تزکیہ نفس کی عملی تدابیر

ایڈمن

قدافلح من تزکّی (اس نے فلاح جائی جس نے تزکیہ حاصل کیا)
تزکیہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کو صاف ستھرا بنانا اور اس کو نشوونما دینا،پروان چڑھانا ہے۔
اصطلاح میں تزکیہ کی تعریف اس طرح ہوگی کہ ’’نفس کو غلط رجحانات و میلانات سے موڑ کر نیکی اور خدا ترسی کے راستہ پر ڈال دینا اور اس کو درجہ کمال تک پہنچنے کے لائق بنانا۔نفس کے اندر صحیح اور غلط کو پہچاننے کا خاصصا موجود ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان الفا؍ میں فامایا ہے:
ونفس وما سوّاھا فالھمھا فجورھا و تقوٰھا قدافلح من زکّاھا وقد خاب من دسّاھا (اور شاہد ہے نفس اور جیسا اس کو بنایا پس اس کو سمجھ دی نیکی اور بدی کی ،اس نے فلح پائی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا اور وہ نامراد ہوا جس نے اس کی گندگیوں پر پردہ ڈالا)
یہ آیت بیان کر رہی ہے کہ اچھے اور برے کی سمجھ انسان کے اندر اللہ رب العزت نے ودیعت کر رکھی ہے بس نبیوں کو اسی لئے بھیجا گیا تھا کہ وہ لوگوں کو بیان کر سکیں کی اچھا کیا ہے اور برا کیا۔
تزکیہ کا تعلق نفس سے ہے اور نفس کو ہی تزکیہ کے تقاضے پورے کرنا ہوتے ہیں ۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا سچا مسلمان وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے (ترمذی)
تزکیہ ایک ایساعمل ہے کہ کسی سے کہا جائے کہ نمازپڑھنے سے نفس پاک ہوگا،یا نوافل کا اہتمام نفس کو پاک کرتا ہے،روزوں کی کثرت نفس کو اللہ سے قریب کرتی ہے ،تو یہ کہنا درست ہوگا لیکن اس سے پہلے اہم بات یہ ہے کہ وہ کونسا جذبہ ہوگا جو نماز ،روزہ،نوافل، صدقہ وغیرہ اعمال پر کسی کو ابھارے گا ۔انسان کے دل میں یہ ارادہ آنے کے لئے اس سے پہلے کی منزل طے کرنا ضروری ہے اور جس نے یہ منزل طے کر لی تو سمجھو کہ اس نے تمام اچھے اعمال کر لئے ،اور وہ منزل ہے اللہ سے محبت کی کیونکہ محبت ہی وہ احساس ہے جو کسی کو وہ کام کرنے پر آمادہ کرتا ہے جو محبوب کو پسند ہو ۔
تزکیہ اللہ سے محبت کی دلیل ہے جب انسان کو اللہ سے شدید محبت ہو جاتی ہے تو وہ فکر کرتا ہے کہ وہی کام کرے جس سے اس کا رب راضی ہو اور ان تمام کاموں کو ترک کردے جن سے وہ نا خوش ہوتا ہے ۔اللہ سے محبت ان تمام آیات قرآنی پر غور کرنے سے پیداہوتی ہے جو اللہ کی ہمارے لئے انسانوں کے لیے نعمتوں کو بیان کرتی ہیں ۔یہ آیات بندے میں اس بات کا احسا س ڈالتی ہیں کہ اللہ خود اپنے بندے سے کتنی محبت رکھتا ہے: خلق الانسانo علمہ البیان (اسی نے انسان کو پیدا کیا اسی نے بولنا سیکھایا) والارض وضعھا للانام (زمین کو سب مخلوق کے لئے بنایا) ھو الذی جعل لکم الیل لباسا و النوم سباتاو جعل النھار نشاراo وھو الذی ارسل الریٰح بشرابین یدی رحمتہ وانزل من السماء ماء طہورا(اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے لباس اور نیند کو سکون موت اور دن کو جی اٹھنے کا وقت بنایا۔اور وہی ہے جو اپنی رحمت کے آگے آگے ہوائوں کوبشارت بنا کر بھیجتا ہے ۔پھر آسمان سے پاک پانی بھیجتا ہے )
رجال لا تلھیہم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللہ واقام الصلٰوۃوایتاء الذکٰوۃ (ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اور اقامت نماز وادائے زکوۃسے غافل نہیں کردیتی)
اللہ سے محبت کے لئے اس کو جاننا سب سے ضروری ہے کیونکہ جب تک کسی کو جانا نہ جائے محبت پروان نہیں چڑھتی اورکسی کو جاننے کے لئے اس کے بارے میں علم ہونا ضروری ہے اور یہ علم اللہ کے کلام یعنی قرآن کو پڑھنے سے ہی حاصل ہوگا۔اوپر بیان کی گئیں تمام آیتیں اللہ کی محبت کو بیان کر رہی ہیں کہ تمام نعمتیں اس نے اپنے محبوب بندوں کے لیے نازل فرمائی ہیں۔ اگر کسی کو بنا جانے محبت کی جائے تو وہ عارضی محبت ہوگی اس میں دوام نہیں آسکتا ۔اس لئے اللہ کو جاننا اس تزکیہ کی راہ کا پہلا قدم ہے۔جب انسان کو معلوم ہو جائے کی کوئی اس سے اس قدر محبت کرنے والا ہے جو سترّ مائوں سے بھی زیادہ ہے تو خود بخود اس کے دل میں شکر،عبادت،محبت،عاجزی کے جزبات امڈ پڑیں گے اور اس کو وہ سب کرنے پر مجبور کر دیں گے جو اس کے محبوب کو پسند ہو اور جو اللہ کو محبوب بنا لیتا ہے تو پھر ہر لمحہ اسے یہی فکر ہوتی ہے کہ کسی بھی عمل سے اسے ناراض نہ کیا جائے ۔
جب انسان کو اللہ سے محبت ہو جائے تو اس کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ ہر وقت اس کا ذکر کیا جائے اس سے محبوب اور محب دونوں کو خوشی ہوتی ہے اور جب نفس ہر لمحہ اپنے مالک حقیقی کی یاد میں محو رہے گا تو اس بات کا امکان کم ہے کہ وہ محبوب کی مرضی کے خلاف کوئی عمل انجام دے۔
اپنے معبود کو خوش کرنے کے لئے وہ اسکی عبادت کرنے لگتا ہے اور یہ عبادت اسی شکر کے آگے کا درجہ ہے جس کا اظہار بندہ اپنے مالک کے آگے سر جھکا کر کرتا ہے۔
الحمد للہ رب العالمین ( تعریف اللہ ہی کہ لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے) ایاک نعبد(ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں)
نہ صرف عبادت اور شکر بجا لاتا ہے بلکہ اپنے مطیع ہونے کا مظاہرہ بھی کرتا ہے۔اور اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ خالص اسی سے محبت ہے کیونکہ محبت میں خلوص نہ ہو تو محبت کا تقاضا پورا نہیں ہوتا اس لئے دل سے اس پر یقین کرنا ضروری ہے : قل ھو اللہ احدo اللہ الصمدo لم یلد ولم یولدo ولم یکن لہ کفوا احدo (کہو وہ اللہ ایک ہے،اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے)
فاعبداللہ مخلصا لہ الدین الا للہ الدین الخالص (تو تم اللہ ہی کی بندگی کرو اسی کی خالص اطاعت کے ساتھ ۔یاد رکھو کہ اطاعت خالص کا سزاوار اللہ ہی ہے )
عمل صرف اور صرف اللہ کے لئے اور اسکے فرمان کے مطابق ہونا ہی اخلاص ہے۔
جب یہ تمام تقاضے پورے کر لیتا ہے تو دوسرا تقاضہ اللہ کے بندوں سے محبت کرنے کا شروع ہوتا ہے ۔کیونکہ تزکیہ نفس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایک کمرے میں بند ہو کر بس دن رات عبادت کی جائے کیونکہ اگر ایسا کیا گیا تو اللہ سے محبت کا ایک تقاضہ تو پورا ہوگا کہ اسکی عبادت کی جا رہی ہے لیکن دوسرا تقاضا جو اس کے بندوں سے محبت کا ہے وہ کسی حال میں مکمل نہ ہو سکے گااور جو اللہ سے محبت کرے گا تو یقینا وہ اس کی بنائی مخلوق سے بھی بیزار نہیں رہے گا۔اس بات کی پوری کوشش کرے گا کہ اللہ کے بندوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کرے جس کا اس کے محبوب (اللہ) نے کرنے کا حکم دیا ہے۔جب بندہ اپنا تعلق اللہ اور انسان دونوں سے قائم کر لیتا ہے تومحبت کے سارے تقاضے پورے ہوجاتے ہیں اور ان تمام مراحل سے گذرنے کے بعد اس کا نفس بالکل پاک و شفاف ہو جاتا ہے۔
ضرورت اس بات کی رہتی ہے کہ وہ اپنے نفس کی حقیقت کو یاد رکھے اور اسکی تربیت کرتا رہے اور اس بات کا احساس ہمیشہ اپنے اندر موجود رکھے کہ اللہ نے اس کو اشرف المخلوق بنایا ہے تو اسے اپنے نفس کی عزت کرنا ہے اور نفس کی عزت یہی ہے کہ وہ انہی کاموں کو انجام دے جو اللہ چاہتا ہے اور ان کاموں کو چھوڑ دے جو اللہ نہیں چاہتا ہے اورہمیشہ اپنا محاسبہ کرتا رہے تا کہ نفس میں کوئی گندگی آگئی ہو تو اسے ذکر الٰہی سے پاک کر لے۔

 

از: ڈاکٹر نجم السحر

اپریل 2016

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں