اپنی باتیں

ایڈمن

ہم نے سولہویں پارلیمنٹ کا انتخاب کرلیا ہے، جس میں بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کو واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ اور کانگریس نیز اس کی حلیف پارٹیوں کو بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے، اس شکست کی مختلف وجوہات ہیں، جن میں سابقہ حکومت کی نااہلی، عدم جوابدہی، اور بدعنوانی (کرپشن) نمایاں ہیں، لیکن یہ چیز اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ نومنتخب حکومت ان تمام مسائل، جن سے ہمارا ملک دوچار ہے، ان کو حل کردے گی۔
ہم پہلے ہی سے تعلیمی نظام کی اصلاح کے لیے جدوجہد کرتے رہے ہیں، ملک کا یہ تعلیمی نظام ہندوستانی سماج کے تمام طبقات کو یکساں مواقع فراہم کرتا ہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ آزادی کے بعد پچھلی ۶؍دہائیوں میں ہندوستانی سماج کے تمام طبقات کو بنیادی حقوق اور ضروریات بھی فراہم نہیں ہوسکی ہیں۔ مثال کے طور پر تعلیم، صحت، روزگار اور ایک باوقار زندگی سب کے لیے یقینی بنانا، ایک خواب ہی رہ گیا جو اب تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ اس صورتحال کی بڑی وجہ ذات اور مذہب کے نام پر ہورہی تفریق، سیاست میں غنڈہ گردی کا چلن، اور اقدار کا فقدان ہے۔
ایس آئی او نے انتخابات سے پہلے اپنا طلبائی منشور شائع کیا تھا، اس میں ہماری یہ کوشش تھی کہ ۶۵؍فیصد نوجوان رائے دہندگان کو اس بات کا قائل کیا جائے کہ وہ اپنی رائے ان ایجنڈوں پر دیں، جن سے تعلیمی رسائی اس ملک کے ہر باشندے کے لیے ممکن ہو، اور تعلیم کی مد میں متعین ہونے والا ریاستی سرمایہ ۳؍فیصد سے بڑھاکر جی ڈی پی کا ۶؍ فیصد کردیا جائے۔
ہندوستان ایک منفرد ملک ہے، جو مختلف مذاہب، زبان، تمدن، نسل ورنگ کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے، بلکہ یہی گوناگونی اس ملک کی پہچان ہے۔ اس گوناگوں کردار کی بازیافت وقت کی پکار ہے۔ ان تمام تنوع کے باوجود یہ ملک باہمی احترام اور عزت کی زندگی گزارنے کی ایک شاندار مثال ہے۔ ہم یہ قبول کرتے ہیں کہ ہم سے تاریخ میں بہت سی بھول ہوئی ہیں۔ ہم ہی ہندوستانیوں نے اپنے ملک کے دلت طبقے کے ساتھ ظلم وتشدد کا رویہ اختیار کیا، ان کا استحصال کیا، اور وحشیانہ رویے کا انہیں نشانہ بنایا۔ لیکن دوسری طرف ہم نے اپنی تاریخی غلطیوں کی تصحیح کی کوششیں بھی کی ہیں۔ ہم نے عدل وانصاف، مساوات، آزادی اور اخوت پر مبنی آئین کو تسلیم کیاہے۔ یہ خصوصیات ہمارے آئین کے بنیادی اصول ہیں۔ جن اصولوں نے ہمارے تکثیری اور جمہوری سیاسی اداروں کو استحکام فراہم کیا ہے۔ آئندہ دنوں میں ہماری ترجیحات کچھ اس طرح ہونی چاہئیں:
ہمیں دیکھنا ہوگا کہ نومنتخب حکومت ریاستی اخراجات میں سے تعلیم کے حصے میں کٹوتی نہ کرے۔ہمیں حکومت پر یہ دباؤ بنانا ہوگا کہ تعلیم کا حصہ کل جی ڈی پی میں ۳؍ فیصد سے بڑھاکر ۶؍ فیصد کیا جائے۔مفت اور معیاری تعلیم کو تمام شہریوں کے لیے یقینی بنایا جائے، اور پسماندہ طبقے کو ترجیح دی جائے۔پسماندہ طبقے اور اقلیت سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو دی جانے والی ریسرچ اسکالرشپ میں اضافہ کیا جائے۔ملک کے حاشیہ نشیں طبقوں کے لیے بجٹ کی متعین مقدار تمام تعلیمی اداروں میں پُر کی جائے۔ اور طالبات کی حفاظت کی ضمانت دی جائے۔
ہم یہ بات جانتے ہیں کہ نئی حکومت کا رجحان تعلیمی نظام کے پرائیویٹائزیشن کی طرف ہے، نئی حکومت کے پیش نظر پرائیویٹ یونیورسٹیز کو عمل میں لانا ہے، اور اس حکومت کو بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت دینے میں بھی تأمل نہیں ہوگا۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ ہم ہوشیار ی کا ثبوت دیں۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ سماج کے مختلف طبقوں کے درمیان موجود خلیج یا دوریاں ہمیں بری طرح متأثر کریں گی۔ ایسے میں نوجوانوں کو بین المذاہب مکالمات کو پروان چڑھانا ہوگا، اور یہ عمل کہیں اور سے نہیں بلکہ اپنے کیمپسس اور دفاتر سے شروع کرنا ہوگا۔ اس دور میں طلبہ برادری کی جدوجہد بہت صبرآزما ہے، اور ہمیں اپنی صلاحیت اور وسائل کو جمہوریت، آئین اور سماجی انصاف کے تحفظ کے لیے وقف کرنا ہوگا۔ ایس آئی او یہ عہد کرتی ہے کہ وہ طلبہ برادری کی جدوجہد کا اگلا دستہ بنے گی، سماجی انصاف اور تعلیمی حقوق کے لیے ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ ہم آپ سے یہ امید رکھتے ہیں کہ اس جدوجہد کو ہر سطح پر مضبوط بنائیں گے، اور تمام مذاہب وطبقات کو اس کا حصہ بنانے کی کوشش کریں گے۔ ہم مسائل میں بھی شریک ہیں، اور ذمہ داریوں میں بھی۔ یقیناًہم باہمی جدوجہد کے ذریعہ ایک بہتر ملک کی تعمیر کریں گے۔
(اشفاق احمد شریف، صدر تنظیم ایس آئی او آف انڈیا)

جون 2014

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں