افکارِ مودودی کی عصری معنویت

1

ڈاکٹر محمد رفعت

(یہ تقریر، ایس آئی او شانتا پورم کیرلہ کے زیر اہتمام منعقد کانفرنس میں نومبر ۲۰۱۷ء میں کی گئی۔)

یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ ہم سب کو ایک اہم پروگرام میں شرکت کا موقع مل رہا ہے۔ ہم اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ میں اس پروگرام کے منتظمین کا بھی بہت مشکور ہوں جنھوں نے یہاں آنے کا موقع دیا تاکہ کچھ باتیں اس اہم عنوان پر آپ کے سامنے رکھی جاسکیں۔

جیسا کہ آپ کے سامنے اعلان ہو چکا ہے پوری کانفرنس کا بھی ایک مرکزی موضوع ہے۔ یعنی ’’ریوزٹنگ مودودی: تفہیم تجدید تعمیر‘‘۔( مولانا مودودیؒ کا ازسر نو مطالعہ) اس مطالعے کے نتیجے میں یہ توقع کی گئی ہے کہ بہتر تفہیم ہو سکے گی اور پھر اس کے بعد اس فکر کی تجدید نو کی طرف بھی ہم کچھ قدم بڑھا سکیں گے۔

فکر اسلامی

محترم دوستو! اس مرکزی موضوع کے تحت اس وقت جو بات پیش کرنی ہے اس کے لیے ذیلی موضوع رکھا گیا ہے ’’عصر مودودی میں فکر مودودی کی معنویتـ‘‘۔ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ۱۹۰۳ ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۷۹ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ گویا بیسویں صدی کے بڑے حصہ پر آپ کی زندگی محیط ہے اور اسی کو ہم مولانا مودودیؒ کا عصر (زمانہ )کہہ سکتے ہیں۔ وہ زمانہ اپنے منفرد تاریخی عوامل اور تہذیبی حالات سے عبارت ہے ۔

جس فکر کی طرف ہمیں توجہ کرنی ہے اور جس کا پیغام خود سمجھنا ہے اور دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے وہ کسی ایک شخص کی فکر نہیں ہے بلکہ وہ فکر اسلامی ہے۔ یعنی وہ فکر جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے دین پر ہے۔ اس کو سمجھنے اور اس کی تشریح کرنے میں ہمارے اہل علم نے اہم رول ادا کیا ہے۔اس کی مستند تشریح خود نبی کریمؐ فرمائی ہے۔ اس کے بعد امت کی ہر نسل اسلامی فکر کو سمجھنے کی، اسے ترقی دینے کی اور اس کا انطباق کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔امت کے اہل علم میں سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ بھی ہیں۔ فکر مودودی کوئی صحیح اصطلاح نہیں بلکہ مقصودفکر اسلامی ہے ، جس کو ہمیں سمجھنا اور فروغ دینا ہے اور دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ ہر صاحب علم کی طرح سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے بھی بڑ اکارنامہ انجام دیا۔ انھوں نے اسلامی فکر کو سمجھنے ، اس کو فروغ دینے اور اس کی تشریح کرنے میں اپنا حصہ ادا کیا۔

ہر انسان جو رسول نہ ہو اس کی فکری اور عملی کوششوں میں غلطیاں ہو سکتی ہیں، اس کا امکان موجود ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم کو وہ طریقہ بتایا ہے جس سے ہم غلطیوں سے بچ سکتے ہیں اور کم زوریوں پر قابو پا سکتے ہیں۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ ہر شخص کی باتوں کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ صرف نبی کریمؐ کی جو تشریح ہے وہ خود مستند ہے۔ وہ خود معیار ہے، مگر باقی ہر شخص کی باتیں اس لائق ہیں کہ انھیں پرکھا جائے، جانچا جائے اور اسی معیار پر ان کا جائزہ لیا جائے۔

موجودہ زمانے میں سید ابو الاعلیٰ مودودی کا اکثر تذکرہ ہوتا ہے اور ان کا نام اسلام کے ترجمان اور نمائندہ کی حیثیت سے لیا جاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ کے جو لوگ قدر داں ہیں ان کے لیے یقینا یہ خوشی کی بات ہے۔ لیکن پچھلے پچیس سال سے یہ جو تعارف مولانا مودودیؒ کا کرایا جاتا ہے ( بحیثیت اسلام کے داعی، ترجمان اور نمائندے کے) وہ بطور تحسین نہیں ہوتا بلکہ دنیا کے ذرائع ابلاغ میں مولانا تنقید کے نشانے پر ہیں۔ متعین طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ اسلام کے نام پر جو بعض نا مناسب حرکتیں دنیا میں ہو رہی ہیں تو ان حرکتوں کی ذمہ داری مولانا مودودی کے لٹریچر اور فکر پر عائد ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے مولانا مودودیؒ کا ذکر ہوتا ہے ان کے ساتھ سید قطب ؒکا بھی ذکر ہوتا ہے۔ اور باقی مسلمان مفکرین اور علماء کا ذکر ان کے مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے۔ اس منفی پہلو کے اعتبار سے سوال کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی طرف منسوب نامناسب حرکتوں کی ذمہ دار کون سی فکر ہے اس کے جواب میں عام طور پر دو نام سید مودودیؒ اور سید قطبؒ کے پیش کیے جاتے ہیں۔

مولانا مودودیؒ کے افکار اور خیالات اور فکر اسلامی کے فروغ میں ان کے حصہ پر کچھ عرض کرنے سے پہلے یہ بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ ہمارے ذہن میں یہ بات تازہ ہو جائے کہ خود فکر سے ہم کیا مراد لیتے ہیں۔

فکر کے معنیٰ

انسان کا حال یہ ہے کہ وہ مسلسل عمل کرتا رہتا ہے۔ جب تک وہ زندہ ہے وہ کام کرتا ہے اور اس کے ساتھ اس کا ذہن سوچتا بھی رہتا ہے۔ ہاتھ پیر کام میں مصروف ہوتے ہیں اور انسان کا ذہن اور دماغ سوچنے کا کام کرتا رہتا ہے۔ لیکن دنیا میں ایک بڑی تعداد لوگوں کی ایسی ہے جن کے خیالات میں کوئی ترتیب نہیں ہوتی۔ کبھی کوئی خیال ان کے دل میں آتا ہے کبھی کوئی دوسرا آجاتا ہے۔ زیادہ تر وہ دنیا کے چلن کی پیروی کرتے ہیں ۔ دنیا میں جو باتیں ہو رہی ہیں وہی ان کے ذہن میں گونجتی ہیں۔ دنیا میں جو کچھ کہا جاتا ہے اس سے وہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے خیالات کسی ترتیب اور نظم سے خالی ہوتے ہیں۔ ایسے خیالات کو ہم فکر نہیں کہہ سکتے۔

فکر اس کا نام ہے کہ خیالات اور افکار،ایک ترتیب اور نظم کے ساتھ انسان کے ذہن میں ہوں اور پھر وہ ان کو پیش بھی کرے اور اسی کی بنیاد پر اس کا عمل ہو۔ اس سلسلے میں جو بات آپ ایک فرد کے بارے میں کہتے ہیں وہی بات آپ ایک گروہ کے بارے میں کہہ سکتے ہیں۔ ایک اجتماعی گروہ، ایک قوم یا ایک جماعت کے بارے میں بھی یہی بات کہی جا سکتی ہے کہ اس کے عمل کے پیچھے خیالات ہوتے ہیں۔ لیکن اگر وہ خیالات منظم ہوں ان کے اندر ایک ترتیب ہو، ان کے اندر ایک نظم ہو تو اسے فکر کہا جائے گا اور منظم فکر کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔

وہ لوگ جن کے خیالات میں کوئی ترتیب نہ ہو کوئی شعور نہ ہو ان کے کام دنیا پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالتے۔ وہ محض زندگی گزارتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ دنیا پر جن لوگوں نے کوئی خاص اثر ڈالا ہے وہ وہی لوگ ہیں جن کے پاس فکر موجود ہے۔ جن کا شعور تازہ ہے، جن کے ذہن میں یہ واضح ہے کہ وہ کس بات کو صحیح سمجھتے ہیں اور کس بات کو صحیح نہیں سمجھتے اور اس شعور کے مطابق وہ اپنے عمل کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔

دینی فکر

اب اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے آپ دینی فکر کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ دنیا میں افکار و خیالات تو اور بھی بہت سے ہیں جن میں نظریات، فلسفے اور مختلف پروگرام شامل ہیں، جو سماجی اور سیاسی تحریکوں نے پیش کیے ہیں اور ہر ایک کے پاس کچھ نہ کچھ فکر ہوتی ہے۔ لیکن جو دینی فکر ہے اور خاص طور پر جو اسلامی فکر ہے اس کا امتیا ز یہ ہے کہ اس میں جو بنیادی بات پیش کی جاتی ہے، وہ انسانی استدلال کی بنیاد پر نہیں پیش کی جاتی۔ انسانی استدلال کا بھی اس میں ایک مقام ہے لیکن بعد میں ہے۔

اصلاً دینی فکر کی بنیاد انسانوں کی پیش کی ہوئی کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ اللہ کی نازل کردہ ہدایت ہے۔ دینی فکر میں اور فلسفیانہ اور نظریاتی فکر میں یہ جو بنیادی فرق ہے یہ ہمارے سامنے رہنا چاہئے۔ نظریاتی اور فلسفیانہ فکر وہ ہے جو کسی انسان نے پیش کی اور اس نے دلائل بھی خود ہی فراہم کیے ۔اس فکر کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کچھ باتیں پیش کیں۔ لیکن دینی فکر کسی انسان کی ایجاد کردہ نہیں ہے بلکہ اللہ کی ہدایت پر مبنی ہے۔ اس کے جو دلائل ہیں وہ بھی وہی ہیں جو اللہ کی نازل کردہ تعلیم کے اندر موجود ہیں ۔ اس فکر کی تشریح ہر صاحب علم اور ہر ایمان لانے والا اپنی زبان میں کرتا ہے، اپنے حالات کے سیاق میں کرتا ہے لیکن اس کی بنیاد بہر حال ہدایت الٰہی پر ہوتی ہے۔

اب ہمارے سامنے سوال آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت تو آگئی۔ کتاب الٰہی موجود ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے اس کی جو تشریح کی وہ بھی موجود ہے۔ آپؐ کی سیرت کی شکل میں، آپ کی حدیثوں کی شکل میں اور صحابہ کے مجموعی کام کی شکل میں ۔ پھر اس کے بعد کیا ضرورت پیش آتی ہے کہ قرآن ، حدیث ، سیرت پاک، سیرت صحابہ کے موجود ہوتے ہوئے ہم فکر اسلامی کی از سر نو تشریح کریں اور ہر نسل کے اندر یہ کام انجام پائے۔

ہمارا خیال یہ ہے کہ اس کی ضرورت اس لیے اس لیے پیش آتی ہے کہ فکر کے بعض پہلو ایسے ہوتے ہیں جن کو بار بار اور از سر نو بیان کرنا ہوتا ہے۔ اگر اس سلسلے میں غور کیا جائے تو ہم تین پہلوؤں کی نشان دہی کر سکتے ہیں۔ ایک پہلو بنیادی ہے۔ اسلام کے پیغام کی بنیاد ایمان لانے پر ہے۔ آدمی اللہ پر ایمان لائے اور اس کے رسولوں پر اورحساب کے دن پریعنی توحید و رسالت و آخرت پر۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جہاں ایمان لانے کو دعوت دی ہے وہیں اس کے حق میں استدلال بھی پیش کیا ہے۔

ایمانیات سے دلائل

آدمی توحید پر کیوں ایمان لائے؟ اللہ کو ایک کیوں مانے؟ تنہا اسی کی عبادت کیوں کرے؟ شرک سے کیوں بچے؟ اس پر مفصل کلام کیا گیا ہے۔ اسی طرح معاملہ رسالت کا ہے۔ نبی کو کیسے جانچا جائے کہ اس کا دعویٔ نبوت صحیح ہے؟ کس بنیاد پر ہم ایمان لے آئیں؟ اسی طرح آخرت کا ا مکان کیا ہے؟ آخرت کی ضرورت و حکمت کیا ہے؟ یہ سارے موضوعات وہ ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں۔

چنانچہ یہ پہلوہے جس میں ہم فکر اسلامی کے بیان اور تشریح کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔یعنی جو استدلال قرآن مجید میں پیش ہوا ہے جس کی تشریح نبی ﷺ نے فرمائی ہے، اس کو ہم اپنی زبان میں پیش کریں ہر نسل کے سامنے۔ آپ نے قرآن پڑھا ، حدیث میں اس کی تشریح پڑھی۔ اب اپنے حالات اور زبان میں، اپنے مقام پر اس سارے استدلال کو دوبارہ پیش کریں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ باتین یعنی توحید کی دلیل کیا ہے۔وغیرہ ۔ یہ محض دعوت سے تعلق رکھتی ہیں، یعنی کسی شخص سے جو دائرہ اسلام میں نہیں ہے، اس سے ہم بات کر رہے ہیں تب ضروری ہے کہ توحید کی دلیل بیان کریں، لیکن ایسا نہیں ہے۔

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمانیات کے حق میں استدلال کے دو مقصدہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ دعوت سننے والا جان لے کہ یہ پیغام کیوں صحیح ہے، لیکن اس کا دوسرا مقصد بھی ہے وہ یہ ہے کہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو تازہ کیا جائے۔ دلائل کی ضرورت صرف ان لوگوں کو نہیں ہے جو دین سے ناواقف ہیں بلکہ وہ بھی جو ایمان لانے کے بعد مسلمان ہیں ان کو بھی ضرورت ہے کہ توحید، رسالت اور آخرت کے دلائل ان کے سامنے آئیں بار بار۔ تاکہ ان کا ایمان تازہ ہو۔

اس معاملے میں ایک بات اور ہمارے سامنے ہوتی ہے اور وہ بات یقینا بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ قرآن مجید کا ایک استدلال ہے یعنی اس نے اپنے پیغام کی دلیل پیش کی اور ایک اس کا طرز استدلال ہے۔ یعنی استدلال کا طریقہ۔ طریقہ یہ ہے کہ جو کچھ انسان دیکھتا ہے، جو کچھ انسان جانتا ہے اور جو کچھ انسان مشاہدہ کرتا ہے اس سے قرآن انسان کو ان حقائق تک لے جاتا ہے جس کا مشاہدہ وہ نہیں کرتا۔ جو کچھ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں، زمین، آسمان ، سورج ، چاند، ستارے اور انسان ، یہ سب اللہ کی قدرت اور حکمت کی نشانیاں ہیں۔ نشانیاں تو ہم دیکھتے ہیں مگر جن حقائق کی طرف نشانیاں اشارہ کر رہی ہیں وہ حقائق ہمیں نظر نہیں آتے۔

قرآن کا طرز استدلال یہ ہے کہ بہر حال مشاہدہ کا انکار آدمی نہیں کر سکتا۔ جو کچھ اسے نظر آتا ہے ہم سب اسے مانتے ہیں۔ اس مشاہدے سے آغاز کر کے ، قرآن ، جو حقائق چھپے ہوئے ہیں، غیب میں ہیں ،ان کے حق میں دلیل پیش کرتا ہے۔ اس استدلال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ قرآن انسان کی فطرت کوجگاتا ہے۔ انسان کی فطرت جانتی ہے بہت ساری باتوں کو۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے صحیح فطرت پر پیدا کیا ہے۔ فطرت کو جگا کر بتاتا ہے کہ جو بات تم جانتے ہو، اسی کو مان لو۔ تم یہ جانتے ہو کہ تم غیر ذمہ دار نہیں ہو۔ مان لو کہ آخرت آئے گی۔ تم یہ جانتے ہو کہ تمہاری عقل ہدایت کے لیے کافی نہیں ہے تو نبیوں پر ایمان لاو، تم یہ جانتے ہو کہ تمہارا خالق اور مالک ایک ہی ہے تو شکر اسی کا ادا کرو۔

اب ہوتا یہ ہے کہ دنیا کے جو فلسفے اور نظریے ہیں ان کا طرز استدلال ذرا دوسری قسم کا ہے۔ مثال کے طور پر آج کی دنیا کا مقبول طریقہ جسے ہم سائنسی طرز استدلال کہتے ہیں۔ اس میں اور قرآنی طرز استدلال میں بعض باتیں ایک جیسی ہیں، مگر بعض باتیں مختلف بھی ہیں۔ ہم سائنسی طرز استدلال کو دینی استدلال پر قیاس نہیں کر سکتے۔ دنیا سے چوں کہ ہم سب متاثر ہوتے ہیں اس لیے فکر کی تشریح کے اس پہلو میں خیال رکھنا چاہئے کہ ایمان کے دلائل ہم جو بیان کریں وہ قرآن کی پیروی کرتے ہوئے بیان کریں۔ یہ چیلینج جو اس معاملہ میں سائنسی طرز استدلال کا ہے وہ نسبتا چھوٹا چیلنج ہے۔

مسلمانوں کو اپنی تاریخ میں یونانی فلسفے سے جو چیلنج پیش آیا تھا وہ زیادہ بڑا چیلنج تھا،وہ اختلاف زیادہ ابھرا ہوا تھا۔ اس کا صحیح جواب وہی تھا جو بالآخر ہمارے اہل علم نے دریافت کیا۔ یعنی اس اجنبی طرز استدلال کو رد کیا جائے۔ صرف استدلال کو نہیں بلکہ طریقہ کو بھی رد کیا جائے اور اس کے بعد ہم قرآنی طریقے کو دریافت کریں اور اسی کو بیان کریں۔ بہر حال فکر کا ایک پہلو تو یہ ہے، جس میں ہم ایمانیات کے دلائل بیان کرتے ہیں۔ فکر کا جو دوسرا پہلو ہے وہ یہ ہے کہ ہم دین کے پورے نظام کو اور دین کی ساری تعلیمات کو بیان کرتے ہیں اور اس بیان کرنے کے سلسلے میں ان سوالات کا جواب دیتے ہیں جو دور نبویؐ میں پیش نہیں آئے تھے۔ اس لحاظ سے یہ پہلے پہلو سے مختلف بات ہے۔ ایمانیات میں تو اضافہ نہیں ہو رہا۔ ان کے سلسلے میں جو کچھ آپ بیان کریں گے وہ موجود ہے۔ لیکن جب دین کی تعلیمات کا انطباق کیا جائے گا تو حالات کے سیاق میں کیا جائے گا ۔ حالات کے لحاظ سے نئے سوالات سامنے آئیں گے۔ یہ فکر اسلامی کا دوسرا پہلو ہے کہ دین کی تعلیمات کو بیان کرنا جیسی وہ ہیں اور جو نئے سوالات پیدا ہوئے ان کا جواب تلاش کرنا۔

انسانی علوم

تیسرا پہلو یہ ہے کہ دور بنویؐ کے فورا بعد بھی اور موجودہ زمانے میں انسانوں نے مختلف علوم میں ترقی کی ہے۔ انسان مختلف موضوعات پر غور کرتا اور معلومات حاصل کرتا رہا۔ موجودہ دور میں یہ علوم موجود ہیں جو زیادہ تر اسلامی دنیا سے باہر پچھلے تین سو برسوں میں فروغ پائے۔ ان میں سائنس ہے ، سماجی موضوعات ہیں، قانون پر کام کیا گیا ہے، نفسیات پر تحقیق کی گئی ہے ان سارے کاموں میں مسلمانوں کا حصہ بہت کم رہا ہے۔ اور اسی لحاظ سے ان سارے کاموں کے انداز پر اسلامی فکر کا اثر بہت کم رہا ہے۔ تو اسلامی فکر کا تیسرا پہلو ان علوم سے متعلق ہے جو انسانوں کی ضرورت ہیں۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے مجبور ہے کہ علم کے میدان میں ترقی کرے ، علمی دریافتیں سامنے لائے اور علمی انداز میں سوچے۔ ہم کو بتانا ہے کہ ان سارے علوم میں اسلام کی فراہم کردہ بنیاد کیا ہے، قرآن میں اور حدیث میں اور سیرت میں وہ کیا بنیادی تصورات ملتے ہیں جو علوم کے فروغ کے لیے بنیادیں فراہم کرتے ہیں ؟یہ وہ بات ہے جو پہلے بھی اہم تھی ۔ پہلے مسلمان خود علم کے میدان میں ترقی کر رہے تھے اورتحقیقی کاوشوںکی رہ نمائی کر رہے تھے تو اس سوال کا جواب واضح تھا اور زمانہ بھی نسبتا سادہ تھا۔ مگر اب زمانہ پیچیدہ ہے اور مسلمانوں نے علمی رہ نمائی کا کام عرصے سے چھوڑ رکھا ہے، اس لیے اب اس کی ضرورت ہے کہ علوم کی اسلامی اساس فراہم کی جائے۔ یہ فکر اسلامی کے تین پہلو ہیں جس پر ہر نسل کو کام کرنے ضرورت ہے۔ ایمانیات کے دلائل، اسلام کی تعلیم اور اس کا انطباق اور علوم کے لیے اسلامی اساس۔

ہدایت نا شناس فکر

مولانا مودودیؒ نے بہت کچھ کہا اور لکھا۔ آپ جانتے ہیں کہ ان کا کارنامہ صرف ان کی تحریروں تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ وہ با عمل آدمی تھے۔ پریکٹکل آئڈیلسٹ ان کو کہا گیا ہے۔ ایسا مثالیت پسند شخص جو انتہائی عملی بھی ہو۔ مولانا مودودی نے افکار پیش کیے ، انھوں نے جو کچھ کیا ہمیں اس کو بھی سامنے رکھنا ہوگا ۔ اس لحاظ سے جب ہم دیکھتے ہیں تو مولانا مودودیؒ کے افکار میں بعض باتیں ابھری ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان میں جو بات ہمارے سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ نے موجودہ دور کی غالب فکر پر گرفت کی۔اس کو ہدایت نا شناس فکر کہہ سکتے ہیں (وہ فکر جو ہدایت الٰہی سے بے نیاز ہے) مولانا مودودیؒ نے اس فکر کے غلبے کو دور کرنے کی کوشش کی۔ مولانا کے کام میں یہ بات بڑی ابھری ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔مولانا نے محسوس کیا کہ امت مسلمہ ایک یلغار اور طوفان کی زد میں ہے۔ وہ یلغار اور طوفان عملی بھی ہے اور علمی بھی۔ جس وقت مولانا نے اپنی دعوت کی ابتدا کی تھی تو متحدہ ہندوستان (ہمارا ملک) اس وقت غلام تھا اور عالم اسلام کا بہت بڑا حصہ انگلینڈ اور فرانس کا غلام تھا۔ یہ یلغار سیاسی اور فوجی یلغار بھی تھی جس کی زد میں امت مسلمہ تھی لیکن اس سے آگے بڑھ کر وہ فکری یلغار تھی، جس میں مسلمانوں کا اعتماد اور ایمان، اسلامی فکر پر متزلزل ہو رہا تھا۔

مولانا مودودیؒ کی تحریروں میں شروع سے آخر تک ہمیں یہ پہلو نمایاں محسوس ہوتا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے امت مسلمہ کو دوبارہ دین پر قائم کرنے کی کوشش کی اور انحراف سے بچانے کی کوشش کی۔ مولانا مودودیؒ کے کام میں اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ انھوں نے امت مسلمہ کے تحفظ کی، دفاع کی اور اس کو حملوں سے بچانے کی کوشش کی۔

داخلی خطرات کا مقابلہ

مولانا مودودیؒ کے کام کو ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اس بڑے خطرے کا نوٹس لیا جو باہر سے آیا۔ یعنی سیاسی یلغار و فوجی یلغار کی شکل میں اور اسی طرح اجنبی فکر کے تسلط کی شکل میں ۔ یہ اجنبی فکر دین کا اور خدا کا انکار کرتی تھی۔ خدا کی ہدایت کا انکار کرتی تھی۔ لیکن ایسا نہیں تھا کہ امت مسلمہ کو صرف یہی چیلینج پیش آئے، بلکہ امت کو وہ چیلنج بھی پیش آئے جو اس کے ذیل میں تھے۔ جو طریقہ مولانا مودودیؒ نے اختیار کیا بڑے خطرہ کے مقابلے میں، وہی طریقہ آپ نے اختیار کیا چھوٹے خطرات کے مقابلے میں بھی۔ مثال کے طور پر مسلمانوں میں حدیث کے انکار کا رجحان پیدا ہوا۔ ظاہر ہے کہ حدیث کے انکار کا کچھ نہ کچھ تعلق بالواسطہ اس مغربی فکر کے تسلط سے ہے۔ لیکن سارا رشتہ آپ مغربی فکر سے نہیں جوڑ سکتے۔ انکار حدیث مسلمانوں کی خود اپنی کم زوری ہے۔ جو تاریخ کے مختلف ادوار میں سامنے آتی رہی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس کا بڑا مدلل جواب دیا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں میں چھوٹے چھوٹے فتنے اٹھے۔ کسی شخص نے قربانی کا ا نکار کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قربانی کا حکم اسلام میں نہیں ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس کی مدلل تردید کی۔ کسی شخص نے ذبیحہ کے احکام کی غلط تاویل کرنے کوشش کی۔ مولانا مودودیؒ نے اس کی اصلاح کی۔ قادیانیت کا بہت بڑا مسئلہ ابھرا۔ پاکستان میں خاص طور پر اور عالم اسلام میں عام طور پر ۔ یقینا اس کا مقابلہ کرنے میں بہت سارے لوگوں کا حصہ ہے۔ لیکن مولانا مودودیؒ کا جو نمایاں کردار ہے اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بالآخر پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ، اس کے بعد پورے عالم اسلام میں متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم تسلیم کر لیا گیا ۔ اس کام کے کرنے میں مولانا مودودیؒ کا اور جماعت اسلامی کا بڑا رول رہا ہے۔

مولانا مودودیؒ کے افکار میں یہ بات ہمیں محسوس ہوتی ہے کہ امت مسلمہ کے تحفظ اور دفاع پر آپ نے توجہ کی اور فکری یلغار اور انحرافات و گم راہیوں کا مقابلہ کیا۔ باہر ی اثرات کے علاوہ خود اندر کی کم زوریوں کی وجہ سے جو گم راہیاں سامنے آرہی تھیں ان کا مقابلہ آپ نے کیا اور ہر اس چیز کا نوٹس لیا جو امت کو غلط راستے پر لے جا سکتی ہو۔

اسلامی تحریک کے نام سے جو تنظیمیں دنیا کے مختلف حصوں میں کام کر رہی ہیں ان کے سامنے اپنے کام ہیں، جو ان کے منصوبوں کا حصہ ہیں۔ ان میں متعین باتیں ہوتی ہیں۔ مثلا جماعت اسلامی ہند کے منصوبے میں متعین باتیں ہیں۔ دعوت ، اسلامی معاشرہ کی تعمیر، مسائل کا حل ، خدمت خلق وغیرہ۔ اس طرح کے متعینہ کام منصوبے میں سامنے آتے ہیں۔ اسلامی مزاج کا تقاضہ یہ ہے کہ منصوبہ کے ساتھ ساتھ امت کے مجموعی احوال پر بھی نظر رکھی جائے ، اس کو انحراف، گم راہی ، مغلوبیت و مرعوبیت سے بچایا جائے۔ ہر اعتبار سے، سیاسی، فکری اور ذہنی۔

انسانیت عامہ کا حال

جو لوگ مولانا کے افکار کے قدرداں ہیں ان کو بھی اپنے کاموں میں اس کا خیال رکھنا چاہئیے کہ امت مسلمہ کے احوال پر نگاہ رکھی جائے اور اسے درست خطوط پر قائم کیا اور قائم رکھا جائے۔ مولانا مودودیؒ کے افکار میں جو دوسری چیز ہمیں نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ ادراک ہے کہ امت مسلمہ کے علاوہ آج کے دور کا انسان بھی ایک بڑی گم راہی کی زد میں ہے ۔ وہ گم راہی ایسی ہے جس نے انسان کے سارے کاموں کو اور اس کی ساری انفرادی و اجتماعی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ اس گمراہی کو ہم مختصر لفظو ں میںہدایت الٰہی سے بے نیازی کہہ سکتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو خدا کا انکار کرتے ہیں صاف لفظوں میں لیکن جو خدا کا انکار نہیں کرتے وہ بھی خدا کی ہدایت کا انکار کرتے ہیں یا کم از کم اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ خدا کی ہدایت سے وہ بے نیاز ہیں۔ یہ عصر حاضر کی گم راہی ہے۔

امت مسلمہ سے آگے بڑھ کر جب ہم دنیا ئے انسانیت پر نظر ڈالتے ہیں جیسا کہ مولانا مودودیؒ نے ڈالی توایک حساس انسان کی حیثیت سے انھوں نے محسوس کیا کہ موجودہ دور کی یہ بنیادی گم راہی ہے۔ جو ہدایت الٰہی سے بے نیازی کی شکل میں سامنے آتی ہے ۔ انھوں نے اس گم راہی کے مقابلے کے لئے اسلامی افکار پیش کئے۔ انحراف کے مقابلے میں انھوں نے اسلام کو پیش کیا۔ انھوں نے آغاز کیا ان باتوں سے جو موجودہ دور کا آدمی سمجھتا ہے یا کہتا ہے۔ دلائل کا نوٹس لیا ، متعین فلسفوں اور نظریات پر تنقید کی۔ ان کی کم زوریاں واضح کیں اور ہدایت الٰہی کی اتباع کیوں کرنی چاہئے، اس ضرورت کو واضح کیا۔

تفہیم القرآن

مولانا مودودیؒ نے ایک گفتگو میں کہا تھا کہ جب میں نے اپنا علمی کام شروع کیا تو میں نے سوچا تھا کہ میں قرآن مجید کی تفسیر لکھوں گا، پھر احادیث کا مجموعہ ترتیب دوں گا۔ پھر سیرت پر کتاب پر لکھوں گا۔ لیکن تفسیر لکھنے میں ہی ایک لمبا وقت لگ گیا ، تو میرے پاس اب باقی دو کاموں کا موقع نہیں ہے۔ یعنی تفسیر جو سن ۴۲ ۱۹ء سے لکھنا شروع کی تھی، ۱۹۷۲ء میں جا کر مکمل ہوئی۔ تیس سال کے عرصے میں۔ بہر حال مولانا مودودیؒ کے احباب نے آپ کی ہی تحریروں سے منتخب کرکے سیرت کی کتاب بھی مرتب کی اور احادیث کا مجموعہ بھی مرتب کر لیا۔

مولانا مودودیؒ کے افکار کو جتنی واضح اور مفصل شکل میں تفہیم القرآن میں پیش کیا گیا ہے، وہ دوسری کتابوں میں نہیں ہے۔ دوسری کتابیں تو کسی متعین موضوع پر ہیں ، لیکن تفہیم القرآن کی مکمل چھ جلدیں ایسی ہیں جو مولانا مودودیؒ کے افکار کو بہت واضح اور آسان زبان میں پیش کرتی ہیں۔ ہمارے بہت سے احباب ایسے ہیں جنھوں نے مولانا مودودیؒ کی کچھ کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اور اس کے نتیجہ میں ان کے افکار کے بارے میں ایک رائے قائم کی ہے۔ وہ رائے کچھ زیادہ صحیح نہیں ہوتی۔ اگر تفہیم القرآن کو سامنے رکھا جائے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ مولانا مودودیؒ پوری بات کیا کہتے ہیں۔ جن کو اپنی مختصر کتابوں میں کہنے کا موقع شاید نہیں پا سکے۔ ظاہر ہے کہ انسان تو انسانی زبان میں کلام کرتا ہے ۔ یہ تو صرف خدا کی زبان ہے جو مکمل ہوتی ہے۔ جس کی ایک آیت بھی آپ پڑھیں تو ہدایت دیتی ہے۔ لیکن انسانی کلام کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ جو افکار مولانا مودودیؒ کے تفہیم میں ہمارے سامنے آتے ہیں بڑی مکمل شکل میں آتے ہیں۔

آپ مولانا مودودیؒ کے پیش کردہ پروگرام میں یہ محسوس کریں گے کہ ان دو باتوں کو سامنے رکھا گیا۔ یعنی امت مسلمہ کا تحفظ وسیع معنوں میں اور عالم انسانیت کو گم راہی سے نکالنا۔ ان دو کاموں کی اہمیت کا احساس مولانا مودودیؒ کو شدت سے تھا۔ ظاہر ہے کہ قریب ترین ماحول کے مسائل سے آپ نے زیادہ تعرض کیا۔ ہندوستان کے ماحول میں تحریک یعنی جماعت اسلامی کی ابتدا کی گئی ۔ مولانا مودودیؒ نے جو باتیں جماعت اسلامی کی تشکیل کے بعد کہیں اس میں یہ بات شامل تھی کہ دعوت کے لیے جو کچھ کرنا ہے علمی اور عملی سطح پر وہ ایک شخص کے بس کا کام نہیں ہے۔ اس لیے جماعت کی ضرورت ہے اور اس جماعت میں جو لوگ باضابطہ شامل نہ ہوں ان سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس کام میں تعاون کریں گے۔

اجتماعی پیش رفت کی ضرورت

مولانا مودودیؒ نے ایسے اہل علم اصحاب کی ضرورت محسوس کی ،جو علمی اور تحقیقی اور فکری کام کو آگے بڑھائیں۔ اس کام میں حصہ لیں۔ اللہ کے فضل سے بر صغیر میں ایسے لوگوں کی خاصی تعداد ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان، جماعت اسلامی ہند کے وابستگان ان سے متاثر ہونے والے یا کم از کم ان کے فکر سے متاثر ہونے والے اہل علم کی ایک بڑی تعداد ہے جو مولانا مودودیؒ کی زندگی ہی میں سامنے آگئے تھے اور جنھوں نے علمی تحقیقی اور فکری میدان میں بہت سارے کام کیے۔ لیکن دو باتیں واضح ہیں۔ ایک یہ کہ ان کاموں کا معیار مولانا مودودیؒ کے معیار سے کم ہے۔ دوسرا یہ کہ سارے کام ملا کر بھی ہماری ضرورت سے کم ہیں۔ وہ ضرورت جو انسانیت کی رہ نمائی کی اور امت مسلمہ کے حال کو درست کرنے کی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے یہ بات محسوس کی تھی کہ یہ اجتماعی کام ہے۔ یہ کام ٹیم ورک چاہتا ہے ۔ یہ بات تاریخ کے ہر دور میں صحیح تھی۔پہلے امت میں علمی مزاج عام تھا، علم و تحقیق کا رواج تھا اور ہماری جو ضرورتیں علم اور فکر سے پوری ہوتی ہیں ، وہ ضرورتیں پوری ہو رہی تھیں ، لیکن آج دور زوال ہے، اس میں ہر کام کی طرح علمی کام بھی متاثر ہو چکا ہے۔ وہ لوگ جو محقق اور اہل فکر ہیں ان کی تعداد امت میں خاصی کم ہے۔

مولانا مودودیؒ کا منشا یہ نہیں تھا کہ لوگ بس ان کی کتابیں پڑھیں اور جو کچھ انھوں نے کہا اس کو جوں کا توں مانتے چلے جائیں اور خود کچھ نہ کریں ، خود علم اور فکر اور تحقیق کے دائرے میں کوئی قدم آگے نہ بڑھائیں۔ یہ ان کا منشا نہیں تھا۔ انھوں نے بہت واضح لفظوں میں اس کی ضرورت محسوس کی تھی کہ پورا قافلہ منظم ہو جو فکری ، علمی اور تحقیقی کام کو آگے بڑھائے ۔ خود مولانا مودودیؒ نے جو کچھ کہا اس کو سمجھے ، اس کو زیادہ بہتر طریقے سے بیان کرے، اس کی کم زوریوں کو دور کرے اور امت اور انسانیت کی جو نئی ضرورتیں ہیں ان کو پورا کرے۔

غلط فہمیوں کا زالہ

اب مجھے مختصر طور پر وہ بات آپ کے سامنے رکھنی ہے جو مولانا مودودیؒ کے منفی تعارف کے سلسلے میں ہے۔ یہ بات ہم جانتے ہیں کہ مولانا مودودیؒ کا تعارف ابتدا میںجس کتاب کے ذریعہ سے ہوا، وہ’ الجہاد فی الاسلام‘ تھی۔ الجہاد فی الاسلام میں مولانا مودودیؒ نے جہاد کی ضرورت ، اس کی حکمت اور اسلام کی مجموعی تعلیم میں جہاد کے مقام کو واضح کیا۔ جتنی ضرورت اس زمانے تھی، واضح کرنے کی اس سے زیادہ ضرورت آج ہے۔ مولانا مودودی نے صاف طور پر یہ بات بیان کی کہ ایک قسم تو جہاد کی وہ ہے جسے ہم دفاع کہتے ہیں۔یہ مدافعانہ جہاد ہے، سب لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ دفاع کے لیے جہاد ضروری ہے۔ مناسب اور جائز ہے۔ جہاد کی دوسری قسم وہ ہے جو دنیا کو درست کرنے کے لیے ہے اور یہ جہاد حدود اور آداب اور شرائط کے ساتھ ہوگا۔ اس کی غرض یہ ہے کہ اللہ کے دین کے راستے کی رکاوٹیں دور ہو جائیں۔ دین کی دعوت کے راستے میں، دین پر عمل کے راستے میںحائل رکاوٹیں دور ہوں۔ رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے مصلحانہ جہاد کرنا ،یہ بھی جہاد کا حصہ ہے۔

آج کی دنیا دوسری بات کو ماننے کے یے تیار نہیں ہے اور دنیا کے اس رویے کا اثر خود بعض مسلمانوں پر پڑا ہے۔ وہ قرآن حدیث کی ساری تصریحات کے علی الرغم اور ہماری تاریخ کے نمایاں اہل علم کے اقوال کے خلاف ، جہاد کی غلط تعبیریں کرنے میں مصروف ہیں۔ مولانا مودودیؒ کے افکار میں بڑی اہم بات یہ ہے کہ آپ نے جہاد کی مکمل اور صحیح تشریح بیان کی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہم اسلام پر ایمان لائے ہیں تو معقول طریقہ یہ ہے کہ اسلام کی جو تعلیمات ہیں، جیسی ہیں ویسی مان لیں۔جو استدلال اسلام کرتا ہے، اسی استدلال کو پیش کریں۔ اسلام پر ایمان لانے کے بعد، اس کی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش کرنا، یہ کسی معقول آدمی کا کام نہیں ہو سکتا۔ مولانا مودودیؒ نے بتایا کہ اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ جہاد معقول ہے ۔ جہاد کی ضرورت ہے۔ دنیا کی کوئی قوم اور کوئی نظریہ ایسا نہیں ہے جو جنگ کی ضرورت کا انکار کرتا ہو ۔ (ہر قسم کے حالات میں ) اسلام نے اس سلسلے میں جو تعلیم دی ہے اس سے زیادہ معتدل، اس سے زیادہ معقول، اس سے بہتر تعلیم کوئی نہیں پائی جا سکتی۔ مولانا مودودیؒ نے اس سلسلے میں جو کام کیا، اس کام کا تعارف از سر نو ضرور ہونا چاہیے۔

اس کانفرنس کا جو اصل پیغام ہے وہ یہ ہے کہ اس علمی و تحقیقی ، تحریک کو آگے بڑھایا جائے، جس کی ابتدا مولانا مودودیؒ نے کی ۔ وہ توقع رکھتے تھے اپنے احباب سے کہ وہ اسے آگے بڑھائیں گے۔ ہم سب کو اس توقع پر پورا ترنا چاہیے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین

1 تبصرہ
  1. Zaheer umer نے کہا

    بہت اعلیٰ پنٹ ورثن ہے

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights