انصاری سلیم، بنگلور
گزشتہ کچھ دہائیوں کے اندر کئی اہم سماجی، تکنیکی و معاشی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ البتہ موجودہ صورتحال کا اہم اور منفرد پہلو یہ ہے کہ اب یہ تبدیلیاں ملکی سطح پر مؤثر ہونے کے علاوہ انفرادی اور چھوٹے گروہوں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا ذریعہ بنی ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے علم کے چشمے اب باہم ایک دوسرے سے مربوط ہوگئے ہیں اور علمی لیاقت رکھنے والے افراد ان سے فیض حاصل کررہے ہیں،اب بین الاقوامی تعلیم دنیا بھر کی لسانی اور مذہبی اکائیوں، تمدنوں کے ربط باہمی کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہے۔ تفہیمِ نظریات، شخصی ارتقاء، ذہنی و فکری ترقی اور پیشہ وارانہ مہارت کے لیے بین الاقوامی تعلیم کی اہمیت مسلم ہے۔
ترکی میں مواقع کی موجودگی:
کچھ عرصہ قبل تک یہ دیکھا جاتا رہا ہے کہ ہندوستان کے طلباء کی ایک بڑی تعداد کسب علم کی غرض سے مغربی ممالک کا رخ کرتی ہے۔جن میں شمالی امریکہ، یوروپ اور آسٹریلیا طلباء کی خاص ترجیحات ہیں۔ لیکن اب داخلے کے لیے طلباء کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، نتیجتاً مسابقت بھی بڑھ گئی ہے۔ علاوہ ازیں ان مقامات پر تعلیم کا خرچ بھی پہلے کہیں زیادہ ہوگیا ہے۔اس صورتحال میں طلباء نے اب چند ایسے متبادل کو تلاش کرنا شروع کردیے ہیں جہاں تعلیم قدرے کم اخراجات کے ساتھ جاری رکھی جاسکے البتہ معیار(Quality)کے ساتھ کوئی مصالحت (Compromise)نہ ہو۔ ترکی بھی انہی مقامات میں سے ہے، جہاں اعلیٰ اور معیاری تعلیم حاصل کرنے کے لیے طلباء کی خاصی تعداد رخ کرنے لگی ہے۔
اب بین الاقوامی طلباء کی تعداد جو کہ ترکی کا رخ کررہی ہے ، سال ۲۰۰۶ء کے مقابلے میں دوگنی ہوچکی ہے۔ یہ اس امر کی طرف واضح اشارہ ہے کہ یہ ملک اعلیٰ تعلیم کی ایک اہم منزل کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کررہا ہے۔ تعلیمی سال ۱۶-۲۰۱۵ء میں ترکی کے اندر ۴۸۰۰۰ ہزار بیرونی طلباء زیرِ تعلیم تھے۔ ترکی میں نسبتاً کم خرچ پر ملنے والی تعلیم، معیاری تعلیم، وظیفے ، ٹیوشن فیس، صحت انشورنس اور سفر کی سہولیات جیسی مراعات خاص طور پر طلباء کو راغب کرتی ہیں۔ یوں بھی ترکی سیاحت کے میدان میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ سال ۲۰۱۵ء کے مطابق یہاں ۴۰ ملین سیاح آئے تھے۔ ترکی حکومت کی کوشش یہ ہے کہ وہ اس ملک کو بین الاقوامی تعلیمی مرکز کے طور پر متعارف کرائے۔ یعنی سال ۲۰۱۸ تک تقریباً ایک لاکھ بین الاقوامی طلباء یہاں زیرِ تعلیم ہوجائیں۔
باوجودیکہ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ ترکی گزشتہ چند برسوں سے بین الاقوامی طلباء کی ایک اہم منزل قرار پاچکا ہے۔ خاص کر مرکزی ایشیاء، مشرقِ وسطیٰ سے طلباء کی بڑی تعداد یہاں کا رخ کررہی ہے۔ ترکی حکومت کی کوشش یہ بھی ہے کہ وہ ملک کی معاشی سطح کو اوپر اٹھانے کے لیے بین الاقوامی روابط کو فروغ دے۔ اس سلسلے میں وہ پڑوسی ممالک کے لیے ویزا کی فراہمی میں آسانی کی کوشش بھی کررہی ہے۔ علاوہ ازیں ترکی کا محل وقوع ایسا ہے کہ اس کو یوروپ اور ایشیا کے مابین آمدورفت کا ایک اہم Gateway راستہ تصور کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اعلیٰ تعلیم کے لیے ترکی ایک پرکشش مقام بنتا جارہا ہے۔
بیرون ملک طلباء کی حوصلہ افزائی
گزشتہ چند برسوں میں ترکی کی حکومت بین الاقوامی روابط کے فروغ کی پرزور حامی کی حیثیت سے سامنے آئی ہے۔ وزارت برائے بین الاقوامی طلباء کے مطابق سال ۲۰۲۳ تک تقریباً ۲ لاکھ بین الاقوامی طلباء کی میزبانی حکومت کے منصوبے میں شامل ہے۔ اب تک AKPحکومت سال ۲۰۱۴ء میں ۹۶ ملین امریکی ڈالر بین الاقوامی طلباء اسکالرشپ پروگرام کے لیے متعین کرچکی ہے، جو کہ اب تک وظیفہ پر خرچ ہونے والا سب سے کثیر سرمایہ ہے۔ بین الاقوامی طلباء کا تناسب جوکہ حکومت کی جانب سے طے کیا جاتا ہے اس میں خاصا اضافہ کیا گیا ہے، تاکہ طلباء کی بڑی تعداد داخلے لے سکے۔ یونیورسٹیاں عام طور سے بین الاقوامی طلباء کے داخلے میں کافی فراخدلی کا مظاہرہ کرتی ہیں جبکہ پرائیویٹ یونیورسٹیاں اس سلسلے میں مزید پیش پیش رہتی ہیں اور زیادہ مستعدی سے داخلہ کے طلب گاروں کا خیر مقدم کرتی ہیں۔
اس سلسلے میں کونسل آف ہائر ایجوکیشن کی سائٹ بعنوان اسٹڈی ان ترکی بین الاقوامی طلباء کو مدنظر رکھتے ہوئے ترکی کی یونیورسٹیوں کی تشہیر کررہی ہے۔
تجارت اور اسکالر شپ فنڈنگ کو بڑھانے کے لیے ترکی حکومت دیگر بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے ساتھ شرکت میں تعاون کررہی ہے اور حال ہی میں ویتنام کو ایک نئی تعلیمی منزل کی حیثیت سے متعارف بھی کرایا ہے۔
Turkish Universities Promotion Agency کی جانب سے فراہم ہوئے اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۰۲ء سے ۲۰۱۴ء تک کے عرصہ میں ترکی میں بین الاقوامی طلباء کی تعداد میں ۷۷ فیصد اضافہ درج کیا گیا جو کہ ڈگری اور نان ڈگری پروگراموں میں زیرِ تعلیم تھے۔
زیرِ ربط ممالک
انگریزی زبان کا بڑھتا استعمال کچھ بین الاقوامی طلبا کے لیے کشش رکھتا ہے۔ حالانکہ ثقافی اور لسانی روابط کی بنا پر وسط ایشیا اور کوکائسس کے طلباء ترکی آناپسند کرتے ہیں۔ باہر سے آنے والوں میں بہرحال قریبی ممالک کے طلباء زیادہ تھے مثلاً یو آئی ایس کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ سال ۲۰۱۴ء کے دوران ترکمانستان سے ۶۸۶۱ طلباء، آذربائجان سے ۶۷۰۳ اور ایران سے ۴۲۶۶ طلباء ترکی آئے۔ امریکہ کے بعد ایرانی طلباء ترکی کو ترجیح دیتے ہیں۔ آج کل امریکہ نے ایرانیوں کے لیے ویزا میں دشواریاں پیدا کردی ہیں چنانچہ ایرانی طلباء ترکی کا رخ کررہے ہیں۔ دیگر مرکزی ایشیا کے ممالک جیسے افغانستان، کرگستان اور تزاکستان اور دیگر علاقے جیسے یونان، روس اور نائجیریا وغیرہ ان ۹۳ ممالک میں سے ہیں جو کہ ترکی یونیورسٹیوں میں اپنے طلباء کو بھیج چکے ہیں۔ جن یونیورسٹیوں میں یہ طلباء بڑی تعداد میں زیرِ تعلیم ہیں ان میں استنبول یونیورسٹی، انکارا یونیورسٹی اور مرمرا یونیورسٹی قابلِ ذکر ہیں۔ اندازہ کیا جاتاہے کہ سال ۲۰۱۷ء کے آخر تک گریٹ برٹین کے یورپین یونین سے علاحدہ ہوسکتی ہے، اس صورتحال سے بیرونی طلباء کے خلاف تعصب میں اضافہ ہوا ہے، علاوہ ازیں عالمی سطح پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے رویے نے اس امر کو مزید غیر یقینی بنادیا ہے کہ وہ آئندہ مسلم اکثریت والے ممالک کے طلباء کی آمد کو گوارہ کرے گا۔ ان عوامل کی بناپر ترکی میں بین الاقوامی طلباء کے اندراج کا امکان مزید بڑھ جاتا ہے۔ تاہم ترکی کا حالیہ تعلیمی منظر نامہ E.U.کے ساتھ کمزور ہوتے تعلقات کی وجہ سے تعلیمی فضا کی آزادی کو مجروح کررہا ہے۔ حکومت کے بعض سخت اقدامات کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ باہر کے طلباء کی آمد متاثر ہوگی اور ریسرچ کے لیے بین الاقوامی تعاون اور امداد میں بھی کمی آئے گی۔ جس سے معیار متاثر ہوسکتا ہے۔
یونیورسٹیوں کا قیام
فی الوقت ترکی میں ۲۰۰ یونیورسٹیاں ہیں جن میں زیادہ تر حکومت کی زیرنگرانی ہیں۔ ۱۹۷۰ء تک یہاں صرف آٹھ سرکاری تعلیمی ادارے تھے۔ جبکہ ۱۹۸۴ء میں پہلی پرائیویٹ یونیورسٹی قائم کی گئی۔ یونیورسٹیوں کے اس وسیع جال میں سب سے نئی دانش گاہ Antalya International Universityہے جو کہ ۱۳-۲۰۱۲ء میں قائم کی گئی۔ اس یونیورسٹی کا مقصد یہ بھی ہے کہ طلباء کی نصف تعداد ترکی سے باہر کی ہو۔
پبلک اور نجی یونیورسٹیوں کو Bolognaمعاہدہ کے مطابق اپنے ڈگری پروگراموں کو یورپ کے معیار کے مطابق لانا ضروری ہے۔ زیادہ تر ترکی یونیورسٹیاں Erasmus Programمیں بھی حصہ لے رہی ہیں جوکہInternational Student Exchangesمیں معاونت کرتا ہے۔
ترکی میں ۷ علاقے اور ۸۱ صوبے ہیں جو کہ مرکزی حکومت کے تحت آتے ہیں۔ زیادہ تر تعلیمی پالیسیاں قومی حکومت انکارا کے ذریعے وضع کی جاتی ہیں۔ قومی وزارت برائے قومی تعلیم تمام سطحوں کے لیے پالیسیاں وضع کرتی ہے اور ان کی نگرانی کرتی ہے۔ اس وزارت کے ذریعہ ہر صوبیمیں ایک صدر مقرر کیا جاتا ہے جو کہ صوبائی ذمہ داروں کی زیر نگرانی اپنے فرائض انجام دیتا ہے۔ اس لیے اسکولوں اور مقامی اداروں کو برائے نام آزادی حاصل ہوتی ہے۔
۱۹۸۱ء میں ملٹری حکومت نے Comprehensive Higher Education Law (اعلیٰ تعلیم کے لیے ضابطہ) وضع کیا تھا۔ اس وقت سے اعلیٰ تعلیمی ادارے (پبلک) کونسل آف ہائر ایجوکیشن کی زیرنگرانی آتے ہیں۔ یہ کونسل تعلیمی معاملات کی منصوبہ بندی کو مربوط کرتی ہے اور نگرانی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ علاوہ ازیںیہ کونسل ایجوکیشن بجٹ (تعلیمی بجٹ) اور Curriculum Guidelinesبھی طے کرتی ہے۔
YOKاصلاً ایسا ادارہ ہے جو کہ اپنے آپ میں خود مختار ہے اور حکومت کی زیر نگرانی میں نہیں ہے۔ لیکن حکومت کے ناقدین کا دعویٰ ہے کہ یہ کونسل حقیقتاً آزاد نہیں ہے بلکہ حکومتیں اس کو اپنے ایجنڈے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ مثلاً ۲۰۱۶ء میں حکومت کے خلاف ناکام بغاوت ہوئی تو کونسل نے ملک کی ۱۵۷۷ یونیورسٹیوں کے ڈین حضرات سے کہا کہ جمہوریت کی خاطر وہ اپنے منصب سے مستعفی ہوجائیں۔
۱۹۷۰ء سے ۱۹۸۰ تک کے شروع میں لگنے والی پابندی کے بعد پرائیویٹ یونیورسٹیاں پھر سے بحال کردی گئی تھیں۔ یہ دور Neo-liberal economic eraکے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس وقت سے نجی اداروں کو حکومت کی زیر نگرانی مالی منفعت کی بنیاد پر کام کرنے کی اجازت حاصل ہے۔ ان نام نہاد اوقاف یونیورسٹیوں کا نصاب YOKکی اجازت کے بعد ہی نافذ ہوتا ہے۔ ۱۹۸۴ء میں قائم ہونے والی پہلی فاؤنڈیشن یونیورسٹی ایک کامیاب ترکی ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔ فاؤنڈیشن یونیورسٹیاں دو قسم کی ہیں یعنی تحقیقی اور تدریسی ان پر نافذ ہونے والے حکومتی قوانین نسبتاً کم ہیں۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے ڈین کو حکومت مقرر کرتی ہے جبکہ فاؤنڈیشن یونیورسٹی کے ڈین کو اس یونیورسٹی کے ٹرسٹیوں کا بورڈ مقرر کرتا ہے۔
فاؤنڈیشن یونیورسٹیوں کی ٹیوشن فیس سرکاری اداروں کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے۔ تقریباً بیس ہزار امریکی ڈالر۔ یہ پبلک ادارے زیادہ تر حکومت کی جانب سے امدا دپاتے ہیں اور ان کی سالانہ فیس چند سو ڈالر تک ہی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ ادارے اپنے اساتذہ (فیکلٹی) کو خاصی تنخواہ بھی دیتے ہیں۔ یہاں پڑھنے والے تقریباً ۴۰ فیصد طلباء کو اسکالر شپ بھی ملتی ہے۔ پرائیویٹ ایجوکیشن کے حامیوں کا اصرار یہ ہے کہ فاؤنڈیشن یونیورسٹیاں پبلک اداروں کے بمقابل زیادہ بہتر تعلیم فراہم کرتی ہیں۔ لہٰذا ان یونیورسٹیوں کو مشرقِ وسطیٰ میں ایک رول ماڈل کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ ان اداروں کی درس گاہوں میں عموماً انگریزی ہی میں درس دیے جاتے ہیں اور طریقۂ تدریس بھی ایسا ہے جس میں پروفیسر اور طلباء کے درمیان آزاد مکالمے(Open Interactions)کے مواقع موجود ہیں۔
طلباء کے لیے تعلیمی سہولیات
آبادی کے اعتبار سے دنیا میں ترکی ایک ابھرتا ہوا نیا اور خوشحال ملک ہے۔ لہٰذا تعلیم کے میدان میں اسے مزید آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں اس نے اس سمت خاصی پیش رفت بھی کی ہے۔ Top State (Public) Universities چوٹی کی یونیورسٹیاں جو کہ انگریزی میڈیم میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ بین الاقوامی طلباء کے لیے تقریباً ٹیوشن مفت تعلیم کا نظم کرتی ہیں۔ البتہ ان یونیورسٹیوں میں داخلہ کے لیے امتحان دینا ہوتا ہے، علاوہ ازیں انگریزی میں TOEFLIBTیا IELTSکے نتائج میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی G.P.A.بھی بہتر ہونا چاہیے۔ ان پبلک یونیورسٹیوں کی سالانہ تعلیمی فیس ۵۰۰ ڈالر سے ۲۰۰۰ ڈالر کے درمیان ہے جو کہ یونیورسٹی اور پروگرام کے مطابق طے کی جاتی ہے ۔ اعلیٰ معیار ہونے کی وجہ سے ان یونیورسٹیوں میں مسابقت بہت زیادہ ہے۔ بین الاقوامی طلبہ کو یہاں داخل ہونے کے لیے YOSامتحان میں کامیابی درج کرانی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں انگریزی زبان میں مہارت ثابت کرنے کے لیے IELTS یا TOEFLمیں نمایاں نمبر حاصل کرنے ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ہائی اسکول میں اچھے گریڈ کا ہونا بھی ضروری ہے۔
ترکی کی چوٹی کی فاؤنڈیشن یونیورسٹیوں کا بہت اعلیٰ معیار ہے اور ان کا شمار دنیا کی اچھی یونیورسٹیوں میں کیا جاتا ہے۔ Bilkert University، Sobanci University اور KOC University انہیں میں سے ہیں۔
ان پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے داخلہ جاتی امتحان میں خاصی مسابقت پائی جاتی ہے۔ ان یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے YOSامتحان میں بیٹھنے کی ضرورت نہیں ہے البتہ ہائی اسکول میں تقریباً ۸۰ فیصد نمبروں کا ہونا ضروری ہے۔ یہاں بھی انگریزی زبان حصولِ علم اور تدریس کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا IELTS، IBT، TOEFL میں نمایاں کارکردگی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ مزید ایک سال کا عرصہ Universities English Prep Programمیں گزارنا ہوگا۔
میڈیکل، ڈینٹسٹری (Dentistry)اور فارمیسی جیسے پروگراموں کی سرکاری یونیورسٹیوں میں خاصی مانگ ہے حالانکہ ان کورسس میں بین الاقوامی طلباء کے لیے کافی کم کوٹا ہے۔ اس کے برعکس پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں میڈیکل، ڈینٹسٹری اور فارمیسی پروگراموں میں بین الاقوامی طلباء کے لیے خاصے مواقع حاصل ہیں۔ یہاں داخلہ لینے کے لیے ہائی اسکول میں نمایاں کارکردگی ہونی چاہیے اور تقریباً ۱۰۰۰۰۰ سے ۲۵۰۰۰ امریکی ڈالر کی رقم یونیورسٹی کے معیار کے مطابق دینی ہوگی۔ یہاں کچھ پروگراموں میں ذریعہ تعلیم انگریزی ہے جبکہ کچھ میں ترکی کو بھی میڈیم کی حیثیت حاصل ہے۔
پچھلے ۱۵ برسوں میں ترکی کے اندر بہت سی پرائیویٹ فاؤنڈیشن یونیورسٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ اب یہاں تقریباً ۸۰ پرائیویٹ یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر استنبول میں قائم ہیں۔ کچھ یونیورسٹیاں انکارا، Izmir، اور Anatolian Cities میں بھی ہیں۔ شمالی سپرس میں بھی ۸ پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں جہاں بڑی تعداد میں بین الاقوامی طلباء زیرِ تعلیم ہیں۔
اگر چوٹی کی پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں داخلہ ممکن نہ ہوسکے تو نسبتاً کم مسابقت والی یونیورسٹیوں بھی ہیں جہاں ٹیوشن فیس ۴۰۰۰ ڈالر سے لے کر ۸۰۰۰ ڈالر تک ہے۔ یہاں بھی عموماً انگریزی ہی میڈیم ذریعہ تعلیم ہے۔ جبکہ کچھ اداروں میں ترکی میں بھی تدریسی فرائض انجام دیے جاتے ہیں۔ان اعلیٰ سطحی مسابقاتی یونیورسٹیوں کے علاوہ جو کہ میڈیسن، فارمیسی اور ڈینٹسٹری وغیرہ جیسے خصوصی پروگراموں کے لیے اہم ہیں۔ یہاں دیگر میدانوں جیسے انجینئرنگ، تجارت، معاشیات اور سماجی علوم وغیرہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے پبلک یونیورسٹیوں میں مواقع حاصل ہیں۔ جہاں پر کچھ یونیورسٹیوں میں ۳۰۰ ڈالر سالانہ سے بھی کم ٹیوشن فیس ہے۔ یہاں زیادہ تر ترکی زبان میں ہی تعلیم دی جاتی ہے اور YOSامتحان پاس کرنا بھی ضروری ہے۔ ترکی میں تعلیم کے ذریعے کامن E-Yosامتحان لیا جاسکتا ہے جو کہ تقریباً ۶۰ سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں سے تسلیم شدہ ہے۔
طلباء کی ضروریات کی فراہمی
زیادہ تر کیمپس یونیورسٹیاں اقامتی اور دوسری سہولیات بھی مہیا کراتی ہیں۔ یونیورسٹی کی رہائش گاہوں کے علاوہ ریاست بھی تمام طلباء کے لیے Dormitories(رہائش گاہوں)کا انتظام کرواتی ہے۔ طلباء کو اس بات پر آمادہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے بہتر جگہ ڈھونڈ کر یونیورسٹی کو مطلع کردیں۔ بڑے شہروں میں کرائے پر بھی اقامت گاہوں کی سہولت موجود ہے۔ اکثر بین الاقوامی طلباء کے ساتھ یا ترکی کے طلباء کے ساتھ مشترکہ رہائش اختیار کرنی ہوتی ہے، زیادہ تر Dormitoriesمیں کچن کی سہولت بھی مہیا ہے جہاں طلباء اپنا کھانا خود بناسکتے ہیں۔ یہاں چھوٹے cafetariaبھی ہیں جہاں آدھی رات تک سروس مہیا ہے۔یہاں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے علاحدہ اقامت گاہیں ہیں۔ جہاں پر علاحدہ اور مشترک دونوں طرح کے کمرے مہیا ہیں۔
dormitoryمیں رہنے سے اندرون کیمپس اور بیرونِ کیمپس ہونے والی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے خاصے مواقع مہیا ہوجاتے ہیں۔ علاوہ ازیں بین الاقوامی سطح پر بہت سارے طلباء سے دوستانہ تعلقات استوار کیے جاسکتے ہیں۔ یہاں پر ایک اوسط درجہ کے کمرے کا کرایہ ۳۰ ڈالر سے ۳۰۰ ڈالر تک سہولیات کے مطابق ہے۔
بڑے شہروں میں کیمپس سے باہر اپارٹمنٹس ، کرائے کے کمروں کی قیمتیں کافی زیادہ ہیں یہ قیمتیں ضلع، سائز اور کوالٹی کے حساب سے کم اور زیادہ بھی ہوتی رہتی ہیں۔ زیادہ تر طلباء کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اپنے کسی دوست کے ساتھ اپارٹمنٹ شیئر کریں۔ اس طرح کے بیرونِ کیمپس اپارٹمنٹ ۲۰۰ ڈالر سے ۴۰۰ ڈالر تک کے کرائے پر مل جاتے ہیں۔ بین الاقوامی طلباء کا رہائشی ماہانہ خرچ عام طور سے ۳۰۰ تا ۴۰۰ یو ایس ڈالر ہے جو کہ رہائش کے معیارپر منحصر کرتا ہے۔ کتابوں اور غیر تدریسی فیس ۱۰۰ تک ۱۵۰ ڈالر فی سمسٹر ہے۔
آمدورفت اور علاج
ترکی میں پبلک آمدورفت کا بہت معقول نظم ہے۔ منی بس، بس اورsubwayوغیرہ کی سہولت ہر بڑے شہر میں مہیا ہے۔طلباء کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اندرون شہر اور انٹرسٹی (بیرونِ شہر) نسبتاً کم خرچ پر سفر کرسکیں۔
ترکی کی تمام ہی یونیورسٹیوں میں میڈیکل سینٹرس قائم ہیں۔ تاہم بین الاقوامی طلباء کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ہیلتھ انشورنس پالیسی کے ساتھ ہی ترکی کا رخ کریں۔ بین الاقوامی طلباء کو صحت اور میڈیکل کا خرچ خود ہی برداشت کرنا ہوتا ہے، جبکہ ہیلتھ سینٹریونیورسٹیوں کے تحت نہ آتا ہو، تمام اسپتالوں میں ایک ایمرجنسی کمرہ ہوتا ہے جو کہ ۲۴ گھنٹے کھلا رہتا ہے۔ یہاں طبیب اور معالج، اور عطار کال کرنے پر مہیا ہوجاتے ہیں۔
جو طلباء ترکی میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، انھیں Turkish Consulateسے ویزا لے لینا چاہیے کیونکہ کالج اور یونیورسٹی میں داخلے کے وقت اسٹوڈینٹ ویزا ضروری ہوتا ہے۔ ترکی آمد کے بعد ایک مہینے کے وقفے میں اقامتی اجازت نامہ حاصل کرلینا چاہیے۔ یہ اجازت نامہDepartment of Foreign Section of the Directorate of Securityسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
بدقسمتی سے بین الاقوامی طلباء کو کسی پرائیویٹ اور پبلک دفتر میں کام کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے۔ تاہم بہت کم اجرت پر اسٹوڈنٹ اسسٹنٹ جاب کچھ یونیورسٹیوں جیسے METUاور Bilkent کی طرف سے فراہم کیے جاتے ہیں۔
ثقافتی سرگرمیاں
واقعہ یہ ہے کہ ترکی بحیثیت مجموعی اعلیٰ معیاری تعلیم کے لیے ایک بہتر اور اہم مقام ہے۔ علاوہ ازیں ترکی کے شہروں میں بہت سارے تاریخی اور ثقافتی مقامات قابل دید بھی ہیں۔ تھیٹرس، سینما، نمائش اور میلے وغیرہ بھی ہر اس فرد کے لیے اہم ہیں جو کہ ترکی کے کلچر کو سمجھا چاہتا ہو۔
ایک بین الاقوامی طالب علم یہاں مختلف قسم کے کلب اور اسٹوڈینٹ ایسوسی ایشن سے وابستہ ہوسکتا ہے۔ اس خوبصورت ملک میں آپ کو چاروں موسموں کی خصوصیات دکھائی دیں گی۔ یہاں مختلف کھیلوں کے مواقع موجود ہیں۔ جیسے Ranging، تیراکی، رافٹنگ، کشتی چلانا۔ اسی طرح فٹ بال،والی بال اور جاگنگ وغیرہ بھی مقبول کھیل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر تفریحی سرگرمیاں بھی مہیا ہیں۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد باہر کے طلباء ملازمت بھی تلاش کرسکتے ہیں مثلاً وہ محقق یا معلم بن سکتے ہیں خصوصاً انگریزی ذریعہ تعلیم والی یونیورسٹیوں میں۔ ترکی زبان میں مہارت رکھنے والوں کے لیے دیگر ملازمتیں حاصل کرنا بھی آسان ہے۔ ملازمت کرنے کے لیے باہر سے آنے والوں کو اجازت نامہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔
ترکی میں بہت سے وظیفے دیے جاتے ہیں۔ مختلف ملکوں کے طلباء کے لیے ان کے سفارت خانوں کے ذریعہ وظیفوں کی اطلاع دی جاتی ہے۔ ان ملکوں کے ضرورت مند طلباء متعلق سفارت خانے کو درخواست دے سکتے ہیں۔ وظیفوں سے متعلق درج ذیل سرکاری ویٹ سائٹ بھی موجود ہے۔
www.turkifepurslari.gov.tr/en
اگر آپ باہر کے کسی ملک سے تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے ترکی جارہے ہوں تو یہاں آپ کو روایتی ثقافت اور جدید سہولیات دونوں کو دیکھنے کا موقع ملے گا۔ اس خطے میں ترکی ایک مستحکم اور محفوظ ملک ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تعلیمی معیار بلند ہے اور یہاں سے تعلیم پانے والے دنیا کے کسی بھی گوشے میں اپنے لیے بہتر مستقبل کی تعمیر کرسکتے ہیں۔