اپنی باتیں

0

امت مسلمہ جدید دور میں عالمی سطح پر جن بڑے چیلنجز سے دوچار ہے ان میں سرفہرست فکری بحران ہے۔ عظمت رفتہ کی بازیافت کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے یہ فکری بحران یقیناًایک بڑا چیلنج ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ اس نے امت کی مجموعی صورتحال پر کافی گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔
امت مسلمہ زمان ومکان کے حدود وقیود سے آزاد ایک نظریاتی امت ہے،جس کی کچھ فکری اور نظریاتی بنیادیں ہیں اور انہی بنیادوں پراس کو تبدیل ہوتے حالات اور زمانے میں اپنا سفر آگے بڑھانا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو امت کے فکری اور عملی محاذ میں یک گونہ ربط اورتعلق پایا جاتا ہے۔ فکر سے آزاد عملی پیش رفت کا یہاں کوئی تصور نہیں۔
امت کے مزاج، اس کی ابتدائی تاریخ اور بنیادی لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کی ترکیب کچھ اس انداز سے ہوئی ہے کہ اس کے یہاں کسی بھی سطح پر اور کسی بھی مقام پر ٹھہراؤ اور جمود کا تصور ہی نہیں ہے۔ ہرآن ایک نئی دنیا کی تلاش اور موجود کو بہتر سے بہتر میں تبدیل کردینے کی جدوجہد اس کے مزاج میں داخل ہے۔ چنانچہ ابتدائی تاریخ کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ امت اور افراد امت اس مزاج سے اس قدر مانوس ہوگئے تھے کہ بہت ہی کم مدت میں انہوں نے دنیا بھر میں اپنے افکارونظریات کو نہ صرف متعارف کرانے میں کامیابی حاصل کی، بلکہ ان کی بنیاد پر ایک نیا عالمی نظام بھی تشکیل دیا۔
رفتہ رفتہ امت اور افراد امت کا اپنی فکری ونظریاتی بنیادوں سے رشتہ کمزور ہوتا چلا گیا، اور اسی کے ساتھ ساتھ ان کے مزاج اور سوچ میں بھی تبدیلی آتی چلی گئی اور وہ حرکت وانقلاب کے بجائے ٹھہراؤ اور جمود سے مانوس ہوتے چلے گئے۔
یہ فکری بحران امت پر باہر سے مسلط کردہ کوئی چیز نہیں ہے ، بلکہ یہ افراد امت کی اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہے، یقینااس فکری بحران یااس بحران کے نتیجے میں امت کی موجودہ صورتحال کے لیے کسی بھی درجہ میں اسلام اور اسلامی تعلیمات ذمہ دار نہیں ہیں۔
اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کے فکری بحران کو لے کر امت کا ذہین طبقہ ہمیشہ سے فکرمند رہا ہے، قریبی زمانے میں برصغیر کے اندر شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے لے کر علامہ شبلی نعمانیؒ ، علامہ حمیدالدین فراہیؒ ، علامہ اقبالؒ ، مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مولاناسید ابوالاعلی مودودیؒ وغیرہم کی جدوجہد اور ان کا تحریری سرمایہ اس کی روشن دلیل ہے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب بھی امت کو موجودہ فکری بحران سے نکالنے کے لیے کسی نے روایتی طرز فکر سے ہٹ کر چلنے کی کوشش کی ہے، خواہ یہ کوشش قرآن وسنت اور ان کی روح اور مقاصد سے کتنی ہی مطابقت رکھتی ہو، اس کو اپنے ہی لوگوں کی سخت ترین مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
امت مسلمہ کے فکری بحران پر گفتگو کے لیے لازمی ہے کہ غیرمعمولی حد تک علمی وفکری تیاری پر توجہ دی جائے۔ بیشتراوقات فکری بحران کے ازالے پر گفتگو کرنے والوں کی سطحی اور غیرعلمی گفتگو اس میدان میں واقعتا کام کرنے والوں کے لیے ایک بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔
امت کے فکری بحران پر گفتگو کے دوران عموماََایک قسم کی ردّعمل کی نفسیات غالب رہتی ہے۔ حقیقی اسباب، واقعی نتائج اور مطلوبہ لائحہ عمل پر ٹھوس اور مضبوط گفتگو کی جگہ شکایات اور الزامات کا ایک سلسلہ ہوتاہے، اور بات آگے بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا جانے لگتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام کوششیں ردّعمل اور جوابی ردّعمل کا شکار ہو کر رہ جاتی ہیں، اور پھر اس بحرانی کیفیت کے خاتمے کے بجائے اس میں مزید اضافے کا سبب بن جاتی ہیں۔
اس موضوع پر گفتگو کرتے وقت یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اسلام آج بھی جوں کا توں محفوظ ہے، اور اسلام کی تصویر آج بھی بالکل صاف ہے، اور نفسِ اسلام میں نہ تو کبھی کسی تبدیلی اور کمی بیشی کا امکان اور جواز تھا اور نہ ہی آج ہے۔ مسئلہ صرف اور صرف ان تشریحات اور تعبیرات کا ہے جو مختلف ادوار میں مختلف مسلم اسکالرس کی جانب سے سامنے آئی ہیں، جس میں صحت اور عدم صحت دونوں کا امکان ہے۔
اس سلسلے میں آزادئ رائے کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ یہ امت کے فکری بحران کے ازالے کے لیے کی جانے والی جدوجہد کی بنیادی اور اولین ضرورت ہے کہ سوچنے سمجھنے اور پھر اپنی سوچی سمجھی رائے کا اظہار کرنے کا عام ماحول بنایا جائے۔ ضرورت ہے کہ امت کے فکری بحران پر اس پہلو سے ٹھوس اور سنجیدہ کام کیا جائے کہ اس کے حقیقی اسباب کیا ہیں، اور کیا منفی اثرات ہیں جو اس فکری بحران کی وجہ سے امت کی مجموعی صورتحال پر مرتب ہوئے ہیں، اور پھر اس صورتحال سے نکلنے کے لیے قرآن وسنت کی روشنی میں موجودہ حالات میں کیا لائحہ عمل ہوسکتا ہے جس پر امت کو مطمئن اور یکجا کیا جاسکے۔
(ابوالاعلی سید سبحانی)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights