اپنی باتیں

ایڈمن

۵؍مارچ ۲۰۱۵ ؁ء کو ملک کی شمال مشرقی ریاست ناگالینڈ کے شہر دیما پور میں علی الاعلان ایک نوجوان ملزم کے ساتھ،جو ریپ کے الزام میں دیماپورسنٹرل جیل میں قید تھا اور جس پر اب تک ریپ کا الزام ثابت نہیں کیا جاسکا ہے، جس طرح درندگی کا مظاہرہ کیا گیا، وہ یقیناًانسانیت کو شرمادینے والا، ملک کے نظم وانتظام کو چیلنج کرنے والا، اور ملک کی سیکولر اور پرامن امیج کو شدید طور پر متأثر کرنے والا اپنی نوعیت کا ایک خطرناک واقعہ ہے۔
ناگالینڈ عیسائی اکثریتی ریاستوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں کی بڑی اکثریت قبائیلوں پر مشتمل ہے۔ دیما پور وہاں کا بڑی آبادی والاایک شہر ہے،جس کی آبادی ایک لاکھ سے متجاوز ہے، اور جو وہاں کی راجدھانی کوہما سے قریب ۷۴؍کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
ہوا یہ کہ ۵؍مارچ کو علی الصبح دیما پور سنٹرل جیل پر شرپسندوں کے ایک ہجوم نے دھاوا بول دیا، ان کا کہنا تھا کہ ناگا لڑکی کے ساتھ ریپ کے الزام میں قید بنگلہ دیشی نوجوان کو اُن کے حوالے کیا جائے وہ اُسے سرعام پھانسی پر لٹکانا چاہتے ہیں۔ تمام ’حفاظتی انتظامات‘ کے باوجودشرپسندوں کا یہ ہجوم زبردستی جیل کے اندر گھس گیا، صبح کے وقت تو ملزم کو حاصل کرنے میں کامیابی نہیں مل سکی، تاہم دوپہر بعدجب یہ ہجوم دوبارہ آیا تو اس کو حاصل کرنے میں نہ صرف اُسے کامیابی حاصل ہوئی، بلکہ اس کے بعد جس درندگی کا سرعام مظاہرہ کیا گیا،یقیناًاس سے درندے بھی شرماجائیں گے۔ ایک نوجوان کو برہنہ حالت میں شہر میں سرعام سنگسار کیا گیا، اس کے لاشے کو کئی کلومیٹر تک گھسیٹا گیا، اور پھر اسے دیماپور کے کلاک ٹاور پر لٹکادیا گیا۔ ساتھ ہی شہر میں بنگلہ زبان بولنے والوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف خطرناک اشتعال انگیزی کی گئی اور ان کی بیسیوں دوکانوں کو نذر آتش کردیا گیا، یہیں پر کہانی ختم نہیں ہوتی بلکہ شرپسندوں کے اس ہجوم نے میونسپل کارپوریشن میں جاکر مطالبہ کیا کہ دیماپور آکر بزنس کررہے تمام ہی بنگلہ زبان بولنے والے مسلمانوں کے ٹریڈ لائسنس فوری طور پرمنسوخ کردئیے جائیں۔
اس واقعے کے بعد دھیرے دھیرے رپورٹیں آنا شروع ہوئیں کہ خاتون کے ساتھ ریپ ہوا ہی نہیں۔ ملزم کا بنگلہ دیش سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ وہ آسام کا رہنے والا تھا۔ بنگلہ زبان بولتا تھا اور دیما پور میں اس کا گاڑیوں کے سپیئر پارٹس کا کاروبار تھا۔ اسی طرح یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس کے گھر کے متعدد افراد انڈین آرمی میں ہیں یا رہ چکے ہیں، اس کے والد ، اس کے دوبھائی وغیرہ وغیرہ۔ پھر یہ بھی خبر آئی کہ جس عورت نے اس پر الزام لگایا تھا اس عورت نے اس سے کچھ پیسوں کا مطالبہ کیا تھا، جس کے پورانہ کئے جانے پراس نے مذکورہ شخص پر ریپ کا الزام لگایا تھا۔ یہ خبر بھی آئی کہ ایسا چند ناگا بدمعاشوں کی جانب سے کیا گیا تاکہ دیگر ریاستوں سے آکر وہاں کاروبار کرنے والوں سے آسانی کے ساتھ بھتہ وصول کیا جاتا رہے۔ اس کے علاوہ یہ خبر بھی آئی کہ اس پورے واقعے کے پیچھے اصل مقصد نیشنل سوشلسٹ کاؤنسل آف ناگالینڈ کے دونوجوانوں کی بزورِ بازورہائی تھی جنہیں این آئی اے کے تحت گرفتار کرکے کڑی حفاظت میں رکھا گیا تھا۔
ناگالینڈ کے اس واقعے کے بعد سب سے بڑا سوال ملکی میڈیا پر اٹھتا ہے، ملکی میڈیا میں اس کو جس طرح سے نظر انداز کیا گیا، یا اس کو ’’عصمت دری کے خلاف عوامی غم وغصے کا اظہار‘‘ بتاکر جس طرح اس کے حق میں دلائل فراہم کرنے کی کوشش کی گئی، یہ اپنے آپ میں ایک بہت ہی تشویشناک مسئلہ ہے۔ملکی میڈیا کے اندر اگر ذرا بھی اقدار کی پاسداری اور اپنی ذمہ داری اور فرائض کا احساس ہوتا تو اس قسم کے مواقع کو اجتماعی شعور کی بیداری کے لیے استعمال کرنا کچھ بھی مشکل نہ تھا۔
اجتماعی شعور کی کمی کا ہی نتیجہ ہے کہ عوام کا مختلف شرپسند گروپس کے ذریعے آسانی کے ساتھ جذباتی استحصال کرلیاجاتا ہے، اور انہیں مختلف مذموم مقاصد کے لیے بآسانی آلہ کار بنالیا جاتا ہے۔ عوام کے درمیان یہ اجتماعی شعورعام کرنا ضروری ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لینا کسی بھی صورت صحیح نہیں ہے اور فیصلے کبھی بھی ’عوامی جذبات‘ اور ’آستھا‘ کی بنیاد پر نہیں ہوتے۔ فیصلے ہمیشہ قانون کی روشنی میں اور اصول وضوابط کی بنیاد پرہوتے ہیں۔ ملکی سیاست کا یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کہ اس نے ’آستھا‘ اور ’عوامی جذبات‘ کے نام سے اپنے متعدد سیاسی عزائم پورے کئے، جبکہ اس قسم کے نعروں سے عوام کے درمیان غلط قسم کے رجحانات کوفروغ ملا، اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج عوام کا قانون پر سے اعتماد اٹھتا نظر آرہا ہے۔
ناگالینڈ بلکہ شمال مشرقی ریاستوں کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ علاقائی اور لسانی تعصب کا بھی ہے۔ ان ریاستوں میں بنگالی زبان بولنے والوں کو غیر ملکی کہا جاتا ہے اور ان کے درمیان یہ تأثر عام کیا گیا ہے کہ ’’یہ لوگ بنگلہ دیش سے یہاں آکر غیرقانونی طور پر آباد ہوئے ہیں، اور انہی کی وجہ سے یہاں کے قبائل اس قدربدحالی اور پسماندگی کا شکار ہیں‘‘۔ مذکورہ ملزم کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے لیے بھی اسی قسم کے الزام کا سہارالیا گیااوراس سے قبل آسام وغیرہ میں بنگالی بولنے والوں کے خون خرابے کے لیے بھی اسی قسم کے الزامات کا سہارا لیا گیاتھا۔۔۔ یقیناًاس قسم کے خیالات کے پیچھے ایک خطرناک سیاست رہی ہے، لیکن بہرحال حقیقت یہ ہے کہ ملک کی ترقی اور یہاں امن وامان اور یکجہتی کے قیام کی کوئی کوشش اس قسم کے خیالات کے ساتھ ممکن نہیں۔
اس تناظر میں ایک بڑا مسئلہ ملک میں فرقہ وارانہ رجحانات کے فروغ کا بھی ہے۔ ملک میں فرقہ وارانہ رجحانات جس تیزی کے ساتھ فروغ پارہے ہیں، اور بعض سیاسی ومذہبی جماعتوں کی طرف سے جس طرح مستقل اور کھلے عام اشتعال انگیزی کی جارہی ہے، اور ہر موقع کو اس کے لیے جس انداز سے استعمال کیا جارہا ہے، یقیناًیہ ایک تشویشناک مسئلہ ہے۔ ضرورت ہے کہ اشتعال انگیزی کی سخت الفاظ میں مذمت کی جائے، خواہ وہ کسی کی بھی جانب سے ہو، اور عوام کے درمیان اس کے شدید تر نقصانات سے واقفیت عام کی جائے۔
(ابوالاعلی سید سبحانی)

اپریل 2015

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں