اولڈ ایج ہوم – جدید مغربی تہذیب کا غریب حصہ ہے!

ایڈمن

عرفان شاہد اولڈ ایج ہوم کی شروعات کیسے ہوئی اور کب ہوئی اور اس کا موجد کون ہے ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے لیکن قرائین سے پتہ چلتا ہے کہ اولڈ ایج ہوم کی ابتداء یورپ سے ہوئی ہے۔ اس…

عرفان شاہد

اولڈ ایج ہوم کی شروعات کیسے ہوئی اور کب ہوئی اور اس کا موجد کون ہے ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے لیکن قرائین سے پتہ چلتا ہے کہ اولڈ ایج ہوم کی ابتداء یورپ سے ہوئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ نیوکلیر فیملی سسٹم ہے اور دوسری وجہ مادی دنیا میں غرق ہو جاناہے۔
درج ذیل اشعار یورپ کےتہذیب کی عکاسی کرتی ہیں۔

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا

یورپ کی ترقی سے کسی کو انکار نہی ہے لیکن علامہ اقبال کا یہ شعر یورپ کی اس سائنسی ترقی کو سمجھنے میں ہماری کافی حد تک مدد کرسکتی ہے۔ یورپ میں جوسائنسی ترقی ہوئی اسکا دارومدار ظنی علوم (Experimental Knowledge) پر ہے۔ قران کریم بھی انسان کو ظنی علوم کے حصول پر ابھارتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ قطعی علم (Revealed Knowledge)سے چمٹنے رہنے کی ہدایت دیتا ہے۔ والدین کی خدمت کیوںکرنی چاہیے ؟ اسکا جواب صرف قطعی علم میںموجود ہے جو قران میں مضمر ہے۔ سائنس نے انسان کو خلاء میں چلنے کا ہنر سکھا دیا، لیکن بازار میں کیسے چلنا چاہیے، والدین کے ساتھ کیسا برتاو کرنا چاہیے؟ انسان اس ہنر اور سلیقے سے عاری رہ گیا۔ اخلاقیات کا علم صرف اللہ کی کتاب اور پیغمبر کی سنت میں مضمر ہے۔ یورپ نے ظنی علوم کو سیکھنےاور سکھانے کے لیے بے دریغ پیسہ خرچ کیا لیکن شہوانی خواہشات کی تسکین، والدین کے ساتھ حسن و سلوک کا سلیقہ سکھانے سے قاصر رہا۔

اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، لیکن بنیادی وجہ یہ ہے کہ یورپ نےاپنی نسل کو دینی علوم سے بہت دور رکھا۔ عیسائی مذہب کو یورپ میں مرکزی حیثیت حاصل ہے لیکن اسکا عمل دخل صرف کچھ تیوہار وغیرہ منا لینے تک ہی محدود ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ عیسایت میں اس قدر تدلیس ہے کہ وہ اپنی نسل کو دین پر گامزن کرنے سے قاصرہے۔ موجودہ نسل دین اور خدا کے تصور کو بہت حقیر سمجھتی ہے۔چنانچہ موجودہ نسل کچھ معاملات میں اخلاقیات سے عاری ہیںجن کا تعلق دین سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ والدین کو اولڈایج ہوم میںڈال دیتےہیں۔یورپ میں جو کتابیں اخلاقیات کے نام پر اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہیں اس میں والدین کے حقوق کے تعلق سے کوئی باب نہیں۔یورپ بالخصوص برطانیہ میں بچےوالدین کی ملکیت نہیں ہوتے، عموما وہاں بچوں کی رائے والدین کے متعلق ایک نرس جیسی ہوتی ہے، جسکی ذمہ داری بچوں کی تیمارداری کرنا ہوتا ہے۔ نیز والدین کو بھی بچے پیدا کرنے اور انکی پرورش کرنے کی کوئی خواہش نہی ہوتی ہے لیکن بسا اوقات وہ قدرت کے نظام کے سامنے بے بس ہوجاتے اور اسطرح سے کچھ بچے پیدا ہو جاتے اور جن کے کھانے پینے،رہنے سہنے اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری حکومت پر ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بچے نہ ہی والدین کی بات مانتے اور نہ ہی انکی عزت کرتے ہیں۔

والدین بچوں کو غلط کام پر ڈانٹنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ اور بچوں کو بھی زمانے کا رنگ دیکھ کر یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ ان کی پیدایس ایک اتفاقیہ عمل ہے اس میں ان کے والدین کا کوئی اہم رول نہیں ہے۔ عموما والدین بھی دو سے زائد بچوں کی پرورش کرنے سے کتراتے ہیں۔ والدین کے اس عمل سے بچوں کو بھی یقین ہو جاتا ہے کہ ان کے والدین ان کے متعلق کچھ مثبت سوچ نہیں رکھتے۔ چنانچہ جب یہ والدین ضعیف ہو جاتےہیں اور بچے والدین کو بوجھسمجھنے لگتے ہیں اور بچے اس بوجھ سے چھٹکارہ پانے کے لئے اپنے والدین کو اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آتے ہیں۔ کبھی کبھار سال میں ایک مرتبہ تیوہار کے موقع پر رسماََ ملاقات کر لیتے ہیں۔ یہ والدین بلک بلک کر اولڈایز ہوم میںانتقال کر جاتے ہیں۔

یورپ میں بسنے والےایشیائی اور افریقی نژاد لوگ اس تہذیب سے دور تھے لیکن رفتہ رفتہ وہ بھی اس تہذیب کا حصہ ہوتے جارہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اسلام سے دوری ہے۔ اس میں مساجد کا بھی کچھ رول ہے۔ آپ کوراقم الحروف کے اس جملے سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن راقم الحروف کی یہ راے اس کے ذاتی تجربہ پر منحصر ہے۔ یہ کسی کتاب اور مضمون کا چربہ نہیں ہے۔ یہ ایک تاریخ ہےکہ انیسویں صدی میں بے شمار گرجا گھروں کو مسجدوں میں تبدیل کیا گیا۔چرچ کا مسجدوں میں تبدیل ہونا بڑی خوشی کی بات ہے لیکن ساتھ میں تاسف کا بھی مقام ہے۔ ہمیں اس سے سبق لینا چاہیے۔

قران مجید بار بار اسکی تلقین کرتا ہے۔عیسائی مذہب کے جدید عقیدے کے مطابق چرچ کو بیچا جا سکتا ہے۔ یورپ میں جب رفتہ رفتہ مذہب بیزاری کا رجحان شروع ہو تو نوجوانوں نے چرچ جانا بند کردیا۔ چرچ کافی عرصے سے بند تھے۔چنانچہ چرچ کے ذمہ داران نے چرچوں کو بیچنا شروع کیا۔مسلمانوں نے اس موقع کو کافی سنہرا تصور کیا اور بند چرچوں کو خرید کر مسجدوں میں تبدیل کرنا شروع کردیا۔اسطرح سے یہ سلسلہ ایک عرصے تک جاری رہا۔مسلمانوں نے یورپ میں بے شمار مسجدیں تعمیر کر لیں۔یہ سلسلہ جب نیا تھا لوگ مسجدوں میں خوب جایا کرتے تھے لیکن اب یہ سلسلہ رفتہ رفتہ کمزور پڑ تا چلا جارہا ہے۔ مسجدیں خالی رہنے لگی ہیں۔ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مسجدیں عبادت گاہ کے ساتھ تربیت گاہ بھی ہیں۔

اللہ کے رسولؐ مسجد نبوی میں عبادت کے ساتھ لوگوں کی تربیت بھی کرتے تھے لیکن نیم خواندہ حضرات جو کسی طریقے سے مسجدوں کے ٹرسٹی بن گئے ہیںانہیں کچھ معلوم نہیں کہ بچوں کی تربیت کیسے کی جائے اور کہا ں کی جائے۔ ایسے لوگ یورپ کی بےشمار مسجدوں میں کم عمر کے بچوں کو آنے سے منع کرتے تھے۔نتیجتاََان بچوں کی دلچسپیاں بدلتی گئیں، اور ایسے ہی بچے بڑے ہوکر مسجدوں سے بدظن ہوتےجارہے ہیں۔ بچے بڑے ہونے کے بعد اپنے والدین کو بھی اولڈایج ہوم کے سپرد کررہے ہیں۔میں نے بہت سارے ایسے والدین کو روتے ہوئے دیکھا ہے۔ درمیان تعلیم راقم الحروف خود اولڈ ایج ہوم میں کام کرچکا ہےاور یورپ کی بے شمار ایسی مسجدوں میں نماز پڑھ چکا ہے جہاں جلی حروفوں میں بچوں کو مسجد میں لانے پر پابندی کا پیغام لکھا ہے۔ ایسی مسجدوں میں لوگ اس شخص کو گھور کر دیکھتے ہیں جو سہواََ چھوٹے بچے کو مسجد میں لے آئے۔

یہ سلسلہ اب ہندوستان بھی میں شروع ہوگیا ہے۔ شہروں میں بسنے والے لوگ اپنے بوڑھے والدین کو اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہتے ہیں۔بعض پڑھی لکھی عورتیں بھی شوہر کے والدین کو ساتھ میں نہیں رکھنا چاہتی ہیں۔طرح طرح کے بہانے تلاش کرتی رہتی ہیں۔ میرے پاس دعوت تبلیغ سے وابستہ عورتوں کے کئی مسائل آئے، جو اپنے بوڑھے ساس اور سسر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھیں۔ و جہ د ریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ بوڑھے ساس سسر کی خدمت کو اپنا بنیادی فریضہ تصور نہیں کرتیں۔ چنانچہ وہ شوہر کے بوڑھے والدین کو اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہتی ہیں۔ دوسری اہم وجہ ہے کہ میاں بیوی دونوںنوکری پیشہ ہوتے ہیں، لہذاوالدین کی خدمت کرنے کا موقع نہیں مل پاتا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ شہروں میں لوگوں کے پاس کشادہ مکان نہیں ہوتے۔ شہروں میں مکان مہنگے بھی ہوتے ہیں۔ ہر آدمی خریدنے کا متحمل نہی ہوسکتاہے۔ لہذا بوڑھے والدین کو علیحدہ رکھتے ہیں۔ یہی ساری وجوہات ہیں جس کی وجہ سے لوگ اپنے بوڑھے والدین کو اولڈایج ہوم میں رکھنا چاہتے ہیں۔

کچھ لوگ اسے ترقی کی علامت سمجھتے ہیںلیکن حقیقت میں یہ تنزلی ہے۔ ہمیں اپنی آنے والی نسل کو اس بچانا ہوگا۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں