ذیل میں مولانا محمد اقبال ملا صاحب(سکریٹری شعبہ دعوت جماعت اسلامی ہند) کے اُس انٹرویو کے چند اہم نکات پیش ہیں، جوگزشتہ دنوں ایس آئی او آف انڈیا گجرات زون کی دعوتی مہم ’’ اسلام سب کے لیے‘‘کی مناسبت سے حلقہ کے گجراتی ترجمان ’یوا ساتھی‘ کے دعوت دین پر نکلنے والے خصوصی شمارے کے لیے لیا گیا تھا، صفحات کی قلت کے سبب یہاں سوالات حذف کرکے ذیلی سرخیوں پر اکتفا کیا گیا ہے۔ادارہ)
SIOگجرات کی مہم قابل قدر اقدام ہے۔ SIOگجرات کا جذب�ۂدعوت ملت کے عام طلبہ اور نوجوانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ بڑوں کے لیے بھی قابل تقلید ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام سارے انسانوں کے لیے ان کے خالق و مالک اللہ تعالی کا پسندیدہ دین ہے۔ اسلام مسلمانوں کا قومی مذہب نہیں ہے۔ یہ دینِ انسانیت اور دینِ فطرت ہے۔ ’اسلام سب کے لیے‘ کوئی نعرہ نہیں ہے، بلکہ یہ سب سے بڑی سچائی ہے۔ اس سچائی کو سارے انسانوں تک پہنچانا تمام مسلمانوں کادینی فریضہ ہے۔دعوت دین صرف SIOیا کسی دینی جماعت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اسلام مکمل،جامع اور فائنل ایڈیشن کی شکل میں تمام انسانوں کے لیے نازل کیاگیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری رسول ہیں اس لیے عام بندگان خدا تک اسلام کا پیغام اپنے قول وعمل اور سیرت وکردار کے ذریعہ پہنچانے کی تمام ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپؐ کی امت یعنی امت مسلمہ کی ہے۔
اسلام کی بنیادیں:
اسلام بنیادی طور پر دینِ فطرت ہے۔ اس لیے فطرت کے تقاضوں کی تکمیل کا سامان اس کے اندر مکمل طور پر موجودہے۔ اسلام دنیا کے ہر انسان کو مخاطب کرتاہے۔ انسان کے اپنے وجودسے لے کر کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیوں پر غور و فکر کے ذریعہ وہ انہیں اسلام کے پیش کردہ حقائق کو قبول کرنے کی دعوت دیتاہے۔ اسلام میں جبر اور زور زبردستی نہیں ہے۔ غور و فکر کے بعد ہر انسان آزاد ہے چاہے اسلام قبول کرے یا انکار کرے، دونوں صورتوں میں نتیجہ کی ذمہ داری اسی پر ہے۔ اسلام رنگ و نسل، زبان، وطن، اور خاندان کی اہمیت اور ضرورت بطور تعارف اور شناخت تسلیم کرتاہے۔لیکن اس کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان تفریق وتسلیم مثلاً برتراور کم تر،اشرف اور ارذل، اور اونچ نیچ کو تسلیم نہیں کرتا۔
اسلام کی بنیاد توحید یعنی خدا کی وحدانیت (ایک ہونے ) پرہے۔اس تصورمیں شرک کی مکمل نفی ہے، یعنی خدا کی ذات (ہستی) صفات، حقوق اور اختیارات میں کوئی شریک نہیں۔ وہ اپنی مخلوقات کا تنہا خالق اور رب ہی نہیں، بلکہ ہدایت دینے والا اور قانون عطاکرنے والا ہے، اس کی اس حیثیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ انسان کے لیے صحیح رویہ یہی ہے کہ ان تمام حیثیتوں میں خدا کو تسلیم کرے اور بلاچوں چرا اللہ کی کامل بندگی اختیار کرے۔ اسلام میں دوسری بنیادی تعلیم رسالت اور حضرت محمد ؐ کو آخری رسول اور پیغمبر تسلیم کرنا ہے۔ اور اس بات پر ایمان لانا ہے کہ تمام پیغمبر اللہ کے نبی اور رسول تھے۔ وہ دنیا کے مختلف حصوں میں محمدؐ سے پہلے اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ۔ حضرت محمدؐ نے جو رہنمائی فرمائی وہ قرآن وسنت کی شکل میں محفوظ ہے۔ محمد ؐ ہی اب تمام انسانوں کے لیے قیامت تک پیغمبر اور رسول ہیں۔ تمام انبیاء کے ساتھ حضرت محمد ؐ پر ایمان لانا اور آپ ؐ کی پیروی اختیارکرنا دنیوی فلاح،امن وسلامتی اور عدل وانصاف کے حصول کے لیے ناگزیر ہے، اخروی نجات کے لیے یہی واحد راستہ ہے۔
اسلام کی تیسری بنیادآخرت کے دن پر ایمان اور یقین ہے۔ یعنی ایک ایسادن جس میں سارے انسانوں کو جمع کرکے ان کی دنیوی زندگی کے اعمال اور کاموں کا حساب لیاجائے گا،اس دنیا میں جو لوگ ایمان لاکر عمل صالح کرتے رہے ، وہ خدا کی خوشنودی اور جنت کے مستحق قرار پائیں گے ، جنھوں نے ایمان لانے سے انکار کردیا اور خدا کی مرضی کے خلاف زندگی بسرکی وہ خدا کی ناراضی اور دوزخ کے حق دار ہوں گے۔اسلام کی درج ذیل بنیادی قدریں بہت اہمیت کی حامل ہیں:
انسان کی عظمت اور اس کی تکریم،انسانی مساوات اور سماجی عدل،وحدت بنی آدم اور رحمت و مساوات ، مجموعی طور پر اسلام صرف مذہب نہیں ہے بلکہ مکمل نظام حیات ہے۔نظام حیات ہونے کی پوزیشن دنیا کے کسی بھی مذہب، نظریہ یا فلسفہ حیات کو حاصل نہیں ہے اگر چہ اس کے کتنے ہی دعوے کرلئے جائیں۔
موت وحیات اور کائنات کے بارے میں اسلام کا نظریہ
زندگی کے بارے میں اسلام کا نظریہ وح�ئالٰہی پر مبنی ہے۔زندگی ،موت اور کائنات کے بارے میں فلسفیوں، دانشوروں اور سائنسدانوں نے ہمیشہ غور و فکر کیا اور اس سلسلے میں اپنے اپنے نظریات بھی پیش کیے ہیں ، یہ سب اس سلسلے میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔ یہ باہم مختلف اورمتضاد ہیں، اس کے برعکس انسانی تاریخ میں رسول اور پیغمبر آئے انھوں نے خدا کی طرف سے علم وحی کی روشنی میں جو نظریات پیش کیے وہ معقول، اورذہن و فکر کو اپیل کرنے والے ہیں۔ ان کے پیش کردہ نظریات کی بنیاد پر ایک مکمل نظام فکر وعمل ، ضابطہ حیات اور ایک تہذیب وتمدن کا خاکہ بنتا ہے ۔ یہ نظریات افراط و تفریط اور فکری بے ا عتدالیوں سے پاک ہیں۔زندگی کے بارے میں اسلامی نظریہ درج ذیل ہے:
زندگی اور تمام مخلوقات کا خالق اللہ ہے۔ زندگی اس کی طرف سے ایک امانت کے طور پر عطا ہوئی ہے۔ یہ زندگی اگر چہ مختصر اور عارضی ہے ،لیکن اس کو خالق پر ایمان اور اس کی ہدایت و رہنمائی کے تحت بسرکیا جائے تو موت کے بعد ہمیشہ کی زندگی میں خالق کی خوشنودی اور جنت ملے گی۔اگر انسان اس کے برخلاف رویہ اختیار کرتا ہے تو وہ سزا کا مستحق ہے اور موت کے بعد اس کے لیے خالق کی ناراضگی اور جہنم کا عذاب ہوگا۔
دنیا کی زندگی میں انسان کو آزادی دی گئی ہے۔لیکن یہ آزادی بھی محدود ہے۔ انسان کو بالکل ہی چھوٹ نہیں دی گئی ہے۔ اس اعتبار سے زندگی ایک امتحان ہے۔ زندگی کا خالق اور مالک اللہ تعالی ہے، انسان کو اجازت نہیں ہے کہ وہ مصائب اور مشکلات یا مایوسی کی حالت میں ازخود اپنی زندگی کا خاتمہ کرلے( خودکشی حرام ہے) اس لیے کہ زندگی کا خالق دیکھنا چاہتا ہے کہ انسان کیسے عمل کرتاہے۔
موت اٹل اور یقینی ہے ، ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ کوئی اپنی موت کو ٹال نہیں سکتا۔ موت اس دنیوی زندگی کا خاتمہ ہے تودوسری طرف اخروی اور ابدی زندگی کا آغاز ہے۔ اس لیے ہرانسان کو اپنی زندگی میں ایمان او رنیک اعمال کا ذخیرہ کرلیناچاہیے۔ تاکہ موت کے بعد کامیابی سے ہمکنار ہوسکے اور موت آنے سے پہلے وہ آخرت کی زندگی میں کامیابی کے لیے تیاری کرلے ۔ کیوں کہ زندگی بے بندگی شرمندگی !شرمندگی !!
کائنات کے متعلق اسلام کا نقطہ نظرسائنٹفک اور ذہن و قلب کو مطمئن کرنے والا ہے۔ اسلام کے نزدیک کائنات اتفاقی حادثہ نہیں ہے۔ یہ کائنات by Chanceنہیں بنی ہے اور نہ ہی یہاں کے سارے اصول و ضوابط by Chanceہیں، بلکہ اس کا ایک خالق ہے۔ وہی اس عظیم کائنات کا مالک بھی ہے اور اس کو ہرآن چلارہاہے۔ اس کائنات میں ایک زبردست نظم و تنظیم پائی جاتی ہے، اس لیے اس کا ایک ناظم اور آرگنائزرضرور ہوگا، اور وہ اللہ تعالی ہے۔ اس کائنات میں ایک عظیم منصوبہ پایاجاتاہے اس کے لیے (Planner) ہوناچاہیے اور وہ اللہ تعالی ہے۔ کائنات میں ایک ڈیزائن موجودہے تو اس کا ڈیزائنر ہونا چاہیے اور وہ اللہ تعالی ہے۔ غرض جس پہلو سے بھی آپ دیکھیں گے۔ کائنات بے خدا نہیں ہوسکتی ۔ اس کا ایک خالق اور مالک ،مدبر ، منتظم اور حاکم ہے۔
اتنی بڑی کائنات عارضی اور وقتی ہے۔ یہ مسلسل پھیل رہی ہے، اور ایک مقررہ دن پراللہ کے حکم سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی یعنی قیامت آئے گی،وہی یوم آخرت ہے۔ اسلام کے نظریہ کائنات اور قیامت کی تصدیق جدید سائنس بھی کرتی ہے۔
اسلام کا ئنات کے متعلق اہم حقیقت کو پیش کرتاہے اور وہ یہ کہ کائنات میں (Physical Law)طبعی قوانین کام کررہے ہیں۔ یہ دنیا جو کائنات کااہم جزو ہے ، دارالعمل ہے۔ دارالجزاء نہیں۔ قیامت کے بعد جو نظام برپاہوگا وہ الجزاء کا ہوگا، جہاں Moral Lawکارفرماہوں گے۔ اس دنیا میں اعمال کے اخلاقی نتائج پوری طرح سامنے نہیں آتے ہیں، اس لیے آخرت کا آنا ضروری ہے۔ جہاں اخلاقی بنیاد پر اعمال کی جانچ پڑتا ل ہو گی اور کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ سنایاجائے گا۔
اسلام مسائل کا حل
ہرمذہب کے ماننے والے یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ ان کا مذہب آج کے دور سے مطابقت رکھتا ہے اور سارے مسائل کا حل پیش کرتا ہے، لیکن اسلام کا دعوی ہے کہ تنہا وہی انسانوں کے تمام مسائل کو حل کرتا ہے اور آج کے دور سے مطابقت رکھتاہے۔
اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کی تعلیمات کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتاہے کہ وہاں انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے لیے کوئی اصولی ہدایت اور رہنمائی نہیں ہے۔ کچھ اخلاقی تعلیمات اور وعظ ونصیحت کی باتیں ضرور ملتی ہیں۔ اخلاق کی یقیناًبہت اہمیت ہے لیکن پوری زندگی میں وہی سب کچھ نہیں ہے۔ یہ مذاہب اخلاقی تعلیمات اور وعظ و نصیحت پر عمل درآمد کے لیے قوی محرک نہیں رکھتے۔ ان مذاہب کے نزدیک آئیڈیل زندگی کہتے ہیں دنیا کو ترک دینا، تجرد اور دنیوی تعلقات سے الگ تھلگ گزربسر کرنا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی تعلیمات کے نتیجے میں فرد کا ارتقاء، معاشرے کی تعمیر اور ایک ریاست کی تشکیل ممکن نہیں ہے۔ ان مذاہب کے آئیڈیل زندگی کے تصور کو اختیار کرنے کے بعد کوئی شہری زندگی،سماج اور تمدن باقی نہیں رہ سکتا۔ اس کے برعکس اسلام کی تعلیمات جہاں بندے کو خدا سے جوڑتی ہیں، وہیں بندے کے تعلقات کو دوسرے بندوں سے (بیوی، بچے، والدین اور اعزا واقارب) بہتر بنیادوں پر جوڑتی ہیں۔ اسی کے نتیجے میں فرد کی شخصیت، اس کا تزکیہ اور تربیت ہوتی ہے۔ خاندان کا ادارہ وجود میں آکر مستحکم ہوتا ہے پھر ایک پوری تہذیب اور تمدن کے بننے کا سامان ہوتا ہے۔
اسلام کی تعلیمات جامع اور مکمل ہیں۔ ان کے اندر اعتدال ، عدل اور توازن پایاجاتاہے۔کیااسلام کے علاوہ کسی مذہب میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے شعبوں مثلا معاشرت، اخلاق،عبادات، سیاسیات، معیشت اور سماجی میدان یا تعلیمی میدان کے بارے میں کوئی رہنمائی اور اصول پائے جاتے ہیں؟ اس کاجواب نفی میں ہے۔ صرف چند معروف اخلاقی تعلیمات اور وعظ و نصیحت سے آج کے جدید دور میں فرد، خاندان اور ایک اجتماعی نظام کی تعمیر نوناممکن ہے۔
دنیا کے کسی مذہب کے پاس اس کے اصول اور رہنمائی کے تحت فرد، سماج اور ایک نظام کی تعمیر کا نمونہ نہیں ہے، اسلام کو اس بارے میں سبقت حاصل ہے۔ 1450سال قبل حضرت محمدؐ نے عرب میں اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ایک نیاانسان ، ایک نیاخاندان اورنیا نظام تعمیر کرکے نمونہ فراہم کیا ہے۔ اسلام کی تعلیمات اور یہ عملی نمونہ کوئی کہانی یا افسانہ نہیں ہے بلکہ تاریخ میں اس کا مستنداور محفوظ ریکارڈ موجود ہے۔ حضرت محمدؐ کا یہ عظیم کارنامہ تاریخ کی پوری روشنی میں انجام پایا۔ اس میں کسی کا طرح کوئی شک و شبہ نہیں پایاجاتا۔ مائیکل ہارٹ مشہور کرسچپن مصنف نے ’’The Hundred‘‘کے عنوان سے ایک زبردست کتاب لکھی ہے۔اس میں دنیا کی 100بڑی ہستیوں کا جنہوں نے دنیائے انسانیت پر گہرے اثرات ڈالے ہیں، تذکرہ کیا۔ اس کتاب میں پہلے نمبر پرحضرت محمدؐ کو رکھا۔ مائیکل ہارٹ کہتا ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں حضرت محمد ؐ پیغمبر اور ایک ایسے رہنما ہیں ، جو سیکولر (دنیوی) اور دینی میدانوں میں سب سے کامیاب ہیں۔ تاریخ میں محمدؐ کے سوا جو عظیم شخصیتیں ہیں وہ اگر سیکولرمیدان میں کارنامہ انجام دینے والی ہیں تو مذہب میں ناکام ہیں اور کچھ شخصیتیں دینی ومذہبی اعتبار سے عظیم کارنامہ انجام دینے والی ہیں تو سیکولر میدان میں ناکام ہیں۔ حضرت محمد ؐ واحد شخصیت ہیں،جو دونوں میدانوں میں کامیاب ہیں۔
مذاہب کے بانیوں یا مذاہب جن کی طرف منسوب ہیں، اسلام کو مستثنیٰ کرکے، ان کی زندگیاں خود بھی کوئی عملی نمونہ فرداور معاشرہ کی تعمیر نو کے لیے پیش نہیں کرتیں۔ مثلاً ہم بدھ مذہب اور جین دھرم کے بانیوں یا کسی اور مذہب کے رہنما میں کوئی سیاسی، معاشی ، تہذیبی،سماجی، معاشرتی اور تمدنی تعلیم اور رہنمائی اور ان کی عملی زندگی میں اس پر عمل درآمد کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ان کی زندگیاں کسی ایک پہلوپر ہی متوجہ رہیں۔ باقی شعبہ ہائے زندگی کے لیے نہ انھوں نے کوئی رہنمائی دی اور نہ اپنی زندگی کا کوئی عملی نمونہ چھوڑا۔ محمدؐ اس لحاظ سے پوری تاریخ میں منفرد ہیں کہ آپ ؐ نے پوری زندگی میں اسلام پر عمل کرکے ایک بہترین نمونہ چھوڑا ۔ قرآن نے اعلان کیا کہ لوگو! محمدؐ کی زندگی میں تمہارے لیے قابل تقلیدنمونہ موجود ہے۔ آپؐ نے انسان کی اندرسے کایاپلٹ دی۔ نیا انسان بناکر کھڑا کیا۔ آپؐ نے زندگی کو ایک وحدت اور اکائی قراردیا۔ زندگی کو ناقابل تقسیم بتایا، پوری زندگی میں، چاہے انفرادی ہویا اجتماعی، خدا کی بے چوں چرا بندگی اور غلامی کو دنیوی کامیابی، مسرت و خوشی ، امن وسلامتی اور اخروی نجات کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے۔ آپؐ کی تعلیم یہ نہیں تھی کہ جو خداکا ہے ، وہ خدا کو دو اور جوقیصرکا ہے وہ قیصرکو دو۔ محمدؐ کی تعلیم میں کوئی قیصرہے ہی نہیں کہ وہ خدا کے مقابلے میں نعوذباللہ آدھے کا حقدار بنے۔
اسلام ہر زمانے کے لیے
اسلام کی رہنمائی صرف آج سے 1450سال قبل کے انسانوں کے لیے نہیں تھی۔ بلکہ اسلام کے اصول اور بنیادی رہنمائی سارے زمانوں اور قیامت تک کے لیے ہے۔ جدید دور میں بھی زندگی کے پیچیدہ اور مشکل مسائل کو حل کرنے کے لیے اصولی رہنمائی قرآن اور سنت رسولؐ میں موجودہے۔ اسلام چونکہ ہرفرد کو مخاطب کرتا ہے۔ فرد (انسان) کی فلاح و بہبود، معاشی ترقی وخوشحالی، امن وسلامتی ،انسان کے لیے عدل وقسط کے حصول اور اخروی زندگی کی نجات کو فوکس کرتا ہے۔ اسلام کا بنیادی عقیدہ ،عبادات ،اخلاق ومعاشرت ، سیاست ،تعلیم اور تہذیب سب کا محورہے۔ اس لیے انسان خواہ آج سے ایک ہزارسال قبل کا ہو یا آج سے ہزاروں سال بعد کا ہو، جب تک وہ انسان ہے وہ اسلام کا محتاج ہے، اسلام اس کی ضرورت ہے۔ وہ اسلام سے بے نیاز ہوکر کامیاب نہیں ہوسکتا۔
اسلام نے عرب سماج میں پائے جانے والے بگاڑ کو دورکردیاتھا۔ سماجی برائیوں شراب نوشی، جوابازی ،زناوبدکاری کا خاتمہ کردیاتھا۔سماجی مسائل اونچ نیچ، چھوت چھات،کمزوروں پر ظلم اور ان کا استحصال، بچیوں کا زندہ دفن کرناوغیرہ کا پوری طرح خاتمہ کردیا۔ اسلام کے جن اصولوں اور تعلیمات کی مدد سے یہ ممکن ہوسکا وہی اصول اور تعلیمات آج بھی موجودہیں اور انسان بھی وہی ہے۔ انسان کی فطرت ،رجحانات ،دلچسپی ،کمزوریاں اور خوبیاں بدلی نہیں ہیں۔ جو تبدیلی ہوئی ہے وہ سائنس اور ٹکنالوجی کی مدد سے ذرائع حمل ونقل اور ابلاغ، رہن سہن،برتاؤ کے طور طریقوں میں ہے۔ مثلاً وہ ایک دور میں جانوروں کی سواری کرتا تھا ، بیل گاڑی وغیرہ اور آج وہ خوبصورت کاروں اور ہوائی جہازوں میں سفر کرتا ہے۔
ان ہی اصولوں اور تعلیمات کی بنا پر اسلام ایک یونیورسل برادری بناتاہے۔ لہذا اسلام ایک یونیورسل مذہب ودین ہے۔ وہ ایک عالمگیر برادری قائم کرتاہے۔ امن وامان ،محبت ورحمت ،روحانی سکون ومسرت، اور دینوی خوشحالی کا علمبردار ہے۔یہاں مذاہب کی بعض بنیادی خامیوں کا تذکرہ کیا گیاہے۔ یہ ان مذاہب کے لیے احترام میں کمی یا نفرت ومذہبی تعصب کی بناپر ہرگز نہیں ہے، یقیناًاسلام دیگر مذاہب کے احترام کی تعلیم دیتاہے۔
عرب میں اسلام کی توسیع کے بعد اسلام دنیا کے مختلف ممالک میں نہایت تیزی کے ساتھ پھیلا۔ تاریخ کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں کہ انسانوں کی ہمہ جہت اصلاح، معاشی فلاح وبہبود، ترقی،امن وامان، اور عدل ومساواتِ انسانی کے حصول میں اسلام کو جس قدرعظیم کامیابی ملی وہ دنیامیں کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔
سماجی برائیاں اور اسلام
اسلام سماجی برائیوں اور سماج کے بڑے بڑے مسائل کو حل کرنے کی قوت رکھتا ہے۔ دور جدید میں حکومتیں کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی ان برائیوں کو دور کرنے اور مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہیں۔ عرب میں شراب عام تھی، شراب پینا کوئی معیوب بات نہیں تھی۔ عرب کا مشہور شاعر امرؤ القیس شراب پی کر بدکاری کرتا ہے، اورفخر کے ساتھ اسے نظم کی شکل میں تحریر کرکے خانہ کعبہ کی دیوارپر لٹکادیتاہے، ان کے قومی کلچر میں شراب پینا، پلانا اور مہمانوں کو پیش کرنا باعث فخر تھا۔ اسلام نے پہلے ان کی ذہن سازی کی کہ شراب ایک بہت بڑی برائی ہے (ام الخبائث) لوگ شراب پیتے رہے۔ آخری بار اس کے حرام ہونے کا قطعی حکم نازل ہوا۔ جب مدینہ میں حضرت محمدؐ کی طرف سے اعلان کیا گیا۔ لوگو! اللہ تعالی نے شراب کو حرام قراردیاہے۔ آج کے بعد کوئی مسلمان شراب نہ پےئے، اس وقت ایک مجلس میں مسلمان شراب پی رہے تھے۔ اس اعلان کو سننے کے بعد سب نے منہ کو لگا ہوا پیالہ ہٹا دیا اور شراب کو چھوڑ دیا۔ مدینہ کی گلیوں میں شراب بہادی گئی۔ اس طرح شراب نوشی کا خاتمہ ہوگیا۔ اسی طرح جوا،زنااور دیگر سنگین برائیوں کا بھی خاتمہ کیا گیا۔ ایک اہم سماجی مسئلہ اونچ نیچ، عدم مساوات اور ظلم واستحصال تھا۔ آقا اور غلام، مالک اور نوکر ،طاقتور اور کمزور، افضل اور ہیچ کی تقسیم نے معاشرتی اتحاد کو تباہ کردیاتھا،اور ظلم وستم اور استحصال کی مختلف شکلیں رائج تھیں، آج بھی انسانوں کو خودساختہ بنیادوں پر تقسیم کرکے ظلم واستحصال کی ہرشکل جاری ہے۔ اسلام کی تعلیم ہے کہ تمام انسان ایک خدا کے بندے اور ایک ماں باپ کی اولاداور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
پیدائش رنگ ونسل، زبان اور علاقہ یہ سب تعارف کے لیے ہے، اس میں کسی کے افضل اور بڑا ہونے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اسلام میں اللہ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو ایمان اور تقوی رکھتا ہو۔ عرب میں ایک ایسی برادری قائم ہوئی جس میں حضرت بلال حبشیؓ کالے غلام تھے، قریش کے سردار تھے،روم کے حضرت صہیب رومیؓ ،فارس کے حضرت سلمان فارسیؓ اور عام مسلمان سب کو ملاکرایک عالمی برادری بن گئی ۔ ان دومثالوں سے سمجھا جاسکتاہے کہ آج بھی وہ Relevantہے۔ آج کے مسائل کا حل ہے۔ اسلام نے ان مسائل کے حل کے لیے انسان کو اندرسے تبدیل کیا۔ اس کی سوچ اور فکر کو بدلا۔ اس کے اندر اپنے خالق کی محبت اور خوشنودی کے حصول کا لازوال جذبہ ابھارا۔ اس کے اندر ایمان باللہ کے بعد یقین پیداکیا کہ مرنے کے بعد اسی خدا کے سامنے جاکر دنیوی زندگی کے اعمال کا حساب دینا ہے۔ دنیا میں کسی پر ظلم وستم کرکے انسان بچ بھی جائے تو خدا کے یہاں بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ وہاں ظلم اور زیادتی کے نتیجے میں خداجہنم کا عذاب دے تو کوئی بچانے والانہیں ہے۔ یہی وہ تصورات اور ان پرانسانوں کا یقین تھا کہ جس کے نتیجے میں اُن کے رویے کسی خارجی دباؤ کے بغیر بدلتے چلے گئے ، وہ خداپرستی اور آخرت میں اعمال کی بازپرسی کی بنیاد پر اعلیٰ اخلاق و کردار میں ڈھلتے گئے۔
آج کرپشن ، شراب، جوا ،عورتوں کے خلاف سنگین جرائم مثلاریپ،جہیزی اموات وغیرہ کی روک تھام اورسماجی اصلاح ، سماجی انصاف کے حصول میں ہمارے ملک اور دیگرممالک کی ناکامی بالکل سامنے کی بات ہے۔اس سلسلے میں تعلیم کو عام کرکے، معاشی حالت کو بہتربناکر، قوانین کا اجرا کرکے، عدالت اور جیل کا نظام، سب انتظامات ان مسائل کے حل اور جرائم پر قابو پانے میں بالکل ناکام ہوچکے ہیں۔ اس کے لیے اسلام کی رہنمائی ،واحد حل اور راہ نجات ہے۔
تمام مذاہب یکساں نہیں
ہمارے ملک میں امن وامان کی نہایت ابتر صورتحال،مادہ پرستی ، صارفیت، سماجی اور اخلاقی بگاڑ کے نتیجے میں مذہب اور مذہبی تعلیمات اور اقدار کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھتا جارہاہے۔ لوگوں میں یہ شعور بھی بیدارہوا ہے کہ محض سیاسی نظریات اور مادی خوشحالی سے انسان سکون واطمینان اور روحانی خوشی نہیں پاسکتا۔ ان سب کے لیے مذہب کی تعلیمات کی ضرورت ہے۔ چنانچہ انٹرفیتھ ڈائیلاگ ، انٹرریلجیس ڈائلاگ اور موازناتی مطالعہ مذاہب کے پروگراموں میں بالعموم کوشش ہوتی ہے کہ تمام مذاہب کو برحق تسلیم کیاجائے ۔ تلاش حق کی جستجوکم ہی ہوتی ہے۔ وحدت ادیان کے فلسفہ کو آج بھی مذاہب کے سلسلے میں ایک مسلمہ حقیقت بناکر پیش کیاجاتاہے۔ کیا واقعی تمام مذاہب برحق ہیں؟کیا تمام مذاہب واقعی اللہ تعالی کے عطاکردہ ہیں؟ یہ بہت ہی اہم سوال ہے۔ اس سوال کا تعلق حقیقت کی تلاش سے ہے اور یہ فرد کی اپنی ذمہ داری ہے۔ مذاہب میں سے کون سا مذہب واقعی خداکا عطاکردہ ہے یہ جستجو محض کوئی علمی اور تحقیقی مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ ہر فرد کی دنیوی فلاح اور اخروی نجات کا مسئلہ ہے۔
آج ہمارے ملک میں بہت سارے چھوٹے بڑے مذاہب پائے جاتے ہیں ان پر غور کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر کچھ اخلاقی تعلیمات اور قدریں مشترک ہیں، ان کا بھی حال یہ ہے کہ گہرائی میں جاکر دیکھتے ہیں تو پھر اختلافات اور تضادات نظرآتے ہیں۔ چند اخلاقی تعلیمات اور قدروں کے علاوہ مذاہب میں بنیادی تصورات خدا، رسالت ،زندگی بعد موت، نجات ، جنت اور جہنم وغیرہ کے تعلق سے گہرے اختلافات اور زبردست تضادات نظر آتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں کئی مذاہب کو کیسے برحق تسلیم کیاجاسکتا ہے۔ان میں سے کوئی ایک ہی برحق ہوسکتا ہے۔
منطقی اور عقلی دلیل کے پہلو سے یہ بات تو کہی جاسکتی ہے کہ یہ کائنات ایک ہے ، اس کا خالق ایک ہے، انسان ایک ہے، ہدایت اور رہنمائی جو اصلاً خالق ہی کی ذمہ داری ہے، اسے بھی ایک ہی ہونا چاہیے۔ یہ ہدا یت اور رہنمائی یعنی مذہب ایک کے بجائے مختلف، متضاد اور متصادم!
ایک اور پہلو سے غور کرنے کی ضرور ت ہے۔ مذہب کس کی طرف سے آنا چاہیے، کیا کوئی انسان دوسرے انسانو ں کے لیے مذہب بنا سکتا ہے۔ ایسا انسان جو کسی مذہب کو منع کرے اس کو ماضی اور حال اور مستقبل کا پورا علم ہوناچاہیے۔ انسانوں کے الگ الگ رجحانات ، مفادات اور طبیعتوں سے اچھی طرح واقف ہو ، جو تمام انسانوں کو بحیثیت انسان برابر کی نگاہ سے دیکھے اور محبت رکھے۔ اپنے ذاتی مفاد اور خواہش سے بالاتر ہو۔ ایسی ہستی کیا کوئی انسان ہوسکتاہے۔ یا وہ رب خالقِ انسانیت خداہے۔ بعض مذاہب کا سرسری مطالعہ بتاتاہے کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہیں ، مثلاً بدھ مذہب اور جین مت ۔ کیوں کہ گوتم بدھ اور مہاویر جین نے خدا کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ انھوں نے جو تعلیمات پیش کی ہیں ان میں خدا کی ضرورت اور اس کی طرف سے رہنمائی کا تصور سرے سے ہے ہی نہیں۔ عیسائیت حضرت عیسیؑ کی طرف منسوب ہے ،لیکن خود حضرت عیسیٰؑ نے بائبل میں یہ نہیں بتایاکہ یہ وہ اپنے نام سے ایک مذہب وضع کرکے انسانوں کے لیے دے رہے ہیں۔ ہندومذہب کے بانی کو ن ہیں؟ کوئی ایک کتاب ، کوئی ایک شخصیت، کوئی ایک عقیدہ اس مذہب میں نہیں پایاجاتا۔
مذاہب اور مذہبی رہنماؤں کا احترام کرنا چاہیے۔ لیکن خداکی طرف سے جو مذہب آیا ہے ، اس کی تلاش اور جستجو ضروری ہے۔ یہ ہر انسان کی دنیوی کامیابی اور اخروی نجات کا اہم مسئلہ ہے۔ بلکہ حقیقی مسئلہ تو یہی ہے، باقی رہے دوسرے مسائل، تو وہ ضمنی اور ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔
مذاہب کے تعلق سے اسلام کا نقطہ نظریہ ہے کہ ان کے اندر اخلاقی تعلیمات مشترک ہیں۔ غور کرنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آغاز انسانیت میں ایک ہی مذہب رہاہوگا ، جسے بعد کے زمانوں میں کمی و بیشی کرکے مختلف مذاہب کی شکل دے دی گئی ہوگی۔ ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ زمین پر پہلے انسان حضرت آدم ؑ اور ان کی بیوی حواؑ تھیں ،ان کا مذہب کون سا تھا۔ کیا وہ کسی مذہب کے بغیر دنیا میں بھیجے گئے تھے۔ کیا انھیں یہ تعلیم دی گئی تھی کہ خدا نے ان کے لیے ہر ضروری چیز کابہترین انتظام کردیا ہے۔ سورج ،چاند ،ہوا، روشنی، پانی ، سمندر، زمین کے اندر غذاؤں کے اتھا ہ خزانے، لیکن اس نے کوئی مذہب نہیں دیا۔ انسان خود اپنے لیے جتنے چاہے مذہب یا مذاہب بنالے۔ خداکو وہ سارے مذاہب منظور اور قبول ہیں۔ اسلام کہتا ہے ایسا ہرگزنہیں ہے بلکہ خدا نے جو نہایت مہربان اور رحم دل ہے انسان کی ہر ضرورت کا انتظام کیا۔ مذہب تو سب سے بڑی اور اہم ضرورت ہے ، اس کا بھی ہدایت اور رہنمائی کے ذریعہ انتظام کیا۔ انسان کی اتنی بڑی ضرورت سے وہ رحم دل اور مہربان خدا کیسے غافل ہوسکتا ہے۔اسلام حضرت آدم ؑ کا مذہب یا دین تھا، اسلام کے دومعنی ہیں۔ ایک امن دوسرے خدا کی مرضی کے آگے مکمل سپردگی اور حوالگی۔
اسلام نیا مذہب نہیں
اسلام کا آغاز حضرت محمد ؐ سے نہیں ہوا۔ اسلام 1450سال پہلے کا مذہب نہیں بلکہ اولین انسان کے آغاز ہی سے مذہب رہاہے۔ اسلام کی دعوت اور پیغام کو وقتا فوقتا انسانوں میں پہنچانے اور اسے برت کر عملی زندگی میں نمونہ پیش کرنے کے لیے حضرت آدمؑ سے لیکر آخری پیغمبر محمد ؐ تک ایک لاکھ سے زیادہ پیغمبر اللہ کی طرف سے آتے رہے ۔ لیکن ان کی تعلیمات محفوظ نہیں رہ سکیں۔ آج قرآن کے علاوہ کوئی مذہبی کتاب محفوظ نہیں ہے۔ یہ دعوی نہیں بلکہ ایک اہم حقیقت ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام خدا کی طرف سے انسانوں کے لیے پسندیدہ ،مقبول اور مستند دین ہے ، کوئی انسان یا پیغمبر اس کا بانی نہیں ہے ، نیزکسی پیغمبر نے اپنی طرف سے کوئی مذہب بنا کر خدا کے نام سے پیش نہیں کیا۔ مثلاً حضرت عیسیؑ ، عیسائیت اور حضرت موسیؑ ،یہودیت کے بانی نہیں تھے۔ وہ دیگر پیغمبروں حضرت ابراہیمؑ ،حضرت اسماعیل ؑ ،حضرت اسحاق ؑ ، یعقوبؑ ، داؤدؑ وغیرہم کی طرح اسلام اور صرف اسلام کے پیغمبر تھے۔ مختصرایہ بات کہی جاسکتی ہے کہ زمین پر انسان کے بسنے کے ساتھ ہی مذہب اسلام کی رہنمائی خدانے کی۔ ایک لمحہ کے لیے بھی ہدایت اور رہنمائی سے انسان کو محروم نہیں رکھا۔
خدا نے انسانو ں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے مختلف، متضاد اور متفرق مذاہب اپنی طرف سے نہیں دئیے۔ خدا ہمارا دشمن نہیں ہے کہ وہ زندگی کی بنیادی نوعیت کی ضرورت یعنی مذہب کی تکمیل کے لیے ایک سے زائد ایسے مذاہب اپنی طرف سے عطا کرے۔ کوئی بھی انسان عقل وبصیرت کی بنیاد پر غورو فکر کرے تو ان متضاد اور مختلف مذاہب کو ایک ہی وقت میں صحیح اور برحق نہیں کہہ سکتا۔ ان میں سے کوئی ایک مذہب ہی صحیح اور برحق ہوسکتا ہے۔ خدا جس نے انسان کو عقل وشعور اور غوروفکر کی صلاحیت بخشی ، کیوں کر تمام مذاہب کو اپنی قبولیت عطا فرماسکتاہے۔
اسلام تنہا خدا کی طرف سے بنی نوع انسان کے لیے پیغمبروں کے ذریعہ اور آخری پیغمبر حضرت محمد ؐ کے ذریعہ فائنل اور جامع شکل میں عطا کیا گیا ۔ آج یہ دین خدا کے کلام یعنی قرآن مجید اور عملی نمونے کے طور پر محمدؐ کی پاکیزہ زندگی میں محفوظ اور مکمل شکل میں باقی ہے۔ ایک سو پچہتر کڑور انسان آج اسلام کو اپنی کچھ کمیوں اور کمزوریوں کے باجود عملا اختیار کرکے زندگی بسر کررہے ہیں۔ اسلام ہر فرد کی دنیوی فلاح اور اخروی نجات کی ضمانت دیتا ہے۔
ہمارے ملک میں چھوٹے بڑے کئی مذاہب موجود ہیں۔ ہمارا ملک تکثیری سماج پر مشتمل ہے۔ اسلام کے نزدیک ہر فرد یہ حق رکھتا ہے کہ وہ جس مذہب کو چاہے اختیار یا ترک کرے۔ مذہب کے بارے میں زبردستی، جبروقوت کا استعمال صحیح نہیں ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو دیگر مذاہب کے احترام کی تعلیم دیتاہے۔ احترام کا مطلب عقیدہ ومذہب کی آزادی اور انتخاب کا بنیادی حق ہے۔
پیغام :
مسلم طلبہ اور نوجوان اسلام کو پوری زندگی میں اختیار کرکے اسلام کے ترجمان بنیں، دعوتِ دین کے فریضے کو اپنی زندگی کا مشن بنالیں، اپنی داعیانہ سیرت وکردار، حسن اخلاق ، حسن سلوک اور بے لوث خدمت کے ذریعہ وطنی طلبہ اور نوجوانو ں میں اسلا م کا پیغام عام کریں، نیز ان کی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کو دورکرکے پیار و محبت سے راہ حق پر چلنے کی انھیں دعوت دیں۔
اسلام کو مسلمانوں کا قومی، نسلی یا خاندانی مذہب نہ سمجھیں ، اسلام سب کے لیے ہے۔ اسی طرح قرآن اور حضرت محمد ؐ بھی سب کے لیے ہیں۔ جب آپ خدا کے پیدا کردہ آفتا ب وماہتاب، ہوا پانی، اور روشنی سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ مسلمان بھی ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی طرح خدا کی ہدایت ورہنمائی یعنی اسلام سے بھی فائدہ اٹھائیں۔ آپ کے درمیان اسلام کے سلسلے میں مختلف اسباب کی بنا پر غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ آپ قرآن اور محمدؐ کی زندگی کا مطالعہ کریں گے تو یقیناًیہ غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی۔ یہ زندگی ایک ہی بار ملی ہے ، موت آنے سے پہلے سوچ سمجھ کر اپنی مرضی سے آزادانہ فیصلہ کرسکتے ہیں۔ نجات کا واحد راستہ یہی ہے ۔موت کے بعد آپ کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے بلکہ وہاں خدا کا فیصلہ ہی آخری فیصلہ ہوگا۔