محمد اکمل فلاحی
تحریکِ اسلامی:اسلامی تحریک ایک وسیع سماجی نظام کانام ہے، اس کے وسیع وعریض ڈھانچہ کے اندر مختلف آراء واجتہاد سماسکتے ہیں۔ علم وفکر واجتہاد کا اختلاف تحریک کے لیے ضرر رساں نہیں ہے، بشرطیکہ یہ اختلاف عملی نہ ہو جوکہ’’تفرقہ‘‘اور’’انتشار‘‘کا سبب بن جائے۔
تحریکی قیادت کا کام:تحریکی قیادت کا کام تنظیمی اتحاد اور فکری اتحاد کی حفاظت کرنا ہے، ایک عمل اور ایک اقدام پر سب لوگوں کو جمع کرنا ہے، اختلافِ رائے کو ”انگیز“ کرتے ہوئے عملی قدم میں ”اتحاد ویکسانیت“ پیداکرنا ہے،عملی کا وشوں کو مزید موثر وفعال بنانا، انھیں منظم کرنا، اور مختلف علمی وفکری واجتہادی کاوشوں سے بھر پور فائدہ اٹھانا ہے۔ہاں دوسری آراء کی تردید اور ان پر بندش لگانا، نظریات، اجتہادات اور آراء کے اختلاف کو ختم کرکے سب لوگوں کو ایک ہی نظریہ اور رائے پر متفق کرنا امیر یا قائد کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ایسا کرنا ”خلافِ فطرت“بات ہوگی اور ”قوّتِ عقل وفکر“ پر بندش قرار پائے گی۔
(اختلافات، اسباب، آداب،از: جمال سلطان، سن اشاعت: ۱۹۹۴ء، ناشر: قاضی پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز، نئی دہلی، ص: ۳۳، ۳۵)
تحریک کی ہمہ گیریت:تحریکی ہمہ گیریت کا مطلب یہ ہے تحریک ”پھیلتی“ ہے،سمٹتی نہیں ہے۔ ”آگے“ بڑھتی ہے، پیچھے نہیں ہٹتی ہے۔تحریک زمانے کے ساتھ ساتھ چلتی ہے، عصری تقاضوں کو سمجھتی ہے، سماجی قدروں کو تباہ کرنے والے ”تباہ کن“افکار ونظریات کا گہرا جائزہ لے کر ان کا انہی کی ”زبان“میں جواب دیتی ہے، بگڑتے ہوئے سماج کی اصلاح کے لیے،انسانیت کی فلاح و ترقی کے لیے،خیر کو فروغ دینے کے لیے ”ہمہ وقت“ تیار رہتی ہے۔
رجالِ علم وفکر:رجالِ علم وفکر سے ہماری مراد ایسے لوگ ہیں جن کی علمی،فکری،تربیتی اور انتظامی صلاحیتوں سے تحریکِ اسلامی کو کماحقہ فائدہ پہنچتا رہا ہے، پہنچتا ہے۔رجالِ علم وفکر کا دائرہ وسیع ہے۔ اس میں تین طرح کے لوگوں کو شامل کیا جاسکتا ہے:
1۔ ایسے لوگ جو تحریک کے اندر تو نہیں ہیں مگر تحریکی مزاج، تحریکی شعور،تحریکی قوت، اورتحریکی روح سے بخوبی واقف ہیں۔ ایسے لوگوں کوتحریک سے قریب کرنا،تحریک سے وابستہ کرنا، ان کے علم وفکر سے استفادہ کرنا تحریک کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔
2۔دوسرے وہ لوگ جنھیں ہم تحریکی کارکنان کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو تحریک کو سمجھتے ہیں، تحریک کی خیر خواہی چاہتے ہیں، تحریک کی خدمت کرتے ہیں،تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔ان میں بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ذہانت وفطانت، صلاحیت وقابلیت اور علم وفکر کے لحاظ سے بہت آگے ہوتے ہیں۔ ایسے قیمتی لوگوں کو ”منظم“ کرنا، انھیں مستقبل میں تحریک کا ”مضبوط دست وبازو“ بنانا ایک اہم اور ”بڑا کام“ ہے۔
3۔ تیسرے وہ لوگ جو تحریک کے ممبران یا ارکان کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ یہ لوگ تحریک کے لیے ”ریڑھ کی ہڈی“ کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کی غفلت یا ان سے غفلت تحریک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ ان کا ”ٹوٹنا“دراصل تحریک کا ٹوٹنا ہے۔ ان کا ”بکھرنا“ دراصل تحریک کا بکھرنا ہے۔ ان کو ”توڑنا“دراصل تحریک کو توڑنا ہے۔ان میں بھی بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو بے پناہ ”خدا داد صلاحیت“ اور ”قائدانہ صفات“ کے مالک اور ”اعلی دماغ“ والے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے سیاسی تدبر، علم وبصیرت، مجتہدانہ فکر، قوتِ انتخاب،صلاحیتِ تنقید اور آزادانہ ”اختراعی قابلیت“ کی بہ دولت سماج کی تعمیرِ نو اور قوم کی تعمیرِ جدید کا کام انجام دیتے ہیں۔ درج ذیل سطروں میں اسی تیسری قسم کے لوگوں سے متعلق قدرِ تفصیل گفتگو کی جائے گی۔
پہلی بات،رجالِ علم وفکر کا کردار: اس بڑھتی ہوئی تحریک کے پیچھے وہی ”ریڑھ کی ہڈی“ کام کر رہی ہوتی ہے یعنی رجالِ علم وفکر، یعنی تحریک کے روح رواں، یعنی علمی وفکری غذا دینے والے لوگ۔ اگرانھیں تحریک سے الگ کردیاجائے یا وہ تحریک سے الگ ہوجائیں تو تحریک مردہ ہو کر رہ جائے۔
اس بڑے کام کو زمانے کی ”زبان“، زمانے کی”نزاکت“، زمانے کے ”تیور“ کو نہ سمجھنے والے کبھی نہیں انجام دے سکتے۔ وہ پیچھے رہ جائیں گے مگر زمانہ ان سے آگے نکل جا ئے گا، وہ روایت پرستی، شخصیت پرستی، جمود وتعطل اور تقلید واتباع کے ”دلدل“ میں رہنا پسند کرتے ہیں جبکہ یہ رجالِ علم وفکر اپنی علمی وفکری واجتہاد ی اور اپنی مفکرانہ ومدبرانہ وقائدانہ صلاحیت وطاقت سے ”لیس“ ہوکر اسلام پر ہونے والے اعتراضات واشکالات کا مفصل ومدلل جواب دیتے ہیں، اسلام کا دفاع کرتے ہیں، اسلام کو قوت بہم پہنچاتے ہیں۔ ایسے لوگ پرانی لکیروں کے ساتھ ساتھ نئی لکیریں بھی کھینچتے ہیں، نیا اسلوب، نیا طریقہ اپناتے ہیں۔ ایسے لوگ ماضی میں جھانک کر موجودہ مسائل کا بہترین حل تلاش کرتے ہیں۔
دوسری بات، رجالِ علم وفکر کو بکھرنے سے بچانا:تحریکِ اسلامی کے یہ اہلِ علم ودانش تحریک کا قیمتی جوہر، قیمتی سرمایہ، قیمتی مغز ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بکھرنے سے بچانا قائد سے لے کر ہر کارکن کی ذمے داری ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو امیر دیگر ارکان یا کارکنان سے علمی اختلاف کا پورا پورا حق حاصل ہے لیکن اس اختلاف کی وجہ سے انھیں تحریک سے علیحدہ کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے، الا یہ کہ اختلاف کی نوعیت کچھ اس طرح کی ہو جس سے تحریک کے”وسیع تر مفاد“ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ تحریک کا ہر فرد پوری بیداری کے ساتھ دیکھتا رہے کہ تحریک کوایسے ”جراثیم“ نہ لگنے پائیں جو تحریک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں، جو تحریکی افراد کو بکھرنے کا سبب بنتے ہوں۔دوسری طرف ایسے قیمتی لوگوں کو بھی غور کرتے رہنا چاہیے کہ وہ کسی علمی وفکری رائے میں اختلاف کی بنا پر ”تحریکی میدان“ سے ہٹنے کے لیے قدم نہ اٹھائیں۔ ماضی میں کئی بزرگوں نے اس ”خطرناک غلطی“ کو دہرایا ہے۔ جس سے انھیں اور تحریک دونوں کو نقصان اٹھانا پڑا۔
تیسری بات،ہردور کے لیے الگ الگ رجالِ علم وفکر کی ضرورت ہوتی ہے:جس طرح ہرزمانہ اپنے ساتھ الگ الگ مسائل اور الگ الگ تقاضے لاتا ہے اسی طرح اس دور کے لیے الگ الگ ”رجال“ پیدا ہوتے ہیں۔ جس طرح پہلے کے لوگوں نے اپنی علمی وفکری کاوشوں سے اپنے زمانے کے مسائل حل کیے اسی طرح آج کے لوگ بھی اپنی ”مجتہدانہ“ صلاحیتوں سے آج کے مسائل سمجھیں گے اور حل کریں گے۔وہ ”روحِ عصر“ کو سمجھتے ہوئے قلم اٹھائیں گے،وہ کتاب اللہ میں ”غوطہ زنی“ کرکے، ”نص اور روحِ نص“ کی گہرائیوں میں اتر کر ”شریعت اور روحِ شریعت“، ”دین اور روحِ دین“سے زمانے کو آشنا کریں گے۔تحریکِ اسلامی کے قافلے میں ہمیشہ ایسے اہلِ بصیرت ر ہے ہیں جنہوں نے باطل افکار ونظریات کا علمی وتحقیقی کا جائزہ لیا، جنہوں نے اسلام، قرآن اور محسنِ انسانیت ﷺ پر ہونے والے طرح طرح کے اعتراضات کا مسکت ومقنع جواب دیا۔ دورِ حاضر اس بات کا تقاضا کررہا ہے کہ تحریکِ اسلامی دوبارہ ”افراد سازی“ جیسے اہم اور بڑے کام کو اوّلیت وفوقیّت دے، افراد سازی کو اپنے ”پروگراموں“ میں شامل کرے، افراد سازی کے لیے ”بہترین خاکہ“ تیار کرے تاکہ اس کے قافلے کو ایسے ”رجالِ علم وفکر“ ملتے رہیں جوبہترین اور کامیاب قائدانہ کردار اداکرسکیں۔
اکمل فلاحی جامعہ الفلاح کے فارغ التحصیل ہیں،’بڑے لوگ اعلی کردار‘ کے مصنف ہیں۔الجامعہ الاسلامیہ شانتاپرم میں تفسیر اور ادب عربی کے مدرس ہیں۔