ایمان کے لوازم : صدق، اخلاص، محبت، خشیت

ایڈمن

صدق
’’صدق کی اصل حقیقت کسی شئے کا بالکل مطابق واقعہ ہونا ہے۔ اس کی روح پختگی اور ٹھوس پن ہے۔ نیزے کی گرہیں دیکھنے میں جیسی مضبوط ظاہر ہورہی ہیں آزمائش میں بھی ویسی ہی مضبوط ثابت ہوں تو ایسے نیزے کو عربی میں ’’صادق الکعوب‘‘ کہیں گے۔ زبان دل سے ہم آہنگ ہو، عمل اور قول میں مطابقت ہو، ظاہر اور باطن ہم رنگ ہوں، عقیدہ اور فعل دونوں یکساں ہوں۔۔۔ یہ باتیں صدق کے مظاہر میں سے ہیں اور انسانی زندگی کا سارا ظاہر وباطن ان ہی سے روشن ہے۔ یہ نہ ہوتو ساری معنویت ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہی چیز ہے جو انسان کو وہ پرپرواز عطا کرتی ہے جس سے وہ روحانی بلندیوں پر چڑھتا ہے‘‘۔ (مولانا امین احسن اصلاحیؒ ۔ تدبر قرآن، جلد اول، تفسیر سورۃ آل عمران:۱۷)
سورہ مائدہ آیت: ۱۱۹؍ میں فرمایا ہے: ’’قال اللہ ھذا یوم ینفع الصادقین صدقھم‘‘۔’’یہاں صادقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالی سے اپنے قول وقرار اور عہدومیثاق میں پورے راست باز ثابت ہوئے۔ اس میں انہوں نے کوئی تبدیلی اور تحریف نہیں کی ہے۔ زندگی کے تمام نشیب وفراز میں عزم وجزم کے ساتھ اللہ کی شریعت پر قائم رہے، من المومنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ‘‘۔ (مولانا امین احسن اصلاحیؒ ۔ تدبر قرآن، جلد دوم، تفسیر سورہ مائدہ)
محبت اور اخلاص
’’ایمان اور تعلیم قرآن کی انتہا محبت الہی ہے۔ تمام نبیوں کی تعلیم کا مرکز اور مغزیہی تھا اور روحانی زندگی اسی کا نام ہے۔ قرآن تو اس تعلیم سے لبریز ہے مگر توریت اور انجیل میں بھی یہ حکم صاف صاف سنادیا گیا ہے۔ عیسی علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ توریت کے احکام میں سب سے اعلی حکم کیا ہے تو فرمایا خد اکی محبت تمام دل، تمام روح اور تما م عقل سے کرنا۔ یہی سب سے اول اور اعظم حکم ہے۔ (متی:۲۲)
جس طرح محبت الہی دین کی غایت ہے اسی طرح محبت کی جان اخلاص ہے۔ منہ سے محبت کا دم بھرنا اور چیز ہے اور اخلاص محبت اور ؂
خلقے زباں بدعوئ عشقش کشادہ اند
اے من غلام آں کہ دلش بازباں یکے است‘‘
(مولانا حمیدالدین فراہیؒ ۔ تفسیر سورۃ الاخلاص، صفحہ۵۲۴؍)
خشیت
خشیت الہی آخرت پر یقین اور اپنے اعمال کی جوابدہی کے احساس سے پیدا ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے اسے اصل علم قرار دیا ہے،’’انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء‘‘(فاطر:۲۸) اور یہی ایمان کی روح ہے جیساکہ فرمایا ہے: ’’الذین یخشون ربہم بالغیب‘‘ (فاطر:۱۸، ملک:۱۲)اسی بنا پر اہل ایمان دنیوی مال ومتاع پر آخرت کو ترجیح دیتے ہیں۔ قارون کے واقعہ میں ا س حقیقت کو واضح کردیا ہے: ’’قال الذین یریدون الحیاۃ الدنیا یا لیت لنا مثل ما أوتی قارون انہ لذو حظ عظیم۔ قال الذین أوتوا العلم ویلکم ثواب اللہ خیر لمن آمن وعمل صالحا‘‘۔ (سورۃ القصص: ۷۹۔۸۰)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل علم آخرت کا علم ہے (فراہیؒ ) اور اسی سے اعمال صالحہ کا صدور ہوتا ہے اور ان میں پختگی آتی ہے۔
’’اگر عمل کی بنیاد علم نہیں ہے تو وہ نقش برآب ہے۔ نہ اسے کوئی معجزہ قائم رکھ سکتا ہے اور نہ کوئی وعدۂ حوروقصور۔ اور اگر اس کا وجود بظاہر نظر آتا ہے تو وہ محض سراب کی نمائش ہے۔۔۔ چنانچہ ہمیشہ ایمان کے ساتھ عمل کو بطور نتیجہ کے ذکر کیا گیا ہے تاکہ اگریہ اس کے پہلو بہ پہلو نہیں تو سمجھ لو کہ ایمان بھی برائے نام ہے‘‘ (مولانا حمیدالدین فراہیؒ ۔ تفسیر سورۃ الاخلاص: ۵۲۴؍۵۲۵؍)
’’پس وہ یقین جو خشیت، توکل اور اعتقاد کے تمام لوازم وشرائط کے ساتھ پایا جائے ایمان ہے، اور جو شخص اللہ تعالی پر، اس کی آیات پر، اس کے احکام پر ایمان لائے، اپنا سب کچھ اس کو سونپ دے، اس کے فیصلوں پر راضی ہوجائے مومن ہے۔
ایمان عقل کے لیے ہدایت اور روشنی اور دل کے لیے طہارت اور پاکیزگی ہے۔ اس لیے یہ عقل اور ارادہ دونوں کو ایک ساتھ متأثر کرتا ہے اور عقائد واعمال سب پر حاوی ہوجاتا ہے۔ پس قرآن کی اصطلاح میں مومن وہ شخص ہوا جو اللہ کا خالص ومخلص بندہ ہے اور جو اللہ کے احکام وآیات پر یقین واطاعت کی اس کیفیت کے ساتھ مضبوط ہے جس کی بنیاد رضا ومحبت پر ہے‘‘ (مولانا حمیدالدین فراہیؒ ۔ تفسیر سورۃ الاخلاص، ص: ۳۴۷)
ایسے ہی ایمان والوں کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے دنیا میں سربلندی اور آخرت میں کامرانی کا وعدہ ہے ’’وانتم الاعلون ان کنتم مومنین‘‘ (آل عمران: ۱۳۹)
لیکن اہل ایمان کو بہت سی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ ایمان کا ایک قطرہ بھی اگر دل کے اندر ہے تو سیکڑوں خطرات سے گھرا ہوا ہے۔
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرہ پہ گہر ہونے تک
اللہ تعالی کی آزمائش کا قانون سب کے لیے ہے اور انسانی زندگی کے ہر شعبہ اور گوشہ میں جاری اور نافذ ہے تاکہ اس کے بندے اس کی طرف رجوع ہوں اور اپنے کو مستغنی نہ سمجھیں۔ چنانچہ ہم ایمان کے جس درجہ میں بھی ہوں گے آزمائے جائیں گے تاآنکہ اس سے اوپر نہ اٹھادیئے جائیں یا نیچے نہ گرادیئے جائیں۔ اللہ تعالی اپنے اس قانون کے تحت افراد اور قوموں کو اوپر اٹھاتا اور نیچے گراتا رہتا ہے تاکہ سچے ایمان والوں کو جھوٹوں سے ممیز کردے۔ ’’أحسب الناس أن یترکوا أن یقولوا آمنا وھم لا یفتنون ولقد فتنا الذین من قبلھم فلیعلمن اللہ الذین صدقوا ولیعلمن الکاذبین‘‘۔ (سورہ عنکبوت:۲۔۳)
لیکن اس زمانے میں مسئلہ کفروایمان یا حق وباطل کا نہیں ہے بلکہ ملک اور قوم کے مفاد کا ہے۔ جو قوم یا جماعت برسراقتدار ہوتی ہے وہی سب کا مفاد متعین کرتی ہے اور ہر چیز پر اس کو ترجیح دیتی ہے۔ یہی طریقہ دنیا کے طاقتور ملکوں کا ہے۔ وہ اپنے مفاد کی خاطر پالیسیاں وضع کرتے ہیں اور اپنے زیردست لوگوں کو انہیں ماننے پر مجبور کرتے ہیں۔ اور جن باتوں کو اپنے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں انہیں مٹانے کے درپے ہوتے ہیں۔
مفادپرستی کی ذہنیت صرف حکومتوں ہی کی نہیں ہے بلکہ عام لوگوں کی بھی یہی نفسیات ہے۔ ہر شخص اپنے مفاد کو دیکھتا ہے اور اس کے حصول کے لیے غلط صحیح کی پروا نہیں کرتا۔
یہ برائی ہر جگہ پورے معاشرہ میں اوپر سے نیچے تک پھیلی ہوئی ہے اور سماج کا کوئی بھی طبقہ اس سے محفوظ نہیں ہے۔ کیا صاحبان ثروت، کیا ارباب سیاست اور کیا اہل مذہب، سب اس میں ملوث ہیں۔ دوسری برائیاں جو اس سے جڑی ہوئی ہیں وہ بھی تیزی کے ساتھ پھیلتی جارہی ہیں۔ مثلاََ دولت دنیا کی حرص وطلب ہر ایک کے اندر رچی بسی ہے۔ حاکمیت کی خوبو سب میں پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہر شخص اپنے دائرہ اور حلقہ میں سب سے اوپر رہنا چاہتا ہے اور میرمجلس اور میر کارواں بننے کی دھن میں لگا رہتا ہے۔ خو دکو نمایاں کرنے اور اپنے نام اور کام کی تشہیر کے معاملہ میں اہل دین اور اہل دنیا کا حال ایک جیسا ہے۔ شاندار مدرسے اور عالی شان مسجدیں اہل دنیا کی تعمیرات کو شرمندہ کررہی ہیں۔ کہاں کا دین اور کیسا ایمان!
خانہ شرع خراب است کہ ایں ارباب صلاح
در عمارت گرمئی گنبد دستار خود اند
جب دل میں آخرت کا خوف نہیں ہوتا تو دنیا غالب آجاتی ہے اور اپنے اعمال کے تئیں جواب ہی کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ اسی لیے چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی ہمیں اپنے محاسبہ کا حکم دیا گیا ہے۔

پروفیسر عبیداللہ فراہی، سابق صدر شعبہ عربی، لکھنؤ یونیورسٹی

اگست 2015

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں