حمزہ جاوید خان
ہاسٹل کے دنوں کی بات ہے، میں ایک معروف مسلم ایکٹوسٹ کے ساتھ کسی موضوع پر گفتگو کر رہاتھا۔ دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ ”روزانہ رات میں تہجد پڑھنا اور پیر،جمعرات کے روزے رکھنا قدامت پرستی کی علامت ہے۔تہجد کے وقت اٹھ کر اگر اسٹوڈنٹس تہجد کے بجائے ہٹلر یا مسولینی کے بارے میں ایک مضمون پڑھ لیں تو یہ شاید ان کے لیے زیادہ سودمند ہو…“ آگے بھی وہ نہ جانے کیا کیا بولتے رہے لیکن میں ان کی یہ بات سن کر بھونچکاں رہ گیا تھا، میں آگے کچھ بھی نہ سن سکا۔ پہلے تو میں نے ان کی اس بات کو حسن ظن پر محمول کیا کہ شاید ان کی زبان پھسل گئی ہو گی، وہ ایسا کچھ کہنا نہیں چاہتے ہونگے۔ لیکن یہ میری خوش فہمی تھی جو جلد ہی دور ہو گئی۔ اگلے دنوں میں میری ملاقات ایسی سوچ رکھنے والوں اور بھی لوگوں سے ہوئی جو کہ مسلم انٹیلیکچول تھے اور مسلمانوں کے لیے جد وجہد کر رہے تھے۔ان کے اس بھونڈے خیال کی بنیاد یہ ہے کہ کوئی اسٹوڈنٹ یا تو پڑھ لکھ کر ایک عالم اور سماجی خدمت گارہی بن سکتا ہے یا پھر صرف ایک گوشہ نشین عابد ہی بن سکتا ہے،جو صرف روزے رکھتا اور لمبی لمبی نمازیں پڑھتا ہے، ایسا شخص سماج اور معاشرہ کے لیے کسی کام کا نہیں ہے۔
میں نے اس مسئلے کو مزید سمجھنے کے لیے قرآن و سنت، خصوصا نبیﷺ کی زندگی کی طرف نظر دوڑائی کہ دیکھوں آیا نفل عبادتوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے یا انہیں راہ کا روڑا سمجھ کر ہٹا دینا چاہیے۔ قرآن کریم، سورہ توبہ کی آیت نمبر ۲۱۱ میں اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے ”(کامیاب وہ ہیں جو) توبہ کرنے والے ہیں، عبادت گزار ہیں، رب ذوالجلال کی تعریف و توصیف بیان کرنے والے ہیں، راہ خدا میں دوڑ دھوپ کرنے والے ہیں، رب کریم کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھکنے والے، اس کے حضور سجدہ کرنے والے ہیں، معروف کا حکم دینے اور برائی سے روکنے والے ہیں…“ آیت کی شروعات میں جو چھ صفات بیان کی گئی ہیں ان تمام کو ہمارے دور کے ’سو کالڈ انٹلیکچول‘ طبقے نے گوشہ نشین عابدوں کے ساتھ خاص کر دیا ہے۔سورہ ذاریات کی آیت نمبر ۷۱،۸۱ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ”وہ راتوں کا کم ہی حصہ سو کر گزارتے ہیں، دن نکلنے سے پہلے بھی وہ استغفار میں ہی مصروف ہوتے ہیں“گویا اللہ تعالی خود راتوں میں نمازیں پڑھنے اور اس سے لو لگائے رکھنے والوں کو جنتی ہونے کا خطاب دیکر ان کی حوصلہ افزائی کر رہاہے۔
قرآن مجید ہم کو بتاتاہے کہ نبی ﷺ آدھی آدھی رات نمازوں اور عبادتوں میں گزار دیتے تھے۔ اس کے باوجود وہ تاریخ انسانی کے سب سے بڑے مجدد تھے اور پورے دن سماج اور معاشرہ کی خدمت میں ہی مصروف رہتے تھے۔مجھ پر حقیقت آشکارا ہو چکی تھی۔ قرآن ہم سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ دن بھر چاہے انسانوں کی خدمت میں لگے ہوں لیکن رات کا ایک حصہ ضرور اللہ تبارک و تعالی کے لیے خاص کر دیں۔ صرف خدمت خلق میں ہی لگے رہنے اور کھلے عام نوافل و عبادات کی توہین کرنے سے زندگی کا وہ بیلنس جاتا رہے گا جس کو نبیﷺ اور صحابہ کرام نے ہمیشہ بنائے رکھا۔روزہ کے تعلق اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے ”روزہ رکھنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے“ سورہ احزاب، آیت نمبر ۵۳۔خود نبی کریم ﷺ نے اپنی پوری زندگی شاید ہی کبھی پیر اور جمعرات کا روزہ چھوڑا ہو اور ان کے اس روزہ رکھنے سے نہ تو ان کے کاردعوت پر ہی کوئی آنچ آئی نہ جہاد پر۔یہ جان کر بھی اگر کوئی انٹلیکچول نفل روزہ رکھنے سے روکے اور یہ دلیل دے کہ اس سے پڑھائی یا روٹین متاثر ہوتی ہے تو کیا وہ نبیﷺ کے اسوہ کے مطابق زندگی گزارنے سے روکنے کا مجرم نہیں ہے۔
ایک مرتبہ میں نے کسی سے کہا کہ ”میرا امتحان ہے، دعا کیجئے گا“ اس نے منھ بنا کر جواب دیا ”اگر تم نے محنت کی ہوگی تو تم میری دعا کے بغیر بھی کامیاب ہو جاؤگے اور اگر تم نے محنت نہیں کی ہوگی تو میری دعا ہرگز تمہیں پاس نہیں کرا سکے گی۔“ جواب دینے والا کوئی ملحد نہیں بلکہ’سو کالڈ مسلم انٹلیکچول‘ ہی تھا۔اس کا جواب سن کر مجھے جنگ بدر کا وہ منظر یاد آگیا، جب نبی ﷺ تمام تیاریاں کر چکنے کے باوجود رات بھر خیمہ میں رب کریم کے سامنے روتے گڑگڑاتے اور دعائیں کرتے رہے تھے۔حضرت ابو بکر ؓ خیمہ میں تشریف لائے تو دیکھا کہ آپ ﷺدونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے گریہ و عاجزی میں مصروف ہیں۔ نبی ﷺ نے یہ نہیں کہا کہ اگر مجاہدین تیاری کے ساتھ آئیں ہیں تو میری دعا کے بغیر بھی فتح یاب لوٹیں گے اور اگر بغیر تیاری کیے آئے ہیں تو میری دعا بھی ان کا کچھ نہیں کر سکے گی۔ والعیاذ باللہ۔نبی ﷺ نے پہلے بھرپور تیاری کی اس کے بعد دعا میں مصروف ہو گئے جبکہ لوگ یا تو صرف تیاری کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ کاموں کو انجام تک پہنچانے والا اللہ تعالی ہی ہے یا وہ صرف دعا ہی کے سہارے بیٹھے رہتے ہیں۔
تہجد، نفل روزے اور دعا یہ وہ عبادتیں ہیں جن سے ہمارے ’سماجی خدمت گار‘ اپنا دامن چھڑانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ نفل عبادتیں پریکٹکل زندگی میں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں بلکہ وہ وقت کے رائیگاں جانے کا باعث بنتی ہیں۔نبیﷺ اور صحابہ کرام کی پوری زندگی اس خام خیالی کی شدید تردید کرتی ہے کہ ایک انسان ایک وقت میں یا تو عالم ہو سکتا ہے یا عبادت گزار۔حقیقت تو یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک انسان زبردست عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ تہجد گزار بھی ہو سکتا ہے۔ احسان کا راستہ یہی ہے کہ انسان بیک وقت بندوں کے حقوق بھی ادا کرتا رہے اور خدا کے حقوق سے بھی غافل نہ ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم پوری زندگی خدا کے حقوق سے غافل رہ کر گزار دیں اور جب قیامت کے روز اسی خدا کے سامنے پیشی ہو تو دونوں ہاتھ خالی نظر آئیں۔اللہ تعالی ہم سب کو حقوق العباد اور حقوق اللہ کو کما حقہ نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین