۳؍جولائی ۲۰۱۳ ء کو مصر میں جو تبدیلی آئی وہ ایک فوجی بغاوت تھی، جس کے پس پشت کئی ایک خارجی وداخلی سازشیں کارفرما تھیں۔
ایک منتخب جمہوری حکومت کے خلاف فوجی بغاوت مصری عوام کے لیے بالکل ہی ناقابل برداشت واقعہ تھا۔ اس واقعہ نے مصری عوام کے جذبات پر بہت سخت چوٹ کی۔ سالہا سال کی آمریت اور تانا شاہی کے بعدعوام کو پہلی دفعہ اپنی رائے اور اپنے اختیار سے حکومت منتخب کرنے کا موقع ہاتھ آیا تھا، اور اس منتخب حکومت پر بمشکل ایک ہی سال گزراتھا کہ اس پر دشمنوں نے شب خون مار کر ملک کو ایک شدید بحران کا شکار بنادیا۔
اس انقلاب کی خبرسنتے ہی عوام کا ایک زبردست ہجوم سڑکوں پر نکل آیا، جس کی تعداد بعض مواقع پر کئی کئی کروڑ بیان کی گئی۔ لاکھوں افراد دن رات مختلف میدانوں میں مستقل طور پر قیام کرنے لگے، وہیں نماز پنجگانہ اداکرتے، تراویح کی نمازیں ہوتیں اور قیام لیل میں اللہ رب العزت سے مناجات کرتے۔
منتخب جمہوری صدر کی واپسی کے لیے منعقد ہونے والے اس احتجاجی مظاہرے میں مسلم علماء بھی شریک تھے اورمسلم عوام بھی۔ ملک کے ہرعلاقے اور ہرطبقے کے لوگ اس میں شریک تھے، خواص بھی تھے، اور عوام بھی۔ یہ مظاہرے آج ڈیڑھ ماہ کی مدت گزرجانے کے بعد بھی اسی عزم اورحوصلے کے ساتھ جاری ہیں۔
اپنے منتخب صدر کی واپسی کے لیے نکلنے والے ان مظاہرین نے حد درجہ دانشمندی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنے احتجاج اور مظاہروں کو پرا من شکل میں جاری رکھا۔ صرف یہی نہیں کہ انہوں نے بہت ہی پرامن انداز میں اپنے مظاہرے جاری رکھے، بلکہ دن رات مستقل مظاہروں پر بیٹھنے والے اپنے ساتھیوں کے لیے ہر طرح کے انتظامات بھی کیے۔لائٹ کٹی تو اس کا انتظام کیا۔ پانی کاٹا گیا تو اس کا انتظام کیا گیا۔ میڈیا نے ساتھ نہیں دیا تو اپنے سوشل نیٹ ورک کا استعمال کیا گیا۔ اصلی جہاز نہیں ملے تو کھلونے والے جہازوں کو اڑاکر کام چلایا گیا۔ غرض انتہا درجہ کی ہمت، حوصلے اور ثبات قدمی کے ساتھ زبردست مظاہرے منعقد کیے گئے۔
اس موقع پر ان کے قائدین نے بھی اپنی قیادت کا لوہا منوالیا، اتنے بڑے ہجوم کو اس قدر منظم انداز میں لے کر چلنا، اور حکومت کی جانب سے خطرناک قسم کی پرتشدد کارروائیوں کے باوجود کسی قسم کے پرتشدد ردعمل سے انہیں باز رکھنا، یہ اسی قیادت کا کمال تھا۔
عوام کی اس پرامن جدوجہد کی بجائے اس کے کہ عالمی سطح پر تحسین کی جاتی، اس کے خلاف طرح طرح سے سازشیں کی گئیں، اور اس کو توڑنے اور ختم کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کی نگرانی میں فوجی حکومت کی جانب سے زبردست آپریشن کیے گئے، ابتدا میں شہیدوں کی تعداد سینکڑوں میں بیان کی جارہی تھی، دھیرے دھیرے یہ تعداد بڑھتی رہی اور بالآخر یہ تعداد ہزاروں تک جاپہنچی، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود عوام نے تشدد کی راہ اختیار کرنے سے صاف انکار کردیا۔
پرامن مظاہرین پر ان جارحانہ کارروائیوں کے لیے طرح طرح کے حیلے تلاش کیے گئے، کبھی ان پر الزام عائد کیا گیا کہ ان کی جانب سے فوج پر اقدامی حملہ ہوا تھا ، جس میں جواباََفوج کی جانب سے فائرنگ کی گئی، کبھی کوئی دوسرا الزام عائد کیا گیا، اور بالآخر اپنے ہی ملک کی حکومت نے اپنے ہی ملک کی کروڑوں عوام کو دہشت گرد اور جہادی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف اندھادھند کارروائیاں شروع کردیں ، جس میں لاکھوں افراد زخمی اور ہزاروں افراد شہید ہوئے۔
یہ دنیا کا پہلا قتل عام تھا، جس کو پوری دنیا نے براہ راست دیکھا، ٹی وی چینلس پر اس کو لائیو دکھایا گیا، لیکن پورا دن گزرجانے کے بعد بھی زمین وآسمان گواہ ہیں کہ کوئی بھی قابل ذکر عالمی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ حقوق انسانی کے علمبرداروں، جمہوریت اور جمہوری اقدار کا نعرہ بلند کرنے والوں، اور مسلم امت کی قیادت کا دعوی کرنے والوں نے اس پر انتہادرجہ کی مجرمانہ خاموشی اختیار کی۔ سعودی حکمراں نے تو تمام حدود پار کرتے ہوئے ایک جارحانہ بیان میں اس بات کا صاف اعلان کردیا کہ ابھی بھی اس کی پیاس نہیں بجھ سکی ہے، اسے مزید کی طلب ہے۔
تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس قدر جارحانہ کارروائیوں کے باوجود،جبکہ اندھادھند گرفتاریوں اور قتل عام کا سلسلہ جاری ہے، عوام آج بھی زبردست ثبات قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں۔ مظاہرے بھی جاری ہیں، اوران کے خلاف جارحانہ کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ نہیں معلوم کہ مستقبل کیا ہوگا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ان نیک بندوں کو ظالموں کے شر سے نجات دے، شہیدوں کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطافرمائے، زخمیوں کے زخموں اور تکلیفوں کو دور کرے ، اور مظاہرین کو اپنی خاص مدد سے نوازے۔۔ آمین یا رب العالمین (ابوالاعلی سید سبحانی)
اپنی باتیں
۳؍جولائی ۲۰۱۳ ء کو مصر میں جو تبدیلی آئی وہ ایک فوجی بغاوت تھی، جس کے پس پشت کئی ایک خارجی وداخلی سازشیں کارفرما تھیں۔ ایک منتخب جمہوری حکومت کے خلاف فوجی بغاوت مصری عوام کے لیے بالکل ہی ناقابل…