اکیسویں صدی میں غزہ

علیزے نجف

سنا تھا اکیسویں صدی کی روایتیں سب سے محترم ہیں یہاں ہے حاصل امان سب کو یہاں پہ سب کے حقوق یکساں یہاں کے مجرم ہیں سب کے مجرم یہاں ہے اک عالمی عدالت یہاں ہے قانون کی حکومت کئی…

سنا تھا اکیسویں صدی کی
روایتیں سب سے محترم ہیں
یہاں ہے حاصل امان سب کو
یہاں پہ سب کے حقوق یکساں
یہاں کے مجرم ہیں سب کے مجرم
یہاں ہے اک عالمی عدالت
یہاں ہے قانون کی حکومت
کئی ادارے بھی اس صدی میں ہیں
پاسدارانِ حق و انصاف
کہ جو نگہبانِ امن بھی ہیں
اگر یہ سچ ہے
تو کس جگہ آ کھڑی ہوں میں پھر!!
غزہ ہے یہ کس جہاں کا حصہ؟
کہ یہ فلسطیں کہاں ہے واقع
جہاں پہ ہر سو ہے موت رقصاں
جہاں پہ انسانیت شکستہ
کہ جس پہ حیواں کو شرم آئے
جہاں پہ بھوک اور پیاس ہر سو
جہاں پہ ماؤں کے خشک لب پر
نمی اگر ہے تو آنسوؤں کی
جہاں پہ اک باپ اپنے بچے
کی بھوک اور پیاس کو مٹانے
برستے بارود کے ستم سے
ہزار ہا گولیوں سے بچ کر
کہیں سے لے آئے چند بسکٹ
مگر وہ لوٹے تو سارا منظر بدل چکا ہو
وہ ننھی معصوم روح
جنت کو چل پڑی ہو
یہ منظر اک موت کی طرح سے
شکستہ دل باپ کو بھی نڈھال کردے
یہ کیسی دنیا
کہ جس میں انسانیت کا کوئی
وجودباقی نہیں بچا ہے
یہ کیسی دنیا۔۔۔!
جہاں پہ ظالم
دہائی دے دے کے ظلم کی خود
ستم کی ہر حد سے بڑھ گیا ہے
تمام ہی ظلم کے مقدمے
جو ظلم جھیلیں انھیں کے سر ہیں
سوال یہ ہے کہاں ہیں آخر
جو بن رہے تھے جہاں کے آقا
وہ جن کے دستور میں
حقوق انسان کی جو شق ہے
ہر ایک شق سے وہ محترم ہے
وہ عالمی طاقتیں کہاں ہیں؟
کہ روبرو خونی بھیڑیوں کے
وہ کاغذی شیر بن گئی کیوں؟
یہ کیسے آقا۔۔۔۔کہاں کے آقا
غلام یہ تو مفاد کے ہیں
انھیں ہوس اقتدار کی ہے
ہے صرف جامہ سفید ان کا
مگر تعفن زدہ ہیں روحیں
ضمیر سے خون رِس رہا ہے
ہے نشّہِ اقتدار طاری
زباں پہ ہمدردی، دل میں کینہ
یہی ہے واحد شناخت ان کی
غزہ! تجھے میں بچاؤں کیسے
ترے یہ آنسو میں کیسے پونچھوں
کہوں میں کیسے!!!
کہ بس میں میرے نہیں ہے کچھ بھی
ہیں میرے دونوں ہی ہاتھ خالی
یہ خالی ہاتھ اب
اٹھا لئے ہیں دعا کی صورت
وہیں سے ہی اب نجات ہوگی
وہیں سے ہی اب ملے گی راحت
خدایا ہم پہ تُو رحم کر دے
زمیں کے سارے خدا ستم کی
ہر ایک حد پار کر چکے ہیں
تری مقدس زمیں کو ہم پہ
یہ ہر گھڑی تنگ کر رہے ہیں
کہ غزوۂ بدر کا سا نقشہ
کھنچا ہوا ہے جہاں بھی دیکھو
ہیں منتظر ہم تری مدد کے
مرے خدا ہم کو فتح دے دے
وہ فتح جس کا کیا ہے وعدہ
غلط ہے اکیسویں صدی کی
روایتیں ساری محترم ہیں
تھے ظلم پہلے، ہیں ظلم اب بھی
فقط خدا ہی ہے سچا منصف
رحیم ہے وہ کریم ہے وہ
اسی پہ کامل یقیں ہے اپنا

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں