تکثیری سماجوں کے تعلق سے دو طرح کے نظریے جدید عمرانیات میں پائے جاتے ہیں۔ ایک خیال وہ ہے جسے پگھلنے کے برتن (Melting Pot )کا نظریہ کہا جاتا ہے۔ اس میں سماج کو شربت کے ایک جار سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ شربت کے جار میں مختلف اشیاء پگھل کر ایک بن جاتی ہیں۔ ان میں سے ہر شئے کا جداگانہ رنگ و مزہ ختم ہوجاتا ہے اور ان سب کے امتزاج سے ایک نیا رنگ اور نیا مزہ پیدا ہوتا ہے۔ جس چیز کی مقدار زیادہ ہو اس کی بو،مزہ اور رنگ غالب ہوتا ہے۔ کم مقدار کی اشیاء بھی شربت کے رنگ وبواور مزہ پر اثر انداز ہوتی ہیں لیکن ان کی شناخت وانفرادیت ختم ہوجاتی ہے۔ہندوستان میں احیاء پرست ہندو تحریک اسی خیال کی حامی ہے۔ یورپ میں بھی روایتی طور پر یہی خیال پایا جاتا رہاہے۔ اب اس میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ اور اب امریکہ میں بھی یہی رجحان بڑھ رہا ہے۔
دوسرا نظریہ وہ ہے جسے سلاد کے برتن (Salad Bowl ) کا نظریہ کہا جاتا ہے، اس میں سماج کو سلاد کی ایسی پلیٹ سے تشبیہ دی جاتی ہے جس میں مختلف اشیاء شامل ہوں لیکن ہر ایک کا اپنا جداگانہ رنگ و مزہ برقرار رہے۔اور سلاد کا حصہ بننے کے نتیجہ میں کسی کی بھی شناخت اور اس کا منفرد رنگ، بو اور مزہ ختم نہ ہو۔
دین کے علاوہ اورمباح کے دائرہ میں رہن سہن اور طور طریقوں کا جو تنوع ہے اس میں اسلام سلاد بول اور میلٹنگ پوٹ دونوں طرح کی تکثیریت کا قائل ہے اور اسے پسند (Celebrate) بھی کرتا ہے(وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوا) یعنی اسلام چاہتا ہے کہ یہ تنوع(diversity) باقی رہے اور سماج میں رنگارنگی موجودرہے۔ اسلامی تاریخ میں یہ بھی ہوا ہے کہ ایک ہی اسلامی معاشرہ میں عرب، ترک، مغل، ایرانی،حبشی، بربروغیرہ کئی طرح کی معاشرتیں پروان چڑھیں(سلاد بول) اور یہ بھی ہوا کہ مقامی معاشرتوں اور مختلف اسلامی معاشرتوں کے امتزاج سے اردو جیسی زبان، بریانی جیسے پکوان اور شیروانی جسیے ملبوسات وجود میں آئے (میلٹنگ پوٹ)۔
لیکن جہاں تک دین اور بنیادی و اصولی امور کا تعلق ہے، اسلام میلٹنگ پوٹ کے نظریے کو نہ اپنے لئے پسند کرتا ہے اور نہ دوسروں کے لئے۔یعنی نہ وہ یہ پسند کرتا ہے کہ اسلام کے ماننے والے دوسری تہذیبوں میں مدغم ہوجائیں اور نہ دوسروں کو اپنے اندر ملانے کے لئے اپنے رنگ و بو میں کسی کمی و بیشی کو وہ پسند کرتا ہے۔اسلام اپنے ماننے والوں سے بے آمیز اور خالص اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے۔ دوسرے ادیان اور مذاہب کے معاملہ میں وہ سلاد بول کا روادار ہے۔ یعنی اسلام ہر مذہب کے ماننے والے کو آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنی جداگانہ دینی شناخت باقی رکھ سکیں۔یہ آزادی اللہ کی مشیت کا حصہ ہے اس لئے کہ اسی آزادی سے اللہ تعالی انسانوں کو آزماتا ہے۔دین کے معاملہ میں جبر نہ صرف اسلام کو پسند نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی مشیت اور اس کی اسکیم میں خلل اندازی ہے۔
البتہ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ دین کے معاملہ میں اس رنگارنگی کا اسلام روادار ضرور ہے لیکن اس کی ستائش (Celebrate) نہیں کرتا۔ یعنی اسلام مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو آزادی ضرور دیتاہے لیکن اس کامطلوب و مقصوداور اس کی تمنایہ نہیں ہے کہ سماج میں تہذیبی رنگا رنگی کی طرح مذہبی رنگا رنگی بھی جوں کی توں باقی رہے۔دین کا معاملہ اسلام کے نزدیک سچائی کا معاملہ ہے۔ اس سچائی کو قبول کرنے یا نہ کرنے کی آزادی انسان کو حاصل ہے لیکن اسلام کی (اور اہل اسلام کی) عین آرزو یہ ہے کہ لوگ اس سچائی کو قبول کریں۔ اس تکثیری سماج میں اسلام اپنے ماننے والوں کو اسلام کا نمائندہ بناتا ہے اور انہیں یہ مشن دیتا ہے کہ وہ معاشرہ پر اثر انداز ہوں۔ لوگوں کو اپنی پسند کے مطابق دین اور مذہب اختیار کرنے کی پوری آزادی ہو لیکن مسلمان اپنے قول، مستقل ڈائیلاگ و کمیونکیشن اور اپنے عملی رویوں سے ایسی صورت حال پیدا کریں کہ لوگ اپنی آزادی کا استعمال اپنی رضامندی و خوشی سے حق کو قبول کرنے کے لئے کریں۔
سید سعادت اللہ حسینی، رکن مرکزی مجلس شوری جماعت اسلامی ہند
اسلام اور تکثیری سماج
تکثیری سماجوں کے تعلق سے دو طرح کے نظریے جدید عمرانیات میں پائے جاتے ہیں۔ ایک خیال وہ ہے جسے پگھلنے کے برتن (Melting Pot )کا نظریہ کہا جاتا ہے۔ اس میں سماج کو شربت کے ایک جار سے تشبیہ…