سید شعیب ہاشمی۔ اودگیر
دسمبر کو امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو زبردست ٹھیس پہنچائی ہے۔ اس فیصلہ کے فوری بعد ایک طرف جہاں فلسطین میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا ہے وہیں دوسری جانب پوری دنیا میںپرتشدداحتجاج اورمظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ عالمی سطح پر مختلف تنظیموں اور اداروں کی جانب سے امریکہ پر اپنا فیصلہ واپس لینے کیلئے دباؤ بنانے کیلئے اجلاس طلب کئے جارہے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے متنازع فیصلہ کا اعلان ہوتے ہی تمام مسلم ممالک کے علاوہ عرب لیگ، او آئی سی،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، جامعہ ازہر اور دیگر تنظیموں کی جانب سے ہنگامی جلسوں کا انعقاد عمل میں آیا جس میں اس بات پر سب نے اتفاق کیا کہ امریکہ کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کیا جائےاور مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے۔
امریکی فیصلہ کے خلاف یوں تو تمام مسلم ممالک اپنی آوازیں بلند کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں لیکن اس معاملہ میں فلسطین ،ترکی، اردن، ایران، لبنان ، انڈونیشیا، ملائشیا، تیونیشیا اورپاکستان ہی بہت زیادہ پیش پیش نظر آرہے ہیں۔ جبکہ عرب ممالک جن میں خاص طور سے سعودی عرب، مصر، بحرین اور متحدہ عرب امارات جن پر تمام دنیا کے مسلمان امیدلگائے بیٹھے ہیں وہ اس معاملہ میں کھل کر کسی بھی اقدام کا اشارہ نہیں دے رہے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں میں ناراضگی بھی ہے اور تشویش بھی۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ۱۳؍ دسمبر کو استنبول میں ہونے والے او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن)کے ہنگامی سربراہی اجلاس میں شرکت کیلئےان ممالک نے اپنے وزیر خارجہ، صدر یا وزیر اعظم کو بھیجنے کے بجائے مذہبی امور کے وزراء جو بھیجا۔ او آ ئی سی اجلاس میں ۵۷؍ ممالک کے رہنما ؤں نے شرکت کی تھی جن کی تصویر کودیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ دنیا بھر کےمسلم رہنماؤں کی اتنی زبردست جمعیت اور طاقت کے باوجود آخر ٹرمپ نے کس طرح القدس کو صہیونی ریاست تسلیم کرنے کا یکطرفہ فیصلہ کرنے کی ہمت کی۔
سعودی عرب،بحرین ،مصر اورمتحدہ عرب امارات کے سربراہوں یا کسی بھی قابل ذکر سیاسی شخصیت کی او آئی سی کے اجلاس میں عدم شرکت کی وجہ سے دنیا بھر میں ان ممالک پر تنقیدیں کی جارہی ہیں۔ اس کے برعکس لاطینی امریکہ کے ملک وینزویلا کے صدر نکولس ادورو نے غیر متوقع طور پر شرکت کرکے سب کو حیران کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکی فیصلہ کے خلاف فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اوآئی سی کی اس میٹنگ میں سعودی عرب کے سربراہ کی عدم شرکت موضوع بحث بن گئی ہےاور کہا جارہا ہے کہ ایک طرف تو سعودی عرب فلسطینی کاز کی مکمل حمایت اور مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ، مگر جب کسی بڑے پلیٹ فارم پر جمع ہو کر کھل کر اس کی حمایت میں آواز بلند کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتاہے۔ سعودی عرب کے سربراہ کی عدم شرکت کے سبب اب او آئی سی میں شامل ممالک کے آپسی تعلقات پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیںاورکہا جارہا ہے کہ یہ ممالک تو خود ہی متحد نہیں ہیں ، پھر وہ القدس کی حفاظت کیا کریں گے اور امریکی فیصلہ کا منہ توڑ جواب کیسے دیں گے ۔
امریکی اعلان کے دوسرے ہی دن سے دنیا بھر میں احتجاج اور مظاہرے ہوئے اور جمعہ کو ہندوستان اور بیرون ممالک کی مساجد میں مسجد اقصیٰ کے موضوع پر خطبہ جمعہ دیا گیا اور نماز کے بعد احتجاج بھی کیا گیا۔لیکن مسجد حرم اور مسجد نبوی ؐ میں پہلی جمعہ کو اس موضوع پر کوئی بیان نہیں ہوا جس کی وجہ سے بھی مسلمانوں میں ناراضگی نظر آئی۔ اس کے بعد والی جمعہ کو امام حرم نے خطبہ میں امریکی فیصلہ کی سخت مذمت کی اور کہا کہ ہم ہمیشہ ہی القدس کے ساتھ رہے ہیں۔ جبکہ مسجد نبویؐ کے امام نے کہاکہ دین پر مکمل آوری کی جائے توالقدس پرفتح حاصل ہوگی۔
اس کے علاوہ سعودی عرب کی شوریٰ کونسل کی جانب سے منعقدہ جلاس میںبھی سرسری طور پر فلسطین کی حمایت کی گئی اور صرف مطالبے ہی کئے گئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا۔ اس اجلاس میں اصل توجہ مشن۲۰۳۰ء پر دی گئی۔ فلسطین کے تعلق سے عرب ممالک کے اجلاس اور میٹنگیں نشستن گفتن برخاستن کے مصداق رہیں۔ مزید ستم یہ کہ اسرائیل کے وزیر برائے انٹیلی جنس نے سعودی عرب کی غیرت کو للکارتے ہوئے اسرائیل۔ فلسطین تنازع کو حل کرنے کیلئے سعودی عرب کو کلیدی رول ادا کرنے کی اپیل کی۔ اس نے یہ مطالبہ کیا کہ محمد بن سلمان اسراییل کا دورہ کریں اور نیتن یاہو کو عرب دورے پر مدعو کریں حالاںکہ دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان سعودی عرب کوانتہائی احترام اور عقیدت کی نظر سےدیکھتے ہیں اورسعودی عرب کے پوری دنیا پر بڑھ تے اثر و رسوخ کو دیکھ کر یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ تمام عرب اور اسلامی ممالک ایک ساتھ مل کر صہیونی منصوبوں کا قلع قمع کردیں۔ لیکن سعودی عرب خواتین کو بااختیار بنانے، ان کو ڈرائیونگ لائسنس جاری کرنے، غیر ملکی ملازمین پر ٹیکس عائد کرنے ، فلموں کی نمائش کیلئے تھیٹر کی شروعات کرنے اور اپنی معیشیت کو مضبوط کرنے میں مصروف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قبلہ اول کے امام نے خطبہ جمعہ میں اس دکھ کا اظہار کیا کہ اگر مسلم اور عرب ممالک دلیری اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے تو آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا تھا۔
بہر حال ترکی، اردن، ملائشیا، انڈونیشیا، ایران ، پاکستان، تیونیشیا اور دیگر کچھ ممالک امریکہ کو آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کررہے ہیں۔ رجب طیب اردگان اور انڈونیشیا کے صدر نجیب رزاق نے بیت المقدس میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ سوشل میڈیا پررجب طیب اردگان اور اردن کے فرمانراشاہ عبد اللہ دوم کی تقریروں اور ان کی جانب سے ہونے والے اقدامات کی دھوم ہے۔ یہی چند مسلم لیڈر ہیں جو صرف تقریروں ، اعلانات اور مطالبوں کے بجائے عملی طورپر امریکی فیصلہ کی سختی سے مذمت کررہے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بیت المقدس میں کون کون سے مسلم اور عرب ممالک اپنا سفارتخانہ کھول کر امریکہ کی دھمکیوں کو بے اثر ثابت کرتے ہیں۔