اپنی باتیں

ایڈمن

ہر زمانے کی اپنی ایک ’زبان‘ ہوتی ہے، اور اپنے کچھ ذرائع ابلاغ ہوتے ہیں، کسی بھی پیغام کی کامیاب ترسیل کے لیے ان دونوں ہی کی رعایت لازمی ہوتی ہے۔
’زبان‘ کا تعلق تحریر سے بھی ہوتا ہے اور تقریر سے بھی، اور اس میں اُن تمام ترقی یافتہ اسالیبِ کلام اور اصنافِ کلام کا شمار ہوتا ہے، جن کو زمانے میں قبول عام حاصل ہو، اس طور پر کہ ان کا اثر قبول کیا جاتا ہو۔ جبکہ ذرائع ابلاغ میں ان تمام ترقی یافتہ وسائل وذرائع کا شمار ہوتا ہے، جو اس ’زبان‘ کو سامعین، ناظرین یا قارئین تک پہنچانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ نہ تو’زبان‘ اپنے آپ میں کوئی قابل اعتراض یا غلط چیز ہوتی ہے اور نہ ہی یہ وسائل۔ اصل چیز ان کا استعمال ہے اور یہی استعمال ان کے صحیح یا غلط اور مثبت یا منفی ہونے کا سبب بنتا ہے۔ کبھی کبھی ہوتا یہ ہے کہ ایک چیز کا کثرت سے غلط استعمال اس کے غلط ہونے کی دلیل بن جاتا ہے، اور پھر اس کے سلسلے میں منفی تأثرات عام ہوجاتے ہیں، حالانکہ اس کا استعمال جس قدر غلط ہورہا ہے، اس سے کہیں زیادہ صحیح بھی ہوسکتا ہے، اور اس کے جس قدر منفی اثرات سماج پر پڑ رہے ہیں، اس سے کہیں زیادہ مثبت اثرات کا امکان موجود ہوتا ہے۔ ’زبان‘کے سلسلے میں بھی یہ ایک حقیقت ہے اور ذرائع ابلاغ کے سلسلے میں بھی، بالخصوص زبان کے سلسلے میں یہ بہت ہی واضح ہے کہ کبھی کبھی یہ خود ہی سے آہستہ آہستہ ڈیولپ ہوجاتی ہے اور کبھی کبھی اس کو ڈیولپ کیا جاتا ہے۔ ایک کسی چیز کو ڈیولپ یا ایجاد کرنے کا عمل ہوتا ہے، جوچند ذہین اور فکری قسم کے افراد کے ہاتھوں انجام پاتا ہے، اور ایک اِن ایجادات وترقیات کی اہمیت وافادیت کو وقت پر محسوس کرنے اور اس کے سلسلے میں مطلوبہ پیش رفت کا عمل ہوتا ہے، دونوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔جدید دور میں الکٹرانک و پرنٹ میڈیا، اور پھر سوشل میڈیا کچھ مخصوص افراد کی دریافت تھی، جس کی اہمیت اور افادیت کو بہت سے لوگوں نے وقت پر محسوس کرلیا، اور اس کے سلسلے میں عملی پیش رفت بھی کی گئی۔ جبکہ بہت سے لوگوں نے اس کا محض دور سے مشاہدہ کیا، اور اس کے دُوررس اثرات کی طرف ان کا ذہن نہیں جاسکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جن لوگوں نے اس کی اہمیت اور اس کے ممکنہ اثرات ونتائج کا اندازہ لگالیا، وہ اس کے ذریعے اپنے پیغام کی کامیاب ترسیل میں اور اپنا ایک وسیع تر حلقہ اثر بنانے میں کامیاب ہوگئے، دوسری طرف جو لوگ اس سے غافل رہے یا اس کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے، وہ باوجود اس کے کہ اپنے پاس ایک مضبوط اور ٹھوس پیغام رکھتے تھے، اس کی ترسیل میں بری طرح ناکام رہے۔
’زبان‘ پر کام کرنے والے افراد مختلف ہوتے ہیں اور ذرائع ابلاغ پر کام کرنے والے افراد مختلف۔ جہاں پیغام کو بہترین ذرائع ابلاغ کی ضرورت پڑتی ہے، وہیں ایسے ذہین اور تیز رفتار افرادِ کار کی بھی ضرورت پڑتی ہے، جو اس پیغام کو ترقی یافتہ ’زبان‘میں منتقل کرنے یا پیش کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔
ہر زبان کی اپنی ایک ’زبان‘ ہوتی ہے، جو علاقے، افراداور کلچر کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی جاتی ہے، یہ ضروری نہیں کہ اردو زبان میں جو اسالیب اور اصنافِ کلام رائج ہوں، یا جو انداز اور طرز گفتگو مقبول ہو، وہی ہندی زبان میں بھی رائج اور مقبول ہو۔ یہی معاملہ دیگر علاقائی، ملکی وعالمی زبانوں کا بھی ہے۔
آج یہ ’زبان ‘ کافی حد تک ترقی کرچکی ہے، ناول افسانوں سے لے کر فلموں ڈراموں تک ایک بہت ہی وسیع اور ترقی یافتہ دنیا ہے جو انسانی سماج پر اپنے بہت ہی گہرے اثرات رکھتی ہے، اور اس کی ترسیل کے لیے آج انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی صورت میں اتنا زبردست اور تیزرفتارنیٹ ورک وجود میں آچکا ہے جس کا چند سال قبل تک تصور بھی مشکل تھا۔ اس نیٹ ورک کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے انسانوں کے درمیان حائل مختلف مذہبی اور سماجی دیواروں کو منہدم کر دیا ہے، اور ان کے باہمی تعلقات کے لیے ایک نئی اور وسیع تر دنیا آباد کی ہے، جہاں ہر کسی کے لیے اپنا خیال پیش کرنے اور اس پر دوسروں کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے، اپنے موقف کے حق میں اور دوسروں کے موقف کی تردید میں دلائل دینے اور گفتگو کرنے کا ایک کھلا اسپیس موجود ہے، لیکن تعجب ہوتا ہے کہ آج اس ’زبان‘ اور اِن ترقی یافتہ ذرائع ابلاغ پرقریب قریب مکمل طور سے اُن عناصر کا تسلط ہے جن کو ہم باطل، غلط اور سماج کے لیے ضرررساں مانتے ہیں۔ مختلف نظریات اورافکار کے حاملین سے لے کر سماج میں فحاشی اور بے حیائی کے فروغ کا خطرناک مشن رکھنے والے تمام ہی افراد اور ادارے اس ’زبان‘ اور ان ذرائع ابلاغ پر چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ستم بالائے ستم یہ کہ پیغام خداوندی کے علمبردار، انسانی عظمت کے پاسدار اور سماج کی تشکیل نو کا عزم رکھنے والے نہ تو اس ’زبان‘ کی اہمیت سے صحیح طور سے واقف نظر آتے ہیں اور نہ ہی ان ذرائع ابلاغ کی۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ آج ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک ہندوستان میں اسلام پسند حلقے کے پاس اسلامی اقدار، اسلامی تہذیب، اسلامی ثقافت اور اسلامی پیغام کو پیش کرنے والا نہ تو کوئی معیاری قسم کا اثرانگیز ناول اور ڈرامہ نظر آتاہے اور نہ ہی کوئی فلم اور ڈاکیومنٹری، جس نے ملکی سماج میں اپنی پہچان بنائی ہو اور اس کا اعتراف کیا گیا ہو۔ کروڑہا کروڑ کی تعداد میں سوشل میڈیا پراپنا وجود رکھنے والے ملک میں اسلامی اقدار کے علمبرداروں کا کیا تناسب ہے، یہ بھی قابل غور ہے۔ بہر حال خطرناک حد تک تاخیر اور کوتاہی ہوچکی ہے، ضرورت ہے کہ زمانے کی رفتار سے اپنے سفر کی رفتار کو ہم آہنگ کیا     جائے، ورنہ زمانہ رُک کر کسی کا انتظار کرے گا، ممکنات کی دنیا میں شائداس کے لیے کوئی گنجائش نہ مل سکے۔ (ابوالاعلی سید سبحانی

نومبر 2014

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں