انتخابی سیاست کی تاریخ اور موجودہ منظرنامے پر ایک نظر

ایڈمن

ذیل میں ملکی سیاست کے موجودہ منظرنامے پر سینئر صحافی چیف ایڈیٹر سہ روزہ دعوت جناب پرواز رحمانی کی ایک اہم تحریر پیش ہے۔ موصوف نے یہ تحریر فی الواقع سہ روزہ دعوت کے جائزہ نمبر کے لیے تیار کی تھی۔ تاہم اس کی افادیت کے پیش نظر اسے رفیق منزل میں دوبارہ شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔ ( ادارہ)
لوک سبھا کے یہ(۲۰۱۴ ؁ء) تیسرے انتخابات ہیں جب بڑی سیاسی پارٹیوں کے سامنے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ بڑامسئلہ طرزِ معیشت کا مسئلہ ہوتاہے۔ چونکہ اس مسئلے پر دونوں بڑی پارٹیاں، کانگریس اور بی جے پی، ایک ہیں، دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں، لہٰذا مسئلہ اب صرف یہ ہے کہ اس سرمایہ دارانہ پالیسی کو کون بہتر طورپر نافذ کرسکتا ہے۔ ۲۰۰۹ ؁ء اور اْس سے پہلے ۲۰۰۴ ؁ء میں بھی یہی صورت تھی۔ بلکہ زیادہ سچ یہ ہے کہ ۱۹۹۰ ؁ء کے بعد سے، جب سے کہ عالمی معاشی منظرنامے پر سوویت یونین کی شکست ہوئی، اس کے ساتھ ہی سردجنگ بھی بند ہوئی اور امریکہ کے لئے پوری دنیا پر اپنا معاشی کلچر مسلط کرنے کا راستہ صاف ہوگیا، اِس ملک میں معاشی پالیسی کوئی اِشو نہیں رہا۔ کانگریس اور اس کی حکومت نے سوویت یونین کے اثرات سے نکل کر امریکی دائرۂ اثر میں جانے اور اس کاطرزِ معیشت و ثقافت اختیار کرنے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی۔ ۱۹۹۱ ؁ء میں پی وی نرسمہاراؤ کی حکومت میں ڈاکٹر من موہن سنگھ نے وزیر مالیات کی حیثیت سے نئی معاشی پالیسی کے خدوخال وضع کئے جن میں ورلڈ بینک کے مونٹیک سنگھ اہلووالیہ نے ان کی مدد کی اور وہی پالیسی آگے بڑھ کر مستحکم سے مستحکم ہونے لگی۔ بھارتیہ جنتارپاٹی اس پالیسی کی مخالفت کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی کیوں کہ وہ ۱۹۵۲ ؁ء میں اپنے نقش اول جن سنگھ کے قیام کے اول روز سے اِسی معاشی پالیسی پر گامزن ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ یہ پارٹی جن قدیم سماجی روایات کی حامل ہے، ان کے تحت انسانوں کو پیدائشی طورپر منقسم کرکے جملہ مالی وسائل ایک مخصوص زمرے کے ہاتھوں میں دے دئیے جاتے ہیں۔ البتہ وہ اپنی یہ سماجی اور معاشی پالیسی کچھ دوسرے عنوانات اور نعروں کی آڑ میں نافذ کرنے کی کوشش کرتی رہی اور آج بھی کررہی ہے۔اس کے مقابلے میں راجہ جی (چکرورتی راج گوپال آچاریہ) کی سوتنتر پارٹی زیادہ صاف اور دیانتدار تھی۔ اس نے اپنی امریکہ نوازی کو کبھی نہیں چھپایا۔
۱۹۹۶ ؁ء میں نرسمہاراؤ کی حکومت کے بعد تھوڑا وقفہ ایسا ضرور گزرا جب وی پی سنگھ کی سرگرم کوششوں سے مرکز میں پہلے ایچ ڈی دیوے گوڑا اور پھر آئی کے گجرال کی سرکاریں قائم ہوئیں۔ وی پی سنگھ سماجی مساوات اور بائیں بازو کے معاشی رجحانات کے حامل تھے اس لئے ان دونوں سرکاروں میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا بھی شریک تھی جو آزادی کے بعد اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ لہٰذا سرمایہ داروں اور سماجی عدم مساوات کے علمبرداروں نے ان سرکاروں کو چلنے نہیں دیا۔۱۹۹۹ ؁ء میں اٹل بہاری باجپئی حکومت نے نرسمہاراؤ اور منموہن سنگھ کی پالیسیوں کو پھر سنبھال لیا۔ اب صورت یہ ہے کہ ملک کی سیاسی، معاشی، ثقافتی اور خارجہ پالیسیوں کے سوال پر کانگریس اور بی جے پی کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مقابلہ اس میں ہے کہ اِن پالیسیوں کو کون بہتر طورپر روبہ عمل لاتا ہے۔ دونوں پارٹیوں کی امریکہ نوازی کا عالم یہ ہے کہ اپنے اقدامات اور بیانات کے ذریعے ہر پارٹی خود کو زیادہ امریکہ نواز ثابت کرنا چاہتی ہے۔ ملک میں اشتراکی تحریک دم توڑچکی ہے۔ اب ان پارٹیوں کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ تھوڑا بہت ظاہری اختلاف داخلہ پالیسی میں ہے لیکن وہ بھی محض طریق کار کا فرق ہے۔ سماجی اکائیوں کی طرح مذہبی اقلیتوں کے تعلق سے بھی دونوں کا ایجنڈا ایک ہے۔ ایک پارٹی شور شرابے اور علانیہ تخریبی کارروائیوں کے ذریعے اسے نافذ کرنا چاہتی ہے، جب کہ دوسری دکھاوے کی محبت اور نرمی سے وہی مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔
تین سالہ نقشہ
۲۰۰۹ ؁ء کے انتخابات کے بعد دو سال تو کانگریس کے بخیر گزرے لیکن گزشتہ تین سال کا نقشہ یہ رہاکہ اس کی قیادت والی مخلوط حکومت اپنے لگاتار اسکینڈلوں اور کانگریس اپنی حلیف پارٹیوں کی بے کرداری کی وجہ سے کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ ظاہر ہے کہ اس کا فائدہ اس کی حریف پارٹی نے اٹھانا ہی تھا۔ حالانکہ اِس پہلو سے اس کا چھ سالہ دورِ حکومت بھی کوئی اچھا نہیں رہاتھا، تاہم کسی اور پارٹی کے میدان میں نہ ہونے کی وجہ سے اسے بہرحال موقع مل گیا۔ کوئی سنجیدہ لیڈر نہ ہونے کی وجہ سے اس نے گجرات کے وزیراعلیٰ کو آگے بڑھایا اور اپنے سرپرست سرمایہ داروں اور ان کے میڈیا کی مدد سے وزیراعلیٰ کی صورت گری شروع کردی۔ تین اسمبلیوں کے حالیہ انتخابات میں نمایاں کامیابی سے بھی بی جے پی کو کافی حوصلہ ملا۔ لہٰذا آج اگر اس کے لیڈروں کی جارحانہ بیان بازی اور ٹی وی چینلوں اور انگریزی و ہندی اخباروں کی اس کے حق میں طوفانی رپورٹنگ کو نظرمیں رکھاجائے تو کانگریس کہیں نظر نہیں آتی۔ علاقائی پارٹیاں اور ان کے قائدین اپنے اپنے مفادات میں گم ہیں۔ ویسے بھی علاقائی پارٹیوں کو نیشنل اشوز سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، نہ اِن معاملات کا فہم ہوتا ہے۔ ان کے لئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ سینٹر میں کون برسراقتدار آتا ہے۔ ریاستوں میں کانگریس اور بی جے پی سے مقابلہ وہ صرف اپنے علاقائی مفادات کی بنیاد پر کرتی ہیں۔ (بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ ان کے لیڈر صرف اپنے ذاتی، خاندانی اور گروہی مفادات دیکھتے ہیں۔)
ایک طوفان کی آہٹ
اس طرح سیاسی حالات اسی رخ پر جارہے تھے جس رخ پر اس ملک کی رولنگ کلاس، یعنی وہ غیرمرئی قوت جو بظاہر حکومت میں نظرآتی ہے، نہ کسی پارٹی میں، لیکن اپنے غیرمعروف افراد کے ذریعے ملک کا پورا نظام چلاتی ہے، دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ کلاس مطمئن تھی کہ اب اس کے سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچے کو کہیں سے کوئی خطرہ نہیں۔ دونوں بڑی پارٹیوں کو چونکہ یہی کلاس کنٹرول کرتی ہے لہٰذا اس کے لئے یہ بھی کوئی مسئلہ نہیں کہ کانگریس آتی ہے یا بی جے پی۔ البتہ گزشتہ دو سال سے وہ بی جے پی کے لئے کام کررہی ہے جو اس کی پہلی پسند ہے___ رولنگ کلاس اور اس کی ڈیپ اسٹیٹ ملک کا یہ منظرنامہ بڑے سکون کے ساتھ دیکھ رہی تھی کہ دارالحکومت میں اچانک کچھ جوشیلے افراد کا ایک گروہ عام شہریوں کے مفاد کے نعرے لگاتاہوا اٹھتاہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ملکی سیاست میں اتھل پتھل کردیتاہے۔ ابتدا میں کوئی بڑی پارٹی اسے سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ بلکہ بی جے پی اسے کانگریس کے خلاف استعمال کرنے کے منصوبے بناتی ہے، یہ اس لئے بھی کہ دہلی میں عام آدمی پارٹی کا پہلا ہدف بھی کانگریس اور اس کی ریاستی سرکار ہوتی ہے۔ لیکن ۸؍دسمبر کی دوپہر کو (دہلی کے نتائج آنے کے بعد) بی جے پی کے حلقوں میں سراسیمگی پھیل جاتی ہے۔ بڑی وجہ یہ تھی کہ مدھیہ پردیش، ۳۶گڑھ اور راجستھان کی طرح دہلی میں بھی اس پارٹی کو زبردست کامیابی کی توقع تھی، لیکن عام آدمی پارٹی نے اس کا کھیل بگاڑ دیا۔ پارٹی کو اول الذکر تین ریاستوں میں کامیابی کی اتنی خوشی نہیں تھی، جتنا غم دہلی میں ناکامی کاتھا۔ سب سے بڑا صدمہ اور سنگین اندیشہ پارٹی کو اس بات کا تھا کہ میڈیا میں اس کے متوقع وزیراعظم کی پبلسٹی پر یکسربریک لگ گیاتھا۔ ٹی وی چینلوں پر ایک مخصوص چہرے اور نام کی جگہ اروند کیجری وال کے چہرے اور نام نے لے لی تھی۔ پورے میڈیا پر کیجری وال اور عام آدمی پارٹی کاغوغہ تھا۔ یہ چیز دہلی سے نکل کر ملک گیر رخ اختیار کرتی جارہی تھی، حتیٰ کہ انٹرنیشنل میڈیا میں بھی اس کے تذکرے تھے۔ چینلوں کو کیجری وال کی ہرادا بھارہی تھی، ہر انداز موضوعِ بحث تھا، اروند کی کھانسی کی نوعیت پر ڈاکٹروں سے بائٹس لی جارہی تھیں۔ میڈیا کا یہ شور بمشکل ایک ماہ رہا۔ پھرجنوری کے پہلے ہفتے میں، جب نئی سرکار کی عمر تین یا چار دن کی ہوئی تھی، میڈیا کا رخ اچانک بدل گیا جس کی وجہ بہ آسانی سمجھی جاسکتی ہے۔ ٹی وی نیوز چینلوں اور اخباروں کو چونکہ بڑے بڑے بزنس ہاؤس کنٹرول کرتے ہیں جو بی جے پی اور اس کے متوقع وزیراعظم کے سب سے بڑے حامی ہیں، لہٰذا انھوں نے خطرے کی بو محسوس کرکے میڈیا کو اپنے حق میں سیدھا کردیا۔ اروند کیجری وال اور عام آدمی پارٹی کا شور میڈیا ایک ماہ تک اس لئے مچاتارہاکہ مالکان کی جانب سے چھوٹ یا ڈھیل تھی، کوئی واضح ہدایت نہیں تھی۔ لیکن جب ہدایت آئی تو پیڈ میڈیا کے ایڈیٹروں، اینکروں اور رپورٹروں نے اپنا لہجہ یکسر بدل دیا۔ ایک ماہ کا بریک ختم ہوا اور میڈیا کی گاڑی پہلے کی طرح بی جے پی اور اس کے خوابوں کے وزیراعظم کی لائن پر آگئی۔ اس وقت صورت یہ ہے کہ میڈیا کا سب سے بڑا دشمن، ویلن اور ناپسندیدہ شخص اروند کیجری وال ہے۔ اس کی خوبیوں کو بھی خامیاں بناکر پیش کیاجارہا ہے۔ ہرہر قدم پر کیجری وال کا تعاقب ہے۔ بالکل وہی منظر ہے جو ۱۹۹۰ ؁ء میں وی پی سنگھ کی حکومت کی جانب سے منڈل کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کے اعلان کے بعد پیداہوا تھا، اور وہی وی پی سنگھ، جن کو راجیوگاندھی کے آخری دور میں، ۱۹۸۹ ؁ء کے انتخابات کے دوران اور جنتادل سرکار بننے کے بعد میڈیا نے سر آنکھوں پر بٹھارکھاتھا، سنگھ کے حلقوں اور میڈیا کے معتوب ترین شخص بن گئے تھے، اس لئے کہ ان کے اعلان سے رولنگ کلاس نے اپنے قائم کردہ سماجی نظام کو خطرہ محسوس کرلیاتھا۔کیجری وال اور عام آدمی پارٹی کے ساتھ یہ ظالمانہ سلوک کرکے بی جے پی اور اس کے سرمایہ دار سرپرستوں نے ملک کو یہ پیغام بھی دے دیاکہ ان کے منصوبوں میں جو بھی حائل ہونے کی کوشش کرے گا، اس کے ساتھ یہی کیاجائے گا۔
عام آدمی پارٹی
عام آدمی پارٹی کے خدوخال ابھی واضح نہیں ہیں۔ اگرچہ اس نے ملک گیر سیاسی پارٹی بننے اور لوک سبھاکے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کردیا ہے لیکن نیشنل اشوز میں ابھی اپنی رائے نہیں دی۔ کرپشن کامسئلہ بھی اس نے ابھی صرف نچلے درجے کے سرکاری افسروں اور ملازمین کی سطح پر ہی اٹھایا ہے۔ کچھ شعبوں میں بڑی کمپنیوں کے طریق کار کے خلاف ضرور بول رہی ہے لیکن اس سلسلے میں بنیادی سرکاری پالیسیوں پر خاموش ہے۔ اس لئے ابھی کچھ نہیں کہاجاسکتاکہ یہ پارٹی آگے کہاں تک جائے گی۔ اگروہ اپنے اعلانات اور دعووں میں مخلص ہے تو رولنگ کلاس کے حربوں کی مزاحمت کس حد تک کرسکے گی کیوں کہ بدعنوانی کا یہ نظام رولنگ کلاس کی سرپرستی میں چل رہاہے اور وہ اسے برقرار رکھنا چاہتی ہے؛ ویسے بھی یہ پارٹی جذباتی لوگوں کا گروہ ہے۔ اس میں بھی ہرطرح کے لوگ ہیں۔ کچھ وہ لوگ بھی آگئے ہیں جنھیں سیاسی اچھل کود کے لئے کوئی پلیٹ فارم چاہیے تھا۔ اروند کیجری وال ، پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو جیسے چند ہی سنجیدہ لوگ ہیں۔ لیکن اِس حقیقت کو بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا کہ دہلی میں یہ پارٹی اپنے نعروں اور اقدامات کی وجہ سے عام شہریوں کی امنگوں کی ترجمان بن کر ابھری ہے۔ چار اسمبلیوں کے حالیہ انتخابی نتائج کا سب سے بڑا اور واضح پیغام یہی ہے کہ عام رائے دہندگان تیسرا متبادل چاہتے ہیں۔ مدھیہ پردیش اور ۳۶؍گڑھ میں انھوں نے کانگریس کو متبادل نہیں گردانا۔ راجستھان میں کانگریس کے متبادل کے طورپر ان کے سامنے صرف بی جے پی تھی، یعنی عوامی رائے منفی تھی۔ لیکن دہلی میں انھیں جیسے ہی ایک متبادل دکھائی دیا، انھوں نے دونوں بڑی پارٹیوں کو مستردکردیا۔ پھر جس طرح عام آدمی پارٹی کے حق میں ملک گیر سطح پر فضا بننے کے آثار نظر آئے، رولنگ کلاس اور اس کی دونوں پارٹیوں کے لئے یہ چیز ناقابلِ برداشت ہوگئی۔
متبادل کی جگہ خالی ہے
عام آدمی پارٹی کے اس غیریقینی مستقبل کے پیش نظر کہاجاسکتاہے کہ ملکی سیاست میں تیسرے متبادل کی جگہ اب بھی خالی ہے۔ اسے پْرکرنے کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں:
۱) عام آدمی پارٹی کو آزمانے کا رسک لیاجائے۔
یا ۲) ریاستی اور مقامی سطحوں پراچھے اور باکردار افراد کو متحرک کیا جائے۔
لیکن ظاہر ہے کہ یہ آسان نہیں، صبر آزما کام ہے۔ ۲۰۱۴ ؁ء کے انتخابی عمل پر تو اس طریقے سے اثرانداز ہوا ہی نہیں جاسکتا، کرنے کا یہ مستقل کام ہے ___ فوری ضرورت آئندہ عام انتخابات پر مثبت طریقے سے اثرانداز ہونے کی ہے۔ لہٰذا وہ پارٹیاں اور سوشل گروپ جو ملک کی سیاست کو بْرائیوں سے پاک کرکے اعلیٰ سیاسی اقدار کو فروغ دینا چاہتی ہیں، اگر مل بیٹھ کر کچھ کرسکیں تو اچھا ہے یہ ایک تجربہ ہوگا۔ ۲۰۱۴ ؁ء کے نتائج جو بھی برآمد ہوں، یہ کام ہوناچاہیے۔ ملک کو ہمہ گیر خطرات سے بچانے کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے۔

فروری 2014

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں