اقلیتی ادارے میں اردو کی زبوں حالی نامنظور؛ مسلم یونیورسٹی انتظامیہ ’باب صدی‘ کا نام اردو رسم الخط میں درج کرے : طلحہ منان

ایڈمن

اس جمہوری ملک ہندوستان کے آئین کے تحت اقلیتوں کو اپنی تہذیب و ثقافت کو برقرار رکھنے اور اپنی زبان کی ترویج دینے کا پورا حق حاصل ہے اور یہ ذمہ داری حکومت کی بنتی ہے کہ سب کو ساتھ…

اس جمہوری ملک ہندوستان کے آئین کے تحت اقلیتوں کو اپنی تہذیب و ثقافت کو برقرار رکھنے اور اپنی زبان کی ترویج دینے کا پورا حق حاصل ہے اور یہ ذمہ داری حکومت کی بنتی ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلے اور کسی کی بھی زبان اور ثقافت پر چوٹ نہ آنے دے۔

اردو ہندوستان کی قدیم زبان ہے اور نہ صرف یہ کہ ایک زبان ہے بلکہ ایک خاص کلچر اور تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے۔‌ بقول مہاتما گاندھی اردو ہی ہندوستان کی مشترکہ زبان ہو سکتی ہے لیکن ہمارا ماننا ہے کہ شروع سے ہی اردو کے ساتھ نا انصافی کی گئی اور اس کی ترویج کے راستے بند کیے گئے۔ حکومت کا اس زبان کے ساتھ کیسا رویہ ماضی میں تھا اور کیسا اب ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

لیکن جب یہی رویہ مسلم اداروں میں دیکھنے کو ملتا ہے تو افسوس اور زیادہ ہوتا ہے۔ آج اردو کا رسم الخط سسک سسک کر دم توڑتا دکھائی دیتا ہے۔ عالمی شہرت یافتہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سو سال کا عرصہ پورا کر چکی ہے۔ یادگار کے طور پر یہاں کے شیخ الجامعہ نے منٹو‌ سرکل کے پاس ایک عالی شان گیٹ ’باب سید‘ کے طرز پر بنایا لیکن اردو زبان کو وہاں جگہ نہ دی۔ جس پر اردو حلقوں کی جانب سے ناراضگی کا اظہار کیا گیا اور اس عمل کی بھرپور مذمت کی گئی۔ان خیالات کا اظہار طلحہ منان، صدر حلقہ ایس آئی او علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اپنے پریس نوٹ میں کیا۔

صدر حلقہ طلحہ منان نے اپنے پریس ریلیز میں کہا کہ ایس آئی او اے ایم یو مسلم یونیورسٹی انتظامیہ سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ 17 اکتوبر یعنی سر سید ڈے سے قبل اس گیٹ کا نام اردو میں لکھا جانا چاہیے۔ کیونکہ یہ ایک اقلیتی ادارہ ہے اور اے ایم یو ایکٹ کے تحت اس کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ملک بھر میں پروگرام اور کانفرنس کا انعقاد کر کے مسلم اقلیت کی تہذیب و ثقافت کی بقاء اور اس کی زبان کی ترویج کے لیے عملی اقدام کیے جائیں تاکہ اس ملک میں‌ مسلم اقلیت کا تشخص برقرار رہے۔ ساتھ ہی اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) ملک کے تمام محبان اردو سے اپیل کرتی ہے کہ حکومت کے بھروسہ رہ کر زبان کی ترویج نہیں کی جا سکتی۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اردو کو فروغ دے اور اپنی عملی زندگی کا حصہ بنا لیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایس آئی او آف انڈیا اردو کے تحفظ اور فروغ کے لیے ہمیشہ کوشاں رہی ہے۔ ہم نے اردو کو محض ایک زبان کے طور پر نہیں بلکہ اپنی شناخت کے طور پر دیکھا ہے اور اس شناخت کے تحفظ کے لئے ہم مسلسل کوشش کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں ہم نے میڈیکل میں داخلہ کے لئے ہونے والے امتحان نیٹ کو اردو میں لانے کے لئے نہ صرف یہ کہ ملک گیر سطح پر تحریک چلائی تھی بلکہ سپریم کورٹ بھی گیے تھے اور نیٹ کے امتحان کو اردو میں لانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔

ہم مسلم یونیورسٹی انتظامیہ کے اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں اور یہ مطالبہ کرتے ہے کہ باب صدی کا نام اردو رسم الخط میں درج کیا جاۓ اور دیگر سائن بورڈز میں بھی اردو رسم الخط کو جگہ دی جائے۔“


اے ایم یو

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں