انسانیت کا جلوہ

0

محمد اکمل فلاحی

مولانا الطاف حسین حالیؒ محبت وخلوص اور شفقت کے پیکر تھے۔خصوصاً چھوٹے بچوں سے انھیں بڑی محبت تھی۔ خاندان میں کوئی بچہ پیدا ہو تا تو جاکر اسے دیکھتے، اٹھاکر اسے پیار کرتے اور گود میں لے کر اسے بیٹھے رہتے۔ ننھے بچے اکثر ان کے پاس آتے، کھیلتے،شور مچاتے، انھیں تنگ کرتے۔ لیکن مولانا ان سے پریشان نہ ہوتے۔ ایک مرتبہ وہ تانگے میں بیٹھے گزر رہے تھے کہ دیکھا کہ ایک جگہ لوگ جمع ہیں۔ایک مہتر کا بچہ نالی میں گر کر کیچڑ میں لت پت پڑا ہے۔ وہ چلا رہا ہے۔ مگر لوگ اسے دیکھ کر رام رام کررہے ہیں۔ کوئی اسے نہیں اٹھاتا۔ آپ نے اسے نالی سے باہر نکالا۔ اس کے کپڑے اتارے۔ گندگی صاف کی۔ اس کا پتہ معلوم کرکے اسے اس کے ماں باپ تک پہنچایا۔ چلتے ہوئے انھوں نے لوگوں سے کہا تھا:”جس رام کانام آپ جَپ رہے تھے اگر چاہتے تو اسی رام کا جلوہ اس بچے میں آپ کو نظر آجاتا“۔

یہی تو ہے انسانیت!  یہی تو ہے مروّت!  یہی توہے شفقت!  یہی تو ہے محبت!  یہی تو ہے ہم دردی!  یہی تو ہے درد مندی!

جس کی  اعلیٰ مثال مولانا الطاف حسین حالیؒ نے پیش کی۔لوگ تماشائی بنے رہے انھوں نے بچے کو نکال کر ”تماشا“ ختم کردیا۔۔۔آج ایسے لوگ سماج سے ”کَم“ ہوتے جارہے ہیں۔۔۔آج ایسے لوگ سماج سے”گُم“ ہوتے جارہے ہیں۔۔۔آج سماج کو ایسے ہی ”باکردار“لوگوں کی تلاش ہے!

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights