اپنی باتیں

0

مغربی یوپی کا شہر مظفر نگر اس وقت خاموش ہے لیکن یہ خاموشی خوف و ہراس اور اضطراب کی ملی جلی فضا میں قائم ہے۔ گڑ کی تجارت کا ایک بڑا مرکز یہ شہر اپنی مٹھاس کو اپنے رہنے والوں میں نہیں گھول پایا اور فرقہ پرستی کے زہر نے ایک رپورٹ کے مطابق زائد از ۴۰؍مکینوں کی جانیں لے لیں، وہیں کئی لوگ اپنی جان بچانے کے لئے بے گھر ہونے پر مجبور ہوگئے۔یہ فساد شروع ہوئے تقریباً دو ہفتے کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن ابھی بھی وہاں کی فضا میں اس فساد کے گہرے اثرات محسوس کئے جاسکتے ہیں۔
اس فساد کی ایک بڑی وجہ وہ ویڈیو بتایا جارہا ہے جسے فیس بک اور انٹرنیٹ کے ذریعے کافی شہرت ملی۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ ویڈیو سراسر فرضی تھا، اور دو سال پہلے پاکستان کے شہر سیالکوٹ کے کسی واقعے میں فلمایا گیا تھا۔ شرپسندوں نے اسے اس طرح پیش کیا جیسے وہ واقعہ مظفر نگر میں پیش آیا ہو، اس نے جلتے پر تیل کا کام کیا۔ کچھ ہی دیر میں یہ ویڈیو سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس، ایم ایم ایس اور دوسرے ذرائع سے بڑی تیزی سے پھیلا اور اس نے بہت کم وقت میں فساد کی آگ کو دور تک پھیلا دیا۔ بعد ازاں حکومت اور حکومتی اداروں کو اس کی سنگینی کا احساس ہوا او ر اس ویڈیو کو فیس بک اور انٹرنیٹ سائٹس سے نکال دیا گیا، لیکن یہ کام اس وقت ہوا ، جبکہ فسادی اپنا کام کرچکے تھے۔ اس ویڈیو کے کئی سی ڈیز گشت کرنے لگے تھے جس کو روکنا حکومتی اداروں کے لئے کافی مشکل کام تھا۔ہمیں اس وقت مظفر نگر میں ہوئے واقعات اور فساد کی وجوہات وغیرہ پر گفتگو نہیں کرنی ، لیکن اس فساد میں جس واقعہ نے ایک اہم کردار ادا کیایعنی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کا خطرناک کردار ، یہ ہمارے لئے موضوع بحث ہے۔
سوشل میڈیا نے پچھلے چند سالوں میں جس تیزی سے جست لگائی ہے ، اس کا انٹرنیٹ سے واقفیت رکھنے والا کوئی بھی شخص اندازہ لگاسکتا ہے۔ ملک میں نوجوان طبقے کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا سے جڑی ہوئی ہے۔ پچھلے دو تین سالوں کے دوران اسمارٹ فونس کی آمد کے بعد اب کسی بھی شخص کے لئے آسان ہوگیا ہے کہ 24×7 سوشل میڈیا سے جڑا رہے۔ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ ہندوستان نوجوانوں کا ملک ہے۔ جس قدر بڑی اکثریت میں نوجوان یہاں بستے ہیں ایسی صورتحال دنیا میں کہیں اور نہیں ہے۔ سیاسی انتخابات کے دوران اس کا اندازہ ہوجاتا ہے جب یہ بتایا جاتا ہے کہ فلاں تعداد میں نئے ووٹرس اس الیکشن میں حصہ لیں گے۔
ٰ IRISنالیج فاؤنڈیشن کی جانب سے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق ہندوستان کے جملہ 543لوک سبھا حلقوں کے من جملہ 160حلقے ایسے ہیں جہاں کی جملہ (ووٹ دینے کا حق رکھنے والی ) آبادی کا زائد از10فیصد حصہ فیس بک پر موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فیس بک پر کئے جانے والے پوسٹس، ویڈیوز یا مہم کا کوئی اور انداز ان حلقوں کے نتائج پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ان تمام حلقوں میں پچھلے لوک سبھا الیکشن (2009)میں کامیاب امیدواروں کے ووٹوں کا تناسب دوسرے مقام والے امیدوار کے مقابلے 10فیصد یا اس سے کم تھا۔ یہ بات آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی کوئی بھی زوردار مہم ان حلقوں کے نتائج کو الٹ سکتی ہے۔ اس اسٹڈی (http://www.esocialsciences.org/General/A2013412184534_19.pdf) کا یہ بھی ماننا ہے کہ 2014کے لوک سبھا الیکشن تک تقریباً8؍کروڑ ہندوستانی سوشل میڈیا پر موجود ہوں گے۔ یہ ایک عظیم الشان آبادی ہے اور اس آبادی کو کی جانے والی کوئی بھی اپیل ہمارے ملک کا مستقبل طے کرسکتی ہے۔ایک اور حقیقت دھیان میں رہے کہ اسی اسٹڈی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان 160لوک سبھا حلقوں کے علاوہ 67حلقے ایسے ہیں جہاں پر سوشل نیٹ ورکنگ کے اثرات نسبتاً کم لیکن اوسط پیمانے پر ہوں گے۔
ہندوستان کے کئی سیاسی لیڈرس سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس فیس بک اور ٹوئٹر پر فعال ہیں۔ بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کے فیس بک پر 3.9ملین سے زائد Followersموجود ہیں جبکہ ٹوئٹر پر زائد از2.3ملین،اسی طرح کانگریس لیڈر اور مرکزی وزیر ششی تھرور کے زائد از 1.9ملین،اور بات صرف ان دو لوگوں تک محدود نہیں ہے۔ دگ وجئے سنگھ اپنے ٹوئٹس کے لئے جانے جاتے ہیں۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کا غیرسرکاری (Unofficial)اکاؤنٹ ٹوئٹر پر موجود ہے۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ اور نوجوان لیڈر اکھلیش یادو بھی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر ایک مقبول لیڈر ہیں۔ اسی طرح جموں کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبد اللہ ہیں۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی اور سونیا گاندھی کی دختر پرینکا گاندھی کے اکاؤنٹس بھی کافی مقبول ہیں۔ ان بڑے لیڈرس کے علاوہ تقریباً تمام اہم لیڈرس اور بالخصوص نیٹ سے واقفیت رکھنے والے اور نوجوان لیڈرس کا رابطہ سوشل نیٹ ورکس سے کافی مضبوط ہے۔
اس پورے پس منظر سے یہ بات اچھی طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ اگرچہ کہ سوشل میڈیا تک ہندوستان کی ایک بڑی اکثریت کی رسائی نہیں ہوپائی ہے لیکن بالخصوص نوجوان طبقے تک رسائی حاصل کرنے اور اپنی بات کو منٹوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچانے کا یہ ایک مؤثر ذریعہ بن چکا ہے اور ہندوستان کا سیاسی طبقہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتا ہے اور اس کو استعمال کرنے کا گر بھی جانتا ہے۔ مظفر نگر واقعے نے اس حقیقت کو آشکار کردیا ہے۔
اس دفعہ لوک سبھا الیکشن ایک اہم موڑ پر ہورہے ہیں۔ بی جے پی نے کانگریس کی زیر قیادت یوپی اے سے دو دفعہ شکست کھائی۔ یو پی اے -ٰٰٰٰIIکے دوران حکومت کے کرپشن کے بے تحاشہ واقعات، بڑھتی مہنگائی اور حکومت کی مختلف محاذوں پر ناکامی نے عوام میں یوپی اے کے تئیں بے زاری کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ دوسری طرف بی جے پی اڈوانی کی قیادت سے باہر آتے ہوئے نریندرمودی کے ترقیاتی ایجنڈے کے تحت کانگریس سے پنجہ آزمائی کرنا چاہتی ہے۔ جہاں بی جے پی کو اس حقیقت کا علم ہے کہ مودی اب بھی ملک کے ایک بڑے طبقے کے لئے قابل قبول نہیں ہیں، وہیں دوسری طرف وہ ان کی نوجوانوں میں مقبولیت (جس کا اندازہ گجرات سے باہرتاحال صرف سوشل میڈیا سے ہی ہوپایا ہے)اور کانگریس کی نااہلی کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی خواہاں ہے۔ اس صورتحال میں اسے بخوبی اندازہ ہے کہ اگر اسے اس قدر سیٹس میسر آجائیں کہ کوئی اور پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ رہے تب وہ چھوٹی پارٹیوں سے اپنی حکومت کے لئے تائید اکٹھا کرسکتی ہے۔ سیٹوں کے اس تعداد کو بڑھانا کانگریس اور بی جے پی دونوں کے لئے ضروری ہے، اور جیساکہ اس سے پہلے عرض کیا گیا ملک میں ایسے کئی حلقے موجود ہیں جہاں پر انٹرنیٹ کے شوقین یہ نوجوان کسی ایک جانب اپنے ووٹس جھکاتے ہوئے ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔کوئی تعجب نہ ہوگا اگر اگلے الیکشن سے قبل ہمیں سوشل میڈیا پر کئی جارحانہ انداز کی مہمات نظرآئیں ۔ہندوستان میں انتخابات سے قبل فسادات کا سلسلہ ، انتخابات جیتنے کی سیاست دانوں کی پرانی حکمت عملی ہے اور سوشل میڈیا کی شکل میں ان سیاست دانوں کے ہاتھ ایک نیا ہتھیار لگ چکا ہے۔ انٹرنیٹ پر اپنی کامیابیوں کی تشہیر سے لے کر مظفر نگر میں نقلی ویڈیوز اپ لوڈ کرنا یہ تمام انتخاب جیتنے کے لئے سوشل میڈیا استعمال کے پلان کا ہی حصہ ہیں۔
پچھلے سال ایک حکومتی رپورٹ کے مطابق تین ماہ کے قلیل عرصے میں سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے33کیس دیکھے گئے اور یہ وہ تعداد ہے جس میں باضابطہ کیس رجسٹر کیا گیا، ورنہ سوشل میڈیا پر ہزاروں کی تعداد میں ایسے واقعات روزانہ وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ پچھلے سال اسی طرح کے واقعات کی روک تھام کے پیش نظر حکومت نے زائد از 250سائیٹس کو بلاک کرنے کا حکم دیا تھا۔ سال گزشتہ شمال مشرق کے باشندوں پر حملوں کی افواہیں، بنگلور اور دیگر شہروں میں سوشل میڈیا اور ایس ایم ایس کے ذریعے ہی پھیلی تھیں، اور حکومت نے اس موقع پر کچھ سائٹس کی افواہ پھیلانے کے الزام میں شناخت بھی کی تھی۔
نفرت پھیلانے والی طاقتوں کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ عوام میں پھوٹ ڈالیں۔ نقلی اور جھوٹی باتوں کا پروپیگنڈہ کریں۔ آپس میں نفرت کے بیج بوئیں، عوام کو Polariseکریں اور اس طرح اپنے ووٹ بینکس کو مضبوط بنائیں۔ آج سے 10-12سال قبل کی صورتحال کے برخلاف آج کل حکومتی سطح پر آئی ٹی مانیٹرنگ سیل، سائبر کرائم سیل اور سائبر کرائم تحقیقاتی ادارے کافی مضبوط اور ٹکنالوجی سے لیس ہیں۔بلکہ مرکزی اور ریاستی سطح سے آگے بڑھتے ہوئے ہر ضلع اور شہر کی سطح پر اس قسم کے مضبوط سیل قائم ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے جس طرح عام فورسیس اور پولیس میں قوت ارادی کی کمی پائی جاتی ہے اسی طرح ان آئی ٹی سیلس کی کارکردگی بھی اس تیزرفتار دور میں تشویشناک ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ ایک عام فیس بک اکاؤنٹ پر اپ لوڈ کیا گیا ویڈیو سارے ضلع میں پھیل گیا اور حکومتی اداروں کی جانب سے اس کو نکالے جانے تک وہ اپنا کام کرگیا۔
اس ماحول میں ہر امن پسند شہری کی اس کے تئیں کچھ ذمہ داریا ں ہیں:
صحت مند اور تعمیری گفتگو میں شامل ہوں، جہاں پر نفرت انگیز گفتگوہورہی ہو یا مواد شیئر کیا جارہا ہو، اس کو حکومتی اداروں کی نوٹس میں لایا جائے۔ کسی بھی انفارمیشن یا مواد (فوٹو، ویڈیووغیرہ) کو شیئر کرنے سے قبل اس کی موزونیت اور حساسیت کا اندازہ کیا جائے۔ اس ماحول میں کسی بھی قسم کی جذباتیت بالآخر پوری سوسائٹی کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتی ہے۔ اگر کسی چیز کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں شبہہ ہو یا یہ محسوس ہورہا ہو کہ واقعہ کو بیان کرنے میں لوگ مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں تو بہتر ہے کہ ایسی چیز شیئر یا لائک نہ کی جائے بلکہ کوشش کی جائے کہ دوسرے لوگ بھی صحیح بات جان سکیں ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی ویڈیویا تصویر صحیح ہو لیکن کسی اور واقعہ کی ہو اور محض حالات کا استحصال کرنے کی غرض سے مفاد پرست عناصر کسی اور واقعہ پر اس کو چسپاں کردیں۔ مظفر نگر کے حالیہ واقعہ میں یہی ہوا۔ اس سے قبل بھی اس قسم کے کئی واقعات سوشل میڈیا پر پیش آچکے ہیں۔ مفاد پرست لوگ کسی اور واقعہ کی تصویر یا ویڈیو کو یہ باور کراتے ہیں کہ وہ کسی اور واقعہ سے جڑے ہیں (جس کی جانب توجہ مبذول کرانی ہو) اور لوگ بآسانی اس دھوکہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ایک امن پسندشہری ہونے کے ناطے یہ ذمہ داری ہے کہ ایسے کسی بھی واقعے کی صورت میں معتبر ذرائع اور تحقیق کا سہارا لیا جائے اور اگریہ معلوم ہو کہ یہ جھوٹ ہے تو اس کی اطلاع متعلقہ اداروں کو دی جائے، اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم بہتر شکل یہ ہے کہ ہماری جانب سے ایسی کوئی چیز انٹرنیٹ پر پھیلنے نہ پائے۔ تعمیری اور مثبت سوچ کے ساتھ سوشل میڈیا کا استعمال کیا جائے۔ کسی بھی طبقے یا پارٹی یا افراد یا واقعہ کے تئیں منفی سوچ کے ساتھ کوئی بھی ڈسکشن فضا کو خراب کرنے کا موجب ہوگا، اس سے ہر کوئی احتراز کرے۔ آنے والا وقت سوشل میڈیا کے حوالے سے مزید تیزرفتار ہوگا۔ ضرورت ہے کہ ملک کے امن پسند اور ملک دوست شہری اس کا مثبت استعمال کریں اور ملک کی نوجوان نسل کے لئے کچھ اچھی مثالیں قائم کریں تاکہ نفرت کے بیوپاری اس ملک کے اندر اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
(سید صبغت اللہ حسینی، حیدرآباد)

 

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights