اپنی باتیں

ایڈمن

عظمت رفتہ کی بازیافت امت مسلمہ کے سامنے ہر سطح پر ایک زبردست چیلنج ہے۔ نئی نسل کے درمیان یہ مسئلہ یک گونہ اہمیت اور سنجیدہ توجہ کا حامل ہے۔ جب وہ دیگر اقوام کو دن بدن ترقی کرتے ہوئے اور تہذیب وتمدن کے میدان میں نئی نئی فتوحات حاصل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، ساتھ ہی جب وہ اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں، اور اسلامی تاریخ کے تابناک ادوار سے گزرتے ہیں تو ان کے ذہن ودماغ میں بار بار یہ امنگ اٹھتی ہے کہ کاش وہ دور پھر آئے، جس کی تصویر اسلامی لٹریچر یا اسلامی تاریخ میں ملتی ہے، جب ذلت وپستی اور محکومی ومجبوری کے دلدل سے امت باہر آئے، اورتہذیب وتمدن اور فکروثقافت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے کر دوبارہ امامت کے منصب پر فائز ہوسکے۔۔۔۔ ایک طرف نئی نسل کی یہ امنگ ہے، وہیں دوسری جانب امت اسلامیہ کی موجودہ صورتحال ہے۔
ایک طرف مسلم اکثریتی ممالک ہیں، جہاں بنیادی انسانی حقوق تک کی پامالی ہے، آدمیت کا کوئی احترام نہیں، جمہوری اقدار اور سیاسی آزادی نام کی کوئی چیز نہیں، آزادی اور اظہاررائے کے اس دور میں بھی وہاں نئی نسل کے لیے حرکت وعمل کا کوئی موقع نہیں، نہ وہ اپنے ملک کی سیاست اور اپنے ملک کا مستقبل طے کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں، اور نہ ہی اپنے ملک کی تعمیر وترقی میں ان کے لیے کسی طرح کا کوئی مثبت اور تعمیری رول ادا کرنے کی گنجائش ہے۔ چنانچہ یہاں نئی نسل کے درمیان دو قسم کے خیالات پائے جاتے ہیں، ایک طرف تو وہ افراد ہیں جو حالات سے سمجھوتہ کئے ہوئے ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کو اپنی ذات تک محدود کر رکھا ہے، حکومت جس رخ پر بھی جائے ، انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ دوسری طرف کچھ نوجوان، خاص طور سے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں انتہائی بے چینی اوربے اطمینانی کی کیفیت پائی جاتی ہے، اور وہ اپنی حکومتوں کے سلسلے میں شدید قسم کی بے اعتمادی کا شکار ہیں۔ دوسری طرف مسلم اقلیتی ممالک ہیں،جن میں سے بیشتر کے یہاں مسلم اقلیتوں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں، مختلف ممالک میں فرزندان امت خطرناک ترین حالات سے دوچار ہیں، ایک طرف ان کی شناخت خطرے میں ہے، دوسری جانب ان کا مذہب اور عقیدہ نشانہ ستم بنایا جارہا ہے، لاکھوں ا ور کروڑوں کی آبادیاں ہیں، جنہیں بنیادی انسانی حقوق اور ہر طرح کی آزادی سے مختلف سطحوں پر محروم رکھا گیا ہے، بلکہ مختلف ممالک میں تو ان کے وجود کے لالے پڑے ہوئے ہیں، چنانچہ ان ممالک میں نئی نسل کو اپنا مستقبل انتہائی تاریک اور دھندلا نظر آتا ہے، اور وہ زبردست قسم کی فکری بے چینی اور اضطراب کا شکار ہیں۔ ان کوبظاہر دو ہی راستے نظرآتے ہیں، یا تو وہ ملک کے اکثریتی طبقے میں خود کو غائب کرلیں یا پھر سماج میں علیحدگی پسندی کا رویہ اختیار کرلیں، اور اس کے جس قدر خطرناک نتائج کا وہ آج سامنا کررہے ہیں، مستقبل میں اس سے بھی خطرناک نتائج کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار کرلیں۔
یہ موجودہ دنیا میں مسلم امت کی، معمولی استثناء کے ساتھ، مجموعی صورتحال ہے۔ دوسری طرف مسلم قیادت مختلف سطحوں پر زبردست بحران سے دوچار ہے۔ مسلم امت کی میدانی اور فکری قیادتوں کے درمیان گہری خلیج پائی جاتی ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ امت کی میدانی قیادت کی جانب سے امت کی فکری قیادت کو صحیح معنوں میں قبول نہیں کیا گیا، نتیجہ یہ ہوا کہ سمت کے تعین اور طریق کار کی تحدید کے سلسلے میں مستقل خطرناک قسم کی غلطیاں سرزد ہوتی رہی ہیں۔ اس چیز نے نئی نسل کے اوپر مزید گہرے اثرات مرتب کئے، اور انہیں مزید ذہنی وفکری انتشار کا شکار بنادیا ہے۔
عظمت رفتہ کی بازیافت امت اسلامیہ کا ایک اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے، اسلام میں سیاسی اقتدار کے لیے جدوجہد کی کوئی بنیاد ہے یا نہیں، یہ ایک الگ مسئلہ ہے، لیکن دور اول سے اب تک کسی زمانے میں اسلامی اقتدار اور اسلام کے سیاسی غلبے کے لیے جدوجہد نہ کی گئی ہو، اس کا ثبوت ملنا مشکل ہے۔ اہل اسلام ، صرف اہل اسلام ہی نہیں بلکہ ہر مذہب اور ازم کے ماننے والوں نے ہر دور میں اپنے اقتدار اور سیاسی غلبے کے لیے جدوجہد کا راستہ اختیار کیا ہے۔
اسلام میں تبدیلی کے بنیادی اصول کیا ہیں، اور کس قسم کی تبدیلی درکار ہے، اور اس تبدیلی کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے گا، ان تمام ہی امور کے سلسلے میں قرآن وسنت کی تعلیمات میں بنیادی اشارات موجود ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان سے موجودہ حالات کے تناظر میں رہنمائی حاصل کی جائے۔ موجودہ اسلامی لٹریچر ان امور کے سلسلے میں عام افرادامت کی راست رہنمائی کے لیے ناکافی معلوم ہوتاہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ امت کی فکری قیادت سامنے آئے اور مناسب انداز میں قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی کا فریضہ انجام دے۔ قرآن مجید کی آیات، بالخصوص آیات جہادوقتال کے سلسلے میں امت کے درمیان آج بھی بڑا مغالطہ پایا جاتا ہے، اسلامی خلافت اور اسلامی حکومت کے سلسلے میں�آج بھی کوئی واضح اور صاف تصور موجود نہیں ہے، جدید دور کے ترقی یافتہ، اقلیتی اور تکثیری معاشروں میں اسلام کی نمائندگی اور اسلامی تحریکات کے طریق کار کی بحث بھی بالکل ہی نئی بحث ہے، جس پر ابھی کافی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ دنوں نائیجیریا میں بوکوحرام کا مسئلہ سامنے آیا، عراق اور شام میں داعش کا ڈرامہ اور اس کی جانب سے عالمی خلافت کے قیام کا واقعہ کافی سرخیوں میں رہا، اور پھرگزشتہ دنوں برصغیر میں القاعدہ کی شاخ کے قیام کے سلسلے میں ویڈیو بیان جاری کیا گیا، اور پھر حال ہی میں حزب التحریر کے تعلق سے تشویشناک خبریں سامنے آئیں۔ یہ اور اس جیسے جتنے بھی واقعات پیش آرہے ہیں، یہ امت اسلامیہ میں موجود فکری بحران کی غمازی کرتے ہیں، خواہ یہ سب کچھ بعض مسلم عناصر کی جانب سے کیا جارہا ہو، یا دوسروں کی جانب سے کیا جارہا ہو اور اس کے لیے بعض سادہ لوح مسلم عناصر کو استعمال کیا جارہا ہو۔ بہر حال یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، اسلامی کاز کے لیے جدوجہد کرنے والے افراد اورتحریکوں کو اس سلسلے میں سنجیدگی کا ثبوت دینا ہوگا، اورانتہائی تیز رفتار اقدامات کرنے ہوں گے، ورنہ مسلم امت میں در آنے والے یہ انتہا پسندانہ رجحانات نئی نسل اور نئے دور کے لیے ایک شدید مصیبت ثابت ہوں گے، ان کا سامنا کرنا آج جتناضروری ہے، کل اتنا ہی مشکل ہوگا۔
(ابوالاعلی سید سبحانی)

مارچ 2015

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں