اپنی باتیں

0

ہندوستانی سماج اپنے تہذیبی، مذہبی اور لسانی تنوع کے اعتبار سے ایک بہت ہی منفرد قسم کا تکثیری سماج ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اس تنوع کے باوجود یہاں کی مختلف سماجی اکائیوں کے درمیان ماضی قریب تک انتہائی خوشگوار تعلقات رہے ہیں۔ تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اہل اسلام کی آمد اور اشاعت اسلام کا آغاز عہدخلافت راشدہ ہی میں ہوگیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد مختلف صالحین نے یہاں اشاعت اسلام کے سلسلے میں قابل قدر کوششیں کیں۔ اس میں ان افراد کی کوششوں کا بھی دخل ہے جنہیں باقاعدہ سرکاری طور پر اشاعت اسلام اور دعوت اسلام کے مقصد سے بھیجا گیا تھا، اور ان لوگوں کی کوششوں کا بھی دخل ہے جو عرب سے بغرض تجارت یہاں تشریف لائے تھے۔ وطن عزیز میں ا شاعت اسلام کے زمانے کی کوئی تحدید نہیں کی جاسکتی، یہاں اشاعت اسلام کا کام مختلف مراحل اور مختلف ادوار میں ہوتا رہا۔ مالابار سے بنگال تک ، اور دکن سے کشمیروپنجاب تک اشاعت اسلام کی مختلف تاریخ، مختلف مراحل اور مختلف اسباب نظر آتے ہیں۔ اس میں کہیں مسلم حکمرانوں کی جانب سے سرکاری سطح پر ہونے والی دعوتی کوششیں غالب نظر آتی ہیں اور کہیں بغرض تجارت تشریف لانے والے داعیان کرام اور صوفیائے عظام کی کوششیں نمایاں نظر آتی ہیں، جنہوں نے اپنی تمام تر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر دعوت دین کا کام کیا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہاں رہنے والے مسلمانوں کی بڑی اکثریت نومسلمین کی ہے، جو دعوت دین کے نتیجے میں مشرف بہ اسلام ہوئی۔ دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہاں کی ایک بڑی اکثریت ہمیشہ سے اس عظیم نعمت سے محروم رہی ہے، تاہم اس بڑی اکثریت کے تعلقات اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ ہمیشہ خوش گوار رہے ہیں۔
یہاں کئی سو سال تک مسلمانوں نے حکمرانی کی، تاہم اس پورے دور میں،خواہ وہ عہد سلطنت ہو یاعہد مغلیہ، کہیں ہندوؤں اور دیگر برادران وطن کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہو،یا انہیں ان کے حقوق اور آزادیوں سے محروم رکھا گیا ہو، یا ان کے مذہبی امور میں کسی طرح کی بے جا مداخلت کی گئی ہو،اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس پورے دور میں مسلم حکومت کو برادران وطن کا مکمل تعاون اور برادران وطن کو حکومت میں مطلوبہ حد تک اشتراک حاصل رہا ہے۔ پورے مسلم دور حکومت میں فوج اور سرکاری مناصب سے لے کر عدلیہ تک ہندوؤں اور دیگر برادران وطن کی مناسب نمائندگی رہی ہے۔ بدقسمتی سے بعد کے زمانے میں ملک کے حالات وہ نہیں رہے جو پہلے تھے۔ مسلم حکومت زوال سے دوچار ہوئی۔ انگریزی استعمار کا دو ر آیا۔ اور ملک غلامی کی بیڑیوں میں جکڑ کر رہ گیا۔ غلامی ملک کی مسلم وغیرمسلم تمام ہی عوام کا مشترکہ مسئلہ تھا، چنانچہ آزادی کی جدوجہد میں بھی مسلم وغیرمسلم سبھی نے مشترکہ طور پر حصہ لیا۔ آزادی کی طویل جدوجہد اور حکومت برطانیہ کے سیاسی حالات کی تبدیلی کے نتیجے میں انگریزی استعمار کو یہاں سے رخصت ہونا پڑا۔ تاہم انگریز جس وقت ملک سے رخصت ہورہے تھے، اس وقت تک وہ اپنی سازشی پالیسیوں اور ملکی سماج کی تقسیم درتقسیم میں بہت حد تک کامیاب ہوچکے تھے۔ ملک میں مختلف فسطائی تحریکوں کا قیام عمل میں آچکا تھا، فسادات کا ایک خطرناک سلسلہ شروع ہوچکا تھا، فرقہ وارانہ ہم آہنگی بری طرح متأثر ہوچکی تھی اور ہندومسلم دونوں ہی سماج کے درمیان غلط فہمیوں کے نتیجے میں ایک خطرناک خلیج پیدا ہوچکی تھی، اور پھر سب سے خطرناک اور ہندوستانی تاریخ کا عظیم سانحہ (مذہب کے نام پرتقسیمِ ملک، اور اس کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرانا) رونما ہوچکا تھا۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تبدیل ہوتے اس پورے منظرنامے میں ملت اسلامیہ ہند، بالخصوص اس کی قیادت کا کردار اس کے منصبِ امامت کے شایانِ شان نہیں رہا، اور وہ دوسروں کی سازشوں کا شکار ہوتی چلی گئی۔
صورت حال مزید خطرناک ہوتی جارہی ہے۔ ملک کے موجودہ سیاسی حالات اور زمینی حقائق کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ ہندومسلم تعلقات کی خوشگوار یادوں کے باقی ماندہ نقوش بھی مٹتے جارہے ہیں۔ فسطائی طاقتیں اپنے ناپاک عزائم کے لیے مستقل سرگرم عمل ہیں، اور ہندومسلم منافرت میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ وہیں بحیثیت مجموعی ملت کی قیادت اس سلسلے میں ذرا بھی بیداری کا ثبوت دینے کو تیار نہیں، بلکہ اپنی ملی سوچ اورردعمل کی نفسیات کے نتیجے میں فسطائی طاقتوں کی ہی معاون ثابت ہورہی ہے۔ ضرورت ہے کہ ہندومسلم تعلقات کے خوشگوار ماضی کی بازیافت کے لیے جدوجہد کی جائے۔ اس سلسلے میں ملت اسلامیہ کو ایک مثبت اور فعال کردار ادا کرنا ہوگا کہ یہ اس کی دینی ضرورت بھی ہے اور سیاسی ضرورت بھی۔ دینی ضرورت اس طور پر کہ یہ اس کے فرض منصبی کا حصہ ہے اور سیاسی ضرورت اس طور پر کہ ملت کا جانی ومالی تحفظ ان حالات کے نتیجے میں ایک بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے۔ ا س کے لیے ضروری ہوگا کہ ملت اسلامیہ ہند کے درمیان اجتماعی شعور کی بیداری عام کی جائے، اس کے داعیانہ کردار کی بازیافت کے لیے جدوجہد کی جائے، جذباتیت اور اشتعال انگیزی کی ہر طرح سے حوصلہ شکنی کی جائے، اور ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے کوششیں تیزتر کردی جائیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے توحالیہ دنوں بنارس ہندویونیورسٹی میں ایس آئی او آف انڈیا کی انٹرنیشنل کانفرنس ’’فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور تعمیر وطن‘‘ایک بہت ہی خوش آئند اقدام ہے، ملت کی دیگر تنظیموں اور اداروں کو بھی اس جانب متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ (ابوالاعلی سید سبحانی)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights