آسام این آر سی — کیا ہے پورا معاملہ؟

سید اظہرالدین

سیداظہر الدین

گزشتہ آٹھ ماہ میں آسام این آر سی اور ڈی ووٹرز کے متعلق مطالعہ کرنے کے بعد پہلی مرتبہ میرا آسام کا دورا ہوا۔ ایس آئی او نے زمینی حقائق پر مبنی رپورٹ کے مطالعے کے لیے ایک ٹیم آسام بھیجنے کا فیصلہ لیا، جس کی قیادت مجھے دی گئی۔ اس دوران ہماری ملاقات بہت سے اہل علم و دانش ، وکلاء، سماجی کارکنان، مختلف تنظیموں کے ذمہ داران اور خاص طور پر ان لوگوں سے ہوئی جو حکومت کے ذریعہ ستائے جا رہے ہیں۔ حقائق پر مبنی تفصیلی رپورٹ جلد جاری کی جائے گی لیکن اس سے پہلے اس معاملے کو ہندوستان کے دیگر شہروں تک لے جانا ضروری ہے تاکہ باقی لوگ بھی حقیقت سے آگاہ ہو سکیں۔ مندرجہ ذیل مواد مختلف لوگوں کے ساتھ بات چیت اور ہمارے مشاہدات پر مبنی ہے۔

تاریخی پس منظر:

1826 ء میں یانڈبو معاہدے کے بعد برطانوی حکومت نے آسام پر قبضہ کرلیا، اور پھر لوگوں کے مختلف گروہوں کو آسام کی اقتصادی ترقی کے لیے مدعو کیا۔ بنگال کے لوگ تعلیم یافتہ تھے اور انگریزی زبان جانتے تھے، اسی لیے انہیں آمدنی، پوسٹ آفس، بینکوں، ریلوے وغیرہ میں کام کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ بعد میں اس گروہ نے، جو بنگال، اوڑیسہ اور کنور سے آئے تھے، خود کو آسامی کمیونٹی کے ساتھ خلط ملط کر لیا۔ ایک اور گروہ جو بہار، جھارکھنڈ اور یو پی کے بعض حصوں سے خاص طور پر چائے کی کھیتی کو فروغ دینے کے لیے مدعو کیا گیا تھا، اس گروہ نے آسام کی مزدور آبادی کے ساتھ قیام کیا۔ باہر سے آئے یا لائے گئے دو گروہوں اور انگریزوں کے لیے کھانے کی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہو پا رہیں تھیں اور مشرقی بنگال کے مسلمان کھیتی کے لیے مشہور تھے۔ چونکہ آسام کی زمین زرخیز تھی، اس لیے انگریز مسلمانوں کو سبزیوں اور جوٹ کی پیداوار کے لیے آسام لے کر آئے۔ افسوسناک واقعہ یہ ہے کہ آسام کے مقامی لوگوں نے پہلے اور دوسرے پڑھے لکھے طبقات کو قبول کر لیا لیکن دوسرے محنت کش طبقے جو تعداد میں زیادہ تھے، انہیں غیر ہی سمجھا۔

کیا ہے معاملہ؟

اصل معاملے کو درج ذیل مندرجات کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔
۱- سال 1998 میں اس وقت کے آسام کے گورنر مرحوم ایس کے سنہا نے آسام میں بنگلادیشیوں کی آمد پر الزام لگایا تھا کہ سپریم کورٹ کے IM(D)T ایکٹ کے مطابق تصدیق کے بغیر روزانہ چھ ہزار بنگلادیشی آسام میں آ رہے ہیں۔
۲- کسی بھی ہندوستانی شہری کو بغیر کوئی نوٹس دئیے ووٹر لسٹ میں اس کے نام کے آگے D نشان لگا کر اسے شک کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے۔
۳- سرحدی پولیس اپنے دفاتر میں بیٹھ کر محض شک کی بنیاد پر کسی بھی شہری پر رپورٹ درج کر سکتی ہے۔
۴- ہدف شدہ افراد زیادہ تر غیر معمولی طور پر غریب اور غیر ملکی شہریت کے بارے میں کیا ہو رہا ہے، سے واقفیت نہیں رکھتے۔
۵- افسران کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں جن کے ذریعے وہ یہ بتا سکیں کہ وہ شہریوں کو D زمرے میں کیوں شامل کر رہے ہیں تاکہ بعد میں انہیں غیر ملکی افراد کی فہرست میں شامل کر سکیں۔
۶- ٹربیونل کے افسران (تمام نہیں) نام، عنوان، عمر، رہائشی تبدیلی، شادی کی حیثیت میں معمولی اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں۔ کئی صورتوں میں ریاست کی طرف سے کراس چیکنگ کے باوجود حقیقی شناخت نظر انداز کی جا رہی ہے۔
۷- مکمل بینچ کے فیصلے سے تیار کردہ ہدایات پر زیادہ تر ٹریبیونل اور اعلیٰ عدالتیں عمل نہیں کر رہی ہیں۔ اس کے برعکس ٹریبیونلز میں یہ رجحان پیدا کیا جا رہا ہے کہ وہ کسی وضاحت کو قبول نہ کریں اور کسی بھی شہری کو غیر ملکی قرار دے دیں۔
۸- برہم پتر اور دیگر ندیوں کے ذریعے ہر سال کٹاؤ کی وجہ سے لاکھوں لوگوں، جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں، کو اپنا گھر چھوڑنا پڑتا ہے۔ حکومت نے انہیں دوبارہ بسانے کے لیے قابل ذکر اقدامات بھی نہیں کیے ہیں۔ ان بے روزگار مسلمانوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے اور کمانے کی وجہ سے پکڑا جاتا ہے، ان کو شک کی بنیاد پر ستایا جاتا ہے تاکہ بعد میں انہیں غیر ملکی قرار دیا جا سکے۔

وملا خاتون:

کچھ وکلاء جو غیر ملکی معاملات سے نپٹ رہے ہیں، ان کی کارکردگی نہایت افسوسناک ہے۔ وہ ناسمجھی کی بنا پر غلطیاں کرتے ہیں جن کی وجہ سے شہریوں کو غیر ملکی ہونے کے شبہ کی بنیاد پر حراست میں لے کر کیمپوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہاں وملا خاتون کی مثال دی گئی ہے۔ انہیں پولیس سے نوٹس ملا اور انہوں نے وکلاء سے رابطہ کرکے خود کو ہندوستانی شہری ثابت کرنے کے لیے ضروری دستاویز فراہم کئے۔ بعد میں انہیں دو اور نوٹس ملے جن میں وکلاء انہیں ہندوستانی شہری ثابت کرنے میں ناکام رہے اور انہیں ٹربیونل کے ذریعہ غیر ملکی قرار دیا گیا۔

بعد میں پولیس نے انہیں مرکزی جیل تیج پور میں ان کے چھوٹے بیٹے کے ساتھ قید کر دیا۔ وملا خاتون چار بچوں کی ماں ہیں۔ باقی تین بچے اپنے والد کے ساتھ تھے۔ کچھ عرصہ بعد چار بچوں کے والد اور خاتون کے شوہر کا بیماری کی وجہ سے انتقال ہو گیا۔ بچے ان کے شوہر کے بڑے بھائی کے ساتھ رہنے لگے لیکن کچھ دنوں بعد ان کے بھائی کی بھی وفات ہو گئی۔ اس کے بعد سے بچے اپنے نانا-نانی (وملا کے والدین) کے ساتھ ہیں۔ وملا تیج پور جیل میں اپنے بچوں کی صحت کے لیے رو رہی ہیں۔ ان کے والدین بھی بہت غریب ہیں اور بچوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔

بچوں کو مہینے میں محض ایک بار اپنی ماں سے ملنے کی اجازت ہے۔ ہم نے جیل میں وملا خاتون سے ملاقات کی تو انہوں نے اپنی آپ بیتی سنائی۔ اپنے بچوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ رونے لگیں۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ وہ بھی جیل میں روزہ رکھ رہی ہیں۔ جیل کے افسر انہیں کھانا نہیں دے رہے ہیں۔ عیدگاہ کمیٹی روزانہ جیل میں دو سو لوگوں کے افطار کا اہتمام کرتی ہے۔ بچوں کی تعلیم رک گئی ہے۔ وہ اپنی ماں کے پیار سے دور ہیں۔ کوئی نہیں جانتا ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟انہیں کب رہا کیا جائے گا؟ اور ان بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ تو محض ایک معاملہ ہے جس کا میں نے یہاں ذکر کیا۔ آسام کے دیگر اضلاع میں ایسے کئی معاملات ہیں۔

شہریوں کی موجودہ صورت حال

آسام حکومت شہریوں کی فہرست تیار کر رہی ہے جس میں شہریوں کو دستاویزات کے ذریعہ یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ یا ان کے خاندان 24 مارچ 1971 سے پہلے ہندوستان میں رہ رہے تھے۔ وہ تاریخ جب بڑی تعداد میں لوگ بنگلادیش سے ہندوستان میں منتقل ہوئے۔ حالانکہ سبھی لوگوں کو NRC فارم پر کرنا ہے لیکن مسلمانوں اور بنگالی ہندؤوں کے لیے تصدیق کٹھن بنا دی گئی ہے۔

تقریباً 2.9 ملین خواتین جن میں بیشتر مسلمان ہیں اور تقریباً 4.5 ملین دیگر لوگ جو 13 ملین آبادی کا حصہ ہیں جنہیں 31 دسمبر 2017 کو شائع کردہ NRC مسودہ سے باہر رکھا گیا تھا۔

حقیقی ہندوستانی شہریوں کی بڑی تعداد NRC فہرست سے ہٹا دی گئی ہے جسے سپریم کورٹ کی اجازت ملنے کے بعد 30 جولائی 2018 کو شائع کیا گیا۔ اب NRC ان چالیس لاکھ لوگوں کی قسمت طے کرے گا جو آیا کہ غیر ملکی قرار دئیے جا چکے ہیں یا جن کے مقدمے سو سے زائد خصوصی عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ اس کے بعد ہزاروں لوگ جو NRC فہرست میں شامل نہ ہو سکیں گے، انہیں حراست میں لیا جائے گا، ان کے بنیادی حقوق پامال کیے جائیں گے، انہیں ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں ہوگا، وہ زمین و جائیداد کی خرید فروخت نہ کر سکیں گے اور ان کی شہریت برما کے روہنگیا مسلمانوں کی طرح ختم کر دی جائے گی۔

انصاف کے لیے دعا:

ایک طرف، کیس سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے۔ ان لوگوں کو جن کا نام NRC کی فہرست میں نہیں ہے، انہیں شناخت ثابت کرنے کے لیے ایک یا دو مہینے کا وقت دیا گیا ہے۔ صرف 100 ٹرائلونلز میں جن میں سے 89 کام کرنے والے ریاست میں ہیں، یہ عدالتیں لاکھوں شہریوں کے فیصلے کیسے کر سکتی ہیں؟ بہت سے سینئر وکلاء نے کہا ہے کہ، زیادہ تر محکمہ میں کارکنوں کو عارضی طور پر مقرر کیا جاتا ہے۔ انہیں حکومت اور نام نہاد سیاستدانوں کو مطمئن کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی ملازمت مستقل طور پر بچاسکیں۔ ایسی صورتحال میں کس طرح انصاف یقینی بنایا جا سکتا ہے؟

دوسری جانب، بنگلہ دیشی حکومت نے بنگلہ دیشیوں کی اپنی شناخت ثابت کرنے کے بعد انھیں بھارت کی طرف سے غیر ملکی قرار دیا ہے۔ حتمی این آر سی کی فہرست کے بعد آسامی شہریوں کی حالت کیا ہوگی؟ کیا آسام برما کے بعد اس کڑی میں اگلا اپیسوڈ (episode)ہوگا۔

کئی سوالات قائم کیے گئے ہیں لیکن کوئی بھی جواب نہیں دیتا ہے، آسامی شہریوں کی ایسی صورت حال کا ذمہ دار کون ہے؟ موجودہ حکومت؟ ماضی کی حکومتیں؟ یا ان غیر پڑھے لکھے لوگوں کی قسمت؟ یہ وقت ہے کہ ذمہ دار اور سماج کے تئیں حساس لوگوں کو آسام کے ہندوستانی شہریوں کے انسانی حقوق پر غور کرنا چاہئے، ان کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ ان کو عزت اور وقار کے ساتھ زندگی جینے میں مدد مل سکے۔

’’دس مجرموں کو بری کیا جانا اس بات سے بہتر ہے کہ ایک بے گناہ کو سزا دی جائے۔‘‘ یہ مشہور بیان لوگوں کو دوسروں کو معاف کرنے کی جانب راغب کرتا ہے۔ لیکن شاید یہ بیان آسام کے لوگوں پر لاگو نہیں ہوتا۔ ڈی ووٹرز کے ساتھ ساتھ این آر سی کا عمل، عوام کا غیر تعلیم یافتہ ہونا، ان کے مذہب اور زبان کی بنا پر حملوں جیسے واقعات کی موجودگی میں ان کو ایسے بیانات صرف خواب ہی نظر آتے ہیں۔

ہزاروں افراد کو صرف اپنے نام یا عمر میں غلطی کی بنا پر غیر ملکی قرار دیا جا رہا ہے، جو سرکاری حکام نے ان دستاویزات میں لکھا تھا۔ ٹائپنگ کی غلطیوں کی لاگت شہریت سے محروم ہونے کی تو وجہ نہیں ہوسکتی۔ یہ آسام اور ہندوستان کے مشرقی وسطیٰ کے علاقوں میں سماجی تانے بانے کو بگاڑنے میں رول نبھا سکتا ہے۔ موجودہ بحران دو طرفہ مسائل پر مشتمل ہے جس نے ریاست کی سماجی اور سیاسی شناخت کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا ہے – نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) اور مجوزہ شہریت ترمیم بل۔

تصویر کا دوسرا حصہ ہمیں NRC کے معاملے پر مختلف پہلوؤں پر سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ کیا آسام پہلی اور آخری ریاست ہوگی جو این آر سی کو عمل میں لا رہی ہے؟ جس میں کچھ بھی نہیں ہے بلکہ ریاستوں کے وسائل کی بربادی کے سوا! صرف ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے لیے محض اس بنیاد پر کہ لوگ دوسرے ممالک سے آسام تک منتقل کررہے ہیں۔ یہ بھی تضاد ہے کہ جب ریاستی وزیر کا کہنا ہے کہ بھارت سے باہر ہندوؤں کو آسام میں رہنے کی اجازت دی جائے گی۔

سوال تو آسام ریاست، سرحدی سکیورٹی فورسز اور فوج سے بھی ہونا چاہیے جو سپریم کورٹ کی زیر نگرانی این آر سی کو عملی جامہ پہنانے میں لگی ہوئی ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں انہوں نے لوگوں کو غیر قانونی طور پر آسام کے اندر کس طرح داخلہ دیا؟ اور سوال موجود و ماضی کی حکومتوں سے بھی ہونا چاہیے کہ ایک مخصوص کمیونٹی جو آسام کی آبادی کا ایک تہائی حصہ ہے، اتنی بڑی تعداد میں بے روزگار و غیر تعلیم یافتہ کیوں ہے؟

اس پوری منظم جدوجہد کے پیچھے کوشش ہے کہ IMDT Act 1983 کو منسوخ کر کے این آر سی کو لایا جائے اور بڑی تعداد میں شہریوں، خاص طور پر خواتین کو، غیر ملکی قرار دے کر ان کی عزت نفس اور حقوق انسانی پامال کئے جائیں۔ یہ عمل آسام میں ختم ہوجائے گا یا مشرق وسطیٰ کی دیگر ریاستوں، جہاں عیسائی اقلیتوں کی زیادہ تر آبادی ہے، اس کا شکار ہوں گے، جیسا کہ ایک قانون ساز نے کہا کہ ’’مشرقی وسطیٰ بھارت میں اگر شہریت ترمیم بل نافذ ہو جائے تو یہ ایک قسم کا ڈمپ یارڈ بن جائے گا۔‘‘

یہ ممکن ہے کہ یہ NRC عمل مغربی بنگال، بہار، جھارکھنڈ (جہاں اقلیتی آبادیاں غربت کی حد سے نیچے ہیں اور ہم ان کی تعلیمی حیثیت کے بارے میں تصور نہیں کرسکتے ہیں) میں شہریوں کی تصدیق کے لیے استعمال کیا جائے۔ آسام میں دوسرے درجے کے شہریوں پر ہونے والے تجربات میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے کیونکہ آسام اب تجربات کی لیب بن چکا ہے۔

ریاست اور حکمرانوں کے فیصلے کے بعد احتجاج کرنے کا وقت گزر چکا ہے، اب ضرورت ہے کہ منصوبہ بندی کر کے، حکمت عملی اور اعتماد کے ساتھ عملدرآمد، چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی، تاکہ مستقبل امن و سکون چاہنے والوں کے ہاتھ میں ہو۔

’’وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ منکرینِ حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کر دیں وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔‘‘(الانفال:۳۰)

(مضمون نگار ایس آئی او آف انڈیا کے نیشنل سیکرٹری ہیں۔)

ستمبر 2018

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں