”بھارت محمد مرسی کے ساتھ ہے“

0

مصری سفارت خانہ پر ایس آئی او کا احتجاج

            (ایس آئی او، پریس ریلیز)  مصر کے پہلے جمہوری طور پر منتخب صدر محمد مرسی کا17 جون 2019 کو قاہرہ کی عدالت میں پیشی کے بعدانتقال ہو گیا۔  آپ کی تکفین و تدفین اور جنازے کا انتظام بہت ہی رازدارانہ طریقے سے کیا گیا جس میں ان کے گھر کے صرف دو افراد کو شرکت کرنے کی اجازت دی گئی، حتیٰ کہ ان کی اہلیہ کو بھی ان کا آخری دیدار کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ڈاکٹر محمد مرسی کی وفات کے بعد سے ہی حقوق انسانی کی علمبردار تنظیمیں ان کی مشتبہ موت پر سوالات اٹھا رہی ہیں۔ڈاکٹر محمد مرسی کو نہ صرف قید کیا گیا بلکہ پوری دنیا سے منقطع، عمدا ًطبی لا پرواہی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انصاف پسند جماعتوں نے یہ ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ صدر محمد مرسی کی موت طبعی ہے۔ اقوام متحدہ نے اس معاملے میں ایک صاف و شفاف اور مفصل تحقیق کا مطالبہ بھی کیا ہے جونہ صرف ان کی وفات بلکہ ان کی چھ سالہ قید کے تمام پہلؤوں پر محیط ہو۔

            مصری حکومت اپنی تمام ترکوششوں کے علی الرغم صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی موت اور اپنے مشتبہ اقدامات پر پردہ ڈالنے میں پوری طرح ناکام ثابت ہوئی۔ عرب ممالک ہی کیا پوری دنیا میں صدر محمد مرسی کو چاہنے والوں نے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ یہ اس بات کی گواہی ہے کہ محمد مرسی ہر انصاف پسند طبقے میں مقبول تھے۔

            ڈاکٹر محمد مرسی جب جمہوریہ مصر کے صدارت کے عہدہ پر فائز ہوئے اس وقت مصر قومی اور بین الاقوامی دونوں سطح پر بحرانی کیفیت کا شکار تھا۔ اپنے ایک سالہ مختصر دور حکومت میں انہوں نے کئی ایسے اصلاحی اقدامات کئے جس نے اسلام دشمن عالمی طاقتوں کے کان کھڑے کر دئے۔صدر محمد مرسی نے علاقائی خود مختاری، فلسطین کی آزادی اور جمہوری تحریکات کی حمایت جیسی بین الاقوامی پالیسی اختیار کی۔ وہ صرف مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدرہی نہ تھے بلکہ آزادی اور خود مختار ی کی ایک نئی اور مضبوط آواز بھی تھے۔

            مصری فوج بھی، جس کے گہرے اور دیرینہ تعلقات امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ رہے ہیں،ایک سال بھی ڈاکٹر محمد مرسی کی اصلاحی پالیسیوں کو برداشت نہ کر سکی۔چنانچہ وہ ان کی حکومت کو غیر مستحکم اور سبوتاژ کرنے کی ترکیبیں تلاش کرنے لگی۔ بالآخر انتہائی بے شرمی کے ساتھ فوجی بغاوت کے ذریعہ ان کا تختہ پلٹ کر جنرل فتاح سیسی کے ہاتھوں میں اقتدار سونپ دیا۔ مصری فوج نے نہ صرف اپنے قانونی صدر کو قید کرلیا بلکہ عوام میں سے جو بھی ان کی حمایت میں  آگے آیا اسے بھی وحشیانہ ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ میدان رابعہ کا وہ قتل عام جس میں ایک ہی دن میں فوج نے ایک ہزار شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، مصر کی جدید تاریخ میں اب تک کا سب سے بڑا قتل عام تھا۔ اسی وقت سے سیسی حکومت نے تمام طرح کے احتجاج پر پابندی لگا دی،آزاد صحافتی اداروں کو بند کردیا، ہزاروں سماجی کارکنوں کو پابند سلاسل کر دیا۔جب یہ کافی نہ ہوا تو بے شمارافراد کو ماورائے عدالت قتل کروادیا گیا۔ حد یہ ہے کہ سیسی کے ان کرتوتوں پر عالمی طاقتوں نے چوں وچراں تک نہ کی بلکہ برملا یا خفیہ طور سے اس کی حمایت ہی میں پیش پیش رہیں۔صرف اس لئے کہ کوئی اسلام پسند جماعت دوبارہ برسر اقتدار نہ آجائے۔

            اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیاتمام حریت پسند برادران وطن سے، جمہوریت کی خواہاں مصری عوام کی حمایت میں متحد ہو کر    کھڑے ہونے کی گزارش کرتی ہے۔ ایس آئی او عالمی سطح پر یہ مطالبہ کرتی ہے کہ جنرل عبد الفتاح السیسی کی قیادت والی موجودہ مصری حکومت کو مصرکے حقیقی صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی موت کا ذمہ دار قرار دیا جائے اور دوران حراست موت کی آزاد اور شفاف تحقیق کرکے مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔یہ انصاف کا تقاضہ ہے۔اسی میں جمہوریت کی سرخروئی ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights