اپنی باتیں

ایڈمن

ڈیولپمنٹ یا ترقی فرد کا مطمح نظر بھی ہوتی ہے اور معاشرے کا بھی، یہ ایک حقیقت ہے،جس کی انسانی فطرت سے بھی تائید ہوتی ہے ۔ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ بہترسے بہتر کی طرف پیش رفت…

ڈیولپمنٹ یا ترقی فرد کا مطمح نظر بھی ہوتی ہے اور معاشرے کا بھی، یہ ایک حقیقت ہے،جس کی انسانی فطرت سے بھی تائید ہوتی ہے ۔ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ بہترسے بہتر کی طرف پیش رفت کرتا ہے، اور جس معاشرے میں رہتا ہے اس میں ہر پہلو سے ایک منفرد شناخت اور نمایاں مقام حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جدید دور میں ترقی (ڈیولپمنٹ) ایک پیمانے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے، کسی فرد یا معاشرے کے معیار سے واقفیت حاصل کرنے اور اس کی کامیابی کا اندازہ لگانے کے لیے۔ گزشتہ زمانے میں اس کا دائرہ اثرکافی محدود تھا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے انسانی زندگی کے تقریباََ تمام ہی شعبہ جات کا احاطہ کرلیا۔
موجودہ ’نعرۂ ترقی یا ڈیولپمنٹ‘ کا آغاز صنعتی انقلاب سے ہوتا ہے،چنانچہ اس کا مرکز ومحور بھی مادی اور معاشی ترقی کا حصول ہے۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ آج ترقی اور ترقی پسندی جیسے نعروں کو سن کر فوراََ ہی ذہن میں ایک ایسے سماج کی تصویر سامنے آتی ہے، جس کی ساری تگ ودو کا محور معاش کا حصول ہو، جہاں دولت اور پونچی ہی سب کچھ ہو، اور اسی کی بنیاد پر سماج اور ریاست کی ترجیحات کا تعین ہوتا ہو۔ جہاں مادی مقاصد کے حصول کے لیے اخلاق واقدار، تہذیب وثقافت، سماجی طور طریقے، قومی رسم ورواج، انسانی غیرت اور دین وایمان کسی کے ساتھ بھی سمجھوتہ کرلیا جاتا ہو۔ مادیت پر مرکوز ترقی کے اس نعرے نے موجودہ انسانی دنیا کو خطرناک قسم کے چیلنجز سے دوچار کیا ہے۔ سماجی، اخلاقی، معاشی، سیاسی، اور ماحولیاتی غرض ہر پہلو سے آج انسانی دنیا سخت بحرانی کیفیت سے گزر رہی ہے۔ سماج بری طرح انتشار کا شکار ہے، سماج کی بنیادی اکائی ’خاندان‘ کا شیرازہ بکھرتا جارہا ہے، شرم وحیا اور انسانی غیرت کو برطرف رکھتے ہوئے خواتین کا بری طرح استحصال ہورہا ہے، ایک ہی سماج میں جہاں امیر امیر تر ہوتے جارہے ہیں، وہیں غریب کی غربت اور لاچارگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، حکومت اور سیاست کے ادارے عوام کے حقیقی نمائندے بننے کے بجائے سرمایہ دارطبقے کے استحصالی منصوبوں کو بروئے کار لانے میں معاون ثابت ہورہے ہیں، انسانی اور قدرتی وسائل کا غیرمتوازن استعمال خطرناک قسم کے ماحولیاتی بحران کا سبب بنتا جارہا ہے۔ ترقی کے اس نعرے نے انسانی سماج کو جہاں ایک طرف خطرناک اخلاقی بحران سے دوچار کردیا ہے، وہیں عملی اور فکری سطح پر بھی سخت چوٹ پہنچائی ہے۔ اس نے سماج کو امیر غریب، شہری دیہاتی اور روایتی وترقی پسند جیسے مختلف خانوں میں بانٹ کر بری طرح انتشار کا شکار بنادیا ہے۔ ترقی کے اس نعرے نے انسان کو لذتیت کا گرویدہ بنادیا ہے ، اس سے جہاں ایک طرف اسراف اور فضول خرچی کا رجحان عام ہوا ہے، وہیں دوسری طرف فرد اپنی ذات میں سمٹ کررہ گیا ہے، سماج میں کیا ہورہا ہے، عام انسان کا درد کیا ہوتا ہے، عام انسانوں کے سلسلے میں اس کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے، اس کے لئے اس کا دل ودماغ تنگ ترہوتاجارہا ہے۔
اس ترقی کے سلسلے میں اسلام کا موقف بہت ہی واضح ہے۔ اسلام ترقی کا مخالف نہیں ہے۔ اسلام نہ صرف یہ کہ فرد اور معاشرے کی ترقی کو قبول کرتا ہے، بلکہ اس کا مطالبہ ہے کہ بندۂ مومن سماجی، سیاسی، معاشی، اخلاقی ہراعتبار سے مضبوط اور توانا ہو۔ وہ ایک ایسے سماج کی تشکیل چاہتا ہے جو سیاسی، سماجی، معاشی اور اخلاقی اعتبار سے اعلی مقام پر ہو۔ البتہ جدید دور کے ترقیاتی ایجنڈے اور اسلام کے ترقیاتی ایجنڈے میں ایک بنیادی فرق ہے، اور وہ فرق ہے فرد اور سماج کے اندرون اور اس کی روح کے لیے غذا کی فراہمی کا۔ اسلام میں محض مادی اور معاشی ترقی کا کوئی اعتبار نہیں جب تک کہ اندرون کے لیے غذا کا انتظام نہ ہو، چنانچہ اسلام فرد یا معاشرے کی ہر پیش رفت کو الہی ہدایات اور انسانی اخلاق واقدارکا پابند بناتا ہے، یہ پابندی جہاں فرد کے اندرون کو توانائی بخشتی ہے، وہیں اسے آزادی کے ساتھ رب کی اس عظیم کائنات میں حرکت وعمل پر بھی ابھارتی ہے۔ اس کے اندر عام انسانوں ہی کے نہیں بلکہ پوری کائنات کے سلسلے میں خیرخواہی کے جذبات پائے جاتے ہیں، وہ جہاں اپنے لیے مسخرکردہ اس کائنات سے بھرپور استفادہ کرتا ہے، وہیں اس کائنات کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ رہتا ہے۔ اس کا کوئی بھی عمل نہ تو انسانوں کے لیے باعث ضرر ہوتا ہے اور نہ ہی کائنات اور اس کے نظام کے لیے، بلکہ وہ عام انسانی سماج کے لیے بھی خیر کا ذریعہ ہوتا ہے اور پوری کائنات کے لیے بھی۔ آج کے ترقی پسند دور میں جبکہ دنیا بہت تیزرفتاری کے ساتھ مادیت کی طرف دوڑی جارہی ہے، اسلام کے اِس تصور ترقی کو عام کرنا انسانیت کی عظیم خدمت ہے۔
تمام تر مادی ترقیوں کے باوجود بھی آج انسان اپنی زندگی میں ایک خلا محسوس کرتا ہے، اور وہ اِس خلاکو پر کرنے کے لیے مختلف روحانی شخصیات اور اداروں کے چکر لگاتا ہے، لیکن وہاں اسے محض ایک وقتی تسکین کے علاوہ کچھ بھی نہیں مل پاتا، اور وہ اسی بے چینی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ ایسے مادہ پرستانہ ماحول میں اسلام کے تصور ترقی کا تعارف بہت اہم ہوجاتا ہے۔
خود سمجھنا اور دنیا کو سمجھانا ضروری ہوگیا ہے کہ اسلام انسان کی مادی اور روحانی زندگی کو کس طرح متواز ن انداز سے لے کر چلتا ہے، وہ کس طرح انسان کو روحانیت کی کشتی میں بٹھا کر مادیت کا سمندر پار کراتا ہے، اور انسان کی دنیوی اور اخروی ترقی اور نجات کا کیاراستہ بتاتا ہے۔
(ابوالاعلی سید سبحانی )

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں