تحریک اسلامی: افراد سازی ا ور وژن

ایڈمن

اللہ تعالیٰ ساری دنیا کا مالک ہے ۔اس دنیا میںانسان کی حیثیت خلیفہ کی ہے ۔سورہ الانعام آیت 165میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

’’اور اسی اللہ نے زمین میں تم کو خلیفہ (نائب)کیا ہے اور تم میں سے بعض کے درجات بعض پر بلند کر دیے ہیں تاکہ تم کو اپنے دیے ہوئے احکام کے ذریعہ آزمائے ۔بے شک تیرا رب عذاب دینے میں تیز ہے ۔اور وہی بخشنے والااور مہربان بھی ہے‘‘۔اس اعتبار سے انسانوں کے لیے منصب خلافت کا ادراک اور اس کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے جدوجہد دیگر تمام چیزوںکے مقابلے میں کلیدی اور بنیادی حیثیت رکھتی ہے ۔گویا کہ انسانیت کی اصل معراج اسی بات میں پوشیدہ ہے کہ انسان بحیثیت اجتماعیت اللہ ربُ العزت کی نیابت اور خلافت کی اس ذمہ داری کو کما حقہ ادا کرنے کی کوشش کرے ۔

سورہ الاحزاب آیت 72-73 میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔’ہم نے امانت دکھائی آسمانوں کو اور زمین کو اور پہاڑوں کو پھر کسی نے قبول نہ کیا کہ اس کو اٹھائیں اور اس سے ڈر گئے ۔اور انسان نے اس کو اٹھا لیا ۔وہ بڑاظالم اور نادان ہے ۔(یہ اس لیے ہوا)کہ اللہ عذاب دے منافق مردوں اور عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو ۔اور اللہ بخشنے والااور مہربان ہے‘

تحریک اسلامی اصلاً اسی بار امانت کی اجتماعی ادائیگی کی کوشش اور جدوجہد کا نام ہے۔یہ تحریک مختلف ادوار میں مختلف علاقوں میں جاری رہی اور الحمداللہ آج بھی جاری ہے۔حضرت آدم ؑسے لے کر حضرت محمد ؐ تک اور محمد ؐ سے لے کر دور حاضر تک تحریک اسلامی کی قیادت میں ،طریقہ کار میں ،پالیسی وپروگرام میں اور بعثت محمدی ؐتک شریعت میں تو وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتی رہیں لیکن ان تحریکات کے بنیادی عقیدہ میں جو اللہ کے واحد اِلہ ہونے اور پیغمبر وقت کی نبوت /رسالت پر ایمان پر مشتمل ہے ، کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔

دستور جماعت اسلامی ہند کی دفعہ 3اور 4کے مطابق بالترتیب جماعت اسلامی ہند کا بنیادی عقیدہ “لا اِلہ الااللہ محمد رسول اللہ “ہے اور اس کا نصب العین “اقامت دین “ہے ۔ اس نصب العین “اقامت دین “کی تشریح اسطرح کی گئی ہے کہ “اقامت دین میں لفظ دین سے مراد وہ دین حق ہے جسے اللہ رب العزت اپنے انبیا ء کے ذریعے مختلف زمانوں اور ملکوںمیں بھیجتا رہا ہے۔اور جسے آخری اور مکمل صورت میں تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنے آخری نبی حضرت محمد ؐکے ذریعے نازل فرمایا اور جواب دنیا میں ایک ہی مستند ،محفوظ اور عنداللہ مقبول دین ہے۔اور جس کا نام اسلام ہے” اور “اس دین کی اقامت کا مطلب یہ ہے کہ کسی تفریق اور تقسیم کے بغیر اس پورے دین کی مخلصانہ پیروی کی جائے اور ہر طرف سے یکسوہوکر کی جائے ۔اور انسانی زندگی کے انفرادی واجتماعی تمام گو شوں میں اسے اس طرح جاری و نافذ کیا جائے کہ فرد کا ارتقاء معاشرہ کی تعمیر اور ریا ست کی تشکیل سب کچھ اسی دین کے مطابق ہو ۔اس دین کی اقامت کا مثالی اور بہتر ین عملی نمونہ وہ ہے جسے حضرت محمد ﷺ اور حضرات خلفائے راشدین ؓ نے قائم فرمایا۔”

دستور جماعت اسلامی ہند میں بیان کی گئی اقامت دین کی اس تشریح کو اگر قبول کیا جائے تو یہ بات کھل کر واضح ہوتی ہے کہ دین اسلام محض چند عقائد ،عبادات اور رسوم کے مجموعہ کا نام نہیں ہے ۔اور نہ ہی بعض چنندہ معاملات میں انفرادی یا اجتماعی طورپر ا س دین پر عمل پیراہونے کو کُل اقامت دین قرار دیا جاسکتا ہے بلکہ اقامت دین ایک ایسا مستقل اور ہمہ جہت عمل ہے جو سفر اور منزل دونوں کا مرکب ہے اور دونوں کی خصوصیات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جو افرادکے ذاتی ارتقاء سے لے کر معاشرہ کی تعمیرتک،  معاشرہ کی تعمیر سے لے کر ریاست کی تشکیل اور ریاست کی تشکیل سے لے کر اس کے چلانے اور نظام و انصرام تک پیش آنے والے تمام معاملات میں اپنا ایک اصولی موقف رکھتا ہے ۔جس کی بالادستگی کی جدوجہد کا دوسرا نام تحریک اسلامی ہے۔

اقامت دین کی اس تشریح و تعبیر پر ایمان اور اس کی حصولیابی کی خواہش لازماً بہت سے دیگر سوالات کو جنم دیتی ہے ۔جن میں سے ایک انتہائی اہم سوال اقامت دین کے لیے درکار وسائل، ان کی تیاری ،فراہمی اور نتیجہ خیز استعمال سے متعلق ہے۔درکار وسائل کا مثبت اور تعمیری استعمال نیز بہ اعتبار ضرورت نئے وسائل کی تیاری و فراہمی کے بغیر مقصد اقامت دین کی جانب کوئی خاطر خواہ پیش قدمی ممکن نہیں ہے۔جس طرح اقامت دین ایک ہمہ جہت اورمتنوع نصب العین ہے اسکی حصولیابی کے لیے بھی متنوع اور ہمہ جہت وسائل درکار ہیں ۔درکار وسائل کی یہ فہرست کافی طویل ہے اور یہ فہرست تمام اقسام کے اخلاقی ،روحانی ،مادی زماںومکاںکی بندشوں میںقید نیز ان سے آزاد ہر ایک قسم کے وسائل کا احاطہ کرتی ہے ۔شخصیت سازی کے موضوع پر سب سے زیادہ شائع ہونے والی کتابوں میں سے ایک ـ”Seven habits of highly effective people”کے مصنف “اسٹیفن آر کووےStephon R coveyکے مطابق انسانی سماجی اقدارمیں ایک دوسرے پر انحصا رInterdependency کو یک طرفہ انحصارDependencyاور آزادیIndependenceدونوںپر ترجیح حاصل ہے اسی طرح اقامت دین کے لیے درکار وسائل بھی اپنی تیاری ،فراہمی نیز استعمال کے باب میں ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔

اقامت دین کے لیے درکار وسائل کی اس فہرست میں انسانی وسائل کو بنیادی اور کلیدی حیثیت حاصل ہے۔انسانی وجود کو یہ حیثیت محض اس کی مادّی و عقلی قوت ہی کے سبب حاصل نہیں ہے بلکہ اسکا ایک اہم سبب وہ روحانی وجود بھی ہے۔جو تخلیق آدمؑ سے لے کر آج تک انسانی وجود کا لازمی جز رہا ہے ۔انسانی وجود محض ایک مادّی وجود اور وسیلہ نہیں ہے بلکہ یہ روحانی ، اخلاقی اور مادّی خصوصیات کا ایک جامع مرکب ہے جس کی تعریف اللہ رب العزت نے سورۃ التین آیت 4میں اس طرح کی “اور ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیداکیا۔”

یہاں بہترین ساخت سے مراد محض انسان کا مادی وجودنہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ تخلیق ہے جس کے نتیجہ میں اللہ کی نیابت اور خلافت کے لیے درکار صلاحیتوں کو اللہ نے ایک چھوٹے سے انسانی وجود کا راست یا بالراست حصہ بنایا ہے ۔اس بہترین ساخت کی تشریح رومی ؒ کے الفاظ میں یوں کی جاسکتی ہے کہ  ؎”تم سمندر کا محض ایک قطرہ نہیں ہو بلکہ ایک ایسا قطرہ ہو جس کے اندر سمندر پوشیدہ ہیں۔”

اقامت دین کی اس خدائی اسکیم کے تناظر میں انسانی وجود پر غور کیا جائے تو ایک خوبصورت حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ انسان محض ایک وسیلہ یا خام مال نہیں ہے جو اقامت دین کی راہ کے کسی مرحلہ میں کام آجائے بلکہ یہ اس راہ کی آخری منزل کا لازمی جزہے بلکہ یہ ا س مقصد کا بنیادی جوہر اور اسکی روح ہے ۔بقول شاعرِ مشرق    ؎

دیکھ آکر کوچہ چاک گریباں میں کبھی

قیس تو ،لیلیٰ بھی تو،صحرا بھی تو،مہمل بھی تو

آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے

راہ تو رہروبھی تو،رہبر بھی تو ،منزل بھی تو

اسی لیے آپ یہ بات محسوس کریں گے کہ قرآن نے جہاں ایک طرف اسلامی نظام زندگی کے اُصول ومبادی سمجھائے ۔تحریک اقامت دین کی راہ کے مختلف مرحلوں کا ذکر کیا وہیںانسان کو اپنی ساری بحث ودعوت کا مرکز ی ،موضوع اور عنوان بنایا ۔ دستور جماعت اسلامی ہند نے جہاں اقامت دین کو اپنی اجتماعی سرگرمیوں کا نصب العین قرار دیا وہی انسانوں کے لیے رضا ئے الٰہی کو واحد محرک قرار دیا ۔ انسانی وجود کو اقامت دین کی راہ کے کسی بھی مرحلہ سے جدا نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسکے جدا ہوتے ہی نصب العین تحریک سے بدل کر محض چند نظریات اور عقائد میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

سورۃ الحج آیت ۴۱ میں اللہ تعالی فرماتا ہے۔’’اہل ایمان وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم اُن کو زمین میں اقتدار عطاکر یں تو وہ نماز قائم کریں گے زکوۃ دیں گے ۔معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اورتمام معاملات کا انجام کا ر اللہ ہی کے ہاتھ میںہے‘‘ اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ کسی سیاسی اقتدار کے حصول کے ساتھ تحریک اسلامی کا کام ختم نہیں ہوجاتا بلکہ ایسے کسی اقتدار کے حصول کے بعد مخلص اور با صلاحیت افرادجو آیت بالا میں بتائے گئے احکامات کی تعمیل نیز اسلامی ریاست کے جملہ امور کو احسن انداز میں چلانے کے لیے درکار صالحیت وصلاحیت اپنے اندر رکھتے ہو ں ؛ان کی تیاری وفراہمی بھی تحریک اسلامی کی ایک انتہائی اہم ذمہ داری ہے۔صلاحیت وصالحیت کے حامل ان افراد کی تیاری وفراہمی کی اہمیت کا اندازہ سورۃ ال عمران آیت ۱۶۴ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ جس میں نبی کریمﷺ کے مقصد بعثت کی انتہائی جامع الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ’’در حقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیا ن خود انھیں  میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیا ت انھیں سناتا ہے۔ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے ان کو کتاب او ر دانائی کی تعلیم دیتا ہے حا لانکہ اس پہلے یہی لو گ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘

اقامت دین اور اقامت دین کے لیے باصلاحیت افراد کی تیاری کے درمیا ن موجود تعلق کو سمجھنے کے بعد اگر ہم طلبہ تنظیم اسٹوڈنس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا  کے قیام کے پس منظر اور متن پر نظر ڈالیں تو ایک انتہائی خوش آئند اور مثبت پہلو ابھر کر سامنے آتا ہے ۔طلبہ تنظیم ایس آئی او کے دستور کی دفعہ ۴(الف) کے مطابق تنظیم کا مشن اپنی ہدایت کے مطابق سماج کی تشکیل نو کے لیے طلبہ اور نوجوانوں کو تیارکرنا ہے۔دفعہ ۴(ب) میں جن ۶اغراض ومقاصد کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں سے ایک اہم غرض و مقصدافرادکی ہمہ جہت تربیت کرنا ان کی صلا حیتوں کو نشوونما دینا اور انھیں تحریک اسلامی کے لیے مفیدتر بنانا کو قرار دیا گیا ہے۔

اقامت دین اور افراد سازی سے متعلق اب تک کی گفتگو کو سمجھنے کے بعد اگلا سوال افرادسازی کے ضمن میں درکار عملی اقدامات کی نوعیت اور مزاج سے متعلق ابھرتا ہے یو ں تو عملی اقدامات بہت سے ہوسکتے ہیں لیکن یہاں ہم اپنی گفتگو کو اس اہم عنصرتک محدود رکھیں گے جو افراد سازی کے ضمن میں مختلف امور کی انجام دہی سے متعلق فیصلہ سازی میں رہنمایانہ خطوط کی حیثیت سے تحریک اسلامی کے کام آسکے ۔ہمارے نزدیک تحریک اسلامی کی موجود ہ و مستقبل کی ضروریات حقیقی تجزیہ ، عمیق مطالعہ اور گراؤنڈ ورک کے بعد تیارکیا جانے والا طویل المیعاد وــژن اس ضمن میں کافی مددگار ہوسکتا ہے۔ افراد سازی کے لیے تیار کیاجانے والا یہ وژن تحریک وتنظیم کے مجموعی وژن کی روشنی میں بھی مرتب کیا جاسکتا ہے۔

افراد سازی کے ضمن میں کسی مخصوص طویل المیعاد وژن کے تصور کے ساتھ جو بنیادی سوالات اٹھتے ہیں وہ اس کی ضرورت سے متعلق ہیں کہ آخر ایک واضح نصب العین ، دستور انتہائی عمیق غوروفکر اور تدبر کے بعد تیار کیے گئے پالیسی و پروگرام ایک مربوط، مضبو ط تنظیمی اسٹرکچر ، تربیتی منصوبے اور نظام تربیت کے باوجود کسی مخصوص HRD Visionکی ضرورت کیوں ہے؟یہ ایک حقیت ہے کہ فیصلہ سازی کے ضمن میں اصلاً رہنمایانہ خطوط کی حیثیت پالیسی ہی کو حاصل ہے اور ہونی بھی چاہیے لیکن تنظیمی پالیسیزو پروگرامس اپنے اجمال کے سبب ( جو ان کالازمی عنصر اورحسن ہے)افراد سازی کے ہمہ جہت کام کا تفصیلی انداز میں اسطرح اظہار نہیںکرسکتے کہ اس کے ذریعہ مختلف سطحوں پر کام کرنے والے افراد کے سامنے  HRDکا کوئی واضح نقشہ ابھر سکے ۔ اور وہ اس میں اپنے لیے کوئی واضح وژن اور کام تلاش کرسکیں ۔ تنظیم کی پالیسی اس کے مجموعی وژن کی عکاسی کرتی ہے لیکن اس مجموعی وژن کی تکمیل کے لیے افراد سازی کا کوئی واضح اور طویل المیعاد خاکہ ناگزیر ہے۔پالیسیز کے ساتھ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک مختصر مدت (میقات ) کے لیے بنتی ہے جو کہ افراد کو احسان کے درجہ تک پہنچاننے کے لیے ناکافی مدت ہے۔ بھارت کا موجودہ تعلیمی نظام بھی ۷سال =۲+۳+۲پر مشتمل ہے جو دہم کے بعد کسی بھی فیلڈ میں محض تعلیمی مہارت کے لیے کم ازکم مطالبہ کرتاہے۔ اس کے علاوہ افراد سازی سے متعلق بیشتر عوامل ایسے ہیں جو تحریک اسلامی کے حلقہ برائے توجہ طلب امور  Circle of Concernکا توحصہ ہیں لیکن حلقہ اثر Circle of Influenceمیں فی الوقت شامل نہیں ہے ۔ مختلف وجوہات کے سبب Circle Of Concernسے ـCirlcle Of Influenceکا یہ سفر بھی ایک طویل مدت چاہتا ہے۔ جس کی کفایت ایک میقات اور اس مختصر مدت کے لیے بننے والی پالیسیز وپروگرامس کے ذریعہ مکمل طور پر ممکن نہیں ہے۔مختصراً افراد سازی اور پالیسیز کے تناظر میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ طویل المیعاد افراد سازی کا وژن ڈاکیومنٹ پالیسیز کی اہمیت کو گھٹائے اور کم کیے بغیر بنیادی نصب العین اور پالیسیز کے ماتحت رہتے ہوئے ایک اضافی ذریعہ کی حیثیت سے افراد سازی سے متعلق فیصلہ سازی میں معاون ومددگارہوگا۔ اور پالیسیز کے اجمال کو تفصیل عطا کر یگا اس کے ذریعے انسانی وسائل کے بہترین استعمال کی نئی راہیں کھلیں گی جس کا لازی نتیجہ مقصد یت اور نتیجہ خیز اپروچ کی شکل میں ظاہر ہوگا ۔ نیز واستگان تحریک کو اپنے ذاتی Aptitudeکی بنیاد پر تحریک اسلامی کی خدمات کی راہیں چننے اور ان راہوں پر چلنے میں آسانی ہوگی ۔اس کے علاوہ یہ ڈاکیو منٹ مختلف کاموں کے درمیان فطری ومنطقی ربط پروگرامس کی Productivity کے جائز ہ نیزمنزل کی جانب تحریک اسلا می کی عمومی پیش رفت کے جائزہ کے ضمن میں بھی کافی معاون ومددگار ہوسکتا ہے۔

ضروریات ، ایجادات کو جنم دیتی ہیں بشرطیکہ ان کا ادراک ہو۔سید مودودی ؒکے قلم سے الجہاد فی الاسلا م جیسی معرکۃالاراء کتاب کا ظہور اصلاً مولانا محمد علی جوہر ؒ کی جانب سے اسلام کے تصور جہاد پر کسی تخلیق کی شدید ضرورت کے اظہار کا نتیجہ تھا بصور ت دیگر اگر یہ بات مولانا محمد علی جوہر ؒ کے محض کسی تحریر کا ایک چھوٹا سا حصّہ ہوتی تو شاید وہ سید مودودی ؒ کے لیے الجہاد فی الاسلام کی تیاری کے ضمن میں محرک عمل نہ بنتی ۔وژن کی تلاش میں اگر ہم حضرت محمدؐ کی سیرت پر نظر ڈالیں تو بہت سی مثالیں ابھر کر سامنے آتی ہیں ۔حضرت خبابؓ سے اللہ کے رسول کا یہ کہنا کہ ایک عورت صنعاء سے حضرالموت تک سونا اچھالتی جائیگی اور اسے اللہ کے علاوہ کسی کا خوف نہ ہوگا یا سراقہؓ سے یہ کہنا کہ میں تمہارے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن دیکھ رہا ہوں ۔جہاں ایک طرف تحریک اسلامی کی پیش رفت سے متعلق اللہ کے رسول ؐ کے عظیم الشان وژن کا ثبوت ہے وہی رسول اللہ ؐ کی جانب سے حضرت خالد بن ولید ؓ کے فن سپہ گری کی تعریف وتوصیف اور سیف اللہ کے خطاب کی نوازش حضرت حسان بن ثابت ؓ سے یہ بات کہنا کہ تمہارے اشعار دشمن پر تیر کی طرح اثر کرتے ہیں یا اپنے ایک صحابی کوعبرانی زبان سے سیکھنے کا حکم دینا اللہ کے رسول ؐ کے Target Based HRD Approach کی نشاندہی کرتے ہیں ۔

آخر میں ہم ان نکات کی نشاندہی کریں گے جن پر کسی تحریکی Visionکی تیاری کے دوران خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے

۱)بنیادی نصب العین کا گہرا شعور اور اس کی صحیح ترین تعبیر وتشریح

۲) تحریکی اساسات یعنی قرآن وسنت بالخصوص اور تحریکی لٹریچربالعموم پر خصوصی نظر

۳) ماضی کا بے لاگ اور حقیقت پسندانہ جائزہ

۴) ان تمام اہم عوامل کا ادراک اور درجہ بندی جو تحریک پر اثر انداز ہوتے ہوں۔

۵) تحریک اسلامی کی موجودہ صورتحال کا تجزیہ (Swot Analysis)S-Strength   W-weakness  O-Opportunities  T-Threats

۶) مستقبل کی ضروریات کا ادراک

۷) ترجیحات کا تعین

۸)جدید سائنٹفک منصوبہ بندی اور مینجمنٹ کے نظریات کا مطالعہ اور ان سے استفادہ

۹) تحریکی و غیر تحریکی ماہرسے استفادہ

۱۰) Simulation Models کی تیاری چھوٹے پیمانے کے عملی تجربات ،Pilot Projects اور مختلف حالات کے تحت ان کے نتائج کا تجزیہ

انتہائی عمیق غوروفکر ، تدبراور محنت شاقہ کے بعد تیار کیا جانے والا وژن بھی اس وقت تک کار آمد اور نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا جب تک متعلقہ وابستگان کو انتہائی احسن انداز میں وژن کے تمام جملہ پہلوؤںاسطرح روشناس نہ کرادیا جائے کہ وہ اس وژن میں اپنی ذات کے لیے بھی ایک واضح وژن اور نقشہ کارتلاش کرسکیں ۔اس ضمن میں قیادت ضرورکواس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وژن کی تعمیر اور اس کے نفاذ سے متعلق فیصلہ سازی اور تفہیم میں وابستگان کے علمی اشتراک کو یقینی بنائیں۔

 

از: سلمان احمد

مارچ 2016

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں