اپنی باتیں

ایڈمن

Net Neutrality وہ لفظ ہے جسے کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر Tim Wuنے ۲۰۰۳ ؁ء میں تجویز کیا۔ یہ لفظ انٹرنیٹ کی خدمات مہیا کرنے والوں internet service provider(ISP’s)کی جانب سے کئے جانے والے امتیازی سلوک جیسے انٹرنیٹ کی رفتار میں…

Net Neutrality وہ لفظ ہے جسے کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر Tim Wuنے ۲۰۰۳ ؁ء میں تجویز کیا۔ یہ لفظ انٹرنیٹ کی خدمات مہیا کرنے والوں internet service provider(ISP’s)کی جانب سے کئے جانے والے امتیازی سلوک جیسے انٹرنیٹ کی رفتار میں کمی اور ویب استعمال کرنے والوں پر معلومات کے حصول کے لیے مالی تحدیدات عائد کرنا وغیرہ کے خلاف جدوجہد ہے۔
یہ امرواقعہ ہے کہ Net Neutrality کی وجہ سے تعلیم کے میدان میں رائے کا اظہارآزادانہ اور وسیع پیمانے پر ہوا ہے، جس کی وجہ سے ترقی کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے، لیکن سرمایہ دار ذہنیت رکھنے والے ISP’s کی TRAI(ٹیلی کام ریگولیٹری اتھارٹی آف انڈیا)پر اثرانداز ہوتے ہوئے ویب سائٹس پر مالی تحدیدات لگانے کے اختیارات مانگ رہے ہیں۔ حقوق صارفین کے پیش نظر TRAI نے عوام سے چند سوالات کے جواب طلب کئے ہیں، جو ۲۴؍اپریل ۲۰۱۵ ؁ء تک روانہ کرنے ہوں گے۔
میگا انٹرنیٹ مالس کا یہ منصوبہ جو ISP’s اور کچھ ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے پیش کیا گیا ہے، یقیناًکچھ ویب سائٹس کو اہمیت دیتے ہوئے ان سے مالی فائدہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا جو عوام کے حق میں غیرمناسب ہے۔
حکومتی ادارے آئی ٹی کمپنیوں سے جو منصوبے لیتے ہیں وہ سب مغربی لابی کی دین ہیں اور ملک کی آئی ٹی کمپنیاں اسے اپنے مقام ومرتبے اور ترقی کی نشانی سمجھتی ہیں۔ اسی طرح کا ایک مشورہ جو حکومت پر دباؤ کے ذریعے سے پیش کیا گیا، وہ M. Gorernence ہے۔ جہاں پر عوام سے متعلق معلومات کو سرمایہ دار ISP’s کو فروخت کردیا جائے گا اور عوام ان کو پیسے دے کر حاصل کرنے کے لیے پابند ہوں گے، خصوصاََ ان میدانوں میں جو عوام سے کافی حدتک مربوط ہیں، مثلاََ حکومتی ادارے، قانون، صحت اور تعلیم سے متعلق معلومات وغیرہ وغیرہ زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔
انٹرنیٹ جہاں تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے وہیں بڑے پیمانے پر جمہوری فضا میں عوامی رابطے اور معلومات کے آسان حصول کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ کے اس عوامی میدان میں تجارتی کمپنیاں مالی فوائد حاصل کرسکتی ہیں لیکن عوام سے متعلق ذرائع کا استحصال کئے بغیر یہ بہتر ہوگا۔ بہت سی سرکردہ کمپنیاں جیسے گوگل سرچ انجن اور سوشل نیٹ ورک FB، اپنے ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اپنی مسابقتی کمپنیوں سے زیادہ ترقی پاگئی ہیں، لیکن اس مقام پر پہنچنے کے بعد یہی کمپنیاں دوسری ترقی پذیر کمپنیوں اور ابھرتے ہوئے نوجوان تاجروں کی راہ میں مالی تحدیدات عائد کرنا چاہ رہی ہیں۔موبائیل انٹرنیٹ کی دنیا میں تیزرفتار ترقی اور P.C.و ڈیسک ٹاپ سے دوری، بہت سی ویب سائٹس کے Access کو پہلے ہی کم کررہی ہے اور اگر ISP’s کی جانب سے مالی تحدیدات عائد کی جائیں تو یہ عوام کے حق میں قطعی غیرمنصفانہ ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی ترقی فطری طور پر عالمی اثرات کے ساتھ ساتھ سیاسی اور ثقافتی طور پر ہوئی ہے، جس پر مغربی ممالک کی اجارہ داری ہر وقت قائم رہی اور یہی پورے مواصلاتی نظام کی پالیسیاں اور ضوابط طے کرتی رہی جس کے نتیجے میں انٹرنیٹ کی دنیا میں بڑی کمپنیوں نے اپنے مالس قائم کرتے ہوئے مغربی اشیاء اور خدمات کی بالادستی قائم کردی۔
اس وقت ہندوستان میں ریگولیٹری فریم ورک پہلے سے موجود ہے، اس لیے بحث یہ نہیں کہ اسے جلد یا بدیر بنایا جائے، بلکہ اس کے نفاذ میں سختی اور جو کمپنیاں ان حدود سے تجاوز کریں ان پر جرمانہ عائد کرناہوگا۔ یہ عوام کے حق میں انتظامیہ کی طرف سے ایک مثبت پہل ہوگی جس کے نتیجے میں بڑی کمپنیوں کی اجارہ داری اور استحصال ختم ہوگا۔
دراصل انٹرنیٹ عوام کی ملکیت ہے جسے ٹیلی کام کمپنیاں مناسب لائسنس کے ساتھ حاصل کرتے ہوئے اپنی تجارت کا سامان کرتی ہیں، لیکن اگر ان ذرائع کو عوام کے استحصال کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ عوام کے خلاف جرم عظیم ہوگا۔ اگر ISP’s کو ٹریفک مینجمنٹ سے متعلق کوئی بحران یا ہنگامی مسئلہ درپیش ہوتو اسے حل کرنے کے لیے انہیں عوامی سنوائی اور مشورے کا راستہ اپنانا چاہئے، جس سے شفافیت قائم رہے گی۔ جو سوالیہ پرچہTRAI کی جانب سے جاری کیا گیا ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ بلاواسطہ ان کمپنیوں کی تائید ہے، کیونکہ جو درمیانی وقت انہیں قانونی بنانے کے لیے عنایت کیا گیا ہے وہ ان کے عزائم کو اور بھی مستحکم کرے گا۔
ملکی عوام کو بڑے پیمانے پر حکومتی اداروں پر زور ڈالنا ہوگا کہ وہ بڑھتی ہوئی جانبداری اور ترجیحاتی پالیسی کا پرزور بائیکاٹ کرے اور حدود سے تجاوز کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ سختی سے پیش آئے۔
(لئیق احمد خان ، مرکزی سکریٹری ایس آئی او آف انڈیا)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں