا انجام ہوا۔‘‘
عمرانی تناظر:
حیات وکائنات کی حقیقت سے بے خبری، تعصب کی طرف انسان کو لے جاتی ہے۔ اس بنیادی سبب کے علاوہ، تعصب کا عمرانی تناظر بھی قابل توجہ ہے۔ جب انسان، وحدتِ بنی آدم کو فراموش کردیتا ہے تو وہ تعصب کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ قبیلہ، نسل، رنگ اور علاقے کے تمام اختلافات کے باوجود، سارے انسان، ایک ہی انسانی جوڑے (آدم و حوا) کی اولاد ہیں، چنانچہ سب ایک عالم گیر برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کے درمیان، رنگ و نسل کے فرق کی وجہ سے تعصب برتنا، بے خبری کی علامت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌo (حجرات:۱۳)
’’اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اورپھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت، اللہ کے نزدیک، تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ، سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس آیت میں پوری نوعِ انسانی کو خطاب کرکے اُس عظیم گمراہی کی اصلاح کی گئی ہے جو دنیا میں ہمیشہ عالم گیر فساد کی موجب بنی رہی ہے، یعنی نسل، رنگ، زبان، وطن اور قومیت کا تعصب۔ اس مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مخاطب کرکے تین نہایت اہم اصولی حقیقتیں بیان فرمائی ہیں۔
ایک یہ کہ تم سب (انسانوں) کی اصل ایک ہی ہے، ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت سے تمہاری پوری نوع وجود میں آئی ہے۔ اور آج تمہاری جتنی نسلیں (Races) بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ درحقیقت ایک ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں جو ایک ماں اور ایک باپ سے شروع ہوئی تھی۔
دوسرے یہ کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود تمہارا قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہوجانا، ایک فطری امر تھا۔ مگر اس فطری فرق و اختلاف کا تقاضا، یہ ہرگز نہ تھا کہ اس کی بنیاد پر اونچ اور نیچ، شریف اور کمین، برتر اور کم تر کے امتیازات قائم کیے جائیں، ایک نسل دوسری نسل پر اپنی فضیلت جتائے، ایک رنگ کے لوگ، دوسرے رنگ کے لوگوں کو ذلیل و حقیر جانیں اور ایک قوم، دوسری قوم پر اپنا تفوق جمائے۔ خالق نے جس وجہ سے انسانی گروہوں کو اقوام اور قبائل کی شکل میں مرتب کیا تھا وہ صرف یہ تھی کہ اُن کے درمیان باہمی تعاون اور تعارف کی فطری صورت یہی تھی۔
تیسرے یہ کہ انسان اور انسان کے درمیان، فضیلت اور برتری کی بنیاد اگر کوئی ہے اور ہوسکتی ہے تو وہ صرف اخلاقی فضیلت ہے۔‘‘ (ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی)
تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کی مندرجہ بالا تعلیم تعصب دور کرسکتی ہے۔ دورِ اول میں مختلف قبائل اور نسلوں کے لوگوں نے ایمان لاکر امتِ مسلمہ میں شمولیت اختیار کی۔ انھوں نے اپنی متنوع صلاحیتوں کو استعمال کرکے اللہ کے دین کو دنیامیں پھیلایا۔ ان کی سرگرمیاں اور کاوشیں، زمین کے کسی ایک خطے تک محدود نہ تھیں بلکہ وہ ساری متمدن دنیا میں پھیل گئے۔ اسلام کے وسیع دامن میں ہررنگ، نسل اور علاقے کے لوگ یکساں حقوق و اختیارات کے ساتھ شامل ہوئے، اُن سب کوانسانیت کی خدمت کرنے کا اور اپنی صلاحیتوں کے ارتقا کا یکساں موقع حاصل تھا۔ توحید کے ساتھ عدل، مساوات اور تکریمِ انسانیت کی قدریں، اسلام کی پہچان قرار پائیں۔ آج کے مسلمان بھی اگر اپنی فکر و نظر کو ازسرِ نو آفاقی بنالیں تو دنیا اُن کی رہنمائی سے فیض یاب ہوسکتی ہے اور تعصب سماج سے مٹ سکتا ہے۔
یہی مقصودِ فطرت ہے، یہی رمزِ مسلمانی
اخوت کی جہاں گیری، محبت کی فراوانی
بتانِ رنگ وخوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا! زورِ حیدر، فقرِ بوذر، صدقِ مسلمانی
حقائق کی اس یاددہانی کے بعد، اقبال نے اُس راہِ عمل کی نشاندہی کی ہے جسے مسلمانوں کو اختیار کرنا چاہیے:
تو رازِ کُن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا راز داں ہوجا، خدا کا ترجماں ہوجا
ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہوجا، محبت کی زباں ہوجا
یہ ہندی، وہ خراسانی، یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندہ ساحل، اچھل کر بے کراں ہوجا
غبار آلودہ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغِ حرم، اُڑنے سے پہلے پر فشاں ہوجا
ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازِ فطرت میں نوا کوئی