امیر و مامور کے سلسلے میں قائم شدہ تصورات کا جائزہ

0

جویریہ ارم، نظام آباد

ؐ اجتماعیت اور امدادِ باہمی کے بغیر کوئی معمولی مقصد بھی پورا نہیں ہو سکتا ہے، امیر و مامور کا تصور ہر نظریہ کے حامل، ہر حامل مذہب یا بے دین طبقے میں پایا جاتا ہے۔ لیکن اسلام کا تصورِ امیر و مامور بنیادی طور پر ہی دوسرے تصورات سے مختلف ہے، اسلام کا سیاسی نظریہ اللہ کی حاکمیت ِ اعلیٰ کا مظہر ہونا چاہئے نا کہ صرف لفظی عیاشی۔ اسلام کے سیاسی ڈھانچے سے جدا گانہ صورت گری ہمیشہ تحریکات کولے ڈوبتی ہے۔ بعض لوگ اس نظام کو محض لفظی طور پر اقرار کرتے پھرتے ہیں ، مگر اس کے مرکزی تصور سے گریز کی راہیں تلاش کرتے ہیں اس سے اسلام کے سیاسی نظام کی حقیقی روح فنا ہوجاتی ہے۔ سید قطب شہیدؒ لکھتے ہیں کہ میں ان لوگوں کو غلط فہمی کا شکار سمجھتا ہوں جو کہتے ہیں کہ اسلامی نظام اصل میں اسلامی سوشلزم ہے یا اسلامی جمہوریت ہے، اسلام کے نظامِ سیاسی کے چار بنیادی اصول حاکمیت الہ ، عدل من الحاکم ، اطاعت فی المعروف اور شوریٰ ہے۔

حاکمیت الہ:۔

لیڈر کو مطلق العنانی کے ساتھ کام کرنے کاحق نہیں ہے، بلکہ اس کو لازماً اس قانونِ خداوندی کے تحت رہ کر ہی کام کرنا چاہئے اور موجودہ دور کی اسلامی تحریکات کی اکثریت اسی نظام پر چلتی ہیں۔ قولاً تمام اس کے پابند نظر آتے ہیں، بعض افراد یا چند ایک ادارے وغیرہ ہی کسی جاہ و جلال کے چکر میں ہوں گے۔

عدل من الحکام:۔

سورۃ المائدہ میں آیا ہے ’’ جو اللہ کی نازل کردہ وحی سے فیصلہ نہیں کریں گے تو ایسے لوگ ہی ظالم ہیں‘‘یعنی ہر فیصلہ جو کتاب اللہ کو نظر انداز کر کے کیا جائے چاہے انسان اسے عدل تصور کرلے لیکن وہ ظلم ہے اور ساتھ ہی عدل کو عدل بین الناس ہونا چاہئے۔ سورۃ شوریٰ میں ہے ’’اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان عدل کروں‘‘۔ حدیث میں آیا ہے کہ ’’ تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں وہ اسی وجہ سے فنا ہوئیں کہ وہ لوگ کم تر درجے کے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دیتے تھے اور اونچے درجے والوں کو چھوڑ دیتے تھے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے اگر محمدؐ کی اپنی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ اکثر یہاں عدل کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا نظر آتا ہے، کئی تحریکات ان کے حلقے، مختلف تنظیمی کاموں و ذمہ داریوں کی تفویض کرتے ہوئے ذاتی پسندیدگی کی بنا پر فیصلے کرتے ہیں جب کہ فیصلے دلیل کی بنیاد پر ہوتے ہیں نہ کہ کسی رعب و اثر ، کسی مفادکی پاسداری یا کسی جتھہ بندی کی بنیاد پر۔

اس طرح کے فیصلوں کے بعد دیکھنے میں آیا ہے کہ سوشل میڈیا گروپس اور مختلف خفیہ میٹنگس میں کارکنوں کا غصہ نکلتا ہے، اس سے کہیں زیادہ نقصان مامورین کے ذاتی معاملات میں عدل کی عدم دستیابی سے پیدا ہوتا ہے ۔ وراثت کی تقسیم ، مال و دولت کے معاملے ، ازدواجی مسائل اس طرح کے معاملات جب دینی تحریکات سے وابستہ افراد اپنے قائدین کے پاس لے آئیں تو ان کے پاس پیش کردہ وثائق ، دستخطیں ، دستاویز انگھوٹھے کے نشان کے لئے کوئی پیمانہ نہیں ہوتا ، بیویوں اور بہوئوں پر ہوئے ظلم و جبر کی تصدیق کا بھی کوئی خاطر خواہ طریقہ نہیں ہوتا اور وعظ و نصیحت کے بعدوقتی طور پر معاملات طئے بھی ہوجائیں تو جماعت سے بغض اور نفرت اندر ہی اندر پیدا ہوجاتی ہے اس طرح کے بیسوں واقعات qouteکئے جا سکتے ہیں ۔ اگر یہ لوگ انصاف کے حصول کے لئے عدالت جائیں تب خواتین کو کسی سیاسی سازش کا نشانہ بنا کر عدالتوں میں شریعت کو بدلنے کی کوشش کی جاتی ہیں، مناسب یہی ہے کہ کم از کم فوجداری معاملات سے خصوصاً خواتین کے حوالے سے تو دینی جماعتوں کو چاہئے کہ خود ہی عدالت میں فوجداری مقدمہ لڑنے کے لئے مناسب رہنمائی کریں تاکہ انصاف کی بھی سبیل بنے اور شریعت پر منڈ لاتے خطرات بھی مٹ جائیں ۔ انصاف کے بغیر نہ معاشرے اور نہ ہی خاندان ٹہر پاتے ہیں۔

شورائیت:

تنقید اور اظہارِ رائے کی آزادی اور قائدکا ہر وقت کارکنوں کی دسترس میں ہونا، اہلِ شوریٰ کے درمیان بیٹھنا ، مباحثوں میں حصہ لینا ، آزادانہ فضا میں ہر شریکِ مجلس اپنے ایمان و ضمیر کے مطابق رائے دینا ، شورائیت ہے بلکہ ہر شخص کو انھیں ٹوکنے ، ان پر تنقید کرنے ، ان سے محاسبہ کرنے کی بھی آزادی ہونی چاہئے۔ خلافتِ راشدہ میں لگی بندھی شوریٰ ہی نہیں بلکہ ہر عام آدمی کی دسترس اپنے خلیفہ تک ہوا کرتی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنی خلافت کی پہلی تقریر میں علی الاعلان کہہ دیا کہ اگر میں سیدھا چلوں تو میری مدد کرو، اگر ٹیڑھا ہوجائوں تو مجھے سیدھا کردو۔ حضرت عمرؓ نے جمعہ کے خطبہ میں مہر کی حد باندھنے کی بات کی تو ایک عورت نے انھیں وہیں ٹوک دیا اور آپؓ نے فوراً اپنی رائے سے رجوع کرلیا ، اس طرح خواتین کو ٹوکنے کا حق شائد ہی برصغیر میں کسی تحریک میں نظر آئے!

سب سے زیادہ سخت تنقیدوں کا سامنا حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے کیا ، لیکن زبردستی کسی کا منہ بندکرنے کی کوشش نہیں کی ، بر سر عام صفائی دی اور ٹھنڈے دل سے برداشت کیا۔ موجودہ دور میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ شورائیت کی اصل روح ناپید ہوتی جارہی ہے، خال خال ہی تجاویز آتیں ہیں اور اس پر بھی امراء کی جانب سے سرد مہری حالت کو بگاڑ رہی ہے، اکثر لوگ شکایتیں کرتے ہیں کہ ان کے خطوط ، تجاویز ، مشوروں اور ای میلس کا جواب نہیں دیا جاتا ، قائد محترم اپنی Cabinet کے ساتھ بیٹھ کر منصوبے بنا لیتے ہیں اور مامورین ان منصوبوں کو بے دلی سے زمین پر چلاتے ہیں۔ دوسری طرف مامورین بھی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ یہ ذمہ داری صرف امیر کی ہے، وہ خالی الذہن تشریف لاتے ہوئے امیر کی جانب سے رکھی گئی میٹنگس کو بے فیض کر دیتے ہیں ، نتیجہ گھسے پٹے پروگرامس و مہمات!

اطاعت فی المعروف:

اسلام کی نظر میں منصب اور ذمہ داری ایک اعزاز کے بجائے امانت ہے جس کا شدید محاسبہ ہوگا۔ ’’ یہ منصب ایک ذمہ داری ہے جو روزِ قیامت رسوائی اور ندامت کا موجب ٹہرے گی ، ماسوا اس شخص کے جو اس حالت میں اس پر فائز ہو کہ وہ اس کا حق رکھتا تھا اور اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی پوری کوشش کی‘‘۔ جب منصب کو اعزاز تصور کرلیا جائےتو افراد عہدوں سے ، کرسیوں سے مرعوب ہونے لگتے ہیں پھر معزز امراء کا رعب دل میں گھر کرنے لگتا ہے ، یہ رعب بڑھتے بڑھتے شخصیت پرستی کی منزلوں تک پہنچ ہی جاتا ہے۔ ہمارے یہاں اس کا چلن بھی عام ہے ، احترام و مرتبہ کے نام پر امیر کے غلط رویے اور نظریات پر سوال نہیں اُٹھائے جاتے ، کوئی غیرت مند آدمی سوال کی جسارت کرے تو امیر کی اطاعت ، ادب و احترام پر چاروں طرف سے بیان بازی ہونے لگتی ہے۔ درست یہ ہے کہ زحمت اور راحت، ہر وقت میں فرمانبرداری لازم ہے، اِلا یہ کہ وہ خلافِ شریعہ اور فساد فی الارض کے موجب نہ ہو، یعنی اطاعت مشروط ہے ، غیر مشروط نہیں ہے۔

چند افراد کو نبیؐ نے خود کسی جگہ بھیجا تھا وہاں امیرِ سفر نے مامورین کو لکڑیاں جمع کرکے آگ لگانے کا حکم دیا انہوں نے اطاعت کی، اس کے بعد اس آگ میں کودنے کا حکم دیا تو مامورین نے اطاعت نہ کی ، اللہ کے رسولؐ نے جب یہ بات سنی تو کہا کہ اگر تم آگ میں کود جاتے تو ہمیشہ آگ میں رہتے، مشاہدہ میں آتا رہتا ہے کہ قائدین کے آس پاس چاپلوسوں کا جتھہ جمع ہوجاتا ہے، جو انھیں تعریفوں کا خوگر بنانے لگتے ہیں ، امراء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے افراد سے اپنی ذات اور اپنی جماعت کو بچائیں۔

دوسری صورتحال یہ بھی پیدا ہوتی ہے جہاں اطاعتِ امیر کوپسِ پُشت ڈال دیا جاتا ہے۔ انتخاب کے وقت ہی بعض حلقوں میں سب سے زیادہ فارغ ، محنتی اور نرم طبع شخص کو اپنا امیر چن لیا جاتا ہے، سارے کام کا بوجھ اس بیچارے پر ڈال کر مامورین یہ جا وہ جا ہو جاتے ہیں افراد کو تقویٰ اور صلاحیتوں پر منتخب کیا جانا چاہئے، منصب پر ایسے افراد کو فائز کرنا چاہئے جو اللہ کی سرزمین پر اللہ کے قانون کو نافذ کرنے کی راہ ہموار کرسکیں۔ جب کہ انتخابات میں افراد کی مصروفیات پر گفتگو ہوتیں ہیں ، مصروف افراد کی ذمہ داریاں بانٹ کر ان کی مدد کرکے ، ان کی اہلیت و قابلیت سے مستفید نہیں ہوتے بلکہ خالی اور فارغ افراد کو چن کر ان کے پروگرامس اور اقدامات کو تنقید سے چھلنی کیا جاتا ہے۔ امام ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ صاحبِ امر کے لئے قوی اور امین ہونا بنیادی اوصاف ہیں اور قوت سے مراد علم و حکمت سے احکام کو نافذ کرنے کی اہلیت ہے جب کہ امانت سے مرادخشیتِ الٰہی اور حقوق الٰہی کو قلیل متاعِ دنیا کے عوض فروخت نہ کردینا ہے۔

ایک تیسرا تصور جو دیکھا جاتا ہے کہ اطاعتِ امر پر بے شمار وعظ و تقاریر کی جاتیں ہیں، ان گنت مضامیں لکھے جاتے ہیں، لیکن مامورین کے حقوق کی بات نہیں ہوتی، انکے حق پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے، نتیجہ قائدین کا ایک طبقہ اور عام کارکنوں کا طبقہ تشکیل پاتا جاتا ہے ، جس صاحب/ صاحبہ نے ایک بار کسی امارت کا بار اٹھایا ہو وہ اس اعلیٰ طبقہ کا حصہ بن جاتے ہیں اور تمام عام کارکن نچلے ، ادنیٰ طبقہ کا حصہ کہلائے جاتے ہیں ان کے حقوق ان کی تجاویز کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، ان کے احساسات کا خیال نہیں رکھا جاتا ، یہ Cast System انتہائی خطرناک اور جماعت کو منتشر کردیتا ہے۔

خلافتِ راشدہ کا دور ایک مینارِ نور ہے جس کی طرف بعد کے تمام ادوار میں فقہاء و محدثین اور عام دیندار مسلم دیکھتے رہے اور اسی کو اسلام کے مذہبی ، سیاسی ، اخلاقی نظام کے معاملہ میں معیار سمجھتے رہے۔ اور قیامت تک یہی معیار ہے۔ اسی لئے موجودہ دور میں بھی چاہیے کہ ہم بھی اپنے معاملات خالص اسلامی اصول جو کہ معتدل ہیں ان پر طئے کریں اور کسی بھی قسم کے افراط و تفریط سے بچنے کی اور تحریکات کو بھی بچانے کی کوشش کریں۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights