اسلام میں تزکیہ نفس کا تصور

ایڈمن

سید سالار پٹیل ۔ پرلی

دنیا میں ہر انسان فرداً فرداً اللہ کا خلیفہ ہے ۔خلیفہ ہونے کی حیثیت میں انفرادی طور پر ذمہ دار اور جواب دہ ہے ۔اللہ نے انسان کو مستقل شخصیت پر پیدا کیا ہے ۔انفرادی خصوصیات بخشی ہیں ۔خودی کا احساس دیا ہے ۔دیکھنے کے لئے آنکھ ، سننے کے لئے کان اور سونچنے سمجھنے اور رائے قائم کرنے کے لئے دل و دماغ دئے ہیں ۔خواہش ،تمیز ،ارادے اور فیصلے کی قوتیں دی ہیں ۔دنیا میں بہت سی چیزیں امانتاً اس کے حوالے کرکے ان پر تصرف کے اختیار عطاء کئے ہیں۔

ٓٓ آخرت میں ایک انسان اللہ تعالیٰ کی عدالت میں انفرادی حیثیت سے اپنا حساب دے گا اور دنیا میں جو بھلائی یا برائی اس نے کمائی تھی اس کا نتیجہ دیکھے گا ۔جس طرح انسان کی شخصیت اور ذمہ داری انفرادی ہے اسی طرح نتیجہ اور انجام بھی آخر کار انفرادی ہی ہے ۔ اس نتیجہ و انجام کے خوب و ناخوب ہونے کا تمام تر انحصار اس بات پر ہیکہ اس نے اس نے ا س دنیا کی زندگی میں ان قوتوں سے کس طرح کام لیا جو اللہ نے اسے دی تھی اور اپنی ذات کی مطلوبہ تکمیل کے لئے ان ذرائع سے کہاں تک فائدہ اٹھایا جو اسے حاصل تھے ۔

اسلامی نقطہ نظر سے فرد کی شخصیت کا ارتقاء اور اس کی ذات کی تکمیل اصلاً اور بجائے خود مطلوب حقیقی ہے ۔دین کا مخاطب اصلاً فرد ہے ۔ اللہ کی عبادت اور اطاعت کی طرف دعوت فرد کو دی گئی ہے ۔اسلام میں فرد ہی وہ واحد اکائی ہے جس کو ابتداء میں عامل کی حیثیت سے اورا ٓخر میں عمل کا نتیجہ پانے والے کی حیثیت سے بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ اللہ تعالی اس کی عقل وجذبات کو اپیل کرتا ہے ۔اس کو اپنی رہنمائی اور ہدایت کا مخاطب بناتا ہے ۔وہ اسکی فلاح کا طالب ہے اور اسے خسران سے بچانا چاہتا ہے ۔اگر فردا س دنیا میں اپنی جگہ ناقص رہ جائے اور خود کو اسفل السافلین میں گرداے تو آخرت میں جماعت اور اجتماعی نظم کی خوبی اس کے لئے کچھ نافع نہیں ہوسکتی جن سے دنیا میں وہ وابستہ تھا۔بلکہ صالح جماعت کی وابستگی اس کے خلاف قوی دلیل بن جائے گی اور زیادہ خسران کا موجب ہوگی۔

کیونکہ صالح جماعت سے وابستگی کے باوجود اس نے اپنی تکمیل ذات کے لئے ان مواقع سے فائدہ نہ اٹھایا جو اسے حاصل تھے ۔اس کے برخلاف جماعتی فساد کے زمانے میں اگر وہ اپنی ذاتی کوشش سے اس کمال کو پہنچ جائے جو اسلام کو مطلوب ہے اور خود کو فساد سے بچائے تو اجتماعی زندگی کا فساد اس کی فلاح و نجات میں مانع نہیں ہوسکتا بلکہ یہ چیزیں اس کے حق میں مضبوط ہوں گی کہ اس نے ناموافق حالات میں مطلوبہ ذات کی تکمیل میں اتنی کامیاب جدوجہد کی۔

فرد کی مطلوبہ شخصیت کا ارتقاء اور اس کی ذات کی تکمیل جماعت اور اجتماعی زندگی کی اصلاح پر منحصر ہے ۔اللہ تعا لیٰ نے انسان کو فرداً فرداًصورت میں پیدا تو ضرور کیا مگر فرداً فرداً صور ت میں رکھانہیں ۔ہر فرد ایک عورت اور ایک مرد کے اجتماعی عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے ۔ماں کے پیٹ سے باہر آتے ہی وہ ایک جماعت کے درمیان آنکھ کھولتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کی ترقی اور تکمیل کا راستہ جماعت اور اجتماعی زندگی میں رکھا ہے نہ کہ اس کے باہر ۔فرد کی وہ امتحان گاہ جس میں اسے اپنی لیاقت و نالائقی ثابت کرناہے ،جس میں کامیابی یا ناکامی پرا ٓخرت میںاسکی فلاح و خسران کا مدار ہے کسی سنسان جنگل میں نہیںرکھی گئی بلکہ اسے معاشرے کے دوسرے انسانوں کے ساتھ بے شمار رشتوں میں باندھ دیا گیا کیونکہ اس کے لئے اکیلے اور تنہا اپنی مادی و روحانی زندگی کی ضرورتوں کی تکمیل کرنا ممکن نہیں ہے۔

انسان کا امتحان اس بات میں ہیکہ وہ ان تعلقات میں بندھ کر ،ان ذمہ داریوں اور امانتوں کے بوجھ کے ساتھ ،نفع اور نقصان ،خوشی اوررنج ، خوف اور لالچ ،محبت اور نفرت ،امیدوں اور مایوسیوں کے اشتعا ل انگیز نفسیاتی ماحول میں رہ کر اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ حقوق و فرائض کس طرح ادا کرتا ہے ،کس طرح اس کے مقر ر کردہ حدود پر قائم رہتا ہے ،کس طرح زمین پر خلافت الٰہی کی ذمہ داری سے عہدہ برآہوتا ہے جو اس کے سپرد کیا گیا ہے ۔نیکی کا جو تصور اسلام پیش کرتا ہے وہ بے معنی ہوجائے گا اور فرد تکمیل ذات سے محروم رہ جائے گا ،اگرفرد کو جماعت اور اجتماعی زندگی سے الگ کرلیا جائے۔
فرد کی تکمیل ذات جماعت اور اجتماعی زندگی میں ہی ہوسکتی ہے ۔بلکہ اس سے بڑھ کر حقیقت یہ بھی ہیکہ اللہ تعالیٰ کے بیشتر اور اہم احکامات پر عمل در آمدممکن ہی نہ ہوگااگر اجتماعی زندگی میں خیر کا غلبہ نہ ہواور اس کی باگ ڈور اہل خیر کے ہاتھوں میںنہ ہو ۔ان حالات میں نفس اور شیطان کے وسوسوںاور حملوں سے بچنے اور تکمیل ذات کے لئے جماعت کی پناہ گاہ اور اجتماعی زندگی کا رہنا لازمی و ضروری ہے تاکہ فرد کی تکمیل ذات کے لئے سازگار ماحول میسر آئے۔

مارچ 2018

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں