ملک میں دہشت گردی اور اس سے متعلق واقعات میں بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ایک بہت ہی خطرناک صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے، اس کی حقیقت کیا، اس کے پیچھے کن افراد کا ہاتھ ہے، اور اس سلسلے میں ہماری اور ھمارے سماج کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے، یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینئر وکیل محمود پراچہ سے لیے گئے اِس انٹرویو میں ملیں گے، رفیق منزل کے لیے یہ انٹرویو برادر طیب احمد، مدیر معاون چھاتر ومرش نے لیا ہے، موصوف کے شکریہ کے ساتھ انٹرویو کے اہم گوشے افادہ عام کے لیے نذر قارئین ہیں۔ (ادارہ)
2 سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینئر وکیل
2سپریم کورٹ میں یونین آف انڈیا کے وکیل
2ہریانہ کے سابق ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل
2کرمنل، کارپوریٹ اور سول لاء سے خصوصی دلچسپی
2 اسپیس لاء میں ملک کے منتخب وکیلوں میں شمار
2مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر
2راشٹریہ مہیلا آیوگ، AIIMSنئی دہلی، اور آل انڈیا صفائی کرمچاری یونین کے سپریم کونسل
2فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈ اتھارٹی آف انڈیا کے کونسل
2 موصوف اس وقت ملک کی مختلف عدالتوں میں بے قصور مسلم نوجوانوں کے تقریبا ۹۰؍معاملات رضاکارانہ طور پر دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔
n دہشت گردی کے معاملوں میں بے گناہ لوگوں کے حق کی لڑائی آپ نے کب سے شروع کی؟
2 دہشت گردی کے معاملوں میں گرفتار ہونے والے بے قصوروں کے حق کی لڑائی میں نے مئی ۲۰۱۲ ء سے شروع کی، جبکہ سید احمد کاظمی کو فرضی طور پر گرفتار کرلیا گیا تھا۔ کاظمی صاحب کے اہل خانہ نے مجھ سے گزارش کی کہ میں اس کیس کو دیکھوں، میں نے ان کی گزارش کو فوری طور پر قبول تو کرلیا، لیکن ساتھ ہی کاظمی صاحب اور ان کی فیملی سے ایک بات بالکل صاف طور سے کہہ دی کہ میں آپ کا یہ کیس سچائی کو منظرعام پر لانے کے لیے لڑوں گا، نہ کہ آپ کو بری کرانے کے لیے۔ انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا، اور کہا کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ آپ سچائی کے لیے ہی لڑیں، جب سچائی سامنے آئے گی، تو میں خود ہی بے گناہ ثابت ہوجاؤں گا۔
n ان معاملات میں آپ کو کس قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، اس میں آپ کا تجربہ کیسا رہا؟
2 یہ بہت بڑی بین الاقوامی سازش ہے جس میں بے گناہ مسلم نوجوانوں، پچھڑے طبقے کے نوجوانوں اورہندوستان کے شمال مشرقی علاقے کے قبائلی نوجوانوں کو جھوٹے معاملات میں پھنسایا جارہا ہے۔ اس سازش میں بہت ہی بااثر اور اعلی قسم کے افراد شامل ہیں۔ جب میں نے انسانیت کے ناطے ان معاملات میں بے قصور افراد کی پیروی کرنا شروع کی، تو مجھے بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے پہلے تو مجھے عدالت کی جانب سے ہی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، جس میں وکلاء برادری کے لوگوں نے ہی مجھ پر پھبتیاں کسنی شروع کردیں۔ دوستوں کی جانب سے بھی مایوس کن مشورے آنا شروع ہوگئے، کہ تم کیوں ان لوگوں کے کیس لڑ رہے ہو؟! لیکن میں نے ان تمام مخالفتوں، اور پھبتیوں کے برخلاف انسانیت کی خاطر ملک کے مفاد میں ان بے قصور افراد کے کیسوں کی پیروی کو اپنا بنیادی فریضہ سمجھا، اور یقیناًیہ ہمارے ملک اور انسانیت کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ سچائی کی اس لڑائی کو لڑا جائے، اور بے گناہوں کی زندگیوں کو تباہ ہونے سے روکا جائے۔
n وکلاء برادری مجموعی طور پر اس طرح کے معاملات کو کس نظر سے دیکھتی ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ ان بے گناہوں کے کیس لینے سے اس نے ہمیشہ انکار سے کام لیا ہے۔
2 جیسا کہ میں پہلے ہی آپ کو بتا چکا ہوں کہ یہ ایک بڑی بین الاقوامی سازش ہے جس کے چلتے پورے ملک میں خوف اور دہشت کا ماحول بنایا گیا ہے، حکومتی اداروں میں آپ جاکر دیکھیں تو بھی یہی بات ملے گی۔ پولیس محکمہ کا آپ تجزیہ کریں تو بھی یہی خوف دیکھنے کو ملے گا، یہاں تک کہ عوامی نمائندوں کے درباروں تک یہی چیز دیکھنے کو ملتی ہے، دہشت گردی کا جو الزام مسلمانوں پر لگایا جاتا ہے، وہ تو بالکل ہی بے بنیاد ہے، حقیقی دہشت گردی تو اسی بین الاقوامی سازش کا ہی نتیجہ ہے، اسی خوف ودہشت نے ایسا ماحول تیار کیا کہ لوگ ان مسلمانوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے، ان کی سمجھ یہ ہوتی ہے کہ جولوگ ان معاملات میں پکڑے جاتے ہیں، وہ ملک کے دشمن ہیں، انسانیت کے دشمن ہیں۔ اسی خوف کے ماحول نے وکلاء برادری کو بھی خوفزدہ کررکھا ہے، جس کی وجہ سے وکلاء اس طرح کے معاملوں کو لینے سے انکار کردیتے ہیں۔ ان پر دباؤ ہی اِتنا رہتا ہے کہ وہ اِن معاملوں کی گہرائی کے ساتھ جانچ یا سنوائی ہونے نہیں دیتے، کیونکہ اگر گہرائی کے ساتھ غیرجانبدارانہ طور سے جانچ ہوئی تو ان کی سازش بے نقاب ہوجائے گی، اور یہ ناکام ہوجائیں گے، لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ملک میں ایسے وکیل اور جج بھی ہیں جو ان معاملوں کو دیکھ رہے ہیں، اور ان کی پیروی کررہے ہیں، اور غیرجانبدارانہ فیصلے بھی سنارہے ہیں۔
n آپ جس بین الاقوامی سازش کی جانب اشارہ کررہے ہیں، اس پر ہندوستانی حکومت کا رویہ کس طرح کا رہا ہے؟
2 میں جس بین الاقوامی سازش کی بات کررہا ہوں، اس میں شامل لوگ حکومت ہند میں بھی بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں۔ ایسے لوگوں کو میں بیمار عناصر سے موسوم کرتا ہوں، جو کہ نہ صرف ہندوستان میں برسراقتدار ہیں بلکہ ہندوستان کے باہر بھی ان کی دھاک قائم ہے۔ اس سازش میں بڑے سرمایہ داروں کا بھی اہم رول ہے، جو نہ صرف اپنے ملک کے مفادات اور پالیسیز کے خلاف کام کررہے ہیں، بلکہ اپنے ملک اور سماج کے خلاف بیرونی طاقتوں کی حمایت بھی کررہے ہیں۔ یہ سبھی عالمی بازاروں میں اپنی مضبوط موجودگی درج کرانے اور اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے اس سازش کا حصہ بن رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں مرکزی وزیر ویرپا موئلی کے اس بیان کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایران پر عالمی برادری کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے ہمارے ملک کو ستاون ہزار کروڑ روپے کا بھاری نقصان ہوا ہے، اور ملک کو مہنگا پٹرول خریدنا پڑرہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایران پر مزید دباؤ بنانے کے لیے ہی کاظمی صاحب کو بے گناہ گرفتار کیا گیا، جو کہ اسی بین الاقوامی سازش کا حصہ تھا، اور ملک کو ستاون ہزار کروڑ کا نقصان بھلے ہی ہوا ہو، لیکن دلال سیاست دانوں کو کہیں نہ کہیں ستاون ہزار کروڑ روپے کا فائدہ بھی ہوا ہوگا۔ اس طرح کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ہر حکومت کو مستعد اور ہوشیار رہنا چاہئے، یقینایہ اس کی ذمہ داری بھی ہے۔ مرکزی وصوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ ایماندار افسروں کو بھی اس معاملے میں آگے آنا چاہئے تاکہ اس سازش کو بے نقاب کیا جاسکے۔
n نچلی سطح پر مشکوک ہوجانے کے بعد ایک بے قصور انسان کی ہمت آگے بڑھنے میں جواب دے جاتی ہے، ایسے میں اسے یا اس کے خاندان یا سماج کے بیدار لوگوں کو اس تعلق سے کیا کرنا چاہئے؟
2 جب کہیں کسی بے گناہ شخص کی گرفتاری سامنے آتی ہے، تو شام ہوتے ہوتے اس کا تعلق کسی بین الاقوامی تنظیم سے جوڑ کرساری تفتیش عمل میں آجاتی ہے، مجھے ا س پر بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ آخر وہ ایسا کون سا آلہ ہے، جس سے آپ گنہ گار کے گناہ کا فورا پتہ لگالیتے ہیں؟! یہ آلہ یا طریقہ اتنا ہی اچھا ہے تو بلاسٹ ہونے سے پہلے ہی کیوں نہ گرفتاری عمل میں آجاتی ہے، بہرحال سب سے پہلے میں یہ عرض کروں گا کہ اس طرح کے معاملوں میں پولیس کبھی بھی ضابطوں کی پابندی نہیں کرتی ہے، اور کسی بھی شخص کو شک کی بنیاد پر گرفتار کرلیتی ہے۔ پولیس جب تک نوٹس نہیں بھیجواتی ہے اس وقت تک کسی کو بھی پوچھ تاچھ کے لیے نہیں جانا چاہئے، اور بنا ایف آئی آر کے کسی کو بھی گرفتاری نہیں دینی چاہئے۔ اس کے لیے ایک اکیلا شخص یا خاندان کچھ نہیں کرسکتا، جب تک کہ اس کو آس پاس کے معزز، بیدار سماجی کارکن، میڈیا سے جڑے افراد، اور مذہبی رہنماؤں کا تعاون حاصل نہیں ہوگا۔ غیرقانونی طور سے ناجائز گرفتاری ہونے کے بعد اس کے خاندان والوں، اور سماج کے بیدار لوگوں کو چاہئے کہ ایک ایس ایم ایس یا ای میل اپنے صوبوں کے ہائی کورٹ، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، اور صدر جمہوریہ کو فوراََ ہی کردیں کہ فلاں وقت پر فلاں شخص کو بنا کسی اطلاع کے فلاں جگہ سے اٹھالیا گیا ہے، ان لوگوں کے ای میل ایڈریس سب کی ویب سائٹ پر موجود ہیں، اس سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پولیس جو کچھ کرتی ہے، وہ کرتی رہے، لیکن معاملہ عدالت میں پہنچنے کے بعد آپ کی جانب سے کی گئی یہ جوابی کارروائی بطور ثبوت آپ کا ساتھ دے گی۔ گرفتاری کے بعد عموما پولیس گھروالوں پر بھی دباؤ بناتی ہے تاکہ فلاں گرفتار شخص کے خلاف جھوٹے ثبوت پیدا کیے جاسکیں، ایسے میں خاندان والوں کو بھی دباؤ میں نہیں آنا چاہئے۔ سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن کے مطابق گرفتاری کے لیے فرد کو گرفتاری سے قبل اطلاع دینی چاہئے، گرفتاری کے وقت دو گواہ ہونے چاہئیں، گرفتاری کے تعلق سے فرد کے کسی قریبی رشتے دار کو بھی اطلاع دینی چاہئے، اس کے لیے باقاعدہ ایک فارم ہے، جس کو ان تمام کی موجودگی میں ہی بھرا جانا چاہئے۔
n ہندوستان میں فیصلے آنے میں دیری کے سبب شک کی بنیاد پر گرفتار ہونے والے بے قصور جب رہا کئے جاتے ہیں، تب تک ان کی پوری زندگی تباہ ہوچکی ہوتی ہے، ایسے میں اس پروسیس کو کس طرح آسان بنایا جاسکتا ہے؟
2 دیکھئے اس موضوع پر ہم سب کو بہت ہی سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے، میں سمجھتا ہوں کہ حکومت اس معاملے میں اب تک بہکاتی ہی رہی ہے، کئی بار وزیرداخلہ اعلان کرچکے ہیں کہ فاسٹ ٹریک عدالتوں کا قیام کیا جائے گا، جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا ہے۔ بلکہ آئے دن بے قصور افراد کو جھوٹا پھنسایا ہی جارہا ہے۔ نہ تو انہیں جلدی انصاف ملتا ہے، اور نہ ہی ان کو جلدی ٹرائل ملتا ہے، جس سے وہ ذہنی طور سے ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ انتہائی شرمناک بات ہے سرکار کے لیے، فاسٹ ٹریک کورٹ کے تعلق سے سرکار اور وزیر داخلہ نے ہمیشہ سفید جھوٹ ہی بولا ہے، آج تک کورٹ بنانے کے لیے کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
n دہشت گردی کے معاملوں میں بے گناہوں کے کئی کیس آپ نے دیکھے ہیں، کیا آپ اس بات پر روشنی ڈالیں گے کہ کس طرح کی سازش مسلمانوں کے خلاف رچی جارہی ہے؟
2 میں نے اس طرح کے جن مقدمات کی پیروی کی ہے، ان میں سب سے بڑی چیز جو میں نے دیکھی وہ ہے آئین کے ذریعہ بنائے گئے قوانین وضابطوں کی پابندی نہ ہونا۔ یہ بہت ہی شرمناک بات ہے کہ وہی قوانین جو آپ عام عوام کے لیے بناتے ہیں، اور جب کوئی مسلمان، پچھڑا، یا قبائلی طبقے کے کسی فرد کو بے گناہ یا گناہ گار پکڑتے ہیں، تو اس کے خلاف انہیں قائم شدہ ضابطوں کو بھلا دیتے ہیں۔ یہ بھید بھاؤمیں نے ہرجگہ دیکھا ہے۔
n بے گناہ لوگوں کی گرفتاری پر سماج کے بیدار لوگوں کو کیا کرنا چاہئے جس سے جو لوگ فرضی طور پر گرفتار کیے جاتے ہیں، ان کی کچھ مدد ہوسکے؟
2 ہرشخص کو قانون کی بنیادی جانکاری ہونا ضروری ہے، ڈی کے باسو معاملہ میں سپریم کورٹ نے بہت ہی گہرا مطالعہ کرکے گائیڈ لائن جاری کی، اس میں تفصیل سے سپریم کورٹ نے بتایا ہے کہ گرفتاری سے پہلے اور بعد میں پولیس کو کیا کارروائی کرنی چاہئے، وغیرہ۔ اس کیس میں سپریم کورٹ نے بہت ہی شفافیت کے ساتھ پولیس کو گائیڈلائن دی ہے ، جس کی ایک جمہوری ملک کو ضرورت ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان گائیڈ لائنس پر ہی عمل ہوجائے تو اس سے کافی بچاؤ ہوگا۔ جیسا میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ کسی فرد کو نوٹس دے کر ہی پوچھ تاچھ کے لیے بلایا جاسکتا ہے، یا گرفتاری کے وقت دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے، اور گرفتار ہونے والے کے کسی قریبی رشتے دار کو پیشگی اطلاع دینا لازمی ہوتا ہے، وغیرہ،ا س لیے ضروری ہے کہ عام شہریوں کو بنیادی قوانین کی جانکاری ہونا چاہئے۔
n عام عوام میں ہندوستان کے نظام عدلیہ کے تحت کتنا یقین بحال ہوا ہے؟
2 یہاں دونوں طرح کے کیس لڑے جاتے ہیں، اچھے بھی، اور برے بھی۔ ایسے بہت سے معاملے ہیں جن میں عدلیہ نے مثال قائم کی ہے۔ ہندوستانی جمہوریت کا عدالتی نظام ہی ایک ایسی کڑی ہے، جس پر عام عوام کا اعتماد ابھی بھی قائم ہے۔ کچھ چیزیں ہیں جو باعث تشویش کہی جاسکتی ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کو نارمل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
n آخر میں طلبہ ونوجوانوں کے لیے ایک ماہر وکیل کی حیثیت سے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
2 ہندوستان کے ہر ایک شہری اور بالخصوص طلبہ ونوجوانوں سے میں اپیل کروں گا کہ وہ ہندوستان کے آئین کے تئیں اپنا اعتماد قائم رکھیں، اور آئین کا گہرا مطالعہ کریں، اور آئین کے تحفظ اور اس کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں، کیونکہ آئین کے مضبوط ہونے میں ہی ہم سب کی اور ملک کی بھلائی ہے۔ ایک بات اور جو بہت ہی اہمیت کی حامل ہے، وہ یہ کہ طلبہ ونوجوانوں کو انسانیت اور ملک کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا، اور نہ صرف سمجھنا ہوگا بلکہ ان کو انجام بھی دینا ہوگا۔