ڈاکٹر سلیم خان
یوگی ادیتیہ ناتھ کی بلیا ریلی میں رونما ہونے والا واقعہ پڑھ کر سمجھ میں نہیں آتاکہ ظالم کی مذمت کی جائے یا مظلوم کی سرزنش؟ سائرہ کے ساتھ منگل کو جلسہ گاہ میں جو اہانت آمیز سلوک کیا گیا وہ اگر کسی گلی محلے میں بازار و دفتر میں ہوتا تو بلاشبہ شدید احتجاج کا مستحق تھا لیکن یہ معاملہ یوگی ادیتیہ ناتھ کی ریلی میں پیش آیا۔ یوگی نے جب وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالا اس کےوالد کو نصیحت کرنے پر مجبور ہونا پڑا کہ بیٹے سماج کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنا ۔ چیف منسٹر کے والد آنند سنگھ بشٹ اپنے بیٹے کے عادات و اطوار سے خوب واقف تھے۔ انہوں نے اخبار نویسوں سے کہا تھا یوگی کو برقع والی خواتین نے بھی ووٹ دیا ہےآدتیہ ناتھ کو تمام مذاہب کا احترام کرنا چاہئے اور لوگوں کا دل جیتنا چاہئے۔ گزشتہ نو ماہ میں یوگی جی پر اپنے والد کے ناصحانہ کلمات کا کوئی اثر نظر نہیں آیا بلکہ اقتدار کے ہاتھ آتے ہی کریلا نیم چڑھا ہوگیا ۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کا یوگی سے عقیدت رکھنا اور بن بلائے اس کے جلسے میں شرکت کرنا کیا معنیٰ؟ حدیث میں آتا ہے ’’نیک اور برے دوست کی مثال مشک ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے ۔ وہ اس میں سے یا تمہیں کچھ تحفہ کے طور پر دے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا ( کم از کم ) تم اس کی عمدہ خو شبو سے تو محظوظ ہو ہی سکو گے اور بھٹی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے ( بھٹی کی آگ سے ) جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک نا گوار بد بو دار دھواں پہنچے گا‘‘ ۔
اس میں شک نہیں کہ بلیا کے اس جلسے میں جا کروزیر اعلیٰ کی تقریر سنناسائرہ کا بنیادی حق تھا لیکن کیا ہر حق کا استعمال لازمی ہے؟ اس ریلی میں جانے کے لیے کسی نے سائرہ کو مجبور نہیں کیا تھا وہ اگر وہاں نہیں جاتی کوئی خاتون پولس اہلکار اس کا برقع نہ اترواتی ۔ حد تو یہ ہے کہ جب پولس کے کہنے پر اس نے نقاب اتار دیا اورسردوپٹے سے ڈھک لیا تو وہ بھی ناقابلِ قبول تھا بلکہ سائرہ کو پورا برقع اتارنے کو کہا گیا ۔ ایسے میں سائرہ احتجاجاً اپنے گھر واپس آسکتی تھی لیکن اس نے ازخود برقع اتارنے کی کوشش کی تو بٹن کپڑوں میں پھنس گیا اس کے بعد وہاں بیٹھی دوسری خواتین نے سائرہ کا برقع کھینچ کر اتار دیا۔ برقع اتارنے کے بعداسے مرد پولس اہلکاروں نے ضبط کر لیا اور اپنے ساتھ لے گئے۔ اس موقع پر یہ شعر یوگی، پولس اور سائرہ تینوں پر صادق آتا ہے ؎
دوستوں سے دشمنی اور دشمنوں سے دوستی بے مروت بے وفا بے رحم یہ کیا ڈھنگ ہے
سائرہ بانو کی اس سرِ عام رسوائی کے لیے پولس اہلکار اور شرکائے جلسہ کے ساتھ وہ خود بھی ذمہ دار ہے۔ مسلم خواتین کی عزت و توقیر کے لیے مگر مچھ کے آنسو بہانے والے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ تو دور ایک بھی ہندو رہنما اس واقعہ کی مذمت کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اس رویہ سے ان کی منافقت طشت ازبام ہوگئی۔ سائرہ کی حمایت میں بی جے پی کی اقلیتی شعبہ کے صدر رومانا صدیقی نے کہا کہ پارٹی کی ایسی ذہنیت نہیں ہےلیکن سنگھ پریوار کے نزدیک رومانا جیسی خواتین کی اہمیت ٹیشو پیپر سے زیادہ نہیں جس سے ہاتھ پونچھ پھینک دیا جاتا ہے۔ رومانا نے برقع اتروانے کے لئے پولس کو ذمہ دار ٹھہرایااور ایس پی انیل کمار نے معاملہ کی جانچ کرانے کا تیقن دلایا ۔ جس صوبے میں محمد اخلاق کے قاتل کی ارتھی کوقومی پرچم میں لپیٹاجاتا ہو اور زندہ قاتلوں کو انعام و اکرم سے نوازہ جاتا ہو وہاں پولس کی چھان بین کیا معنیٰ؟
سائرہ کی تفتیش کے بعد یہ انکشاف بھی ہوسکتا ہے کہ کسی غیر مسلم خاتون کو بی جے پی والے برقع اڑھا کر لے آئے تھے ۔ ماضی میں یہ لوگ ایسی اوچھی حرکت بھی کرچکے ہیں لیکن آج کل کئی علماء اور دانشور بھی کف ِافسوس ملتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے بی جے پی کو اچھوت سمجھ کر بہت بڑی غلطی کی۔ ان لوگوں سےیہ سوال ہے کہ سائرہ نے تو بی جے پی کو اچھوت نہیں سمجھا تھا پھر اس کے ساتھ یہ سلوک کیوں ہوا؟ سوال یہ ہے کون کسے اچھوت سمجھتا ہے؟ مسلمان کسی کو اچھوت نہیں سمجھتے مسئلہ تو صرف یہ ہے کہ جو انہیں اچھوت سمجھے وہ اس کے آگے ناک نہیں رگڑتے ۔ تو کیا ایسا کرنا غلط ہے ؟ کیا انہیں بھی سائرہ کی طرح کھلے عام اپنی تذلیل کروانی چاہیے؟
ان روشن خیال دانشوروں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ بی جے پی سے دوستی کا جواز کیا ہے تو فوراًفرعون کے دربار میںحضرت موسیٰ ؑ کے حاضر ہونے کی مثال پیش ہو جاتی ہے۔ یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ فرعون کے دربار میں مراعات حاصل کرنے کے لیے حاضر نہیں ہوئے تھے۔ان کی پرورش ہی دربار میں ہوئی تھی اس لیے کسی سہولت کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ موسیٰؑ نے فرعون کو دعوت دی تھی کہ وہ اپنی خدائی کے دعویٰ سے دستبردار ہوکر اللہ کی بندگی اختیارکرلے یا کم ازکم بنی اسرائیل کو آزاد کردے۔ مذکورہ دانشوروں میں یہ جرأت کلیمی ناپید ہے۔ان کے اندر دنیوی عیش و عشرت سے محرومی کا قلق دکھائی دیتا ہے۔ جہاں تک دنیوی مفادات کا سوال ہے موجودہ حکمراں توان لوگوں کی بھکمری تک دور نہیں کرسکے جو برسوں سے انہیں ووٹ دے رہے ہیں۔ خود اپنے گرو اڈاونی کے ساتھ جو سلوک کیا گیاہے اس سے بھی کوئی سبق نہیں لیتا اور ایک تارِ عنکبوت سے توقعات وابستہ کرکے امت کو احساسِ جرم کا شکار کیا جاتا ہے۔عصر حاضر کے سیاستداں تو مجید امجد کےاس شعر کی مصداق ہیں؎
کیا روپ دوستی کا کیا رنگ دشمنی کا کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا
ارشادِ ربانی ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے‘‘۔ گوکہ اس آیت میں اہل کتاب کا ذکر ہے لیکن غیر اہل کتاب اور دشمنان اسلام تو ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ آگے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا بھی تعارف کرواتا ہے جوان سے پینگیں بڑھاتے ہیں فرمایا ’’ تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُنہی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں کہتے ہیں “ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں” مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمہیں فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اِس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے ‘‘، گویا نفاق کی بیماری اہل ایمان کو اسلام کے دشمنوں کی جانب متوجہ کرتی ہے۔
کتاب الٰہی دشمن سے متعارف کرانے کے بعد یہ بتاتی ہے کہ رفاقت کا مستحق کون ہے؟ فرمان الٰہی ہے ’’ تمہارے رفیق تو حقیقت میں صرف اللہ اور اللہ کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں ‘‘۔ دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے اگر اس معیار کا پاس و لحاظ رکھا ججائے توسائرہ جیسی ہزیمت سے بچا جاسکتا ہے ۔ امت کے اندر ہر میدان میں کام کرنے والی مختلف تنظیمیں اور تحریکیں پکار پکار کر اہل ایمان کو بلارہی ہیں ۔ ان کے ساتھ مل کر انسان عزت و وقار کے ساتھ اپنے ذوق کے مطابق دین و ملت کی خدمت کرسکتا ہے لیکن اگر ہم ان بہی خواہوں سے منہ موڑ کر دشمنوں کو گلے لگائیں تو وہ موقع ملتے ہی گلا کاٹنے سے باز نہیں آ ئیں گے ۔ بقول شاعر؎
ہے میزبانی کا یہ تقاضا کہ آئے مہمان تو مسکرا دو مگر طبیعت یہ چاہتی ہے گلے ملو اور گلا دبا دو