بھارت میں تبدیلی مذہب کی بحث

ایڈمن

شائمہ ایسمترجم: عبدالمومنتعارفموجودہ ہندوستان میں “مذہب کی تبدیلی”سوالات سے گھرا مسئلہ بنا ہوا ہے۔مزید برآں یہ مسئلہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں موضوع بحث ہے جو کئی ایسے جغرافیائی سرحدوں کا گہوارہ ہے جو مشترکہ نوآبادیاتی، مذہبی…


شائمہ ایس
مترجم: عبدالمومن


تعارف
موجودہ ہندوستان میں “مذہب کی تبدیلی”سوالات سے گھرا مسئلہ بنا ہوا ہے۔مزید برآں یہ مسئلہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں موضوع بحث ہے جو کئی ایسے جغرافیائی سرحدوں کا گہوارہ ہے جو مشترکہ نوآبادیاتی، مذہبی اور سماجی و ثقافتی تاریخ کی لڑی میں ایک دوسرے سے پرے ہوئے ہیں۔اکثر ہم خبروں میں “لو جہاد ” کی اصطلاح یا کسی شخص کے جبراً مذہب تبدیل کروائے جانے کے واقعے کو دیکھتے ہیں ۔بیشتر موقعوں پر اس قسم کے الزامات مسلمانوں پر لگائے جاتے ہیں اور کبھی کبھار عیسائیوں پر بھی۔سب سے کمزور مذہبی اقلیتیں “تبدیلئ مذہب” کے اس سوال کا مرکزبنی ہوئی ہیں۔مذہب کی تبدیلی کے عمل کی بحث سنگین حد تک دراڑ پیدا کرنے والے الزامات اور جوابی الزامات کا شکار بن کر رہ گئی ہے۔انڈیا جیسے ملک میں جو دستور کے مطابق چلتا ہے تبدیلی مذہب کے سیاق و سباق کو سمجھنا بہت اہم ہے۔
تبدیلئ مذہب کی بحث ہمیشہ غلط فہمیوں کا شکار رہی ہے، مثال کے طور پر یہ بات زبان زد خاص و عام ہے کہ جنوبی ایشیاء میں اسلام کے پھیلنے کی سب سے اہم وجہ طاقت یا تلوار ہے۔رچرڈ ایٹن جو اس خطہ ارض میں اسلام کے پھیلنے کی تاریخ کے اہم محقق کار ہیں ،اس یک رخی توجیہ سے اعراض کرتے ہوئے برصغیر اور اطراف و اکناف میں اسلام کے پھیلنے کی ہمہ جہت توجیہات کرتے ہیں۔جن میں اکثر و بیشتر متحرک انسانی تعاملات سے متعلق ہیں۔اسلام کئی طریقوں سے پھیلا، آستانوں اور درگاہوں سے بھی جہاں تمام مذاہب کے ماننے والے حاضری دیتے تھے اور آپسی شخصی روابط کے ذریعے بھی۔کبھی اجتماعی تبدیلئ مذہب کی صورت میں (مثلاً عزت نفس کی خاطر یا کمزور و پچھڑے طبقات کا ظلم و جور سے چھٹکارا پاکر کسی کی سرپرستی حاصل کرنے کے لئے) اور کبھی قرآن حکیم کے راست مطالعے کی وجہ سے۔اسی طرح مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، اور اڑیسہ وغیرہ میں مختلف درج فہرست قبائلی طبقات نے اکثر عزت نفس کی خاطر یا‌ (مروجہ نظام سے) بغاوت میں اجتماعی طور پر عیسائیت کی آغوش میں پناہ لی۔کئی تحقیقات میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مذہبی دھارے میں تبدیلی کس طرح لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے پر ابھارتی ہے۔جیسا کہ کیرالا کے “مپلاز” جنہوں نے ذات پات کے نظام پر مبنی اپنی بے عزتی کو تج کرتے ہوئے مذہب تبدیل کیا اور سماجی مساوات کا حق حاصل کیا۔لہٰذا بھارت میں تبدیلئ مذہب کی تاریخ کو سادہ طریقے سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش یا یہ ظاہر کرنا کہ اوپر سے کوئی طاقت تبدیلئ مذہب کا ہرکارہ چلارہی تھی، بالکل نامناسب ہے۔ایسے ملک میں جو مختلف النوع مذاہب کی تاریخ سے مالامال ہے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ کئی افراد نے اس مذہب کو خیرباد کہہ دیا جس میں وہ پیدا ہوئے تھے اور ان مذہبی راستوں کو اپنایا جو انہیں اس دنیا اور اس کے بعد آنے والی دنیا میں بہتر مواقع فراہم کر رہے تھے۔
آج یوں تو بہت سے ایسے قوانین موجود ہیں جو مذہب کی تبدیلی کو جرم قرار دیتے ہیں لیکن ہر قسم کی تبدیلی ان قوانین کے شکنجے میں نہیں آتی۔مثال کے طور پر “گھر واپسی” یا‌ “شدھی”(کےنام پر کرائے جارہے تبدیلی مذہب کے اعمال ) جرم نہیں مانے جاتے چاہے وہ جبراًہی کیوں نہ کروائے جارہے ہوں۔ملک بھر میں کئی ایسے مراکز بھی کام کر رہے ہیں جو مذہب تبدیل کرنے والے افراد کو اپنا نشانہ بناتے ہیں اور انہیں ان کے “اصلی مذہب” یعنی ہندوازم‌ کی جانب لوٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن ہر دو قسم کے قوانین چاہے وہ ” قوانین برائے مذہبی آزادی ” ہوں یا “لو جہاد” کے نام پر بنائے گئے قوانین، اپنا اطلاق اکثر عیسائیت اور اسلام‌ پر کرتے ہیں کیوں کہ یہ دونوں مذاہب مشنری ہیں اور دوسروں تک اپنے‌ مذہب کی تبلیغ و ترویج کا داعیہ رکھتے ہیں ۔اس امر کی وضاحت ان قوانین کو “ہندو کوڈ بل” کے تناظر میں سمجھنے‌ پر ہوجاتی ہے، جوہندوازم، جین ازم، سکھ ازم‌ اور بدھ ازم کو indic کی تعریف میں باندھتا ہے اور دیگر مذاہب کو non-indic ۔
اسی طرح 1950 کا صدارتی حکمنامہ (جس کے تحت ان دلت افراد سے تحفظات کا حق سلب کرلیا جاتا ہے جنہوں نے اسلام یا عیسائیت قبول کیا ہو) دراصل چند‌ مخصوص مذاہب کو قبول کرنے سے روکنے کے آلۂ کار کے طور پر استعمال‌ ہوتے آرہے ہیں۔
انڈیا کے دستوری ڈھانچے پر نظر ڈالیں تو یہ عقدہ کھلتا ہے کہ تبدیلی کا لفظ خود دستور میں موجود نہیں ہے۔درآں حالیکہ دستور خود مذہب کی بناء پر تفریق کی نفی کرتا ہے اور شق نمبر 25-28 میں آزادی خیال اور مذہب کی حفاظت کو بیان بھی کرتا ہے۔
آکاش سنگھ راتھور نے 2020 میں پری ایمبل پر کئے گئے اپنےحالیہ(تحقیقی ) کام میں تفصیل سے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح دستور سازاسمبلی کے ارکان محض چند‌ ایک جملوں یا سطروں کی وجہ سے کس طرح آپس میں طویل اور ناخوشگوار بحثوں میں الجھ جاتے تھے۔اس وقت بھی کئی ارکان کی جانب سے لفظ “تبلیغ” پر شدید اعتراض کیا گیا تھا جو اسے ایک پروپیگنڈا مانتے تھے۔ یہی وہ بنیادی غلط فہمی‌ ہے جو مذہبی تبلیغ کو لے کر پائے جانے‌ والے تعصبات اور غلط تصورات کی وجہ بنتی ہے۔
منقسم‌ دنیا میں دعوت اور تبلیغ
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “میری بات پہنچا دو، چاہے وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔”(صحیح بخاری 327) مذہب کی تبلیغ و ترویج کرنا(مذہبی معلومات فراہم کرنا، لٹریچر دینا اورگفتگو کرنا) اور طاقت کے بل بوتے پر کسی کا مذہب تبدیل کرنا، ان دونوں چیزوں میں ایک جوہری فرق موجود ہے۔سب سے پہلے اس بات کو واضح طور پر سمجھ لینا چاہئے کہ کسی کو بھی جبراً مذہب تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں کیا جاسکتااور اگر کوئی یہ کارعبث انجام دیتا ہے تو یہ نہ صرف غلط‌ بلکہ نقصان دہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ایک شخص کے دل میں جب تک مذہب کے تئیں سنجیدگی پیدا نہ ہو اس پر مذہب لاگو کروانے‌ یا قبول کروانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔اس امر سے تمام مسلمان اچھی طرح واقف ہیں کیوں کہ قرآنی تعلیمات اس سلسلے میں واضح ہیں کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔اگر کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو وہ نہ صرف قرآنی تعلیمات بلکہ دعوت کے نبوی (صل اللہ علیہ وسلم) طریقۂ کار کے مخالف بھی ہوگا۔لیکن یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ تبدیلئ مذہب کے متعلق وضع کیے گئے موجودہ قوانین ہو یا اس سے قبل بنائے گئے قوانین، تمام‌ ہی میں مطلق زبردستی اور طاقت کی بنیاد پر مذہب کی تبدیلی پر جرم کا اطلاق نہیں کیا جارہا ہے بلکہ کسی سے اسلام کے بارے میں بات کرنے، غیر مسلموں کی جانب سے خود آمادہ ہوکر اسلام قبول کرنے(جو کبھی کبھار خود ان کے اپنے مطالعے کا نتیجہ بھی ہوتا ہے)کو بھی دراصل جرم اور زور زبردستی والے زمرے میں شامل کیا جارہا ہے۔
قرآن حکیم‌ ہمیں ترغیب دیتا ہے کہ: “اے نبی ؐ ، اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔ تمہارا ربّ ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہِ راست پر ہے۔” (16: 125)واضح طور پر یہاں دو باتیں کہی جارہی ہیں۔ پہلی یہ کہ ہر ایک کو دعوت دین دی جائے۔ دوسری، دعوت کے طریقہ کار کو لے کر کہ دعوت دین باوقار انداز میں اخلاقیات اور حکمت سے مزین ہوکر دی جائے۔دونوں ہی باتیں مسلمانوں کے لئے اس منقسم دنیا میں یاددہانی ہیں کہ وہ اسلام کو پھیلانے کی جدوجہد سے باز نہ آئیں اور نبوی اسوۂ کی پیروی کرتے ہوئے اس کام‌ کو انجام دیں، جس میں نہ ہی مسابقتی جذبات غالب ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی پر جیت حاصل کرنا مقصود۔
بہت سے افراد اس غلط‌ فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ دعوت و تبلیغ میں جبر، زور، مکاری اور دباؤ کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس قسم کا پروپیگنڈا 1960 سے شروع ہوئے “آزادئ مذہب قوانین” پر منتج ہوا جو تا حال ملک کی 7 ریاستوں میں نافذہے۔یوں تو یہ قوانین کسی کو زبردستی اسلام قبول کروانے پر لاگو ہوتے ہیں لیکن ان کا دیگر چیزوں میں بھی استعمال ہوتا ہے یہاں تک کہ کسی سے مذہب سے متعلق بات کرنا یا تشریح کرنا جیسے امور کو بھی ان قوانین کے تحت جرم قرار دیا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر ان قوانین کی ایک شق “خدا‌ کی ناراضگی کے بیان” کو “زبردستی مذہب کی تبدیلی” سے جوڑتی ہے کیوں کہ “خدا کی ناراضگی کا بیان” انسان‌ کے اندر “جہنم کا خوف یا خود خدا کا‌ خوف” سرایت کرواتا ہے !!اس قسم کی چیزیں مذہب سے متعلق کسی بھی بحث اور گفتگو کو جرم قرار دے سکتی ہیں بالخصوص اسلام کے ماننے والوں کے لئے جن کے ہاں خدا کے لئے جینے کا اہم جز “عقیدہ آخرت” ہوتا ہے۔
دعوت و تبلیغ کی کوششوں پر ان چیزوں کا گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر بھنور میگھ ونشی اپنی کتاب “میں ہندو نہیں ہو سکتا” میں لکھتے ہیں کہ ایک پادری نے انہیں عیسائیت قبول کرنے میں مدد کرنے سے انکار کردیا اس خوف سے کہ کہیں یہ اس کو پھنسانے کا جال نہ ہو یا تبدیلئ مذہب کے معاملے میں شامل ہونے پر اس پر حملہ نہ ہوجائے، اور اس نے الٹا مصنف کے گھر والوں کو اس کی اطلاع دے دی‌۔ دلبرداشتہ ہو کر انہوں نے دیگر کئی چرچوں کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن انہیں کہیں سے کوئی مدد نہیں ملی۔اسی طرح ہادیہ کے معاملے میں عدالت نے اس کے دوستوں،والدین اور دیگر کئی تنظیموں سے پوچھ تاچھ کی جن سے اس کا رابطہ ہو سکتا تھا، خاص کر ہادیہ کے شوہر کو بطور خاص نشانہ بنایا گیا۔عدالت کے لئے یہ حقیقت غیر متعلقہ تھی کہ ہادیہ نے اپنے شوہر سے اسلام قبول کرنے کے کئی سال بعد ملاقات کی تھی اورمنطقی طور پر شوہر نے ہادیہ پر کوئی زور زبردستی نہیں کی ہوگی!!اس سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ اقلیتی تنظیمیں نشانے پر آگئیں کیوں کہ ان پر زبردستی تبدیلئ مذہب کا الزام دھرا جاسکتا ہے۔ یہ بات فطری ہے کہ کسی بھی مذہب میں داخل ہونے کے بعد مددگار نظم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اساتذہ، دوست اور تنظیمیں نہ صرف نئے طریقہ زندگی کا سبق سکھاتے ہیں بلکہ جذباتی اور نفسیاتی سپورٹ کا سامان بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس قسم کی کوئی بھی کوشش جبر کے زمرے میں گردانی جارہی ہے۔
بہرحال اس قسم کے ڈر و خوف کے ماحول سے بوجھل نہیں ہونا چاہئے۔اپنے اندرخوف کو پالنا ذرا بھی سود مند نہیں ہوسکتا۔اور یہی مذموم کوششیں مسلمانوں کو مزید حاشیے پر ڈھکیلنے اور ان کے سماجی کردار کواقل سے اقل ترین کرنے کے لئے کی جاتی ہیں۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ١٩٢٠ کی دہائی میں آریہ سماج کے پمفلٹس میں جہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلّم) کی نعوذ باللہ اہانت کی گئی تھی وہیں مسلم مرد کو جنسی طور پر مست، دوغلا اور شہوت کا مارا دکھلایا گیا تھا جو ہمیشہ غیر مسلم عورتوں کو اپنے دام الفت میں گرفتار کرنے پر تلا ہوتا ہے۔ہو بہو ویسی ہی کوششیں اس وقت بھی جاری ہیں۔ ان مکّار کوششوں کے نتیجے میں یہ بالکل نہیں ہونا چاہئے کہ مسلمان مذہبی تبلیغ و تبدیلی کو مطلق غلط عمل سمجھنے لگیں اوراس سلسلےمیں سوچنا اور بات کرنا ہی بند کردیں۔ اس کے برخلاف آئیے، تبدیلئ مذہب کے خد و خال پر کچھ نظر دوڑائیں اوراور دیکھیں کہ جنوبی ایشیاء میں تبدیلئ مذہب کی تاریخ کیا واقعی اتنی متنازعہ رہی ہے۔
کیا مذہب کی تبدیلی غلط ہے؟
اگر مذہب کی تبدیلی غلط ہے جیسا کہ جتلایا جارہا ہے تو جنوبی ایشیاءکی پوری تاریخ کو نہ صرف مٹا دیاجانا چاہئے بلکہ اسے ازسرنو لکھنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ یہاں لوگوں نے ہمیشہ نئے مذہبی طریقہ ہائے کار اور راستے تلاش کیے ہیں اور کبھی اکیلے، کبھی مع اہل و عیال اور کبھی پوری کمیونٹی کے ساتھ کسی نئے مذہب کی آغوش میں پناہ لی ہے۔عام طور پر ہندوستان کا تعارف فخریہ انداز میں “مختلف مذاہب کا منبع” کہہ کر کیا جاتا ہےاور اسے کئی ایسے مذاہب کا گہوارہ بھی کہا جاتا ہے جو دیگر جگہوں سے یہاں وارد ہوئےہیں۔اگر اس امر سے انکار نہیں تو تبدیلئ مذہب سے اتنا بیر کیوں؟ اگر یہاں نئے مذاہب پیدا یا وارد ہوئے ہیں تو ان کے ماننے والے بھی پیدا ہوں گے یا آئیں گے۔تبدیلئ مذہب کوئی بحث و مباحثے والی بات نہیں ہے بلکہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے۔انسان ایک مذہب سے دوسرے مذہب کی طرف کوچ کرتے ہیں جس طرح وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ بدلتے ہیں۔ ان کے اس عمل کی وجوہات اور مقاصد الگ الگ ہوتے ہیں۔لیکن یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ اس “جرم بے اصل” کا ارتکاب کرنے والی کئی سعید روحیں اپنی جان ہاتھ سے دھو بیٹھتی ہیں۔چاہے وہ کیرالا سے تعلّق رکھنے والا فیضل ہو (جسے آر۔ ایس۔ایس سے وابستہ افراد نے اسلام قبول کرنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا)یا گراہم اسٹینس (اور ان کے ٢ لڑکے) ہوں جنہیں خود ان ہی کی کار میں زندہ جلا دیا گیا، کیوں کے وہ مشنری کام کررہے تھے۔!!ایسے افراد جو ہندوستان کو محدود یک رنگی عینک سے دیکھنا چاہتے ہیں ان افراد پر ظلم کے پہاڑتوڑے جارہے ہیں جو ان کے برخلاف ملک کو ہمہ رنگ اور گنجلک مذہبی و نسلی پیمانوں سے دیکھتے ہیں۔
بالخصوص اسلام کے بارے میں یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ کئی افراد محض اس لئے اسلام قبول کرتےہیں کہ ان کے دل نے انہیں اس بات کے لئے آمادہ کیا ہے،باوجود اس کے کہ نہ انہوں نے کبھی کسی اسلامی عمل کا مشاہدہ کیا ہوتا ہے اور نہ ہی کسی اسلامی رسم و عمل میں شرکت۔مغرب میں خاص طور پر کئی ایسے نو مسلمین پائے جاتے ہیں جو چھوٹے چھوٹے قصبوں میں رہتے ہیں، جہاں مسلم آبادی نہیں کے برابر پائی جاتی ہے،وہ قرآن حکیم یا رسول اللہ (صل اللہ علیہ وسلّم) کی زندگی سے متعلّق بہرہ ور ہوئے ہوں گےیا کسی کو صلوۃ (نماز) پڑھتے دیکھ کر اسلام کی جانب کھینچے چلے آئے ہوں گے۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ یا دیگر مغربی ممالک کے برخلاف ہندوستان میں جہاں مسلم آبادی خاطر خواہ موجود ہے،غیر مسلم حضرات مسلمانوں سے قریبی تعلقات اور نزدیکی ماحول (یکساں محلہ )کے سبب وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی قسم کے اسلامی شعار سے متعارف ہوتے ہیں۔کچھ اور لوگ بحران کے وقت الحاد سے مذہب کی طرف کوچ کرتے ہیں جو انہیں ذاتی طور پر جذباتی اور روحانی توانائی بخشتا ہے۔غرض داخلی اور خارجی ہردو قبیل کے راستوں سے اسلام دلوں میں جاگزیں ہوتا ہے۔تبدیلئ مذہب کوئی اچانک یا جذباتی نہیں بلکہ ایسا عمل ہوتا ہے جس میں لوگ اپنی زندگی پر بتدریج غور و فکر کرتے رہتے ہیں اور اس میں تبدیلی کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
بین مذہبی مخمصہ: جوابی بیانیے کی کھوج
تبدیلئ مذہب کے خلاف بیانیے کا رخ اب “لو جہاد” کی اصطلاح کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ایسا اس لئے کیا گیا کہ کسی بھی مذہب کو اپنانے کی آزادی کو لے کر موجودہ قانونی اور دستوری حقوق سے توجہ ہٹا دی جائے۔خاص طور پر دہلی کی نسل کشی (٢٠٢٠) کے بعد یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ مختلف طبقات کے مابین سماجی تعلقات بگڑ چکے ہیں جنہیں جوڑنے کی ضرورت ہے۔”لو جہاد” کے کھیل کا احیاء اس لئے کیا گیا کہ اس ٹوٹے ہوئے تعلّق کو مزید کھوکھلا کیا جائےیہاں تک کے مسلم و غیر مسلم نوجوانوں کا آپس میں معمولی گفتگو کرنا بھی مشکوک ہو جائے۔
بہرکیف مسلمانوں کے لئے بین مذہبی شادی کی اجازت نہیں ہے۔اس کے باوجود “لوجہاد” جیسے بکواس پروپگنڈا کی تنقید و مخالفت میں استعمال ہونے والی زبان الٹا بین مذہبی محبّت کی موافقت کرتی نظر آتی ہے۔ جیسا کہ ایک بائیں بازو تنظیم کی جانب سے چلائی جانے والی حالیہ مہم جس کا عنوان تھا “لو آزاد”!!تو ہمارا بیانیہ کیسا ہو؟ ہم کیسی زبان استعمال کریں؟ان الفاظ کو لے کر بحث میں پڑنے کے بجائے ہمیں دستور کی شق ٢٥کےمطابق مذہبی تبلیغ و ترویج کے حق کے دفاع پر اپنی توجہ مبذول کرنی چاہئے جو ہمیں مذہب کی تبلیغ،اس پر عمل اور مذہب کو سکھانے کا حق دیتا ہے۔ہمیں ان نوجوانوں کو قانونی اور سیاسی مدد بھی فراہم کرنی ہوگی جنہیں “لوجہاد” کے نام پر جیلوں میں سڑایا جا رہا ہے۔”لوجہاد” کے اس لیبل کے خلاف لڑائی ہماری اجتماعی ذمہ داری ہےاور اس سے پیدا ہونے والے مادّی اور قانونی بوجھ جس کو کمزور نہتے نوجوان اٹھارہے ہیں،سے آزاد کرانے میں ان کی مدد کرنی چاہئے۔
آگے کا راستہ
بحیثیت مسلم کئی بار ہم اپنے اطراف ایسے افراد سے نبرد آزما ہوتے ہیں جو اکثر مین ا سٹریم میڈیا کے زہر ہلاہل کا شکار ہو کر مسلمانوں اور اسلام کے تئیں غلط فہمیاں پال لیتے ہیں۔ جس کے جواب میں ہم یا تو دفاعی حالت میں آجاتے ہیں یا پھر جواب ہی دینے سے کتراتے ہیں۔پہلا رویہ معذرت خواہی کی جانب ڈھکیلتا ہے اور دوسرا رویہ نہ ہی سوالات کی بیخ کنی میں کوئی مدد کرتا ہے اور نہ کوئی متبادل فراہم کرتا ہے۔ایک غلط فہمی عام ہے کہ مسلمان پے درپے جان بوجھ کر لوگوں کو مسلمان بنانے پر تلے ہوتے ہیں تاکہ ان کی آبادی بڑھے۔ یا دیگر مذاہب کی عورتوں کو کنٹرول کیا جا سکے وعلی ھذاالقیاس!ہمیں ان شکوک و شبہات کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ نہ صرف ایسی غلط فہمیاں دور ہوں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر روشنی کے اس مینارۂ نور (اسلام) کے متعلّق آگہی بڑھانے کی کوشش بھی کرنی چاہئے، چہ جائے کہ گفتگو کو وہیں دبا دیا جائے۔
عین ممکن ہے کہ حالات بد سے بد تر ہوجائیں اور قومی سطح پر تبدیلئ مذہب مخالف قانون بھی لاگو کردیا جائے۔ لیکن ہمیں کما حقہ کوشش کرنی چاہئے کہ حکومت اور سول سوسائٹی کی جانب سے ترتیب دئے گئے بیانیے میں الجھنے کے بجائےاپنا خود کا بیانیہ ترتیب دیں جو کسی بھی فرد یا کمیونٹی کے لئے مذہب کو تبدیل کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو۔ملک کی اقلیتوں کو مذہبی آزادی کا حق نہ ہی “اقلیت نوازی” کی بھیک میں ملا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی سیاسی پشت پناہی کا نتیجہ ہے۔بلکہ یہ ان کی اپنی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اس امر کو ہمیں قبول کرنا چاہیے۔الغرض ہم اس فہم کی بازیافت کرسکتے ہیں کہ مذہب کی تبلیغ و ترویج کا حق ہمارے لئے دستور میں سرایت کیا ہوا ہے۔اسلام کے پیغام کو پھیلانا ہمارے دین کا اہم جز ہے۔ البتہ یہ لازم ہے کہ اخلاقی لحاظ سے اعلی ترین،باوقار اور دوستانہ ماحول اور دیگر طبقات کی دل آزاری کے بغیر یہ کام ہو۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں